تمام مسلمانوں کے لئےایک بڑی خوشخبری

تمام مسلمانوں کے لئےایک بڑی خوشخبری :

سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی ؑ فرماتے ہیں :

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کی خارق عادت زندگی اور خلاف سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی ؑ فرماتے ہیں :

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کی خارق عادت زندگی اور خلاف نصوص قرآنیہ مع جسم آسمان پر چلے جانا اور باوجود وفات یافتہ نہ ہونے کے پھر وفات یافتہ نبیوں کی روحوں میں جو ایک رنگ سے بہشت میں داخل ہو چکے داخل ہو جانا یہ تمام ایسی باتیں تھیں کہ درحقیقت سچے مذہب کے لئے ایک داغ تھا اور نیز مدت دراز سے مغربی مخلوق پرستوں کا موحدین اہلِ اسلام کے ذمہ ایک قرضہ چلا آ تا تھا اور نادان مسلمانوں نے بھی اس قرضہ کا اقرار کر کے اپنے ذمہ ایک بڑی سودی رقم عیسائیوں کی بڑھا دی تھی جس کی وجہ سے کئی لاکھ مسلمان اس ملک ہند میں ارتداد کا جامہ پہن کر عیسائیوں کے ہاتھ میں گرو پڑ گئے تھے اورکوئی صورت ادائے قرضہ کی نظر نہ آتی تھی۔ جب عیسائی کہا کرتے تھے کہ ربّنا یسوع مسیح آسمان پر زندہ مع جسم چڑھ گیا بڑی طاقت دکھلائی خدا جو تھا مگر تمہارا نبی تو ہجرت کرنے کے بعد مدینہ تک بھی پرواز کر کے نہ جا سکا غارثور میں ہی تین دن تک چھپا رہا آخر بڑی مشکل سے مدینہ تک پہنچااور پھر بھی عمر نے وفا نہ کی دس برس کے بعد فوت ہوگیا اَور اب وہ قبر میں اور زیرِ زمین ہے مگر یسوع مسیح زندہ آسمان پر ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور وہی دوبارہ آسمان سے اُتر کر دنیا کا انصاف کرے گا۔ ہر ایک جو اس کو خدا نہیں جانتا وہ پکڑا جائے گا اور آگ میں ڈالا جائے گا۔ اس کا جواب مسلمانوں کو کچھ بھی نہیں آتا نہایت شرمندہ اور ذلیل ہوتے تھے۔

اب یسوع مسیح کی خوب خدائی ظاہر ہوئی۔ آسمان پرچڑھنے کا سارا بھانڈا پھوٹ گیا۔

اوّل تو ہزار نسخہ سے زیادہ ایسی طبی کتابیں جن کو پُرانے زمانہ میں رومیوں یونانیوں مجوسیوں عیسائیوں اورسب سے بعد مسلمانوں نے بھی ان کا ترجمہ کیا تھا پیدا ہوگئیں جن میں ایک نسخہ مرہم عیسیٰ کا لکھا ہے اوران کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ مرہم حضرت عیسیٰ کے لئے یعنی اُن کے صلیبی زخموں کے لئے بنائی گئی تھی۔

ازاں بعد کشمیر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر بھی پیدا ہوگئی۔ پھر اس

کے بعد عربی اور فارسی میں پُرانی کتابیں پیدا ہوگئیں جو بعض ان میں سے ہزار برس کی تصنیف ہیں اورؔ حضرت عیسیٰ کی وفات کی گواہی دیتی اور قبر اُن کی کشمیر میں بتلاتی ہیں اور پھر سب کے بعد جو آج ہمیں خبر ملی یہ تو ایک ایسی خبر ہے کہ گویا آج اس نے مسلمانوں کے لئے عید کا دن چڑھا دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حال میں بمقام یروشلم پطرس حواری کا دستخطی ایک کاغذ پُرانی عبرانی میں لکھا ہوا دستیاب ہوا ہے جس کو کتاب کشتی نوح کے ساتھ شامل کیا گیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے

کہ حضرت مسیح صلیب کے واقعہ سے تخمیناًپچاس برس بعد اسی زمین پر فوت ہوگئے تھے اور وہ کاغذ ایک عیسائی کمپنی نے اڑھائی لاکھ روپیہ دے کر خرید لیا ہے کیونکہ یہ فیصلہ ہوگیا ہے کہ وہ پطرس کی تحریر ہے اور ظاہر ہے کہ اِس قدر ثبوتوں کے جمع ہونے کے بعد جو زبردست شہادتیں ہیں پھر اِس بیہودہ اعتقاد سے جو عیسیٰ زندہ ہے باز نہ آنا ایک دیوانگی ہے امور محسوسہ مشہودہ سے انکار نہیں ہو سکتا سو مسلمانوں تمہیں مبارک ہو آج تمہارے لئے عید کا دِن ہے اُن پہلے جھوٹے عقائد کو دفع کرو اور اب قرآن کے مطابق اپنا عقیدہ بنالو۔ مکرریہ کہ یہ آخری شہادت حضرت عیسیٰ کے سب سے بزرگ تر حواری کی شہادت ہے یہ وہ حواری ہے کہ اپنی تحریر میں جو برآمد ہوئی ہے خود اس شہادت کے لئے یہ الفاظ استعمال کرتا ہے کہ مَیں ابن مریم کا خادم ہوں اور اب مَیں نوے۹۰ سال کی عمر میں یہ خط لکھتا ہوں جبکہ مریم کے بیٹے کو مَرے ہوئے تین سال گزرچکے ہیں لیکن تاریخ سے یہ امر ثابت شدہ ہے اور بڑے بڑے مسیحی علماء اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ پطرس اور حضرت عیسیٰ

