کائنات کے چھوٹے سے ذرّہ ، ایٹم کو لیجئے یا بڑے سے بڑے کسی اور جسم کو، جس کا بھی سینہ چاک کریں وہاں ایک دھڑکتا ہوا دل، ایک مرکز پائیں گے جو اس ذرّہ یا اس جسم کی ہر حرکت اور سکون کا محور ہوگا ۔ اسی طرح عالم صغیر ہو یا عالم کبیر، ہر ایک عالم میں قدرت کا یہی قانون کارفرما نظر آ تا ہے ۔ عالم صغیر یعنی انسان کے تمام اعضاء اور اعصاب اور رگ و ریشے اس کے دل کے ایک ایک اشارہ پر حرکت کرتے ہیں ۔ تو عالم کبیر میں موجود تمام سیارے اور ستارے اپنا ایک مرکز رکھتے ہیں ۔ کچھ سیارے ملکر ایک نظام بناتے ہیں جن کا مرکز ایک سورج ہو تا ہے ۔ اور اسی قسم کے چند نظام ملکر ایک گلیکسی بناتے ہیں اور کائنات میں موجود اس قسم کی بے شمار گلیکسیز ہیں جو ایک بڑا مرکز رکھتی ہیں اور اپنے اپنے محور پر حرکت کررہی ہیں۔
کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے ذرہ سے لیکر بڑی سے بڑی گلیکسی تک میں جو یہ وحدت ہے یہ جہاں ہمیں خداتعالیٰ کی توحید کی طرف توجہ دلاتی ہے وہاں اس میں بنی نوع انسان کی معاشرتی زندگی کے لئے ایک شاندار سبق بھی پنہاں ہے کہ دنیا کا کوئی بھی نظام ، کوئی بھی کارو بار مرکزیت کے بغیر نامکمل ہے ، معاشرہ میں مل جل کر رہنے کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے جس میں ایک ایسا مرکز ہونا چاہئے جسے ہرِ فرد اپنے اوپر مسلّط کرے ۔ اسی پر نو ع انسانی کے نظام کی کامیابی کا مدار ہوگا ۔ اسی پر اس کی ترقی کا انحصار ہوگا ۔
جہاں تک ا نسانی معاشرہ میں نظام کا تعلق ہے ، یہ دنیا کے ہر خطہ ، ہر ملک اور ہر قبیلہ میں موجود ہے اور اس کا ہر جگہ ہو نا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ یہ واقعی فطرت کی آ واز ہے ۔لیکن ان نظاموں میں آ ئے دن پیدا ہونے والی گڑ بڑ اور تبدیلیاں ،برپا ہونے والے انقلابات ، رونماہونے والے فسادات کی وجہ سے اس بات پر یقین آ جاتا ہے کہ یہ حقیقی نظام نہیں ہیں ۔ ان میں مرکزیت کی وہ فطری روح نہیں جو خداتعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہے ۔ خداتعالیٰ تو چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان پرسکون زندگی بسر کریں ، پورے اطمینان کے ساتھ اس دنیا میں رہیں۔ اس نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر جب ہم ساری دنیا میں مختلف نظاموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس سوال کا جواب صرف اور صرف خداتعالیٰ کی نازل کردہ کتاب قرآ ن کریم میں ملتا ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ وَعَدَاللّٰہُ الَّذینَ آمَنُوا مِنْکُم وَعمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۔ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَ لَیُبَدِّّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْناً۔یَعْبُدُونَنِی لاَ یُشْرِکُونَ بِی شَیئًا۔وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٓئِکَ ہُمُ الفٰسِقُوْنَ ۔ ( سورۃ النور:۵۶ )ترجمہ : اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں سے وعدہ کیاہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دئے جائیں گے۔
اس آ یت میں خداتعالیٰ نے جس نظام کا ذکر فرمایا ہے وہ آ سمانی نظام ہے جس کا سربراہ خود اللہ تعالیٰ مقرر فرماتا ہے۔ اور جس کا آ ئین ایک ابدی اور کامل کتاب قرآ ن شریف کی شکل میں اس نے نازل فرمادیا ہے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے ۔ یہ نظام ، نظام خلافت کہلاتا ہے جو خداتعالیٰ کے مامور اور اس کے مرسل نبی کی وفات کے بعد خداتعالیٰ کی طرف سے قائم کیا جاتا ہے اور اس وقت تک قائم رہتاہے جب تک لوگ اس نظام کی شرائط کو پورا کرتے رہیں ۔
خلافت کیا ہے
لغت کی رو سے خلافت کے معنے نیابت اورجانشینی کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد نبی کا جانشین ہوتا ہے ۔ علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں ۔ الخلیفۃ من یقوم مقام الذاھب و یسمّ مسدّ ہ (النہا یۃ جلد ۱ صفحہ ۳۱۵)
کہ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو کسی جانے والے کی جگہ پر کھڑا ہو اور اس کے جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پرُ کردے ۔
علامہ بیضاوی نے لفظ خلیفہ کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’والخلیفۃ من یخلف غیرہ و ینوب منابہ والھاء فیہ للمبالغۃ‘‘ (تفسیر بیضاوی جلد ۱ صفحہ ۵۹)
یعنی خلیفہ کسی دوسرے شخص کے بعد ہوتا ہے اوراس کی قائمقامی کرتا ہے ۔ اور اس میں جو ھاء ہے وہ مبالغہ کے لئے ہے۔
سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں :
’’خلیفہ کے معنی جانشین کے ہیں ، جو تجدید دین کرے ۔ نبیوں کے زمانے کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آ تے ہیں انہیں خلیفہ کہتے ہیں‘‘۔ ( ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۳۸۳)
