ان مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ جو چوہدویں صدی میں امام مہدی کے منتظر تھے
مقام شکر ہے کہ نام نہاد علماءنے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ چوہدویں صدی ختم ہوگئی ہے ۔ سارا عالم اسلام چوہدویں صدی میں امام مہدی کا شدت سے منتظر تھا ۔ اور بعض علماءکہا کرتے تھے کہ چوہدویں صدی ختم نہ ہوگی جب تک امام مہدی ظاہر نہ ہوجائے ۔ اگر چوہدویں صدی میں امام مہدی کے ظہور کے عقیدہ میں مسلمان درست تھے اور یقیناً درست تھے تو معلوم ہوا کہ آنے والا تو چوہدویں صدی میں آچکا لیکن نام نہاد علماءنے اخفاءحق میں مہارت رکھنے کے باعث مسلمانوں کو سچے مہدی کی شناخت سے محروم رکھا ۔ ذیل میں پیش کردہ حوالہ جات سے عالم اسلام کا متفقہ انتظار واضح اور قطعی ثبوت ہے اس امر کا کہ امام مہدی نے چوہدویں صدی میں ظاہر ہونا تھا ۔جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کے بعد چوہدویں صدی میں انکا آخری خلیفہ حضرت ابن مریم کے وجود میں ظاہر ہوا ۔ اس ضمن میں قرآن گواہی دیتا ہے کہ سرور کائنات محمدمصطفیٰ ﷺ مثیل موسیٰ تھے ۔ (ملاحظہ ہو سورۃ مزمل ع ۱)
قرآن مجید اور احادیث سے استدلال کرتے ہوئے علماءاسلام نے چوہدویں صدی سے امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں ۔ اس لئے اس بارے میں عالم اسلام کا اتحاد و اتفاق ایک بڑی زبردست دلیل ہے کہ آنے والے نے واقعی چوہدویں صدی میں آنا تھا ۔ حوالہ جات درج ذیل ملاحظہ فرمائے جائیں ۔
۱۔ نواب صدیق حسن خان
اپنی تصنیف حجج الکرامہ صفحہ ۱۹۵ پر تیرھویں صدی کے فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’وہ وقت قریب ہے جو مہدی اور عیسیٰ کا ظہور ہو کیونکہ علامات صغریٰ سب وقوع میں آگئی ہیں۔‘
۲۔ نواب موصوف کے صاحبزادے ابولخیر نورالحسن اپنی کتاب اقتراب الساعۃ مطبوعہ ۱۳۰۹ھ کے صفحہ ۲۲۱ پر لکھتے ہیں ۔
’اب چوہدویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے تک چھ مہینے گزر چکے ہیں ۔شائد اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل و رحم و کرم فرمائے ۔ ۴، ۶ برسوں کے اندر مہدی ظاہر ہوجاویں ۔‘
۳۔ جناب منشی شکیل احمد سہوانی
’الحق الصحیح فی حیات المسیح‘ (مطبوعہ ۱۳۰۹ھ) پر حضرت مہدی کے بارے میں اس طرح اپنے دلی اضطرار کا اظہار کرتے ہیں ۔
کس لئے مہدی ءبرحق نہیں ظاہر ہوتے
دیر عیسیٰ کے اترنے میں خدایاکیاہے؟
۴۔ جناب ڈاکٹر اقبال
فرماتے ہیں۔
دنیا کو ہے اس مہدی ءبرحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلہ ءعالم افکار
۵۔ اہل تشیع کے رسالہ معارف اسلام لاہور کے ’صاحب الزمان‘ نمبر میں اثر بخاری کے کلام کا نمونہ
اب آ بھی جائیے مرے منتظر امام
مدت سے منتظر ہیں عزا دار آئیے
۶۔ سید حیدر اشک رضوی فرماتے ہیں
آ کہ ہے اب درہم برہم کائنات
ہو چلا شیرازہ ءارض و سما زیر و زبر
۷۔ ظہور حیدر ظہور فرماتے ہیں
الٰہی ختم کردے انتظار امن کی مدت
رہے گا مومنوں کا یہ مقدس امتحاں کب تک
٨۔ ایک کتاب مخزن حرمین کے مصنف سرکار دو عالم ﷺ کو مخاطب ہو کر لکھتا ہے ۔
