آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی امت پر آنے والے جن حالات کی خبر دی ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مسلمانوں کے دلوں سے ایمان اٹھ جائے گا اور مسلمان ہونے اور کہلانے کے باوجود نور ایمان سے خالی ہونگے ۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ایمان ثریا ستارے پر چلا جائے گا ۔ تب اہل فارس میں سے ایک شخص اسے واپس لائے گا ۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ جمعہ)
اسی طرح فرمایا کہ اسلام کا نام اور قرآن کے الفاظ باقی رہ جائیں گے مسجدیں بظاہر آباد مگر نور ہدایت سے خالی ہوں گی اور مسلمانوں کے علماء بدترین مخلوق ہوں گے ۔ (مشکوۃ کتاب العلم)
آج عالم اسلام کے لیڈر اور مفکرین یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہی وہ زمانہ ہے کہ جس میں ایمان مفقود ہے اور حقیقی مسلمان آج دنیا میں نہیں ملتا اور ہمیں مامور من اللہ کی ضرورت ہے ۔
مشہور صوفی خواجہ محمد سلیمان تونسوی
اگر بالفرض اس زمانہ میں اصحاب نبی ﷺ موجود ہوتے تو اس زمانہ کے لوگوں کو کافر کہتے ۔ اس لئے کہ اس زمانہ کے لوگوں نے شریعت کی پیروی چھوڑدی ہے ۔ (نافع السالکین صفحہ 57)
مفکر احرار چودھری افضل حق صاحب
اگر پہلی صدی ہجری کا کوئی مسلمان کسی طرح زندہ ہو کر موجودہ ہندوستان میں آئے تو وہ فوراً پکار اٹھے کہ یہاں کے اسی فیصد مسلمان کافر ہیں ۔ اور انہوں نے محض سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر اپنے آپ کو مسلمان کہلانا شروع کردیا ہے ۔(پاکستان اور اچھوت ، صفحہ 19)
مفکر ، مصنف ، ادیب ابوالکلام آزاد صاحب
آج دنیا پھر تاریک ہے وہ روشنی کے لئے پھر تشنہ ہے ۔۔۔۔ اور پھر اسے بھول گئی ہے جس کی تلاش میں باربار نکلی تھی ۔ اس کا وہ پرانا دکھ جس کے علاج کے لئے خدا کے رسول نے آہ و زاری کی اور جس کو چھٹی صدی عیسوی میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں سے آخری مرہم نصیب ہوا آج پھر تازہ ہوگیا ہے جو تاریکی چھٹی صدی عیسوی میں جہالت نے پھیلائی جب کہ اسلام کاظہور ہوا ویسی ہی تاریکی آج تہذیب اور تمدن کے نام سے پھیلی ہوئی ہے جبکہ اسلام اپنی غربت اولیٰ میں مبتلا ہے ۔ (الہلال جلد 4 صفحہ 102)
شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
مولانا حالی
رہا دین باقی نہ ایمان باقی
ایک اسلام کا رہ گیا نام باقی
عرب شاعر اور عالم دین محمد رضا شبیبی
اپنی نہایت فکر انگیز نظم روح پیغمبر کے زیر عنوان لکھتے ہیں ۔ (ترجمہ یہ ہے )
اگر احمد مجتبی ﷺ کی روح مبارک عالم بالا سے ہمارے پاس تشریف لے آئے یا ہمیں جھانک کر دیکھ لے تومعلوم نہیں کہ ہمارے متعلق کیا رائے قائم کرے ۔ میرا گمان غالب ہے کہ اگر محمد ﷺ آج ہمارے پاس تشریف لے آئیں تو آپ کو آج ہماری قوم کے ہاتھوں اسی طرح کے مصائب اور اعراض اور انکار حق سے دوچار ہونا پڑیگا جس طرح آپ اہل مکہ کے ہاتھوں دو چار ہوئے ۔ کیونکہ ہم نور حق سے جس کو لیکر آپ مبعوث ہوئے تھے اس طرح رو گردانی کرچکے ہیں جس طرح قریش نے اس سے منہ پھیرا اورگمراہی کے گڑھے میں جا گرے تھے اور پھر آپ یقیناًیہ فیصلہ کریں گے کہ لوگ جس ڈگر پر چل رہے ہیں یہ میرا بتایا ہوا راستہ نہیں ہے اور آخری زمانہ کے لوگوں نے جس مذہب کا طوق اپنے گلے میں ڈال رکھا ہے وہ میرا مذہب نہیں ہوسکتا ۔ (دیوان الشبیبی، صفحہ 107)