پس خلافت نبوت کی جانشینی ہے اور خلیفہ نبی کے شروع کئے ہوئے عظیم الشان مشن کو خداتعالیٰ سے راہنمائی حاصل کرکے ، نبی کی نشان کردہ راہوں پر چلتے ہوئے آ گے سے آ گے بڑھاتا ہے اور نہ صرف اس کے تشنہ تکمیل منصوبوں اور سکیموں کو تکمیل تک پہنچاتا ہے بلکہ اس کی بعثت کی غرض کو پورا کرنے کی خاطر وہ نئے نئے پروگراموں اور منصوبوں کی بنا بھی ڈالتا ہے اور اسطرح سے تجدیدِ دین کرتاہے ۔ اوروہ اپنے فرائض کو پوری شدت اور جوش وخروش اورتیزی کے ساتھ ادا کرتا ہے کیونکہ لفظ خلیفہ مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ یہ ہے خلافت حقہ کا تصوّر ، جو خداتعالیٰ کی طرف سے قائم ہوتا ہے اور جو دنیا کے ہر نظام سے ہر پہلو میں کہیں بہتر اور زیادہ مؤثر ہے ۔
عالَمِ اسلام کا اتحاد اور خلافت
خلافت کی اہمیت پر کئی پہلوؤں سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ایک بنیادی نکتہ ’’مرکزیت اورخلافت‘‘ اوپر بیان ہوچکاہے ۔ اس مذکورہ بالا امر کی تصدیق اس حقیقت سے بخوبی ہوجاتی ہے کہ آ ج خلافت کے جھنڈے تلے نہ ہونے کی وجہ سے پوری دنیا بے چینی اور انتشار کا شکار ہے ۔ باقی دنیا تو ایک طرف عالم اسلام بھی ، جس کے پاس قرآن کریم جیسا پاکیزہ اور مکمل عظیم الشان ضابطہ حیات موجود ہے ،اسی کیفیت سے دو چار ہے۔اس صورت حال کی حقیقی وجہ یہی ہے کہ ان لوگوں کے پاس کوئی ایسا نظام موجود نہیں جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو اوراس کی ہر بات پر عمل کرنا ، ہر مکتب فکر کے لوگوں پر لازمی امر ہو ۔ اگر آ ج بھی عالم اسلام اس نظام پرمتفق ہو جائے تو مسلمان دنیا کی بڑی طاقت بن سکتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کی ترقی، اس کا اتحاد ، اس نظامِ خلافت کے بغیر بالکل ناممکن ہے۔ مشہور عالم الشیخ الطنطاوی الجوھری نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے ۔ آ پ آ یت استخلاف درج کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:
’’ھذہ الآیۃ ذکرناھا مرّۃً اُخرٰی فی الکتاب وأعدناھا ھٰہنا بعد اَن بَینّا طریق الاتحاد بین المسلمین۔تلک الطریق الّتی ھَدانا اللّٰہ لاِسْتخراجہا من الکتاب العزیز لا سبیل اِلی اِسعاد المسلمین بغیرھا ولا سبیل لاِراحتہم وتمکینہم فی الأرض واستخلافہم فیھا وتبدیل خوفہم أمناً اِلاَّ بہٰذھ السبیل وحد ھا ( الخلافۃ)۔ (القرآ ن والعلوم العصریۃ صفحہ ۲۱ )
یعنی اس آ یت کا ہم نے اس کتاب میں دوبارہ ذکر کیاہے اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا طریق بیان کرنے کے بعد ہم نے پھر اس آ یت کو دھرا یا ہے کیونکہ اس طریق کا علم ہمیں کتاب عزیز سے ہوتا ہے او ر اسکے بغیر مسلمانوں کی کامیابی کا اورکوئی طریق نہیں ، نہ ہی انہیں زمین میں خوشحالی اور طاقت حاصل ہوسکتی ہے ۔ اور نہ ہی حکومت میسرآ سکتی ہے اور نہ ہی اس کا خوف امن سے تبدیل ہو سکتا ہے ، مگر صرف اور صرف اس (خلافت ) کے ذریعہ۔ گویا آ ج جس شخص نے بھی حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہونا ہے ، جسے بھی حقیقی سکون اور راحت سے زندگی بسر کرنے کی تلاش ہے ، جسے بھی اپنی روحانی اورمادی ترقی کی فکر ہے ، اسے خلافت کا جھنڈا تلاش کرکے اس کے نیچے جمع ہونا ہوگا ۔ اس کے مرکز سے زندہ تعلق قائم کرکے ، اس کی طرف سے جاری ہونے والی تمام ہدایات کی روشنی میں اپنالائحہ عمل اورضابطہ حیات مرتب کرنا ہوگا اورجو شخص اس کے مطابق عمل کرے گا اس کی کامیابی یقینی ہے ۔
خلافت نبوت کا تتمّہ ہے
خلافت کی اہمیت ایک نا گزیر ضرورت بن کر اس وقت سامنے آ تی ہے جب ہم نبی اوراس کے مشن کو دیکھتے ہیں ۔ خداتعالیٰ اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے نبی بھیجتا ہے مگر انکے ذمہ صرف تخمریزی کا ہی کام ہوتا ہے ۔ان کے ہاتھوں تو انکے مشن کی صرف ابتداء ہی ہوتی ہے، اس کی بنیاد پڑتی ہے، اور ان کے جانے کے بعد خلافت نبوت کا تتمہ اور حصہّ بن کر وجود میں آتی ہے۔یہ خدا کی قدیم سنت ہے جیسے کہ اصدق الصادقین حضرت محمد مصطفی ﷺ کاارشاد مبارک ہے کہ:
’’ ما کانت النبوۃ قطّ اِلاَّ تبعتہا خلافۃ‘‘ (کنز العمال جلد ۶صفحہ ۱۱۹)
کہ ہر نبوت کے بعد خلافت لازمی طور پر قائم ہوتی رہی ہے ۔ اگر بالفرض نبوت کے بعد خلافت کا سلسلہ نہ ہو تو نعوذباللہ اس سے خداتعالیٰ پرحرف آ تا ہے کہ اس نے دنیا میں ایک منصوبہ جاری فرمایا مگر ابھی وہ تشنۂ تکمیل ہی تھا کہ اس نے اس قائم کردہ سلسلہ کو اپنے ہاتھوں سے ملیا میٹ کردیا ،گویا وہ ایک بلبلہ تھا جو سمندر کی سطح پرظاہر ہوا اورپھر چند ثانیے بعد وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے مٹ کر پانی کی مہیب لہروں میں غائب ہوگیا ۔پس خداتعالیٰ کی شان اسی میں ہے کہ نبی کی وفات کے بعد اس کی جانشینی کا سلسلہ بھی قائم ہو ، جو اس نبی کے مشن کو مکمل کرنے میں کوشاں ہوجائے ۔ سید نا حضرت
مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اس نقطہ نظر سے نظامِ خلافت کے قیام کی ضرورت و اہمیت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ۔ ’’خداتعالیٰ کا کلام مجھے فرماتاہے ۔۔۔۔۔۔وہ اس سلسلہ کوپوری ترقی دیگا ، کچھ میرے ہاتھ سے کچھ میرے بعد ، یہ خداتعالیٰ کی سنت ہے اورجب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اورانکو غلبہ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔اورجس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخمریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے ، لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا ،بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دیکر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناکام رہ گئے تھے ، اپنے کمال کو پہنچتے ہیں ‘‘۔(الوصیت )
