دجال کی حقیقت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ میں امت کی اصلاح کے لئے ایک مسیح اور مہدی کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی اور اس کے ظہور کی علامات میں سے ایک ضروری علامت دجال کا ظہور بیان فرمائی۔ دجال کے متعلق عوام الناس میں عجیب و غریب قسم کی کہانیاں مشہور ہیں اور وہ اسے عجیب الخلقت غیر معمولی قوتوں اور طاقتوں کا حامل فرد قرار دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دجال کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشگوئیاں فرمائی ہیں وہ آپ کے رؤیا اور مکاشفات پر مشتمل ہیں جیسا کہ دجال کا ذکر کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔

بَیْنَمَا اَنَا نَائِمٌ اَطُوْفُ بِالْکَعْبَةِ (بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

یعنی میں نے سوتے ہوئے خواب میں کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔

رؤیا، مکاشفات اور پیشگوئیوں سے متعلق یہ مسلمہ اصول ہے کہ اکثر و بیشتر تعبیر طلب ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب میں گیارہ ستاروں، چاند اور سورج کو اپنے سامنے سجدہ کرتے دیکھا تو اس سے مراد ظاہری سورج اور چاند ستارے نہ تھے بلکہ ان کے بھائیوں اور والدین کا زیر احسان ہو کر ان کے پاس آنا تھا۔

اسی طرح مسلم کتاب الفتن باب ذکرابن صیاد میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے ایک یہودی لڑکے ابن صیاد (جو بعد میں مسلمان ہو گیا) پر دجال ہونے کا شبہ کیا اور حضرت عمرؓ نے آپ کے سامنے اس بات پر قسم کھائی کہ یہی دجال ہے اور آپ نے اس کی تردید نہیں فرمائی۔ حالانکہ ظاہراً ابن صیاد میں دجال کی اکثر علامات بالکل مفقود تھیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ بھی دجال کے متعلق پیشگوئیوں کو مجازی رنگ میں سمجھتے تھے اور تمام علامات کا ظاہری اور جسمانی طور پر پایا جانا ہرگز ضروری نہ سمجھتے تھے۔

قرآن کریم، احادیث نبویہ اور دجال کے لغوی معنوں سے پتہ چلتا ہے کہ دجال سے مراد کوئی عجیب الخلقت فرد نہیں بلکہ آج کی ترقی یافتہ مغربی عیسائی اقوام کے مذہبی راہنما ہیں۔ چند دلائل پیش ہیں:۔

۱۔ دجال کے لغوی معنی

(i)۔ کذاب یعنی سخت جھوٹا۔

(ii)۔ مالدار اور خزانوں والا۔

(iii)۔ بڑا گروہ جو اپنی کثرت سے زمین کو ڈھانپ لے۔

(iv)۔ ایسا گروہ جو اموال تجارت اٹھائے پھرے۔ (لسان العرب)

گویا دجال کے لغوی معنی یہ بنے کہ ایک کثیر تعداد جماعت جو تاجر پیشہ ہو اور اپنا تجارتی سامان دنیا میں لئے پھرے جو نہایت مالدار اور خزانوں والی ہو اور جو تمام دنیا کو اپنی سیر و سیاحت سے قطع کر رہی ہو اور ہر جگہ پہنچی ہوئی ہو گویا کوئی جگہ اس سے خالی نہ رہی ہو۔ اور مذہباً وہ ایک نہایت ہی جھوٹے عقیدہ پر قائم ہو اور یہ تمام علامات مغربی ممالک کی مسیحی اقوام کے مذہبی راہنماؤں میں موجود ہیں۔

دجال اور قرآن کریم و احادیث نبویہ

۲۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے فتنہ سے بچنے کے لئے سورۂ کہف کی ابتدائی آیات پڑھنے کا ارشاد فرمایا اور سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات میں مسیحیت کا رد فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:۔

وَّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا (الکہف:۵)

یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے کہ اس کے ذریعہ ان کو ڈرایا جائے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا بنا لیا۔

پس دجال کا فتنہ اور مسیح کا فتنہ ایک ہی شے ہے کیونکہ علاج بیماری کے مطابق ہوتا ہے اگر دجالی فتنہ مسیحی فتنہ سے علیحدہ ہوتاتو ممکن نہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا حکیم انسان دجال سے بچنے کے لئے ایسی آیات پڑھنے کا حکم دیتا جن میں اس کا ذکر تک نہیں۔

۳۔ حدیث میں دجال کے فتنہ کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ (مسلم کتاب الفتن باب فی بقیہ احادیث الدجال)

قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے خطرناک فتنہ مسیحیوں کا مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دینا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:۔

قریب ہے کہ تمہاری اس بات سے آسمان پھٹ کر گر جائیں اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر زمین پر جا پڑیں۔ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا (مریم:۹۲)کہ ان لوگوں نے خدائے رحمان کا بیٹا قرار دیا ہے۔

اور اس خطرناک فتنہ کے بانی مبانی عیسائی پادری ہی ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرارد یا اور وہی دجال ہیں۔

۴۔ سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو فتنوں سے بچنے کی دعا سکھلائی ہے۔

(ا) مغضوب علیھم کا فتنہ جس سے مراد یہود ہیں۔

(ب)۔ الضالین کا فتنہ جس سے مراد عیسائی ہیں۔

یہود کو دجال قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْا (آل عمران:۱۱۳) یعنی جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں ان پر ذلت نازل کی گئی ہے۔ گویا یہود ہمیشہ مغلوب رہیں گے لیکن قرآن کریم اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ مسیح اور مہدی کے زمانہ میں عیسائیت کا غلبہ ہوگا۔

پس معلوم ہوا کہ دجال سے مراد عیسائی پادری ہی ہیں اور اگر اس سے مراد کوئی اور فرد یا قوم ہوتی تو سورہ فاتحہ میں ضرور اس سے بچنے کی دعا سکھلائی جاتی۔

۵۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کے غلبہ کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ‌‌ۚ (آل عمران:۵۶)

ترجمہ:۔ (اے عیسیٰ) جو تیرے پیرو ہیں انہیں ان لوگوں پر جو منکر ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا۔

اس آیت کے مطابق غلبہ اور سلطنت قیامت تک یا عیسائیوں کے لئے مقدر ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کے رسمی متبع ہیں یا مسلمانوں کے لئے جو آپ کے حقیقی متبع ہیں۔ مسلمانوں کو دجال قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ حدیث میں دجال کو کافر کہا گیا ہے لہذا حضرت عیسیٰ ؑ کے رسمی متبع عیسائیوں ہی کو دجال قرار دیا جاسکتا ہے جن کے غلبہ کا اس آیت میں ذکر ہے۔

۶۔ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت تمیم داریؓ نے دجال کو ایک مغربی جزیرہ کے گرجے میں مقید دیکھا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دجال سے مراد مغربی عیسائی قومیں ہیں۔

علامات دجال

(۱)۔ بخاری کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتاب مریم میں ہے کہ ’’دجال دائیں آنکھ سے کانا ہوگا‘‘

پھر فرمایا

’’اس کی بائیں آنکھ بہت چمکتی ہوئی ہوگی گویا کہ وہ ایک موتی ہے‘‘ (کنز العمال جلد۱۴ باب فی خروج الدجال حدیث ۳۸۷۸۴ مکتبۃ التراث حلب)

اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی بائیں آنکھ یعنی دنیا کی آنکھ بہت تیز ہوگی اور دنیوی معاملات میں بڑی گہری نظر رکھے گا لیکن دائیں آنکھ سے اندھا یعنی دین سے بے بہرہ ہوگا۔

۲۔ ’’اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک۔ ف۔ ر لکھا ہوگا جسے پڑھا ہوا اور ان پڑھ دونوں پڑھ سکیں گے‘‘ (صحیح بخاری۔ کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

یعنی اس کا کفر ظاہر و باہر ہوگا۔

۳۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو ظاہری حلیہ کے لحاظ سے ایک تنومند نوجوان، چوڑے سینے والا، سفید رنگ روشن پیشانی والا دیکھا (مصنف ابن ابی شیبہ جلد۱۵ کتاب الفتن ما ذکر فی فتنۃ الدجال)

مغربی اقوام کے یہی خدو خال ہیں جن کے نمائندہ کے طور پر آپ کو ایک شخص دکھایا گیا۔

۴۔ مسلم کتاب الفتن باب فی بقیۃ قصۃ الدجال میں ہے کہ ’’اصفہان کے ۷۰ ہزار یہودی دجال کے ساتھ ہوں گے‘‘

آج یہودی مسیحی اقوام کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔

۵۔ فرمایا دجال روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کی نہر ساتھ لے کر چلے گا۔ اور بڑی تیزی سے دنیا میں پھیلے گا۔ اور ہر طرف فتنہ و فساد اور تباہی پھیلائے گا اور جسے چاہے گا قتل کرے گا اور جسے چاہے گا زندہ کرے گا اس کے حکم پر بارش بھی برسے گی اور زمین کھیتی اگائے گی اور اپنے خزانے نکال باہر کرے گی۔(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