شاعر فلسطین نزار قبانی
انہوں نے الفتح کے ترانے میں لکھا ۔ اے فتح ہم ماضی کے مکہ ہیں اور نہایت شدت سے ایک نبی کی پیدائش کا انتظار کررہے ہیں ۔(جدید علم کلام کے عالمی تاثرات ، صفحہ 45)
اہل حدیث لیڈر نور الحسن خان صاحب
اب اسلام کا صرف نام ، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے ۔ مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں ۔ علماء اس امت کے بدتر ان سے ہیں انہیں سے فتنے نکلتے ہیں اور انہیں کے اندر پھر کے جاتے ہیں ۔(اقتراب الساعۃ ، صفحہ 96)
بانی جماعت اسلامی ابولاعلیٰ مودودی صاحب
یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان کہاجاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ ۹۹۹ فی ہزار افراد اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشناہیں ۔ ۔۔۔ کیریکٹر کے اعتبار سے جتنے ٹائپ کافروں میں پائے جاتے ہیں اتنے ہی اس قوم میں بھی موجود ہیں ۔(مسلمانان ہند کی سیاسی کشمکش ، صفحہ 130)
مسلم سکالر احمد دیدات
تقابل مذاہب پر عالمی شہریت یافتہ مسلم سکالر احمد دیدات نے اس امر پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا کہ آج مسلمان نہ تو خود اسلام پر عمل پیرا ہیں اور نہ ہی اس کی تبلیغ کرکے غیر مسلموں کو اس نعمت سے بہرہ ور کررہے ہیں ان کی مثال اس کوبرا ناگ کی سی ہے جو خزانہ پر بیٹھا ہوا ہے اور خزانہ کسی کے کام نہیں آرہا ۔ ( جنگ 12 اکتوبر1987ء)
سید قاسم محمود صاحب مدیر اسلامی ڈائجسٹ
آج پورا عالم اسلام جس قسم کی معاشرتی ، معاشی اور نفسیاتی کیفیات سے دوچار ہے شاید پہلے کبھی نہ تھا ۔(اسلامی ڈائجسٹ ، جنوری فروری 1993ء صفحہ 19)
طاہر القادری صاحب سربراہ تحریک منہاج القرآن
گزشتہ اڑھائی صدی سے مسلمانوں کا بگاڑ جزوی نہیں رہا ۔ سیاسی ، اقتصادی اور معاشرتی اقدار میں جو زوال آیا اس نے اخلاقی ، روحانی ، مذہبی ، فکری ، تعلیمی اور ہر طرح کی اقدار کو ملیا میٹ کردیا ۔ اب دو صدیوں سے پیدا ہونے والا بگاڑ جزوی نہیں رہا ۔ یہ کلی بگاڑ ہے ۔ ایسے بگاڑ کا ازالہ کلی اور ہمہ گیر انقلاب سے ہی ممکن ہے ۔ (قومی ڈائجسٹ ، نومبر 86 صفحہ 30)
وقت ہے وقت مسیحا
یہ وہی انقلابی تحریک ہے جس کے لئے قرآن کریم نے اشارۃ اور احادیث نے وضاحت سے مسیح اور مہدی کی خبر دی اور رسول اللہ ﷺ نے اسے قبول کرنے اور سلام پہنچانے کی وصیت فرمائی ۔
اسی شدید ضرورت کے زمانہ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ اور خدا تعالیٰ نے 1894ء میں آسمان پر چاند اور سورج گرہن لگا کر آپ کی صداقت کی فیصلہ کن گواہی دے دی ۔ آج آپ کا پانچواں جانشین دنیا بھر کو توحید حقیقی کی طرف بلا رہا ہے ۔ کوئی ہے جو خدا کی آواز کو قبول کرے ؟
No comments:
Post a Comment