پس خلافت کے قیام کی ضرورت اوراس کی اہمیت جہاں مادی قانون قدرت سے ثابت ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے روحانی نظام کا بھی یہی تقاضہ ہے اوراسکی سنت بھی یہی ثابت کرتی ہے کہ نبوت کے بعد خلافت کانظام بہر حال قائم ہونا چاہئے کہ ساری دنیا کے مسائل کا حل اسی نظام میں ہے ۔
خلافت کا مقام
خلافت کی اہمیت کا ایک پہلو خلیفہ کے مقام سے تعلق رکھتا ہے ۔ ذیل کی سطور میں اسی مو ضوع سے خلافت کی اہمیت بیان کی جائے گی ۔ و باللہ التوفیق۔ خلافت ایک نعمت رباّنی ہے اس کو خلافتِ رحمت بھی کہتے ہیں۔ اس منصب پر فائز ہونیوالا مبارک وجود ، حضرت سید محمد اسماعیل صاحب شہید ؒ کے الفاظ میں’’ سایہ رب العالمین ، ہمسایہ ٔ انبیاء ومر سلین ، سرمایہ ترقی دین اور ہم پا یہ ملائکہ مقربین ہوتا ہے ۔ وہ دائرہ امکان کا مرکز ، تمام وجوہ سے باعث فخر اور ارباب عرفان کا افسر ہوتا ہے ۔ اس کا دل تجلّی ٔ رحمان کا عرش اور اس کا سینہ رحمت وافرہ اور خداتعالیٰ کے جلال اور اقبال کا پرتوہ ہوتاہے ۔ اس سے اعراض معارضہ تقدیر اور اس سے مخالفت ، مخالفتِ ربّ قدیر ہے‘‘۔ حضرت سید صاحب موصوف خلیفہ راشد کا اعلیٰ و ارفع اورپاکیزہ مقام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ جو صاحب کمال اس کے ساتھ اپنے کمال کا موازنہ کرے وہ مشارکت حق تعالیٰ پر مبنی ہے۔ اہل کمال کی یہی علامت ہے کہ اس کی خدمت میں مشغول اور اس کی اطاعت میں مبذول رہیں ۔اس کی ہمسری کے دعویٰ سے دستبردار رہیں اور اسے رسول کی جگہ شمار کریں ‘‘۔(منصبِ امامت صفحہ ۸۶،۸۷)
آ پ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں ۔
’’ امام، رسول کے سعادت مند فرزند کی مانند ہے ، تمام اکابرِ امت و بزرگا نِ ملت ملازموں اور خدمتگاروں اورجانثار غلاموں کی مانند ہیں ۔ پس جس طرح تمام اکابر سلطنت وار کان مملکت کے لئے شہزادۂ والا قدر کی تعظیم ضروری ہے اور اس سے توسلّ واجب ہے ، اوراس سے مقابلہ نمک حرامی کی علامت اور اس پر مفاخرت کا اظہار بد انجامی پر دلالت کرتا ہے ، ایسا ہی ہر صاحبِ کمال کے حضور میں تواضع اورتذلّل سعادتِ دارین کا باعث ہے۔ اور اس کے حضور اپنے علم اور کمال کو کچھ سمجھ بیٹھنا دونوں جہان کی شقاوت ہے ۔ اس کے ساتھ یگانگت رکھنا رسول سے یگانگت ہے اور اس سے بیگانگی ہو تو خود رسول سے بیگانگی ہے‘‘۔(منصب امامت صفحہ ۷۹)
خلیفۂ وقت نبی کے بعد ایک اعلیٰ اور منفرد مقام پر فائز ہوتا ہے،اس کو خداتعالیٰ قائم کرتاہے اور وہی قائم رکھتا ہے اس کی ہر طرح سے تائید و نصرت کرتا ہے ۔اسے علمِ لدّنی عطا فرماتاہے ، اسے خود حکمت سکھاتا ہے ۔ قرآ ن کریم کے معانی ، مطالب ، اسرار، رموز اور حقائق دقائق سے مالا مال کرتا ہے جس کی بدولت وہ قرآ ن کریم کی تفسیر سب سے بہتر سمجھتا اور بیان کرتا ہے۔خدا خود اس کی ہر مشکل مرحلہ پر رہنمائی کرتاہے ، ہر ابتلاء میں اسے پورا اترنے کی توفیق بخشتا ہے۔اس لئے لازم ہے کہ ہر قسم کے احکام کے اجراء اور مہمات کا انجام اس کے سپرد کیا جائے ۔اورہر شخص خواہ وہ مجتہد ہو یا مقلد ، عالم ہو یا عامی ، عارف ہو یا غیر عارف ، اپنے آپ کو اس کے سامنے لاشیٔ محض سمجھے ۔اس کے حضور اپنی زبان بند رکھے۔ کسی بھی طرح اس کے سامنے استقلال کا دم نہ مارے ۔اس کے اختیارات خود مقررکرنے کی کوشش نہ کرے ۔ بلکہ اس کے مقام کا تقاضا ہے کہ یہ کام ا سی پر چھوڑا جائے۔جیسے سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں :
’’ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھا دینا اورپھر بیعت لے لینا ہے ۔ یہ کام تو صرف ایک ملاّبھی کرسکتا ہے اس کے لئے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں۔اور میں اس قسم کی بیعت پرتھوکتا بھی نہیں ۔بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اورخلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے ‘‘۔
کامل اطاعت انسان کو صحابہ کے مقام تک پہنچادیتی ہے ۔ اورآ ج اسکے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان تنزل کا شکار ہیں۔گو آج کے مسلمان نمازیں بھی پڑھتے ہیں ، زکوٰۃ بھی دیتے ہیں اورحج بھی کرتے ہیں ، مگر ان میں وہ ترقی نہیں جو صحابہ میں تھی، حالانکہ صحابہ بھی یہی نمازیں پڑھتے ، زکوٰۃ دیتے اور حج کرتے تھے ۔ اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ صحابہ میں ایک نظام کے تابع ہونے کی وجہ سے اطاعت کی روح حد کمال تک پہنچی ہوئی تھی۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے صحابہ اسی وقت اس پرعمل کے لئے کمر بستہ ہو جاتے اوراطاعت کی یہ روح آ ج کے مسلمانوں میں نہیں ہے۔ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ آج کا مسلمان اپنے اس بنیادی وصف سے عاری ہے ۔ اس کا جواب سید نا حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں یہ ہے کہ:
’’ اطاعت کا مادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا ، پس جب خلافت ہوگی اطاعت رسول بھی ہوگی ‘‘ (تفسیر کبیر سورۃ نور )
