یاجوج و ماجوج کی حقیقت

حدیث میں مسیح موعود اور مہدی معہود کے ظہور کی ایک علامت یاجوج وماجوج کا خروج بیان کی گئی ہے۔ یاجوج و ماجوج کے متعلق عوام الناس میں عجیب و غریب کہانیاں پائی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس، انگریز اور ان کی اتحادی حکومتیں ہیں کیونکہ قرآن اور حدیث میں دجال اور یاجوج وماجوج دونوں کے غلبہ کا ایک ہی زمانہ میں ذکر ملتا ہے جبکہ دونوں کا بیک وقت غلبہ ممکن نہیں۔ دراصل دجال اور یاجوج وماجوج ایک ہی قوم کے دو نام ہیں مغربی عیسائی قوموں کے مذہبی راہنماؤں کو دجال کا نام دیا گیا ہے اور ان ہی کا سیاسی و قومی نام یاجوج و ماجوج ہے۔

یاجوج و ماجوج کے الفاظ أجَّ سے مشتق ہیں جس سے مراد آگ کے شعلے مارنے اور بھڑکنے کے ہیں۔ (لسان العرب زیر لفظ یاجوج)

ان قوموں کے اس نام میں ایک اشارہ آگ کو مسخر کرنے اور بڑی مہارت سے آگ سے کام لینے کی طرف ہے اور دوسرا اشارہ ان قوموں کی ناری سرشت کی طرف تھا کہ یہ متکبر قومیں انتہائی تیز اور چالاکی اور ہوشیاری میں یکتا ہوں گی اور انہیں اقوام کا سیاسی اور قومی نام یاجوج اور ماجوج ہے۔

حضرت بانی جماعت احمدیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’یہ خیال کہ یاجوج ماجوج بنی آدم نہیں بلکہ اور قسم کی مخلوق ہے یہ صرف جہالت کا خیال ہے۔ کیونکہ قرآن میں ذوالعقول حیوان جو عقل اور فہم سے کام لیتے ہیں اور مورد ثواب یا عذاب ہو سکتے ہیں وہ دو ہی قسم کے بیان فرمائے ہیں۔ (۱)ایک نوع انسان جو حضرت آدم کی اولاد ہیں۔ (۲)دوسرے وہ جو جنات ہیں۔ انسانوں کے گروہ کا نام معشر الانس رکھا ہے اور جنات کے گروہ کا نام معشر الجن رکھا ہے۔ پس اگر یاجوج ماجوج جن کے لئے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں عذاب کا وعدہ ہے معشر الانس میں داخل ہیں یعنی انسان ہیں تو خواہ مخواہ ایک عجیب پیدائش ان کی طرف منسوب کرنا کہ ان کے کان اس قدر لمبے ہوں گے اور ہاتھ اس قدر لمبے ہوں گے اور اس کثرت سے وہ بچے دیں گے ان لوگوں کا کام ہے جن کی عقل محض سطحی اور بچوں کی مانند ہے اگر اس بارے میں کوئی حدیث صحیح ثابت بھی ہو تو وہ محض استعارہ کے رنگ میں ہوگی۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کی قومیں ان معنوں سے ضرور لمبے کان رکھتی ہیں کہ بذریعہ تار کے دور دور کی خبریں ان کے کانوں تک پہنچ جاتی ہیں اور خدا نے بری اور بحری لڑائیوں میں ان کے ہاتھ بھی نبرد آزمائی کی وجہ سے اس قدر لمبے بنائے ہیں کہ کسی کو ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔۔۔۔ پس جبکہ موجودہ واقعات نے دکھلا دیا ہے کہ ان احادیث کے یہ معنی ہیں اور عقل ان معنوں کو نہ صرف قبول کرتی بلکہ ان سے لذت اٹھاتی ہے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ خوامخواہ انسانی خلقت سے بڑھ کر ان میں وہ عجیب خلقت فرض کی جائے جو سراسر غیر معقول اور اس قانون قدرت کے برخلاف ہے جو قدیم سے انسانوں کے لئے چلا آتا ہے اور اگر کہو کہ یاجوج ماجوج جنات میں سے ہیں انسان نہیں ہیں تو یہ اور حماقت ہے کیونکہ اگر وہ جنات میں سے ہیں تو سد سکندری ان کو کیونکر روک سکتی تھی جس حالت میں جنات آسمان تک پہنچ جاتے ہیں جیسا کہ آیت فَاَتْبَعَہٗ شَھَابٌ ثَاقِبٌ ۱؂ سے ظاہر ہوتا ہے تو کیا وہ سد سکندری کے اوپر چڑھ نہیں سکتے تھے جو آسمان کے قریب چلے جاتے ہیں۔ اور اگر کہو کہ وہ درندوں کی قسم ہیں جو عقل اور فہم نہیں رکھتے تو پھر قرآن شریف اور حدیثوں میں ان پر عذاب نازل کرنے کا کیوں وعدہ ہے کیونکہ عذاب گنہ کی پاداش میں ہوتا ہے اور نیز ان کا لڑائیاں کرنا اور سب پر غالب ہوجانا اور آخر کار آسمان کی طرف تیر چلانا صاف دلالت کرتا ہے کہ وہ ذوالعقول ہیں بلکہ دنیا کی عقل میں سب سے بڑھ کر‘‘۔(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد۲۳۔ صفحہ۸۴،۸۵ حاشیہ)
بائیبل میں روس کے فرمانرواؤں کو جوج کا نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔

’’اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبل کا فرمانروا ہے متوجہ ہو اور اس کے خلاف نبوت کر اور کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ دیکھ اے جوج، روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالف ہوں‘‘۔ (حزقیل باب۳۸ آیت۱تا ۳)
واضح ہو کہ مسک (ماسکو) اور توبل (ٹوبالسک) روس کے ہی مختلف علاقے ہیں۔ اور ماسکو شہر دریائے ماسکو کے کنارے آباد ہے اور اسی بنا پر اس شہر کو ماسکو کا نام دیا گیا ہے اس طرح ٹوبالسک شہر نے دریائے توبل کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے ٹوبالسک کا نام پایا۔

قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ یاجوج و ماجوج آخری زمانہ میں بہت زیادہ ترقی کریں گے اور ان کا زمین کے اکثر حصہ پر تسلط، غلبہ اور اثر و رسوخ ہوگا۔ چنانچہ فرمایا

حَتّٰٓى اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ‏ ( الانبیاء:۹۷)

یعنی ’’یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیا جائے گا اور وہ ہر پہاڑی اور ہر سمندر کی لہر پر سے پھلانگتے ہوئے دنیا میں پھیل جائیں گے‘‘۔

حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ

اللہ تعالیٰ (موعود) عیسٰیؑ کو وحی کرے گا کہ میں نے ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن کے ساتھ کسی کو جنگ کی طاقت نہیں پس میرے بندوں کو طور پہاڑ کی طرف لے جا اور اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو کھڑا کرے گا اور وہ ہر بلندی سے چڑھ دوڑیں گے۔ ۔۔۔ نبی اللہ عیسیٰ اور اس کی جماعت دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی ہلاکت کے لئے طاعون پیدا کرے گا۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
یعنی یاجوج و ماجوج سے ظاہری مقابلہ کی کسی کو طاقت نہ ہوگی تب مسیح موعود کو اپنی جماعت کے ساتھ طور پہاڑ کی پناہ لینے کی ہدایت کی جائے گی یعنی عبادات اور دعاؤں کی طرف توجہ دلائی جائے گی اور بالآخر دعاؤں اور آسمانی نشانوں سے ہی مسیح موعود کی جماعت کو ان طاقت ور قوموں پر فتح ہوگی۔

پھر مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال میں ہے۔

’’یاجوج و ماجوج آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے‘‘
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج قومیں آگ سے کام لے کر علم ہیئت اور خلائی تحقیق میں بہت زیادہ ترقی کریں گی اور جدید قسم کی خلائی گاڑیاں اور میزائل وغیرہ ایجاد کر کے مختلف سیاروں پر پہنچیں گی۔

مندرجہ بالا علامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یاجوج وماجوج سے مراد روس اور آج کی ترقی یافتہ مغربی اقوام اور امریکہ ہیں جنہوں نے آگ کی قوت کو تسخیر کر کے اور ایٹم بم ایجاد کر کے اپنی ناری سرشت کے اظہار کے طور پر ساری دنیا پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے۔ چنانچہ یہ قدیمی نام آج تک مغربی اقوام اپنے لئے استعمال کر رہی ہیں گلڈ ہال لندن میں نصب یاجوج و ماجوج کے مجسمے اس کی کافی شہادت ہیں جن کو دوبارہ ایستادہ کرنے کی تقریب پر ۱۹۵۱ء میں چرچل نے یاجوج کو روس اور ماجوج کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا نشان قرار دیا تھا۔ (لندن ٹائم ۱۰ نومبر ۱۹۵۱ء)

چنانچہ خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں:۔

’’یاجوج ماجوج روس و جرمن کی قومیں ہیں جو سیلاب طوفان کی طرح دنیا پر امڈنا چاہتی ہیں‘‘۔ (کتاب الامر از خواجہ حسن نظامی صفحہ۸ سٹیم پریس امرتسر ۱۹۱۲ء)
اسی طرح علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے انہیں قوموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:۔

’’کھل گئے‘‘ یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرفِ ’’ینسلون‘‘

(بانگ درا صفحہ۲۸۹۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشر لاہور)

اہل سنت کے محقق حکیم سید محمد حسن صاحب امروہی نے لکھا:

’’ہزار سال دولت اسلامیہ کے بعد خروج دوئم یاجوج وال183 روس و ماجوج انگریز وغیرہ جیسے فرمایا تھا وہ سب کچھ پورا ہوا‘‘۔(کواکب دریہ صفحہ۱۶۳ ۔از حکیم سید محمد حسن امروہی)
پس یاجوج و ماجوج کے متعلق قرآن کریم اور ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مکاشفات میں آج سے چودہ سو سال قبل جو علامتیں بیان فرمائی تھیں وہ آج لفظ بلفظ پوری ہو چکی ہیں ان علامتوں کا پورا ہونا جہاں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا ایک عظیم الشان نشان ہے وہاں ہمیں اس بات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ ہم اس موعود مہدی اور مسیح کو بھی تلاش کریں جس کے زمانہ کی یہ ساری علامتیں آپؐ نے بیان فرمائی ہیں۔

اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ علامات تو ساری پوری ہو جائیں لیکن وہ موعود ظاہر نہ ہو۔ ہاں وہ موعود بھی ظاہر ہوچکا ہے اور اس نے ببانگ دہل یہ اعلان فرمایا :۔

؂ میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار

No comments:

Post a Comment