’خدا را ایسی بے بسی اور نازک حالت میں اپنے نام لےواﺅں پر رحم کرتے ہوئے امام آخرالزماں کو جلد بھیجئے ۔‘
۹۔ اخبار زمیندار ۹ مارچ ۱۹۲۵ء
میں شائع شدہ نظم کا آخری شعر ہے
آنے والے آ زمانے کی امامت کے لئے
مضطرب ہیں تیرے شیدائی زیارت کے لئے
۱۰ ۔ اخبار آگرہ ۲۱ اکتوبر ۱۹۲۵ء
نے لکھا ۔
’ظہور امام الزماں بھی اسی قیامت کے آثار قریبیہ میں سے ایک نمونہ اور ایک شان ہے جو عنقریب اسی سال پورا ہونے والا ہے ۔‘
۱۱۔ اخبار مدینہ یکم دسمبر ۱۹۲۱ء
بعنوان ’ظہور مہدی ؑ ۱۳۴۰ میں‘ شاہ نعمت اللہ ولی کے قصیدہ فارسی کے متعلق الفاظ ’کنت کنزاً ‘ میں وقت ظہور مہدی بتایا گیا ہے جس کے عدد ۱۳۴۰ ہوتے ہیں ۔ ’ حالات موجودہ میں اس بات کی نہایت سختی سے ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ امداد غیبی کا بہت جلد ظہور ہوگا ۔‘
۱۲ ۔ اخبار کشمیر میگزین ۱۷ اکتوبر ۱۹۳۱ء
نے لکھا ۔
’ ۱۳۴۰ ہجری کے متعلق زیادہ پیش گوئیاں ہوچکی ہیں وہ سب پوری اترتی ہیں بلحاظ یقین کرنا پڑتا ہے کہ حضرت نعمت اللہ ولی کا مشہور قصیدہ ءفارسی ہندوستان کے اکثر مقامات پر محفوظ ہے ۔ ان کے فرمان کے مطابق ۱۳۴۰ ہجری تو مسلمانوں کے لئے مبارک سال ہے ۔‘
۱۳ ۔ ایک بزرگ مفتی غلام رسول (متوفی ۱۳۰۷ھ) کا یہ شعر پنجاب میں زبان زدوعام رہا ہے۔
بہت قریب ظہور مہدی دی سمجھو نال یقینے
چن سورج دونو گرہ جاسن وچہ رمضان مہینے
ماہ رمضان میں چاند سورج کو گرہن لگنے کا نشان ۱۸۹۴ءمیں ظاہر ہوا ۔ ہجری سال کے اعتبار سے یہ نشان ۱۳۱۱ھ میں یعنی چوہدویں صدی میں ظاہر ہوا اس آسمانی نشان نے ظہور امام مہدی کے لئے قطعی طور پر چوہدویں صدی کو متعین کردیا ۔ اسی طرح آسمانی صحیفوں اور احادیث نبویہ میں جو علامات ظہور مہدی بیان کی گئی تھیں وہ سب پوری ہوچکی ہیں ۔ جیسا کہ مذکورہ بالا حوالہ جات میں سے پہلے حوالہ میں ہی علامات کے پورے ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے ۔ ’علامات صغریٰ سب وقوع میں آگئی ہیں ۔‘
اگر ضد اور تعصب کی پٹی آنکھوں پر نہ ہو تو ریل گاڑی کی ایجاد ، جنگوں کا وقوع میں آنا اور طاعون مرض کا وارد ہونا ۔ یاجوج ماجوج قوموں کا ظہور یہ سب علامات مہدی موعود کی آمد کا یقینی طور پر پتہ دے چکی ہیں ۔ اور سب سے مقدم خدا کا کلام ہے جو آنحضرت ﷺ کو سورۃ مزمل میں مثیل موسیٰ قرار دے چکا ہے ۔ اور اسلام کے تمام مکاتب فکر اسکا اعتراف کرتے ہیں ۔ یہ مشابہت ’۔۔کما ارسلنا الیٰ فرعون رسولا (مزمل)‘ وضاحت سے بتلا رہی ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کے بعد چوہدویں صدی میں ان کا آخری خلیفہ ظاہر ہوا اسی طرح سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بعد چوہدویں صدی میں انکا خلیفہ ظاہر ہونا تھاسو وہ ظاہر ہوگیا ۔ گویا عالم اسلام کے لئے چوہدویں صدی یہ پیغام دے گئی ۔
یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا
یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا
No comments:
Post a Comment