سوال: پاکستان میں مولویوں کی طرف سے اس بات کابڑا شور ہے کہ اسلامی اصطلاحیں مسلمانوں کا Patent ہیں اور جو شخص بغیر اجازت کے اس Patent کو استعمال کرے گا اس کو بہت سخت سزا دی جائے گی ۔ اس پر آپ کا کیا تبصرہ ہے ؟ اورشرعی اور عقلی لحاظ سے اس کی کیا حیثیت ہے؟
جواب: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا :
سب سے پہلے تو لفظ Patent کو سمجھنا چاہئے کہ ہوتاکیاہے۔ Patent سے مراد یہ ہے کہ ایک کمپنی ایک چیز ایجاد کرتی ہے اور اس کو ایک نئی ایجاد کے طورپر بعض مخصوص دفاتر میں رجسٹر کراتی ہے اور اس کی ایجاد کا اس کو تحفظ ملتاہے کہ تم اس سے استفادہ کرو۔ تمہاری اجازت کے بغیر کوئی اس کو بنا نہیں سکے گا۔ اور کوئی بنا کر بیچ نہیں سکے گا ۔ یہ ہے Patent کا مفہوم۔ لیکن وہ چیز جو بن جائے اس کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ۔ یہ ایک باریک فرق ہے جو پاکستان کے دانشوروں کو ابھی تک نہیں پتہ چلا۔ یا دانشور وں کو پتہ ہوگا تو ان کے اندر جرأت اور زبان نہیں ہے۔ Patent تو صرف تخلیق کی حد تک ہے ۔ اور اس پہلو سے جہاں تک اسلامی اصطلاحات کا تعلق ہے یہ تواللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں ، کسی مُلاّں نے نہیں بنائیں ۔ کسی فرقہ کے عالم نے تو نہیں بنائیں۔ اگر Patent کرنا ہوتاتو خدا نے کرانا تھا۔ لیکن اللہ نے کبھی اپنی کسی اصطلاح کو کسی قوم کے لئے Patent نہیں کیا بلکہ رَبُّ الْعٰلَمِیْن ہے کھلی دعوت ہے ۔ اور اگر Patent ہوتابھی تو استعمال میں کوئی سوال ہی نہیں کہ کسی کو اجازت ہو، کسی کو نہیں۔
اسلامی تعلیم بنی نوع انسان کے لئے ہے اور یہ مولوی یہ نہیں سمجھتے کہ قرآن میں لکھاہواہے(وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّـلْعٰلَمِيْنَ) (الانبیاء:108) ۔ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگرسارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجاہے ۔ اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نیکی کی تعلیم عام دیتے تھے اور ہر شخص کو نہ صرف اجازت تھی بلکہ دعوت تھی ۔ چنانچہ قرآن کریم میں خود اللہ تعالیٰ رسول اکرم ﷺکوہدایت دیتاہے (قُلْ يٰۤاَهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى کَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ ۔۔۔)(آل عمران: 65)کوئی Patent نہیں ہے۔ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ تمہارے اور ہمارے درمیان جو اچھی قدریں مشترک ہیں آؤ ان میں اکٹھے ہو کر تعاون کرتے ہیں ایک دوسرے سے۔ تم ہم سے تعاون کرو ہم تم سے تعاون کرتے ہیں۔ یہ ہے رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن جس کی وسعت سب جہانوں پر پھیلی ہوئی ہے ۔ کوئی تنگ نظری نہیں ، کوئی دل کی تنگی نہیں، فیض عام ہے۔ ان لوگوں نے پتہ نہیں کہاں سے اسلام سیکھاہے ۔بیچارے پاکستانی معصوموں کو کیا سکھا رہے ہیں اور کس کی نقل اتار رہے ہیں۔
آج تک تاریخ اسلام میں Patentکی کوئی بات نہیں ہوئی۔ یہ وہی مولوی ہیں جو ہمیشہ سے ایک دوسرے سے لڑتے آئے ہیں ۔کیوں وہ نہیں یاد رکھتے۔ صرف احمدیوں کا قصہ تو نہیں ۔ ہر بات پر ایک دوسرے سے اختلاف کیاہے ۔آج تک بشر اور نور کا جھگڑا طے نہیں ہوا تو Patentکے لئے جائیں گے کہاں؟ کس سے پوچھیں گے؟اور کس کے لئے ؟ کیا چیز Patent ہے ؟کس کا حق ہے اس پر اور کون سا دفتر قائم ہے۔
