میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں

از حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ الثانی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مجھ سے بمبئی ریڈیو والوں نے یہ خواہش کی ہے کہ میں انہیں بتاؤں کہ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں؟ جب میں نے اپنے نفس سے یہی سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ اسی دلیل سے جس کی بناءپر کسی اور چیز کو مانتا ہوں یعنی اس لئے کہ وہ سچا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میرے نزدیک مذہب کا بنیادی مسئلہ خدا تعالیٰ کا وجود ہے۔ جو مذہب انسان اور خدا تعالیٰ میں سچا تعلق پیدا کر سکتا ہے وہ سچا ہے اور کسی چیز کا سچا ہونا اس پر ایمان لانے کی کافی دلیل ہے۔ کیونکہ جو سچائی کو نہیں مانتا وہ جھوٹ کو ماننے پر مجبور ہے اور اپنا اور بنی نوع انسان کا دشمن ہے۔ اسلام یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک زندہ خدا ہے ۔ وہ موجودہ زمانہ میں بھی اسی طرح اپنے بندوں کیلئے ظاہر ہوتا ہے جس طرح سابق زمانہ میں۔ اس دعویٰ کو دو طرح ہی پرکھا جا سکتا ہے۔ یا تو اس طرح کہ خود متلاشی کیلئے خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں اور یا اس طرح کہ جس پر خدا تعالیٰ کا وجود ظاہر ہو اس کے حالات کو جانچ کر ہم اس کے دعویٰ کی سچائی کو معلوم کر لیں۔ چونکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان صاحب تجربہ لوگوں میں سے ہوں جن کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کو متعدد بار اور خارق عادت طور پر ظاہر کیا اس لئے میرے لئے اس سے بڑھ کر کہ میں نے اسلام کی سچائی کو خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر ان لوگوں کیلئے جنہیں ابھی یہ تجربہ حاصل نہیں ہوا میں وہ دلائل بیان کرتا ہوں جو ذاتی تجربہ کے علاوہ میرے اسلام پر یقین لانے کے موجب ہوئے ہیں۔

اوّل:

میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان تمام مسائل کو جن کا مجموعہ مذہب کہلاتا ہے۔ مجھ سے زبردستی نہیں منواتا بلکہ ہر امر کیلئے دلیل دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا وجود، اس کی صفات، فرشتے، دعا، اس کا اثر، قضاءو قدر اور اس کا دائرہ، عبادت اور اس کی ضرورت، شریعت اور اس کا فائدہ، الہام اور اس کی اہمیت، بعث مابعدالموت، جنت، دوزخ، ان میں سے کوئی امر بھی ایسا نہیں جس کے متعلق اسلام نے تفصیلی تعلیم نہیں دی اور جسے عقل انسانی کی تسلی کے لئے زبردست دلائل کے ساتھ ثابت نہیں کیا۔ پس اس نے مجھے ایک مذہب ہی نہیں دیا بلکہ ایک یقینی علم بخشا ہے۔ جس سے کہ میری عقل کو تسکین حاصل ہوتی ہے اور وہ مذہب کی ضرورت کو مان لیتی ہے۔
دوم:

میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام صرف قصوں پر اپنے دعوؤں کی بنیاد نہیں رکھتا۔ بلکہ وہ ہر شخص کو تجربہ کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر سچائی کسی نہ کسی رنگ میں اسی دنیا میں پرکھی جا سکتی ہے اور اس طرح وہ میرے دل کو اطمینان بخشتا ہے۔
سوم:

میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام مجھے یہ سبق دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے کام میں اختلاف نہیں ہوتا اور وہ مجھے سائنس اور مذہب کے جھگڑوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ وہ مجھے یہ نہیں سکھاتا کہ میں قوانینِ قدرت کو نظر انداز کر دوں اور ان کے خلاف باتوں پر یقین رکھوں بلکہ وہ مجھے قوانین قدرت پر غور کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ چونکہ کلام نازل کرنے والا بھی خدا ہے اور دنیا کو پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اس لئے اس کے فعل اور اس کے قول میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ پس چاہئے کہ تو اس کے کلام کو سمجھنے کیلئے اس کے فعل کو دیکھ اور اس کے فعل کو سمجھنے کیلئے اس کے قول کو دیکھ اور اس طرح اسلام میری قوتِ فکریہ کو تسکین بخشتا ہے۔
چہارم:

میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ میرے جذبات کو کچلتا نہیں بلکہ ان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ وہ نہ تو میرے جذبات کو مار کر میری انسانیت کو جمادیت سے تبدیل کر دیتا ہے اور نہ جذبات اور خواہشات کو بے قید چھوڑ کر مجھے حیوان کے مرتبہ پر گرا دیتا ہے بلکہ جس طرح ایک ماہر انجنیئر آزاد پانیوں کو قید کر کے نہروں میں تبدیل کر دیتا ہے اور بنجر علاقوں کو سرسبز و شاداب بنا دیتا ہے اسی طرح اسلام بھی میرے جذبات اور میری خواہشات کو مناسب قیود کے ساتھ اعلیٰ اخلاق میں تبدیل کر دیتا ہے۔ وہ مجھے یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ نے تجھے محبت کرنے والا دل تو دیا ہے مگر ایک رفیق زندگی کے اختیار کرنے سے منع کیا ہے یا کھانے کے لئے زبان میں لذت اور دل میں خواہش تو پیدا کی ہے مگر عمدہ کھانوں کو تجھ پر حرام کر دیا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ تو محبت کر مگر پاک محبت اور جائز محبت، جو تیری نسل کے ذریعہ سے تیرے پاک ارادوں کو ہمیشہ کیلئے دنیا میں محفوظ کر دے اور تو بے شک اچھے کھانے کھا۔ مگر حد کے اندر رہ کر تا ایسا نہ ہو تُو تو کھائے مگر تیرا ہمسایہ بھوکا رہے۔ غرض وہ تمام طبعی تقاضوں کو مناسب قیود کے ساتھ طبعی تقاضوں کی حد سے نکال کر اعلیٰ اخلاق میں داخل کر دیتا ہے اور میری انسانیت کی تسکین کا موجب ہوتا ہے۔
پنجم:

پھر میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اس نے نہ صرف مجھ سے بلکہ سب دنیا ہی سے انصاف بلکہ محبت کا معاملہ کیا ہے۔ اس نے مجھے اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے ہی کا سبق نہیں دیا بلکہ اس نے مجھے دنیا کی ہر چیز سے انصاف کی تلقین کی ہے اور اس کے لئے میری مناسب رہنمائی کی ہے۔ اس نے اگر ایک طرف ماں باپ کے حقوق بتائے ہیں اور اولاد کو ان سے نیک سلوک کرنے بلکہ انہیں اپنے ورثہ میں حصہ دار قرار دینے کی تعلیم دی ہے تو دوسری طرف انہیں بھی اولاد سے نیک سلوک کرنے، انہیں تعلیم دلانے، اعلیٰ تربیت کرنے، اچھے اخلاق سکھانے اور ان کی صحت کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے اور انہیں والدین کا ایک خاص حد تک وارث قرار دیا ہے۔ اسی طرح اس نے میاں بیوی کے درمیان بہترین تعلقات قائم کرنے کے لئے احکام دیئے ہیں اور انہیں آپس میں نیک سلوک کرنے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ وہ کیا ہی زریں فقرہ ہے جو اس بارے میں بانی اسلام نے فرمایا ہے کہ وہ شخص کس طرح انسانی فطرت کے حسن کو بھول جاتا ہے جو دن کو اپنی بیوی کو مارتا اور رات کو اس سے پیار کرتا ہے۔ اور فرمایا تم میں سے بہتر اخلاق والا وہ شخص ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے۔ اور پھر فرمایا عورت شیشہ کی طرح نازک مزاج ہوتی ہے۔ تم جس طرح نازک شیشہ کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرتے ہو اسی طرح عورتوں سے معاملہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا کرو۔
پھر اس نے لڑکیوں کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ انہیں تعلیم دلانے پر خاص زور دیا ہے اور فرمایا ہے جو اپنی لڑکی کو اچھی تعلیم دیتا ہے اور اس کی اچھی تربیت کرتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ اور وہ لڑکیوں کو بھی ماں باپ کی جائیداد کا وارث قرار دیتا ہے۔

پھر اس نے حکام سے بھی انصاف کیا ہے اور رعایا سے بھی۔ وہ حاکموں سے کہتا ہے کہ حکومت تمہاری جائیداد نہیں، بلکہ ایک امانت ہے۔ پس تم ایک شریف آدمی کی طرح اس امانت کو پوری طرح ادا کرنے کا خیال رکھو اور رعایا کے مشورہ سے کام کیا کرو اور رعایا سے کہتا ہے کہ حکومت خدا تعالیٰ نے ایک نعمت کے طور پر تم کو دی ہے اپنے حاکم انہیں چنو، جو حکومت کرنے کے اہل ہوں اور پھر ان لوگوں کا انتخاب کر کے ان سے پورا تعاون کرو اور بغاوت نہ کرو۔ کیونکہ اس طرح تم اپنا گھر بنا کر اپنے ہی ہاتھوں اس کو برباد کرتے ہو۔ اور اس نے مالک اور مزدور کے حقوق کا بھی انصاف سے فیصلہ کیا ہے۔ وہ مالک سے کہتا ہے کہ جب تو کسی کو مزدوری پر لگائے تو اس کا حق پورا دے اور اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کر اور جو تیرا دستِ نگر ہو اسے ذلیل مت سمجھ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے جس کی نگرانی اللہ تعالیٰ نے تیرے ذمہ لگائی ہے اور اسے تیری تقویت کا موجب بنایا ہے۔ پس تو اپنی طاقت کو نادانی سے آپ ہی نہ توڑ اور مزدور سے کہا ہے کہ جب تو کسی کا کام اجرت پر کرتا ہے تو اس کا حق دیانتداری سے ادا کر اور سستی اور غفلت سے کام نہ لے۔ اور وہ جسمانی صحت اور طاقت کے مالکوں سے کہتا ہے کہ کمزوروں پر ظلم نہ کرو اور جسمانی نقص والوں پر ہنسو نہیں بلکہ شرافت یہ ہے کہ تیرے ہمسایہ کی کمزوری تیرے رحم کو ابھارے نہ کہ تجھے اس پر ہنسائے۔