اس نقطہ نظر سے خلافت کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ترقی ایمان اور قبولیتِ اعمال کی اب نظامِ خلافت کے سوا کوئی صورت نہیں ہے ۔ جسے متاع ایمان اور عاقبت کی فکر ہو اسے لازم ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی قائم کردہ خلافت کے نظام کے ساتھ ہوجا ئے جو آج جماعت احمدیہ کے سوا دنیا میں کسی اور کے پاس نہیں ہے ۔
برکات خلافت
میرے مضمون کا دوسرا حصّہ برکاتِ خلافت سے متعلق ہے خلافت کی برکات بنیادی اور اصولی طور پر دو قسم کی ہیں۔
۱ ۔ تمکنتِ دین ۔ جس کا ذکر وَلَیُمَکّنَنَّ لَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ کے الفاظ میں فرمایا ۔
۲۔ازالہ خوف ۔ اس کا ذکر وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْناً۔کہہ کر فرمایا ۔
خلیفہ کے تقرر کا طریق ایک عظیم نعمت
اس کی ایک بہت بڑی برکت اسکے قیام کے وقت اور طریق سے تعلق رکھتی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مختلف قومیں اپنے لیڈر کاانتخاب کرتی ہیں تو انتخابی مہمات کے دوران زبردست فسادات ہوتے ہیں ،پھر جب کوئی لیڈر منتخب ہو جاتا ہے تو اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا عرصہ اقتدار کب تلک ہے اور کس گھڑی اس کو بے عزت کرکے کرسیٔ اقدار سے الگ کردیا جا ئے گا ۔ لیکن دنیا میں خلافت ہی واحد نظام ہے جس میں ایک امام کے بعد دوسرے امام کے انتخاب کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا اصول وضع فرمادیا ہے جس کے نتیجہ میں کوئی دنگا فساد نہیں ہوتا ۔ ہر کوئی مطمئن اور پر سکون ہوتا ہے۔ اوروہ اصول یہ ہے کہ کوئی شخص خلافت کی خواہش نہ کرے ، بلکہ اس منصب پر خداتعالیٰ جسے مناسب سمجھے گا اسے خود فائز کردے گا اوریہ کہ جسے وہ خلافت کی خلعت پہنا دے اس کے بعد اس خلعت کو اتار نے کا کسی کو بھی حق نہ ہوگا ۔ پس جب کسی کو خلافت کی خواہش نہ ہوگی تو نہ تو کسی کو اس کے حصول کے لئے کوشش کرنی پڑے گی اور نہ ہی کوئی شخص خداتعالیٰ کی طرف سے مقرر ہونے والے امام کے خلاف تحریک چلا کر اسے اس خلعت کو اتارنے پر مجبور کرنے کی جرأت کریگا ۔ اور یوں اس نظام سے وابستہ ہر شخص قلبی و ذہنی طور پر بڑا پر سکون ہوگا ۔
خدائی تائید ونصرت
خلافت کے تمام کا رو بار اور اس کی برکات کی بنیاد خدائی تائید و نصرت پرہے جو بجائے خود خلافت کی ایک عظیم الشان برکت ہے ۔ گویا خلافت کی ساری عمارت ہی برکات سے معمور ہے اوراس عمارت کی بنیادیں بھی برکات سے ہی بھری گئی ہیں۔ چنانچہ تمکنت دین کے ہر قدم پر ، خوف کے ہر لمحہ میں خداتعالیٰ خلافت کی برکت سے اپنے بندوں کی خاص تائید ونصرت فرماتا ہے ، جس کے نتیجہ میں وہ ہرمرحلہ پر سرخرو ہو کر نکلتے ہیں ۔ ہر قدم پر کامیابی انکے پاؤں چومتی ہے ۔
تمکنتِ دین اور خلافت کی برکات
جیسا کہ اوپر یہ صراحت سے بیان ہوچکا ہے کہ نبی تو صرف تخمریزی ہی کر پاتا ہے کہ اسے خدا کی طرف سے بلاوا آ جاتا ہے ۔ دین کی اشاعت ، اس کی وسعت ، اس کااستحکام ، فتوحات ، منظم اور مربوط طور پر اس کی عمارت کو بلند کرنا اور یہ سب باتیں جو بعد میں آ نیوالے خلفاء کے زمانوں میں پوری ہوتی ہیں وہ خلافت کی برکات ہوتی ہیں ۔خدا تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کو آ پکے دورِ خلافت کی ابتدا ء میں فرمایا :
مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت !تم پر خلافت کی رحمتیں یا بر کتیں نازل ہوتی ہیں۔ (منصب خلافت صفحہ ۳۷ )
خدا تعالیٰ کا یہ قول ہر زمانہ میں قائم ہونے والی خلافت کے ہردور میں پورا ہوتا چلاآ یا ہے ۔ حضرت موسیٰ کی وفات انکے مشن کی تکمیل سے پہلے ہی ہو گئی تھی ۔چنانچہ آ پکے بعد بھی خلافت کا نظام قائم ہوا ۔ چنانچہ بائبل میں ہے :
’’ جب خدا وند کا بندہ موسیٰ مرگیا تو یوں ہوا کہ خدا وند نے نون کے بیٹے یشوع کو جو موسیٰ کا خادم تھا خطاب کر کے فرمایا کہ میرا بندہ موسیٰ مر گیا ہے، سو اب تو اُٹھ اوراس یردن پار اس ساری قوم سمیت اس سر زمین کو جومیں انہیں یعنی بنی اسرائیل کو دیتا ہوں اُتر جا ۔۔۔ ساری سر زمین اوردریائے اعظم تک جو سورج کے ڈھل جانے کی طرف ہے تمہاری سرحد ہوگی ۔ میں تجھ سے غافل نہ ہونگا ۔او ر نہ تجھے چھوڑوں گا ۔ مضبوط ہو اور دلا و ری کر ‘‘ ۔(یشوع کی کتاب باب ۱۔۱ ٓ یت ۱تا ۷)
چنانچہ حضرت یوشع نے پوری ہمت اور دلاوری کا مظاہرہ کیا اور بالآ خر انہیں فتح نصیب ہوئی۔ اوردریائے یردن کے اس پار کا علاقہ، ارض مقدّسہ انہیں مل گئی ۔ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کو یہ فتح اس لئے نصیب ہوئی اور حضرت موسیٰ کا تشنہ تکمیل منصوبہ اس لئے پورا ہوا کہ قوم موسیٰ نے نظام خلافت کو قبول کیا اور اس کی اطاعت میں اپنے آپ کو فنا کردیا ۔ اوراسطرح سے تمکنتِ دین کا خدائی وعدہ پورا ہوا ۔
ارکان دین کی حفاظت اورتمکنتِ دین