اگر حکومت پاکستان نے Patent بنوانا ہے تو پہلے ایک Patent آفس بنائے مذاہب کے لئے ۔ اور تمام مذاہب اس میں اپنی اپنی درخواست داخل کریں کہ ہم ان اصطلاحوں کو اپنے لئے Patentکرنا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں Patentکا قانون یہ ہے کہ جس نے سب سے پہلے چیز کی ایجاد کی ہو ، سب سے پہلے جس کا استعمال ثابت ہوگااسی کوحق ملے گا ۔ اگر پاکستان Patentدفتر کھول لے تو سب سے پہلے یہودی آئیں گے۔کہیں گے حضرت ابراہیم ؑ ہمارے مذہب کے بانی مبانی ہیں اور تمہارا قرآ ن گواہی دیتاہے کہ لفظ اسلام سب سے پہلے ابراہیم ؑ کے لئے استعمال ہوا۔مسلم لفظ ابراہیم ؑ کے لئے، میرے پاس حوالے ہیں،مَیں آپ کو دکھاتاہوں ابھی۔ (وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا)(آل عمران:68) ۔
اب سوال یہ ہے کہ یہودیوں کا یہ Patent کا مطالبہ ہے اسے پاکستان Patent Office کس طرح ردّ کرے گا۔ اور اگر ایک دفعہ یہ اصطلاح ان کی Patent ہوگئی تو نہ عیسائی مسلمان کہلاسکیں گے اور نہ مسلمان ،مسلمان کہلا سکیں گے ۔ سب پر پابندی ہوگی کہ پہلے یہود سے اجازت لو پھر تم اپنے آپ کو مسلمان کہلاؤ۔ سوال یہ ہے کہ یہود سے کیوں اجازت لیں ۔ یہی بنیادی سوال ہے ۔
یہ اصطلاحیں خدا کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ بتاتاہے کہ ہراچھی چیز عام بنی نوع انسان کے لئے عام ہے ۔اچھی چیز کی نقل کرنا منع نہیں بلکہ اسلام اس کی طرف دعوت دیتاہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ( ممَا کَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا)(آل عمران:68)۔ وہ مسلمان تھا۔
پھر فرماتاہے (رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَـکَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ)(البقرۃ:129)کہ ابراہیم ؑ دعا کرتے ہیں حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ کہ اے ہمار ے رب ! ہمیں اپنے لئے دو مسلمان بنا دے۔( وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَآ) اور ہماری اولاد میں سے بھی اسی طرح مسلمان بناتا چلا جا (اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ) یہ امت مسلمہ تیرے لئے ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔
اصل ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ رسول کریم ﷺکا زمانہ سب زمانوں پرمحیط ہے ۔ مگر مَیں مولویوں کی منطق کے لحاظ سے جواب دے رہاہوں کہ آنحضورﷺ کی بعثت سے پہلے جتنے بھی حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے لوگ موجود تھے (وہ ) قرآن کے لحاظ سے مسلمان ہیں۔پاکستان کےPatent Office کو لازماً درج کرنا ہوگاکہ یہ ان کا حق ہے۔ آئندہ ان کی اجازت کے بغیر کوئی اپنے آپ کو مسلمان نہ کہے۔( مِلَّةَ اَبِيْکُمْ اِبْرٰهِيْمَؕ هُوَ سَمّٰٮکُمُ الْمُسْلِمِيْنَ)(الحج:79)۔ابراہیم کی امت ہے جو مسلم ہے ۔ پس جو شخص بھی ابراہیم ؑ کی طرف منسوب ہوگا تو اس کو مسلم کہلانے کے حق سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ اور ویسے بھی یہ بات جہالت کی بات ہے ۔
(قَالَتْ يٰۤاَيُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّىْۤ اُلْقِىَ اِلَىَّ کِتٰبٌ کَرِيْمٌ ۔ اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِۙ)(النمل:31-30)
