اللہ تعالیٰ کے ہم پر جو بے انتہااحسانات ہیں ان میں سے ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ ہم مومنین اور اعمال صالحہ بجا لانے والوں کی اس جماعت کا حصہ ہیں جو قرآن مجید کی سورۃ نور کی آیت استخلاف میں مذکور الٰہی وعدہ کی مصداق ہے اور جس میں آنحضرتﷺ کی پیش خبری کے مطابق خلافت علی منہاج نبوت کا حد درجہ مبارک نظام قائم ہے۔ہمارے معاند ہمیں جو چاہیں کہیں اور ہمارے متعلق جس قدر چاہیں جھوٹ اور افترا اور بہتان طرازی سے کام لیں لیکن ہم خدائے بزرگ و برتر کی اس فعلی شہادت اور اس کی ہر روز کی تائیدو نصرت پر خوش اورنازاں ہیں کہ آج روئے زمین پر صرف ہم ہی وہ جماعت مومنین ہیں جس پر خدا تعالیٰ کی پیار کی نظریں پڑتی ہیں اور جسے اُس نے دنیا بھر میں تمکنتِ دین اسلام اور اپنی سچی اورکامل توحید کے قیام کے واسطے منتخب فرمایاہے۔ اور جب وہ کسی کو کسی کام کے لئے منتخب فرماتاہے تو پھراسے اپنی غیر معمولی نصرت و تائید سے بھی نوازتاہے اور دنیاکو دکھاتاہے کہ یہ میرا انتخاب ہے اور میں ہی ان کامحافظ اورمعین و مددگار ہوں۔ اس کا فرمان ہے’’اِنَّالَنَنْصُرُرُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا فِی الْحَیوٰۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الاَشْہَاد‘‘ (المومن:۵۲) کہ ہم یقیناًاپنے رسولوں کی اور ان پرایمان لانے والوں کی اس دنیا میں بھی ضرور مدد کریں گے اور اس دن بھی جبکہ گواہ کھڑے ہونگے۔
جماعت احمدیہ کی تاریخ الٰہی نصرت کے نشانوں سے اس طرح بھری پڑی ہے کہ گویا ان کاایک ٹھاٹھیں مارتاہواسمندرہے ۔ دنیا کاکوئی خطہ نہیں جو ان نشانات سے خالی ہو ۔ خلافت حقّہ اسلامیہ احمدیہ سے صدق و اخلاص او ر وفا کاتعلق رکھنے والے تمام احمدی ان نشانوں کے گواہ ہیں ۔ صرف ذاتی اور انفرادی طورپر یامقامی اور ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی پیمانے پر ساری جماعت احمدیہ عالمگیر کے ساتھ خدا تعالیٰ کاجو خاص فضل اور احسان کا غیر معمولی سلوک ہے اور اس کی نصرت کے جو نشان موسلا دھار بارش کی طرح برس رہے ہیں ان کااحاطہ تو درکنار ان کا تصور بھی کسی انسان کے بس میں نہیں۔
آیت استخلاف میں یہ بشارت دی گئی تھی کہ مومنین کی جس جماعت کو خدا تعالیٰ خلافت کے لئے منتخب فرمائے گا ان کے ذریعہ ان کے اس دین کو تمکنت بخشے گاجسے اُس نے ان کے لئے پسند فرمایاہے ۔ وہ دین کیاہے ؟ اسلام ۔ فرمایا رَضِیْتُ لَکُمُ الاِسْلاَمَ دِینًا(یعنی میں نے تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیاہے )۔ چنانچہ آج ساری دنیامیں تمکنتِ دینِ اسلام کی مہم کو جس وسعت اور گہرائی کے ساتھ اور جس شان او ر کامیابی کے ساتھ جماعت احمدیہ انجام دے رہی ہے اس کی کوئی نظیر پائی نہیں جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ امام اور خلیفہ بخشا ہے جس کی وہ خود رہنمائی فرماتااور پھر اپنے اس پاک بندے کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کو غیر معمولی حالات میں پورا کرکے اپنی قدرت اوررحمت کے عظیم نشان دکھاتاہے۔
۱۹۸۴ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع (رحمہ اللہ تعالیٰ) پاکستان سے بتقدیر الٰہی ہجرت کر کے لندن تشریف لائے تو جماعت ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ وہ دور جس میں مخالفتیں بھی انتہا درجہ کی ہوئیں یہاں تک کہ پاکستان کے اس وقت کے آمر نے اپنے اس ناپاک عزم کا کھلے بندوں اعلان کیااور اس کا یہ پیغام انگلستان میں مولویوں کی ایک کانفرنس میں پڑھ کر سنایاگیا کہ وہ’’احمدیت کے کینسر ‘‘ کو ختم کردے گا ۔ لیکن جس قدرمخالفت بڑھتی گئی اس سے کہیں زیادہ زور اور شدت کے ساتھ آسمان سے فرشتوں کی تائید نازل ہوتی چلی گئی اور وہ صدائے فقیرانہ حق آشنا جسے وہ دشمن بدنوا دبا کر ختم کر دینا چاہتا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے شش جہات میں اس شان اور عظمت سے پھیلنے لگی کہ اس سے زمین ہی نہیں فضا بھی گونجنے لگی ۔ بڑی کثرت سے نئی مساجد کی تعمیر شروع ہوئی ۔ قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے اور اسلامی لٹریچر مختلف زبانوں میں تراجم ہوکر پھیلنے لگا۔خدمتِ خلق اور ہمدردی ٔبنی نوع انسان کے کاموں میں نئی بلندیاں حاصل ہوئیں اور لوگ جوق در جوق اس الٰہی نظام سے وابستہ ہونے لگے ۔۱۹۹۳ء میں ہمارے محبوب امام خلیفۃ المسیح الرابع نے عالمی بیعت کی تحریک فرمائی تو چند ہزار سالانہ سے بڑھ کر یکدم دو لاکھ چار ہزار ۳۰۸ تک بیعتوں کی تعداد جا پہنچی ۔ آپ نے خواہش فرمائی کہ اگلے سال دوگنا ہوں تو خدا تعالیٰ نے ایسا بابرکت سلسلہ چلایا کہ یہ سلسلہ اس طرح بڑھتے بڑھتے ۱۹۹۸ء میں صرف ایک سال میں ۵۰لاکھ چار ہزار ۵۹۱بیعتوں تک جا پہنچا۔ ادھر ایم ٹی اے کے ذریعہ احمدیوں کی تعلیم وتربیت اور ان میں دین کے استحکام اور تمکنتِ اسلام کا جو مبارک سلسلہ شروع ہوا تو وہ ہر سال نئی جہتوں میں نئی رفعتوں کو چھونے لگا۔ کیایہ سب خدا تعالیٰ کی نصرتوں کے عظیم نشانات نہیں؟
دنیا حیران و سرگردان ہے کہ یہ چھوٹی سی اقلیت ، یہ غریب اور بے کس اور بے سہارا جماعت شدید مخالفتوں کے باوجود کیسے اتنی بڑی بڑی مہمات دینیہ اس قدر کامیابی کے ساتھ سرانجام دے رہی ہے ۔ ہم انہیں کس طرح سمجھائیں کہ یہ سب اللہ اور اس کے رسول ﷺکے وعدوں کا فیض ہے ۔
ہرروز نصرتوں کے نشاں پر نشان ہیں * برکات ہیں یہ صدق خلافت کے نور کی
وَذٰلکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤتِیہِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْم
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍مئی ۱۹۹۹ء تا۲۷؍مئی ۱۹۹۹ء)
No comments:
Post a Comment