خلیفۂ وقت کو خداتعالیٰ کی طرف سے ایسا ولولہ اور ایسی امنگ عطاہوتی ہے کہ وہ اس کی بدولت تمکنتِ دین کے لئے ہر قسم کے نامساعدحالات کے باوجود کسی بھی ضروری اقدام کرنے سے گریز نہیں کرتا ۔سید نا حضرت ابو بکر صدیقؓ جب خلیفہ ہوئے تو مسلمان کہلانے والے بعض اعراب نے زکوٰۃ دینے سے انکا ر کردیا ۔یہ بڑا ہی نازک وقت تھا ایک طرف قیصرروم کے حملہ کا خطرہ ، دوسری طرف اعراب کی بغاوت اورانکی طرف سے برپا فتنۂ ارتداد ، یہ مسائل بڑی خوفناک اورگھمبیر شکل اختیار کئے ہوئے تھے ۔ ایک عام انسان اس حالت میں بمشکل ان فتنوں پر ہی قابو پانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اسے مثبت اقدام کی سکت ہی نہیں ہوتی ۔ مگر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے فوری طور پرزکوٰۃ دینے سے انکا ر کرنے والے مسلمانوں کی سرکوبی کا پروگرام بنایا اور اس کے لئے ٹارگٹ مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان میں سے کوئی شخص آ نحضرت ﷺ کے زمانہ میں بکری باندھنے والی رسی کی بھی زکوٰ ۃ دیتا تھا اور اب اس کے انکارکرتاہے تو میں اس کی زکوٰ ۃ لیکر رہوں گا۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۵۵)
یہ دلیری ، دین کے ارکا ن کو پوری شدت کے ساتھ قائم کرنے کی یہ ہمت خلافت کی برکت سے ہی تھی ۔ اسی واقعہ سے خلافت کے ذریعہ تمکنت کے ایک اور پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔ اور وہ یہ کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے اس بروقت اقدام سے دین کی راہ میں رخنہ ڈالنے کے تمام دروازے بند کردئیے گئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خداداد فراست سے اس فتنہ کو ہمیشہ کے لئے کچل کر رکھ دیا اور اس طرح سے تمکنت دین کی شاندار مثال قائم کی۔
بیت المال کا استحکام اورتمکنتِ دین
تمکنتِ دین کا ایک حد تک بیت المال کے استحکام کے ساتھ بھی تعلق ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے قائم کردہ نظامِ خلافت کو مالی لحاظ سے بڑی برکت بخشتا ہے تا تمکنت دین کی خاطر خلیفۂ وقت کو جس قدر اموال کی ضرورت ہو وہ میسر آ جائیں ۔ نظام خلافت کی تاریخ شاہد ہے کہ بعض خلفاء انتہائی مہیب قسم کے مالی خطرات اور دگرگوں حالات میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ حالات مالی فراوانی اورخوشحالی سے بدل گئے اوراس طرح سے یہ سبق بھی دیا گیاکہ ہر قسم کی خوشحالی خلافت کے ساتھ وابستگی میں ہے ۔
سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے جانشین سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے عہد خلافت کی ابتداء نہایت شدید قسم کے مالی بحران کی فضا میں ہوئی ۔مالی حیثیت رکھنے والے لوگوں نے آ پ کی بیعت سے انکار کردیا اورلاہور چلے آ ئے اور یہی نہیں بلکہ روانگی کے وقت سارا خزانہ بھی لوٹ کر لے گئے ۔حضر ت مصلح موعودؓ نے جب حساب کتاب دیکھا تو خزانہ میں صرف سترہ روپے تھے جبکہ سکول کے اساتذہ کی تنخواہوں کے علاوہ کئی سو کا قرض جماعت پر تھا ۔ ان نامسائد مالی حالات میں آپ نے ہر چہ باد کہتے ہوئے خدا کی تھمائی ہوئی خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اورخدا تعالیٰ کے فضلوں اوراس کی رحمتوں اوربرکتوں کی بارش میں اپنے کارواں کو لیکر آ گے بڑھنے لگے ۔چند سال میں جماعت کی مالی حالت بڑی خوشکن ہو گئی ۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرض تو الگ رہے ، حضورؓ نے اپنی خلافت کے چھٹے سال یعنی 1920ء میں برلن میں مسجد تعمیر کرنے کے لئے جماعت کی خواتین سے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تو جماعت کی خواتین نے صرف ایک ماہ کے اندر ندر یہ خطیر رقم جمع کرکے اپنے آ قا کے حضور پیش کردی ۔ ایسے ہی ایمان افروز واقعات او ر خلافت کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے سید نا حضر ت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایک دفعہ میں نے ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا ۔لیکن اب میں خداتعالیٰ سے اربوں روپیہ مانگا کرتا ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ایک لاکھ روپیہ مانگ کر غلطی کی ۔۔۔اللہ تعالیٰ نے کہا ہم تیری اس دعا کو قبول نہیں کرتے جس میں تو نے ایک لاکھ مانگا ہے ۔ہم تجھے اس سے بہت زیادہ دیں گے تاکہ سلسلہ کے کام چل سکیں۔اب اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو دیکھ کر کہ میں نے ایک لاکھ مانگا تھا مگر اس نے ۲۲لاکھ سالانہ دیا، میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں ایک کروڑ مانگتا تو ۲۲ کروڑ سالانہ ملتا ۔ ایک ارب مانگتا تو ۲۲ ارب سالانہ ملتا ، ایک کھرب مانگتا تو ۲۲ کھرب سالانہ ملتا اوراگر ایک پدم مانگتا تو ۲۲ پدم سالانہ ملتا ۔ اوراس طرح ہماری جماعت کی آ مد امریکہ اور انگلینڈ دونوں کی مجموعی آمد سے بڑھ جاتی ۔ پس خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سی برکات وابستہ کی ہوئی ہیں۔تم ابھی بچے ہو تم اپنے باپ دادوں سے پوچھو کہ قادیان کی حیثیت جو شروع زمانہ خلافت میں تھی وہ کیا تھی ۔ اورپھر قادیان کو اللہ تعالیٰ نے کس قدر ترقی بخشی تھی ‘‘۔ (الفضل ۵؍ ستمبر ۱۹۵۶ء)