لیں جی! یہودیوں کا ایک اور Patent نکل آیا۔یہودیوں کی اگلی درخواست ہوگی کہ مسلمان بھی ہم ہیں اور (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ) ہمارا حق ہے۔اور احمدیوں بے چاروں کو بسم اللہ لکھنے کے جرم میں مارا پیٹا جاتاہے، عدالتوں میں گھسیٹا جاتاہے، سزائیں دی جاتی ہیں ۔ایک مردان میں کیس درج ہوا تھا ، غالباً مرد ان ہی کی با ت ہے کیس بہر حال درج ہواہے پاکستان میں کہ جب ہم نے ایک شخص کی تلاشی لی تو اس کے کمرے سے (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ )نکلی۔اب بتائیں اس بے بڑھ کراور کیا جرم ہو سکتاہے ۔ وہاں لکھا ہوا تھا (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ)۔ اللہ کے نام سے شروع کرتاہوں جو بے حد رحم کرنے والا ہے اور باربار رحم کرنے والاہے۔ یہ جرم ہے تعزیرات پاکستان کے لحاظ سے ۔ اورجہاں تک Patent کا تعلق ہے یہ Patent یہودکاہے۔ کیونکہ حضرت سلیمان ؑ نے جو خط بھیجا تھا ملکہ سبا کو اس پریہ لکھاہوا تھا(قَالَتْ يٰۤاَيُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّىْۤ اُلْقِىَ اِلَىَّ کِتٰبٌ کَرِيْمٌ) میرے پاس ایک بہت ہی معزز ایک رسالہ، ایک خط بھیجا گیاہے۔ (اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ)سلیمانؑ کی طرف سے(وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ)۔اور وہ کہتاہے (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ) ۔ اور پھر مسلمان ہونے کی دعوت کیا کہتی ہے کتاب ۔یعنی وہ خط۔( اَلَّا تَعْلُوْا عَلَىَّ وَاْتُوْنِىْ مُسْلِمِيْنَ)(النمل:32)۔ کہ مسلمان ہو کر میرے پاس آجاؤ۔
اب مسجد نہیں کہہ سکتے مسجد کوتو مسجد کو مسجد نہیں کہیں گے تو کیاکہیں گے؟ وہ مسجدیں جو خدا کے ذکر سے خالی ہو چکی ہوں ،جن کو محمد رسول اللہ ﷺویران قرار دے رہے ہوں ان کو یہ مسجد ہی کہتے ہیں۔ ’’ یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَایَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْ آنِ اِلَّا رَسْمُہٗ ۔ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِّنَ الْھُدٰی‘‘۔(مشکوٰۃ کتاب العلم فصل الثالث صفحہ38)۔ یہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ایسا بدنصیب زمانہ آنے والاہے کہ جب اسلام محض نام کا رہ جائے گا اورجب قرآن لکھنے کے لئے ہوگا۔ عمل کی طرف توجہ نہیں ہوگی۔ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ تم دیکھو گے کہ ان کی مسجدیں آباد ہیں وَھِیَ خَرَابٌ مِّنَ الْھُدٰی حالانکہ ہدایت سے بالکل خالی ہوں گی۔ لیکن ان کو بھی مسجد ہی فرمایا۔
اب ایک اور Patent عیسائیوں کی طرف سے آئے گا ۔کئی درخواستوں پریہودیوں نے قبضہ کر لیا۔ اب عیسائیوں کا Patent آنے والاہے۔ قرآ ن کریم فرماتاہے اور تسلیم کرتاہے اس بات کو کہ وہ عیسائی جو خدائے واحد کے نام پر ستائے گئے جس طرح آج احمدیوں کو ستایا جارہاہے اور زیر زمین چلے گئے جب ان کواللہ تعالیٰ نے بالآخریہ خوشخبری دی کہ باہر امن ہو گیاہے ۔تمہارے حقوق قائم ہو گئے ہیں ۔اب تم بے شک زیر زمین حالت سے باہر آجاؤ تو اس مقام پریہ فیصلہ ہوا تھاکہ یادگار کے طورپر کیا بنایا جائے۔ اس کا جواب قرآن کریم فرماتاہے(قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓى اَمْرِهِمْ) (الکہف:22) وہ لوگ جو فیصلہ کرنے میں زیادہ قوی تھے اور طاقت رکھتے تھے انہوں نے کہا (لَـنَـتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَّسْجِدًا) (الکہف:22)ہم ان کی یادگار کے طورپر اس مقام پر مسجد بنائیں گے ۔