کی پیدائش قریب قریب وقت میں تھی اور واقعہ صلیب کے وقت حضرت عیسیٰ کی عمر قریباً 3سال اور حضرت پطرس کی عمر اُس وقت تیس چالیس سال کے درمیان تھی (دیکھو کتاب سمتھس ڈکشنری جلد ۳ صفحہ ۲۴۴۶ و موٹی ٹیولس نیو ٹسٹیمنٹ ہسٹری و دیگر کتب تاریخ)

اور اس خط کے متعلق اکابر علماء مذہب عیسوی نے بہت تحقیقات کر کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ صحیح ہے اور اس کیلئے بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں ایسی عزت سے یہ تحریر دیکھی گئی ہے کہ ایک رقم کثیر اس کے عوض میں وارثان اُس مقدس راہب کو دی گئی ہے جس کے کتب خانہ سے بعد وفات یہ کاغذ برآمد ہوا اور ہمارے نزدیک اس کاغذکی صحت پر ایک اور قوی دلیل ہے کہ ایسے شخص کے کتب خانہ سے یہ کاغذ نکلا ہے جو رومن کیتھولک عقیدہ رکھتا تھا اور نہ صرف حضرت عیسیٰ کی خدائی کا قائل تھا بلکہ حضرت مریم کی خدائی کا بھی قائل تھا یہ کاغذات اُس نے محض ایک پُرانے تبرکات میں رکھے ہوئے تھے اور چونکہ وہ پُرانی عبرانی تھی اور طرز تحریر بھی پُرانی تھی اس لئے وہ اس کے مضمون سے محض نا آشنا تھا۔ یہ ایک نشان ہے ماسوا اس نئی شہادت کے جو حضرت پطرس کے خط میں سے نکلی ہے۔ متقدمین میں بھی عیسائیوں کے بعض فرقے خود اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر سے ایک موت کی سی سخت بیہوشی میں اُتارے گئے تھے اور ایک غار کے اندر تین دن کے علاج معالجہ سے تندرست ہو کر کسی اور طرف چلے گئے جہاں مدّت تک زندہ رہے ان عقائد کا ذکر انگریزی کتابوںمیں مفصل درج ہے جن میں سے کتاب نیو لائف آف جیزس مصنفہ ٹراس

(ترجمہ : ’وہ ؔ یہ دلائل دیتے ہیں کہ اگرچہ صلیب کے وقت ہاتھ اور پاؤں دونوں میں میخیں ماری جائیں پھربھی بہت تھوڑا خون انسان کے بدن سے نکلتا ہے۔ اس و اسطے صلیب پر لوگ رفتہ رفتہ اعضاء پر زور پڑنے کے سبب تشنج میں گرفتار ہو کر مر جاتے ہیں یا بھوک سے مر جاتے ہیں۔ پس اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ قریب ۶گھنٹہ صلیب پر رہنے کے بعد یسوع جب اتارا گیا تو وہ مرا ہوا تھا۔ تب بھی نہایت ہی اغلب بات یہ ہے کہ وہ صرف ایک موت کی سی بیہوشی تھی اور جب شفا دینے والی مرہمیں اور نہایت ہی خوشبودار دوائیاں مل کر اُسے غار کی ٹھنڈی جگہ میں رکھا گیا تو اُس کی بیہوشی دُور ہوئی۔ اس دعوے کی دلیل میں عموماً یوسفس کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے جہاں یوسفس نے لکھا ہے کہ مَیں ایک دفعہ ایک فوجی کام سے واپس آرہا تھا تو راستہ میں مَیں نے دیکھا کہ کئی ایک یہودی قیدی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں۔ ان میں سے مَیں نے پہچانا کہ تین میرے واقف تھے۔ پس مَیں نے ٹیٹس (حاکم وقت) سے اُن کے اُتار لینے کی اجازت حاصل کی اور اُن کو فوراً اتار کر اُن کی خبر گیری کی تو ایک بالآخر تندرست ہو گیا پر باقی دو مر گئے۔‘‘)

اور کتاب ماڈرن ڈوٹ اینڈ کرسچن بیلیف

ترجمہ : شلیر میخر اور نیز قدیم محققین کا یہ مذہب تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا بلکہ ایک ظاہراًموت کی سی حالت ہو گئی تھی اور قبر سے نکلنے کے بعد کچھ مدت تک اپنے حواریوں کے ساتھ پھرتا رہا اور پھر دوسری یعنی اصلی موت کے واسطے کسی علیحدگی کے مقام کی طرف روانہ ہو گیا۔

اور کتاب سوپر نیچرل ریلیجن کی بعض عبارتیں ہم نے اپنی کتاب

تحفہ گولڑویہ میں درج کی ہیں۔

المؤلف میرزا غلام احمد قادیانی ۔ ۶اکتوبر ۱۹۰۲؁ء

(کتاب : تحفۃ الندوہ صفحہ 10 )

Read these Books Online

Smith's Bible Dictionary

New Life of Jesus

Modern Doubt & Christian Belief

تحفہ گولڑویہ

تحفۃ الندوہ

ff

*This blog is completely unofficial and in no way represents Islam Ahmadiyya or the views of anyone except the author themself

No comments:

Post a Comment