پس ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خلافت کی برکات سے جماعت احمدیہ کو مالی فراوانی دیتاچلاآ یا ہے ۔چنانچہ جماعت کا بجٹ سینکڑوں سے ہزاروں میں ، ہزاروں سے لاکھوں میں او ر لاکھوں سے کروڑوں میں اور اب بفضلہ تعالیٰ اربوں میں جا چکا ہے۔ خلیفہ وقت فضل عمر فا ؤنڈیشن کے لئے ۲۵ لاکھ کا مطالبہ کرتے ہیں تو جماعت ۳۳ لاکھ پیش کر دیتی ہے ۔ افریقہ کی علمی اور طبی خدما ت کے منصوبہ، مجلس نصرت جہاں کے لئے خلیفۂ وقت ۳۳ لاکھ کی تحریک کرتے ہیں اور احباب جماعت ۵۲ لاکھ روپیہ اپنے آ قا کے قدموں میں ڈال دیتے ہیں۔ پھرخلیفہ ٔ وقت صد سالا نہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کے لئے اڑھائی کروڑ کی تحریک کرتے ہیں تو جماعت قریباً ۱۵ کروڑ روپے کے وعدے پیش کرکے انکی ادائیگی کی فکر میں لگ جاتی ہے ۔ اور اب خلا فت رابعہ کے مبارک دور میں جس طرح خدا تعالیٰ نے مالی وسعتیں بخشی ہیں وہ سب کے سا منے ہیں۔ اب جماعت کروڑوں سے اربوں کی حدود میں داخل ہو چکی ہے ۔
غیر متزلزل ایما ن
خلافت کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ اس کے طفیل مومنوں کو مضبوط چٹانو ں جیسا غیر متزلزل ایما ن بخشا جا تا ہے ۔ وہ کسی قسم کی لالچ میں نہیں آ تے وہ کسی کے ور غلائے نہیں پھسلتے۔۵ ستمبر ۱۹۵۶ء کے اخبا ر الفضل میں ایک واقعہ درج ہے جو اس امر کی سچی تصویر پیش کرتا ہے ۔ اوروہ یہ ہے کہ جب ۱۹۱۴ء میں خلافت ثانیہ کا انتخاب ہوا تو پیغامیوں نے اس خیال سے کہ جماعت کے لوگ خلافت کو کسی طرح چھوڑ نہیں سکتے یہ تجویز کیا کہ کوئی اورخلیفہ بنالیا جائے اوراس کے لئے سیالکوٹ کے ایک صوفی منش دوست میر عابد علی عابد کا انتخاب کیا گیا ۔ پیغامیوں کا یہ خیال تھا کہ چونکہ میر صاحب صوفی منش اور عبادت گزار آ دمی ہیں اسلئے الوصیت کے مطابق چالیس آ دمیوں کا انکی بیعت پر متفق ہو جا نا کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔ چنانچہ مولوی صدرالدین صاحب اوربعض اور دوسرے لوگ رات کے وقت انکے پاس گئے اوراپنے آ نے کی غرض بیان کی جس پر وہ آمادہ ہوگئے ۔ اسکے بعد وہ پیغامی ہری کین لیکر ساری رات قادیان میں دو ہزار احمدیوں کے ڈیروں پر پھر تے رہے ، لیکن چالیس آدمی تو ایک طرف وہ کسی ایک آ دمی کو بھی میر صاحب کی بیعت پر آمادہ نہ کر سکے ۔ اورجب انہیں میر صاحب کی بیعت کے لئے چالیس آ دمی بھی نہ ملے تو وہ مایوس ہو گئے ۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ان دنوں کانقشہ اتارتے ہوئے فرمایا:
’’خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک جماعت کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کر دیا تھا اوراس وقت جمع کر دیا تھا جب بڑے بڑے احمدی میرے مخالف ہوگئے تھے اور کہتے تھے کہ اب خلافت ایک بچے کے ہاتھ آ گئی ہے اس لئے جماعت آج نہیں تو کل تباہ ہو جائے گی ۔ لیکن اس بچہ نے۴۲ سا ل پیغامیوں کامقابلہ کر کے جماعت کو جس مقام تک پہنچایا وہ تمہارے سامنے ہے ۔ شروع میں ان لوگوں نے کہا تھا کہ ۹۸ فیصدی احمدی ہمارے ساتھ ہیں لیکن اب وہ دکھائیں کہ جماعت کا ۹۸ فیصدی جو انکے ساتھ تھا کہاں ہے۔ کیا وہ ۹۸ فیصدی ملتان میں ہیں ، لاہور میں ہیں ، آ خر وہ کہاں ہیں ۔ کہیں بھی دیکھ لیا جائے انکے ساتھ جماعت کے دو فیصدی بھی نہیں نکلیں گے‘‘ ۔ (الفضل ۲۸اپریل ۱۹۵۷ء)
قرب الٰہی کا حصول
دین کی تمکنت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ماننے والوں کاخداتعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق ہو اور ان کو خدا تعالیٰ خاص قرب حاصل ہو۔اوریہ امر ہو ہی نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کے سا تھ اس کا تعلق نہ ہو ۔ خلیفۂ وقت زمین پرخداتعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اوراسے یہ برکت دی جاتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ اوراسکے بندوں کے درمیان رابطہ کا کام کرے اور جو خدا تعالیٰ تک پہنچنا چاہے اس کی راہنمائی کرے ۔ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں ۔
’’انبیاء اورخلفاء اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول میں ممد ہوتے ہیں ۔ جیسے کمزور آدمی پہاڑ کی چڑھائی پرنہیں چڑ ھ سکتا تو سونٹے یا کھڈ سٹک کا سہارا لیکر چڑھتاہے ۔ اسی طرح انبیاء اورخلفاء لوگوں کے لئے سہارے ہیں ۔ وہ دیواریں نہیں جنہوں نے الٰہی قرب کے راستوں کو روک رکھا ہے بلکہ وہ سونٹے اور سہارے ہیں جنکی مدد سے کمزور آ دمی بھی اللہ کا قرب حاصل کرلیتا ہے‘‘۔(الفضل ۱۱ ستمبر۱۹۳۷ء)
ا حکام دین قرآ ن کریم کی تشریح
خلیفۂ وقت خداتعالیٰ کا نمائندہ ہونے کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے کلام اوراسکے احکام کو سب سے بہتر سمجھتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اسکی راہنمائی کر رہا ہوتاہے۔ اسے اپنے الہام اوروحی کے ذریعہ نئے نئے حقائق اوردقائق سے نوازتا ہے جن سے روشنی پاکر وہ قرآ ن کریم کے نئے نئے معانی اوراسرار و رموز لوگوں کے سامنے پیش کرتاہے اور احکام قرآنی پر عمل کی صحیح راہوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس لحاظ سے بھی خلیفہ کا وجود بڑا ہی بابرکت ہے۔ اسی لئے آ نحضور ﷺ نے اپنی امت کو نصیحت فرمائی تھی کہ علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیّین ۔سید نا حضرت مصلح موعودؓ اسی حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں ۔
’’ خلفاء کے ذریعہ سنن اور طریقے قائم کئے جاتے ہیں ورنہ احکام تو انبیاء پرنازل ہو چکے ہوتے ہیں ۔ خلفاء دین کی تشریح اوروضاحت کرتے ہیں اورمغلق امور کو کھول کر لوگوں کے سامنے بیا ن کرتے ہیں اورایسی راہیں بتاتے ہیں جن پرچل کر اسلام کی ترقی ہوتی ہے‘‘۔(الفضل ۴ ستمبر۱۹۳۷ء)