تو اب عیسائی کہیں کہ دیکھو تم نے خواہ مخواہ مسجدوں کا جھگڑا شروع کیاہوا ہے ۔یہ تو عیسائی اصطلاح ہے اور قرآن اس پر گواہ ہے ۔ تم کیسے اس کے موجد ہو سکتے ہو۔ یہ درخواست عیسائیوں کی ہوگئی اسلام پر ۔ اور(بِسْمِ اللّٰہِ) پر تو قبضہ کرلیا ہے یہودنے۔ اور اب رہا’ مسجد ‘ اس پر عیسائی قابض ہو گئے ۔اب مولوی کیا بنائیں گے پھر۔ ان کی درخواست قبول ہوگی اور ان کی کیوں قبول ہوگی۔ یہ سوال ہے۔ کس طرف قرآن کھڑا ہوگا؟۔
اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ جس Patentکو Patent کے مسلّمہ قواعد کے مطابق درج کرنا ضرور ی ہے تو لازماًجس کی طرف قرآن ہوگا اس کی بات مانی جائے گی اور نعوذباللہ گویا قرآن، قرآن کے خلاف گواہی دے رہاہوگا۔ اس لئے یہ ظالمانہ تصورہی بالکل بیہودہ اور لغو ہے۔ دین میں کوئی Patentنہیں ہے ۔ ہر اچھی بات کی طرف ہر سچا مومن بلاتاہے اور جب وہ اس کو اختیار کرتاہے تو خوش ہوتاہے۔
اب دیکھیں مسجد ضرار کا قصہ ہے ۔آج تک اسے مسجد ضرارکہتے ہیں ۔ یہ مولوی بھی جب تقریروں میں حوالے دیتے ہیں مسجد ضرار کہتے ہیں ۔ اس لئے کہ قرآن نے ا س کو مسجد ہی کہاہے پھر بھی (لَا تَقُمْ فِيْهِ اَبَدًا ؕ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْهِؕ)(التوبہ:108)یہ مسجد جو بنائی ہے (وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِيْقًۢا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ)(التوبہ:107)یہ جو لوگ ہیں جنہوں نے مسجد بنائی ہے اس نیت سے کہ کفرکریں ،تکلیف پہنچائیں اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈال دیں پھربھی توُ اس مسجدمیں نہ کھڑا ہو۔ یہ نہیں فرمایا یہ مسجد ہے ہی نہیں۔ عظیم کتاب ہے ۔ حیرت انگیز حوصلے والا کلام ہے جو تمام دنیا کو اپنی رحمت کی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ انسانی ضمیر کی آزادی کا اس سے بڑا چارٹر کبھی دنیا میں کسی کی طرف سے پیش نہیں ہوا۔ تمام عالم کی کتب کا مطالعہ کرلو۔ ہمارے آقا محمدﷺ کی طرز پر جو آسمان سے ضمیر انسانی کی آزادی کا چارٹر نازل ہوا ہے اس کی کوئی مثال آپ کو دکھائی نہیں دے گی۔
اور اب جہاں تک بشر اور رسول کا جھگڑا ہے اس قرآ ن سے یہ مولوی اصطلاحیں نکالتے ہیں ۔ایک کہتاہے دیکھو (سُبْحَانَ رَبِّىْ هَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلاً)(بنی اسرائیل:94) ۔ صاف لکھاہواہے کہ مَیں تو ایک بشر رسول کے سوا کچھ نہیں ہوں۔ اور دوسری طرف کہتے ہیں نور بھی تو لکھاہواہے اس لئے نور والی آیت کو مانیں گے۔ اس آیت کو نہیں مانیں گے۔
اور جہاں تک مسلمانوں کو دوسروں کو سلام کرنا ہے اس کے متعلق بعض اجنبی لوگ راستہ چلتے مسلمانوں کے خوف سے ان کو السلام علیکم کہہ دیا کرتے تھے ۔ اور یہ ردّعمل اگر کسی نے دکھایاہے توان کو کہا کہ تم ہمیں دھوکہ دینا چاہتے ہو توقرآن نے اس کی نفی فرمائی۔ آسمان سے اللہ نے یہ تعلیم ناز ل فرمائی (وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓى اِلَيْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًاۚ)(النساء:95)کہ دیکھو جی جو بھی تمہیں سلام کہہ دے تمہیں کوئی حق نہیں ہے کہ پھریہ کہو کہ تم مومن نہیں ۔( تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا) (النساء:95)۔کیا تم دنیا کی زندگی کا فائدہ چاہتے ہو۔ ان لوگوں کوپکڑ کے کہ وہ دشمن قوم سے تعلق رکھتے ہیں بچنے کی خاطر ایسا کر رہے ہیں نہ صرف یہ کہ ان کو دینی تحفظ دیاہے بلکہ اس اصطلاح ’’السلام علیکم ‘‘ استعمال کرنے کا حق بھی دیاہے۔ اور اس کی اوٹ میں اپنے آپ کو بچانے کا حق دیاہے۔ اورمولوی کہتے ہیں دیکھوجی بچنے کی خاطر ہم سے ،لوگوں کو دھوکہ دینے کی خاطر کہ ہم بھی مسلمان ہیں،یہ ایسا کررہے ہیں۔ ایسا اسلام تم نے کہا ں سے بنایاہے ۔ تم تو سمجھتے بھی نہیں کہ اسلام کیا چیزہے ۔یہ تو اللہ کی تعلیم ہے ، اللہ بہتر جانتاہے اورایسے واقعات پہلے گزرے ہوئے ہیں۔ کوئی نئی بات نہیں تم پیش کررہے ۔ ان سب کا جواب قرآن کریم میں موجود ہے۔
قرآن انسانی ضمیر کی آزادی کا جو تحفظ دیتاہے کوئی تم میں طاقت نہیں ہے کہ اس تحفظ کو اس سے چھین سکو۔ فرمایا(کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْکُمْ)(النساء:95)۔ہوش کرو ، اس قسم کی جاہلانہ باتیں تم پہلے کیا کرتے تھے۔بہانے بنا بنا کے لوگوں کو پکڑ ا کرتے تھے ،ان پرظلم کیا کرتے تھے ،مارتے تھے،ان کی جائیدادیں چھینا کرتے تھے ۔لٹیرے ہی توتھے تم۔ تم پر اللہ نے احسان کیا ہے ، محمدمصطفی ﷺکی تعلیم کے ذریعہ تمہیں بچا لیا۔ پھر وہی حرکتیں شروع کر دو گے جو یہ کر چکے ہیں۔
اور جہاں تک صحابہ کرام اور صحابہ کرام کی دوسری اصطلاحات کا تعلق ہے یہ سب لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺکے صحابہ کے بعد ان اصطلاحات کو ہر گزاستعمال نہیں کرنے دیں گے۔ تم ناپاک لوگ ہو ، ان کو ہاتھ نہیں لگانا ، بلکہ کوئی مسلمان دنیا کا ان اصطلاحوں کو اس لئے استعمال نہیں کر سکتا کہ یہ صحابہؓ کے لئے خاص تھیں ۔ یہ اصطلاحیں وہ تھیں جو مسلمانوں کے لئے خاص تھیں خواہ کسی زمانے کے ہوں۔ اب ان اصطلاحوں کی باتیں ہوں گی جو یہ کہتے ہیں کہ صحابہ تک تھیں ان کے بعد نہیں۔ لیکن اپنا عمل کیاہے؟ یہ سنئے ۔
شیعہ صاحبان اپنے ائمہ کو’عَلَیْہِ السَّلَام‘ لکھتے ہیں۔یہ نبیوں کی اصطلاح ہے۔ ان کے نزدیک کسی اور پر علیہ السلام نہیں کہہ سکتے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے کہ محمد رسول اللہ پر خدا درود بھیجتاہے(احزاب :57)، اور تم پر بھی ۔پس جن کو خدا السلام علیکم کہے اس کو یہ مولوی کیسے روکیں گے۔ مگر ان کی کتابوں میں لکھا ہواہے کہ ’علیہم السلام‘ ۔اور پھراس کے علاوہ دوسرے سنیوں میں بھی اس کی مثال ہے۔ مولانا اسماعیل صاحب شہیدکے خطبہ امارت صفحہ 13 پردرج ہے کہ’ حضرت ابوطالب علیہ السلام‘۔ اور خود مولانا اسماعیل شہید کے لئے ’علیہ السلام‘ لکھا ہواہے۔(مؤلفہ مولوی نجم الحسن کراروی پشاور۔انوار الشیعہ صفحہ 18 و324پر یہ حوالہ درج ہے)
اسی طرح ترجمہ فتاویٰ عزیز جلد نمبر1 صفحہ15 پرحضرت مولوی عبدالحئی صاحب فرنگی محلی لکھتے ہیں کہ’علیہم السلام‘ کا لفظ قرآن و حدیث کی رو سےغیر انبیاء کے لئے ثابت ہے۔ یہی بات جو مَیں کہہ رہاتھا، بالکل نیا دین گھڑ رہے ہیں ، ان کوکوئی نہیں پکڑ رہا۔