اس حدیث کے ظاہری معنوں کی رو سے دجال کو خدا یا خدائی طاقتیں رکھنے والی ہستی ماننا پڑتا ہے جو اسلام کے بنیادی عقیدہ توحید کے خلاف ہے پس اس حدیث کا یہ مطلب لئے بغیر چارہ نہیں کہ دجال اپنی خصوصیات اور کارگزاریوں سے خدا کے کاموں پر ہاتھ ڈالے گا اور کوشش کرے گا کہ بارش برسانا، بارش بند کرنا، پانی بکثرت پیدا کرنا اور خشک کرنا تمام نظام طبعی پر اسے تصرف حاصل ہوجائے روٹیوں کے پہاڑ اور پانی کی نہر ساتھ ہونے میں ایک تو ان طاقتور مغربی قوموں کے کل دنیا پر اقتصادی اور معاشی ا قتدار اور غلبہ کا ذکر ہے۔ دوسری طرف اس کی ایجاد کردہ سواریوں، ریل گاڑی، ہوائی جہاز، بحری جہاز کی طرف اشارہ ہے جن میں دوران سفر خوراک وغیرہ کے جملہ سامان مہیا ہوتے ہیں۔

۶۔ اس کے ساتھ جنت بھی ہوگی اور آگ بھی ہوگی اور جسے وہ جنت کہے گا وہ حقیقتاً آگ ہوگی۔ (بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللہ ولقد ارسلنا نوحا)

اس کے بھی ظاہری معنی قبول کرنے محال اور خلاف توحید ہیں یہی وجہ ہے کہ شارح بخاری علامہ ابن حجر نے اس کی یہ تشریح کی ہے کہ:۔

دجال انعام و اکرام اور سزا پر قادر ہوگا جو اس کی اطاعت کرے گا اس پر انعام و اکرام کرے گا گویا وہ اسے اپنی جنت میں داخل کرے گا لیکن حقیقتاً اخروی لحاظ سے یہ جہنم ہوگی اور جو اس کی نافرمانی کرے گا وہ اس کی دنیا جہنم بنا دے گا مگر ایسے لوگ اخروی جنت کے وارث ہوں گے۔ (فتح الباری شرح بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

یہ صفات بھی آج عیسائی اقوام میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

۷۔ دجال کے دونوں کانوں میں سے ہر ایک کی لمبائی تیس (۳۰) ہاتھ ہوگی۔ (کنزالعمال۔ کتاب القیامہ من قسم الافعال باب الدجال حدیث ۳۹۷۰۹)

یعنی دجال ایسی ایجادات کرے گا جس سے پیغام رسانی کا کام آسان ہو جائے گا۔ جیسے ٹیلیفون، فیکس، ای میل وغیرہ۔ اور یہ ایجادات مغربی اقوام کی ہی ہیں۔

۸۔ مسیح موعود دجال کو باب لد کے پاس قتل کرے گا۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

لدکے معنی ہیں بحث کرنے والے جھگڑنے والے افراد۔

فرمایا وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا‏ (مریم:۹۸) یعنی قرآن اس لئے آیا ہے کہ تو اس کے ذریعہ بحث کرنے والی قوم کو انذار کرے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود دجالی عقائد باطلہ کو علمی و عقلی دلائل سے توڑے گا اور اس پر فتح حاصل کرے گا چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے عیسائیت کے خلاف ایسے روشن دلائل پیش فرمائے کہ اس کی بنیادیں ہل گئیں۔

۹۔ دجال مسیح موعود کو دیکھ کر نمک کی طرح گھلتا جائے گا اور اللہ تعالیٰ مسیح کے ذریعہ دجال کو ہلاک کرے گا۔ (مسلم کتاب الفتن باب فی فتح قسطنطنیۃ و خروج الدجال و نزول عیسی ابن مریم)

دجال مشرق سے نکلے گا اور وہ زمانہ اختلاف اور فرقہ بندی کا ہوگا اور دجال کا غلبہ چالیس دن رہے گا(یعنی اسے کامل غلبہ حاصل ہوگا) مومن سخت تنگی محسوس کریں گے تب حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لا کر لوگوں کی امامت کرائیں گے اور جونہی وہ رکوع سے سر اٹھائیں گے اللہ تعالیٰ دجال کو قتل کر دے گا اور مسلمان غالب آجائیں گے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد جلد۷ صفحہ۳۴۹۔ مکتبۃ القدسی القاہرہ ۱۳۵۳ھ)

ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ مسیح موعود اور اس کی جماعت کو دجال کے مقابل پر غلبہ عبادات اور دعاؤں کے نتیجہ میں حاصل ہوگا۔

۱۰۔ دجال خانہ کعبہ کا طواف کرے گا۔ (بخاری کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتٰب مریم)

اس حدیث کی تشریح میں علامہ تو ربشتی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت نبی اکرمؐ کی رؤیا اور مکاشفات میں سے ہے اور حضرت عیسیٰ 174کے خانہ کعبہ کے گرد طواف کا مطلب یہ ہے کہ آپ دین کی اصلاح اور اسے قائم کرنے کے لئے دین کے گرد طواف کریں گے اور دجال دین میں فساد اور کجی پیدا کرنے کے لئے دین کے گرد چکر لگائے گا۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد۹ صفحہ۴۱۱ کتاب الفتن باب علامات بین یدی الساعۃ)

اسی شرح مشکوٰۃ میں مولوی عبد الحق صاحب محدث دہلوی نے بھی دجال کے خانہ کعبہ کے طواف سے مراد یہ لیا ہے کہ دجال خانہ کعبہ کی ویرانی اور تباہی کے درپے ہوگا۔ (مظاہر الحق شرح مشکوۃ جلد۴ کتاب الفتن باب علامۃ بین یدی الساعۃ و ذکر الدجال )

یہ علامت بھی مغربی عیسائی اقوام اور ان کے پادریوں میں بدرجہ اتم موجود ہے کیونکہ وہ اسلام پر اعتراض کرنے اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

خر دجال کی علامات

دجال ایک ایسے گدھے پر سوار ہوگا جو روشن ہوگا اس کے دونوں کانوں کے درمیان ستر گز کا فاصلہ ہوگا۔ (مشکوۃ المصابیح کتاب الادب باب العلامات و ذکر الدجال)

دجال کے گدھے کے ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں کا فاصلہ ایک دن اور ایک رات کے برابر ہوگا اور وہ ساری زمین کا سفر کرے گا۔وہ بادلوں کو پکڑنے پر قادر ہوگا اور سورج کے غروب ہونے کی جانب سفر کرتے ہوئے سورج سے بھی آگے نکل جائے گا۔وہ سمندر میں چلے گا اور سمندر کا پانی اس کے ٹخنوں تک ہوگا۔جب وہ سفر کرے گا تو بلند آواز سے یہ اعلان کرے گا اے میرے دوستو میری طرف آجاؤ۔ اے میرے پیارو میری طرف آجاؤ۔ (کنز العمال کتاب القیامۃ من قسم الافعال باب الدجال۔حدیث ۳۹۷۰۹)

ان سواریوں میں سوراخ یعنی دروازے بھی ہوں گے اور زینیں یعنی نشتیں بھی ہوں گی۔ (بحار الانوار جلد۵۲ صفحہ۱۹۲ از امام محمد باقر مجلسی دار احیاء التراث العربی لبنان)

ان احادیث میں دجالی قوموں کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ایسی تیز رفتار سواریاں ایجاد کریں گی جن میں لائیٹس لگی ہوں گی جن پر بیٹھنے کے لئے نشستیں ہوں گی وہ سواریاں زمین پر بھی چلیں گی یعنی ریل گاڑیاں اور موٹریں وغیرہ اور فضا میں بھی اڑیں گی یعنی ہوائی جہاز اور سمندر میں بھی چلیں گی یعنی بحری جہاز اور گدھے کے دو کانوں کے درمیان فاصلے سے یہ مراد ہے کہ یہ قومیں ایسی ایجادات کریں گی جس سے پیغام رسانی کا کام بہت ہی کم وقت میں سر انجام دیا جاسکے گا جیسے ٹیلیفون، انٹر کام وغیرہ اور پیغام رسانی کی یہ سہولتیں دجال کی ایجاد کردہ سواریوں میں بھی موجود ہوں گی اور عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔

چنانچہ بعض علماء نے دجال کے گدھے سے مراد ریل گاڑی لی ہے۔ (ھدیہ مہدویہ صفحہ۸۹،۹۰ مطبع کانپور ۱۳۹۳ھ)

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کی جو علامات بیان فرمائیں تھیں وہ آج لفظ بلفظ پوری ہو چکی ہیں اور اگر دجال ظاہر ہوچکا ہے تو مسیح موعود کا ظہور بھی ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیح موعود کا بھی ظہور ہو چکا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دجال کی تباہ کاریوں سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اس موعود کو پہچانا جائے۔

No comments:

Post a Comment