کامیابی کی کلید
ہر انسان چاہتاہے کہ اسے ہر میدان میں کامیابی ملے ، اسے فتح نصیب ہو ۔ ایسی خواہش رکھنے والے ہر انسان کے لئے خداتعالیٰ کا یہ پیغام ہے کہ وہ اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے آ پ کو خلافت کے ساتھ وابستہ کرلے ۔ اس کے نتیجہ میں اس کی کامیابی اورفتح یقینی ہو گی۔ خلافت کے ساتھ یہ وابستگی کیسی ہونی چاہئے؟ اس بارے حضرت مصلح موعودؓ نے فر مایا ہے :۔
’’ امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم پرجو مومن اٹھاتا ہے اسکے پیچھے اٹھاتا ہے اپنی مرضی اورخواہشات کو اس کی مرضی اورخواہشات کے تابع کرتا ہے ۔اپنی تدبیر ں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے ۔ اپنے ارادوں کو اسکے ارادوں کے تابع کرتاہے ۔ اپنی آ رزوؤں کواس کی آ رزوؤں کے تابع کرتا ہے اوراپنے سامانوں کو اسکے سامانوں کے تابع کرتاہے ۔ اگر اس مقام پرمومن کھڑے ہوجائیں تو انکے لئے کامیابی اورفتح یقینی ہے ‘‘۔ (الفضل ۴ ستمبر۱۹۳۷ ء)
پس کامیابی اسے ملتی ہے جو اپنے آ پ کو پوری طرح خلافت کے ساتھ وابستہ رکھتا ہے ، کامیابی اسے ملتی ہے جو اپنا سب کچھ خلافت پرنثار کردیتا ہے۔ کامیابی اسے ملتی ہے جو خلیفۂ وقت کی دعائیں حاصل کرتا ہے کیونکہ ’’ اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اسکی دعاؤں کی قبولیت کو بڑھا دیتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اسکے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے‘‘ ۔(منصب خلافت صفحہ ۳۲ )
برکات خلافت کا دوسرا عظیم الشان پہلو ۔ازالۂ خوف
جب خلافت کے ساتھ وابستہ مومنوں پر خوف کے حالات آ تے ہیں ،اس وقت بھی خداتعالیٰ جماعت پربارش کی طرح برکتیں نازل کرتا ہے۔ مضمون کا یہ حصہ بھی برکات خلافت کی ایک طویل داستان لئے ہوئے ہے۔ جو تاریخ عالم کے صفحات پربکھری پڑی ہے۔ اس بارہ میں یاد رہے کہ ایک تو خوف کی حالت ا س وقت طاری ہوتی ہے جب نبی یا اس کا خلیفہ اپنے آ سمانی نقطہ کی طرف اٹھایا جاتا ہے اورمومن بشریت کے تقاضا کے تحت مارے غم کے دیوانے ہو جاتے ہیں اورپریشان ہو جاتے ہیں اس بات پر کہ اب کیا ہوگا ؟ چنانچہ ہمیشہ ہی یہ دیکھنے میں آ یا ہے کہ خوف کے اس وقت میں خداتعالیٰ ان میں سے ہی کسی نیک بندے کو کھڑا کرکے ان کی تسلّی کے سامان کرتا ہے ۔اس کے بعد اس جماعت کو خوف کے بعض اورحالات پیش آ تے ہیں جبکہ ابلیسی فطرت رکھنے والے عناصر اسکے مقررکردہ خلیفہ کے با لمقابل کھڑا ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جیسے: ’’ حضرت عائشہؓ کا قول ہے کہ بباعث چند د رچند فتنوں اوربغاوت اعراب اورکھڑا ہونے والے جھوٹے پیغمبروں کے میرے باپ پرجبکہ وہ خلیفہ رسول اللہ ﷺ مقرر کیا گیا ، وہ مصیبتیں پڑیں اور وہ غم دل پر نازل ہوئے کہ اگر وہ غم کسی پہاڑ پر پڑتے تو وہ بھی گرپڑتا اورپاش پاش ہو جاتا۔مگر چونکہ خدا کا یہ قانون قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے شجاعت اور استقلال اور فراست اور دل قوی ہونے کی روح اس میں پھونکی جا تی ہے جیسایشوع کی کتا ب باب اوّل آیت ۶ میں حضرت یشوع کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مضبوط ہو اور دلاوری کر یعنی موسیٰ تو مر گیا اب تو مضبوط ہو جا یہی حکم قضا و قدر کے رنگ میں ، نہ شرعی رنگ میں،حضرت ابوبکرؓ کے دل پر بھی نازل ہوا تھا ‘‘۔(تحفہ گو لڑویہ صفحہ ۵۸ )
پس خدا تعالیٰ خلیفۂ وقت کو ایسی غیر معمو لی شجاعت اور بہادری اور اسکے سا تھ ایسی فراست عطا فرما تا ہے کہ اگر ہر شخص اس کے سا تھ اطاعت کا کامل نمونہ دکھا دے تو ہر قسم کی مشکلات اور آ فات و مصائب کے بادل دیکھتے ہی دیکھتے چھٹ جاتے ہیں ۔دشمن زیر ہو جا تاہے اور فرشتے آ سمان سے ترقیات والی نئی زمین او ر عظمت وسطوت وا لا نیا آسمان پیدا کردیتے ہیں ۔ لیکن شرط کا مل وفا او ر فرمانبردا ری ہے ۔ اور یہ یاد رہے کہ یہ باتیں محض منہ کی باتیں نہیں ، یہ ماضی کے قصہ ہائے پارینہ نہیں ، یہ اساطیر الاوّلین نہیں۔ آ ج یہ ہر احمدی کا زندہ احساس ہے ، اس کے دل ودماغ او ر جاگتی آ نکھوں اورسنتے کا نو ں کی با لکل سچی گوا ہی ہے ۔
سید نا حضرت ابو بکرصدیقؓ کے عہد مبارک میں کیا ہوا ۔ سا را عرب بغاوت پر ا ٓ ما دہ ہو گیا ، اندرونی طور پر زکوۃ سے انکا ر اور ارتداد کے فتنے الگ تھے او ر بیرونی طور پر جھوٹی نبوت کے دعویداروں اور رومی حکومت کے حملہ کا منصوبہ الگ شدید خوف کا باعث بنے ہوئے تھے ۔ ان تمام امور کے ملنے سے خوف کا ایسا عالم طاری تھا جس میں کسی عام شخص کا بس چل ہی نہیں سکتا ۔ لیکن خدا نے اپنے اس بندہ کو ایسا قوی قلب بخشا اور ایسی روحِ اقدام عطا فرمائی کہ آ پ نے دیکھتے ہی دیکھتے ان تمام فتنوں پر پوری طرح قابو پالیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں ایسا سکون ہو گیا کہ گویا کبھی کچھ ہوا ہی نہ تھا ۔جب رومی حکومت کے حملہ کے دفاع کیلئے آ نحضرت ﷺ کے تیا ر کردہ لشکرِ اسا مہ کے بھجوانے کا وقت آیا تو اندرونی فتنو ں کے پیش نظر آپ کو یہ لشکر نہ بھیجنے کا مشورہ دیا گیا تا مدینہ کے اندر متوقع فتنو ں کے سدّباب کے لئے یہاں قوت موجود رہے ۔ تو وہ شیر دل جو خدا کے بلائے بولتا تھا بڑے جلال سے گرجا ۔۔۔والذی لا الہ الا ہو لو جرت الکلا ب بارجل از واج النبی ﷺ ما رددت جیشاً وجّہہ رسول اللہ ﷺ ولا حللت لواء عقدہ۔ (تاریخ الخلفا ء صفحہ ۵۵)