امہات المومنین کی بحث۔کہتے ہیں تم نے حضرت اماں جان کے لئے’رضی اللہ عنہا‘، ’ام المومنین ‘کا لفظ استعمال کیاہے۔ بڑی سخت دلآزاری ہو رہی ہے ہماری۔ یہ لفظ نبی کی بیگمات کے سوا کسی اورکے لئے استعمال کرنا تو جائز ہی نہیں اوراس سے دھوکہ ہوتاہے ۔ ہرشخص جب حضرت اماں جان کے ذکرمیں ام المومنین کا لفظ پڑھے گا توکون پاگل ہے جس کو یہ دھوکہ ہو کہ اس سے مراد ان کی’منکرین کی ماں‘ ہے ۔ تمہیں کہاں سے تکلیف ہوگئی۔ وہ ہماری دلآزاری ہو اگر تم منکرین پر بھی یہ لفظ کھینچ کرلگاؤ۔ لفظ مومنین نے حفاظت کر دی ہے۔ جب حضرت مرزا صاحب کی بیگم کے متعلق ام المومنین کہتے ہیں اس وضاحت کے بعد بھی تمہاری عقلیں کہاں گئی ہیں، غورکیوں نہیں کرتے ۔اس سے تمہاری بے عزتی کیسے ہوگئی ۔صاف ظاہر ہے جو ایمان لاتے ہیں ان کی ماں ہیں۔ تو لفظ ماں کو استعمال نہیں کرنے دو گے۔اور یہ اصطلاحیں وہ ہیں جو خود دوسروں کے لئے استعمال کر چکے ہیں۔ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ کو ام المومنین کہاگیا ۔(اشارات فریدی حصہ سوم صفحہ 9 مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ)۔1321 ہجری میں حضرت خواجہ جمال الدین ہانسوی کی اہلیہ کوام المومنین لکھا۔سیرالاولیاء پرلکھاہے کہ پہلے شیخ جمال الدین ہانسوی اپنی ایک خادمہ کو ’ام المومنین ‘ کہا کرتے تھے۔(سیرت الاولیاء تالیف محمد بن علی مبارک صفحہ 187)
اب بتائیں حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی ایک خادمہ کو اُمّ المومنین کہا کرتے تھے۔ تاریخ المشائخ چشت ازخلیق احمد نظامی کے صفحہ 164 پر لکھاہے کہ حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی کی ایک خادمہ بڑی عابدہ ، صالحہ تھیں۔لوگ اسےاُمّ المومنین کہا کرتے تھے ۔ ایک جگہ ہے کہ حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی خود کہتے تھے۔ دوسرے حوالہ میں ہے کہ لوگ ان کو کہا کرتے تھے ۔پی ایل او کے سربراہ کی بہن بھی ام المومنین کہلاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔(یہ فرنچ کتاب ہے نے زانگ لے ۔ٹائم مارچ19؍1988ء)
جہاں تک’رضی اللہ عنہ‘کی اصطلاح ہے ۔ قرآن کریم سچے مومنوں کے لئے اس اصطلاح کوعام کرتاہے اور اللہ تعالیٰ استعمال فرماتاہے ان کے حق میں (کَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىْؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ عَزِيْزٌ)(المجادلۃ:22) اللہ نے اپنے اوپر لکھ چھوڑاہے ، فرض کردیاہے(لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىْ) مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ (اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ عَزِيْزٌ)اللہ تعالیٰ بہت طاقت والا اور بہت بزرگی والا اوربہت عزت والاہے اورغلبہ والاہے۔ (لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ)(المجادلۃ:23)کہ تم کبھی ایسی قوم نہیں پاؤ گے جو اللہ پر اور یوم آخرت پرایمان رکھتے ہوں اور اس کے باوجود ان لوگوں سے دوستی کرو جو اللہ سے دشمنی کرتے ہیں ۔(یہ ہو ہی نہیں سکتاکہ اللہ پرایمان لاتاہوں انسا ن اوریوم آخرت پر)۔یہ دو شرطیں ہیں کہ یہ لوگ خدا کے دشمنوں کے دوست بن جائیں (وَلَوْ کَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ) خواہ ان کے باپ ہی کیوں نہ ہو۔(واَبْنَآءَهُمْ) یا ان کے بیٹے (اَوْ اِخْوَانَهُمْ) یا ان کے بھائی (اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ)۔یا ان کے قبیلے والے رشتہ دار۔ (اُولٰٓٮِٕکَ کَتَبَ فِىْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ) یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر۔ جن کی یہ صفات ہیں ان کے متعلق اللہ نے ایمان کا فتویٰ ان کے دلوں پر لکھ دیا ہے ۔(اُولٰٓٮِٕکَ کَتَبَ فِىْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ)۔خدا نے ان کے دلوں پر ایمان لکھ دیاہے۔ (وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ) اور اپنی طرف سے روح سے ان کی تائید فرمائی ہے ۔ (وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ) اور ان کو ایسی جنتوں میں یا باغوں میں داخل کرے گاجس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی (خٰلِدِيْنَ فِيْهَا)وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔(رَضِىَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ) اللہ ان سے راضی ہوگیا وہ ا س سے راضی ہوگئے۔ (اُولٰٓٮِٕکَ حِزْبُ اللّٰهِ) یہ اللہ کا گروہ ہیں ۔ (اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ) ( المجادلہ: 23) خبردار!سنو! کہ اللہ ہی کا گروہ ہے جوکامیاب ہونے والاہے ۔ کامیاب ہونے والے یہی لوگ ہیں۔
اب ان کی صفات کیا بیان ہوئی ہیں۔ایمان باللہ ، ایمان بالیوم الآخر ۔ اور خدا کے لئے غیرت ۔یہ تین ضروری اجزاء ہیں ان کو مومن بنانے کے لئے خدا کی نظر میں ۔ جن کے دلوں پرایمان لکھا جاتاہے اور اللہ فرماتاہے (رَضِىَ اللّٰهُ عَنْهُمْ) ہیں، اور بھی آیتیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔
صحابی کا لفظ جو اسی طرح بڑی کثرت سے ملتاہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں :’’اِنَّہُمْ بَعْضُ اَصْحَابنَا‘‘۔بعض ہمارے صحابی۔ ا ور اسی طرح صحابی کا لفظ عام ہے ۔اس میں کوئی خصوصی بات نہیں ۔ ہاں ! یہ بات خصوصیت ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺکا صحابی‘‘۔ اگر کوئی یہ کہے تویہ اور بات ہے۔ مگر آج تک کبھی کسی احمدی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کو رسول کریم ﷺکا صحابی نہیں کہا۔ باوجود اس کے کہ قرآن فرماتاہے کہ وہ آخرین کو اولین سے ملاد ے گا۔ اس کے باوجود ہمیشہ کہتے ہیں حضرت مسیح موعود ؑ کا صحابی۔ اس سے تمہیں کیا تکلیف ہے ۔ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابی تھے۔ اس حقیقت کو تمہاری تکلیف بدل تو نہیں سکتی۔ اور جہاں تک ان باتوں سے توہین رسالت کا تعلق ہے ان کا تو اب یہ حال ہو گیاہے کہ ہر چیز سے توہین رسالت ہونے لگ گئی ہے۔ شرعی عدالت کے خلاف بیان سے وزیر قانون توہین رسالت کے مرتکب ہوگئے ہیں۔
اب یہ مولوی خدا بھی بن بیٹھے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ بھی بن بیٹھے ہیں ۔ان پر ہاتھ اٹھاؤ تووہ رسو ل پر ہاتھ اٹھانا ہے ۔ نعوذباللہ من ذلک۔اور ان کی شکلیں دیکھو ، ان کے اطوار ، ا ن کے اخلاق دیکھو۔ یہ دھکا دینے والے لوگ ہیں۔ محمد رسول اللہ جاذب تھے۔غیر معمولی طاقت سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے تھے ۔ جو ان کو دیکھتا عاشق ہو جاتاتھا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں
اگر خواہی دلیلی عاشقش باش
محمدؐ ھست برھان محمدؐ
تم محمد ؐکے حسن کی دلیل کیا مانگتے ہو ۔ محمدؐخود اپنے حسن کی دلیل ہے ،’عاشقش باش‘۔ اس پر عاشق ہو جاؤ۔
محمدؐ ھست برھان محمدؐ۔ محمدؐ ہی محمدؐ کی دلیل ہے۔ پس اللہ ہی ہے جو ان کو عقل دے ۔
(الفضل انٹرنیشنل۳ دسمبر ۲۰۰۴)
No comments:
Post a Comment