اور وہ امیروں سے کہتا ہے کہ غریبوں کا خیال رکھو اور اپنے مالوں میں سے چالیسواں حصہ ہر سال حکومت کو دو، تا وہ اسے غرباءکی ترقی کیلئے خرچ کرے اور جب کوئی غریب تکلیف میں ہو تو اسے سود پر روپیہ دے کر اس کی مشکلات کو بڑھاﺅ نہیں بلکہ اپنے اموال سے اس کی مدد کرو کیونکہ اس نے تمہیں دولت اس لئے نہیں دی کہ تم عیاشی کی زندگی بسر کرو بلکہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ سے دنیا کی ترقی میں حصہ لے کر اپنے لئے ثواب دارین کماﺅ مگر وہ غریب سے بھی کہتا ہے کہ اپنے سے امیر کے مال پر لالچ اور حرص سے نگاہ نہ ڈال کہ یہ تیرے دل کو سیاہ کردیتا ہے اور صحیح قوتوں کے حصول سے محروم کر دیتا ہے۔ بلکہ تم خدا تعالیٰ کی مدد سے اپنے اندر وہ قوتیں پیدا کرو جن سے تم کو بھی ہر قسم کی ترقی حاصل ہو اور حکومت کو ہدایت دیتا ہے کہ غرباءکی اس جدوجہد میں ان کی مدد کرے اور ایسا نہ ہونے دے کہ مال اور طاقت صرف چند ہاتھوں میں محدود ہو جائے۔

اور وہ ان لوگوں سے جن کے باپ دادوں نے کوئی بڑا کام کر کے عزت حاصل کر لی تھی جس سے ان کی اولاد بھی لوگوں میں معزز ہو گئی کہتا ہے کہ تمہارے باپ دادوں کو اچھے کاموں سے عزت ملی تھی تم بھی اچھے کاموں سے اس عزت کو قائم رکھو اور دوسری قوموں کو ذلیل اور ادنیٰ نہ سمجھو کہ خدا نے سب انسانوں کو برابر بنایا ہے اور یاد رکھو کہ جس خدا نے تمہیں عزت دی ہے وہ اس دوسری قوم کو بھی عزت دے سکتا ہے پس اگر تم نے ان پر ظلم کیا تو کل کو وہ قوم تم پر ظلم کرے گی، سو دوسروں پر بڑائی جتا کر فخر نہ کرو بلکہ دوسروں کو بڑا بنا کر فخر کرو کیونکہ بڑا وہی ہے جو اپنے گرے ہوئے بھائی کو اٹھاتا ہے۔

اور وہ کہتا ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک سے اور کوئی قوم دوسری قوم سے دشمنی نہ کرے اور ایک دوسرے کا حق نہ مارے بلکہ سب مل کر دنیا کی ترقی کیلئے کوشش کریں اور ایسا نہ ہو کہ بعض قومیں اور ملک اور افراد آپس میں مل کر بعض دوسری قوموں اور ملکوں اور افراد کے خلاف منصوبہ کریں بلکہ یوں ہو کہ قومیں اور ملک اور افراد آپس میں یہ معاہدے کریں کہ وہ ایک دوسرے کو ظلم سے روکیں گے اور دوسرے ملکوں اور قوموں اور افراد کو ابھاریں گے۔

غرض میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کے پردہ پر میں اور میرے پیارے کوئی بھی ہوں کیا ہوں اور کچھ بھی ہوں اسلام ہمارے لئے امن اور آرام کے سامان پیدا کرتا ہے۔ میں اپنے آپ کو جس پوزیشن میں بھی رکھ کر دیکھتا ہوں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم کی وجہ سے میں اس پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی ترقی اور کامیابی کی راہوں سے محروم نہیں ہو جاتا پس چونکہ میرا نفس کہتا ہے کہ اسلام میرے لئے اور میرے عزیزوں کے لئے اور میرے ہمسایوں کیلئے اور اس اجنبی کے لئے جسے میں جانتا تک نہیں اور عورتوں کے لئے اور مردوں کیلئے اور بزرگوں کیلئے اور خوردوں کیلئے اور غریبوں کیلئے اور امیروں کیلئے اور بڑی قوموں کیلئے اور ادنیٰ قوموں کیلئے اور ان کے لئے بھی جو اتحاد امم چاہتے ہیں اور حب الوطنی میں سرشاروں کیلئے بھی یکساں مفید اور کارآمد ہے اور میرے لئے اور میرے خدا کے درمیان یقینی رابطہ اور اتحاد پیدا کرتا ہے۔ پس میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ایسی چیز کو چھوڑ کر اور کسی چیز کو میں مان بھی کیونکر سکتا ہوں۔(ریویو آف ریلیجنز مارچ ۱۹۴۰ءصفحہ۲۶ تا ۳۱)

No comments:

Post a Comment