کہ مجھے اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں اگر مدینہ میں ازواج مطہرا ت کی لاشوں کو کتے بھی گھسیٹتے پھریں تو پھر بھی میں اس لشکر کو جسے آنحضور ﷺ نے تیار کیا تھا، روک نہیں سکتا ۔ یہی خدا داد جذبہ اقدام اور جرأت تھی جس کی بدولت حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے صرف اڑھا ئی سا لہ دورِ خلافت میں رومی فوجوں کو گا جر مولی کی طرح کا ٹ کر رکھ دیا ۔ آ پکے عہدِ خلافت میں لاکھوں مسلما ن تو ہو نہیں گئے ، اس وقت تو قریباً قریباً وہی مسلما ن تھے جو رسول کریم ﷺ کے زما نہ میں تھے لیکن خلافت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں وہ شان اورامنگ اور جرأت پیدا کردی کہ انہوں نے اپنے مقابل پر بعض اوقات دو د وہزار گنا تعدا د کے لشکر کو بری طرح شکست کھانے پر مجبور کر دیا ۔ ۱۴ سو سا ل کا سفر کرکے جب ہم آ ج کے اس دور کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہا ں بھی یہی وا قعا ت ، یہی حا لا ت دکھائی دیتے ہیں ۱۹۱۴ ء میں انتہا ئی خوف کے عا لم میں خدا کے مسیح کا خلیفہ اس کی قا ئم کر دہ جماعت کی با گ ڈور سنبھا لتا ہے اور اس کا میر کارواں بن کر فوراً ہی اسے تلاطم خیز سمندر سے نکال کر سا حل سکون و اطمینا ن سے ہمکنا ر کر دیتا ہے۔ اور اس کے بعد جب بھی خوف کے حالا ت پیدا ہوتے رہے وہ خدا تعا لیٰ کے فضل سے اپنی جما عت کی ایسے رنگ میں راہنما ئی کر تا رہا کہ دنیا ان کو پیروں تلے کچل ڈا لنا چاہتی ہے مگر وہ آ سما ن کے تا رے بن کر جگمگانے لگتے ہیں ۔
عہدِ خلافت ثانیہ میں ۱۹۳۴ ء کا سال یا دگا ر سا ل ہے کہ اسی سا ل مجلس احرار ،جماعت احمدیہ پر اس طرح حملہ آ ور ہوتی ہے کہ گویا اس کو بالکل نیست و نا بود کرکے رکھ دے گی ۔ مگر نہ صرف یہ کہ وہ اس حملہ میں بری طرح نا کا م ہوتی ہے ۔ بلکہ جماعت احمدیہ ان کی طرف دیکھنے کی بجا ئے اپنے امام کی آواز پر سا ری دنیا میں تبلیغ اسلا م کے لئے تحریکِ جدید کا آ غاز کرکے مثبت اقدا م کرتی ہے ۔ جسکی بدولت آج دنیا کے چاروں کونوں سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں ۔ ۱۹۴۷ ء کا سا ل تاریخ پاکستان کا پہلا سا ل ہے جو بر صغیر کے دوسرے مسلمانو ں کی طرح افراد جماعت احمدیہ پر بھی بڑی مشکل اور خوف کا وقت لایا ۔ اس وقت قادیان کی بستی ہر طرف سے خطر نا ک حد تک خوف کا مر کز بن گئی تھی ۔ مگر جو لوگ خلافت کے سا تھ وابستہ تھے ، چند دنو ں میں ان کا یہ خوف امن میں تبدیل ہو گیا۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ ء اور ۱۹۷۴ ء اور۱۹۸۴ ء میں ہونے وا لے جماعت کے خلاف ملک گیر فسا دات بھی خلافت کی برکت سے کا فور ہوئے اور آج بے شمار گواہ زندہ مو جود ہیں جنہوں نے مخالفین کی طرف سے جماعت کے خلاف بر پاکی ہوئی خطرنا ک سا زشوں کو دھو ئیں کی طرح غائب ہوتے دیکھا ۔
الغرض فتنے اندرونی ہوں یا بیرونی ، خوف اندر سے اٹھے ہو ں یا با ہرسے طا ری کرنے کی کوششیں کی گئی ہوں ہر ابتلا میں اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت کے سا تھ وابستہ جما عتیں خدا کے وعدہ کے بموجب او ر خلافت کی برکا ت کے طفیل ثابت قدم رہیں ۔ اور اس کی زندہ مثا ل اس وقت جماعت احمدیہ ہے ۔
خلافت کی برکا ت کو یا د رکھنے کا ایک طریق
خلافت ایک عظیم نعمت ہے لیکن اس کی عظمت ہم پر بہت بڑی ذمہ دا ریا ں بھی ڈا لتی ہے۔ اور وہ یہ کہ ہم خلافت کے قا ئم رکھنے کی پوری کوشش کریں اور اس کے لئے ہر ممکن قربا نی سے کبھی بھی اورذرہ بھر بھی گریز نہ کریں ۔ لیکن یہ تو اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم میں سے ہر ایک کے دل میں خلافت کا پیار اور اسکی محبت کوٹ کوٹ کر بھر جا ئے ۔ اور ہم اسکے ایک معمولی سے اشارے پر بھی اپنے تن من دھن کو قربا ٰ ن کردینے کے لئے تیار ہوں۔ یہ محبت کیسے پیدا کی جا سکتی ہے ۔ اس کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرما تے ہیں ۔
’’ آ خر میں خدام کو یہ نصیحت کر نا چا ہتا ہوں کہ وہ خلافت کی برکات کو یا د رکھیں ۔ اور کسی چیز کو یا د رکھنے کے لئے پرانی قوموں کا یہ دستور ہے کہ وہ سال میں اسکے لئے خاص طور پر ایک دن مناتی ہیں مثلاًشیعوں کو دیکھ لو ، وہ سال میں ایک دفعہ تعزیہ نکا ل لیتے ہیں تا قوم کو شہادت حسینؓ کا دن یاد رہے ۔ اسی طرح میں بھی خدام کو نصیحت کرتا ہو ں کہ وہ سا ل میں ایک دن ’’ خلا فت ڈے ‘‘ کے طور پر منایا کریں ۔ اس میں وہ خلافت کے قیا م پر خدا تعا لیٰ کا شکریہ ادا کریں ۔ اوراپنی پرانی تاریخ کو دھرا یا کریں۔ اسی طرح وہ رؤ یا کشوف بیان کئے جایا کریں جو وقت سے پہلے خدا تعا لیٰ نے مجھے دکھا ئے اور جن کو پوراکرکے خدا تعا لیٰ نے ثابت کردیا کہ اس کی برکا ت اب بھی خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں‘‘ ۔ (الفضل یکم مئی ۱۹۵۷ِء )
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍مئی ۱۹۹۹ء تا۲۷؍مئی ۱۹۹۹ء)
No comments:
Post a Comment