تبلیغ کی راہ میں مشکلات اور ان کا حل

عام طور پر اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ہم لوگ تبلیغ کرنے سے جھجکتے ہیں اور اس ذمّہ داری کو اٹھانے سے گھبراتے ہیں۔ کیونکہ انہیں یا تودینی علم کی کمی کا احساس ہوتا ہے یا پھر دوستوں سے تعلقات کی خرابی کا ڈر ہوتا ہے۔ تبلیغ کے متعلق اِن غلط فہمیوں کو دور کرنے کی یہاں کوشش کی جارہی ہے۔

کیا تبلیغ کے لئے عالمِ دین ہونا ضروری ہے؟

جب بھی کسی کو تبلیغ کرنے کے لئے کہا جائے تو فوری طور پر اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کام کس طرح کیا جائے کیونکہ مجھ میں تو تبلیغ کرنے کی قابلیت ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اپنے اندر دینی علم کی کمی کا احساس ہوتا ہے اور انہیں اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ مخاطب کوئی ایسی بات پوچھ لے جس کا جواب انہیں نہ آتا ہو ۔یہ محض ایک غلط فہمی ہے کہ تبلیغ صرف علماءِ دین کا کام ہے۔ لفظ ’تبلیغ ‘ کا مادہ ’ بَلَغَ ‘ ہے جس کا مطلب ہے پہنچانا۔ اگر حکمت اور احسن رنگ میں صرف یہ پیغام پہنچادیا جائے کہ مسیح و مہدی علیہ السلام تشریف لا چکے ہیں اور اب دنیا کی نجات اسلام کو ماننے میں ہی ہے تو تبلیغ کا فرض پورا ہوجاتا ہے۔ اس پیغام کی حقانیت کو اپنے کردار و عمل سے تقویت پہنچانی چاہئے جیسا کہ حضرت عیسیٰ ؑفرماتے ہیں کہ پھل اپنے درخت سے پہچانا جاتا ہے (متی 7:20)۔ ہمارا مسکراتا ہوا چہرہ، اعلیٰ کردار اور ہر ایک سے دوستانہ برتاؤ دوسروں میں ہمارے متعلق دلچسپی پیدا کرسکتا ہے اور اس طرح وہ ہمارے قریب آسکتے ہیں۔
کیا تبلیغ کرنا باعثِ شرمندگی ہے؟

بعض لوگ تبلیغ کو باعثِ شرمندگی سمجھتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے کسی سے دین کے موضوع پر گفتگو کرنی چاہی اور وہ شخص منہ پھیر کر چل دیا تو ہماری بے عزّتی ہوجائے گی۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کے دین کی ترویج و ترقی کی خاطر اپنی جان، مال اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی آبرو کی قربانی کا بھی عہد کیا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر اس راہ میں ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑے تو ہمیں اس کے لئے بھی ہر دم تیار رہنا چاہئے۔ اگر کم علمی کے باعث گفتگو میں شرمندگی کا خوف ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ جتنی بات آپ کرسکتے ہیں وہ ضرور پہنچائیں اور اس کے بعد اپنے زیرِ تبلیغ دوست کاکسی مربی صاحب یا کسی اور عالم سے رابطہ کروادیں۔
کیا تبلیغ کرنے سے ہمارے دوستوں سے تعلقات بگڑ سکتے ہیں؟

اگر کوئی دوست باہمی تعلقات بگڑنے کے اندیشے سے دینی گفتگو سے پرہیز کرے تو اسے سمجھائیں کہ آپ اس وقت جس مذہب پر ہیں اگر اس کے بانی محض اس بناءپر تبلیغ کا کام ترک کردیتے کہ کہیں ان کے لوگوں سے تعلقات بگڑ نہ جائیں تو آج اس دین کا نشان بھی نہ ملتا۔ انہیں بتائیں کہ ہمارا کام محبت اور برادارانہ جذبے کے ساتھ محض پیغام پہنچانا ہے۔ جس کے بعد ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب آپ اسے اختیار کرنے یا رد کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ جس دوست کو آپ تبلیغ کررہے ہوں ان کے عقیدے پر تنقیدنہ کریں بلکہ ان کے اور اپنے مذہب میں مشترک باتیں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
دعا کا نشان

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ کو دعا کا ایک خاص نشان عطا فرمایا ہے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ اتنے اخلاص و وفا سے پیش آئیں کہ وہ آپ پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ کو اپنی ذاتی پریشانیوں اور تکالیف کے رازدار بنائیں اور پھر آپ نہ صرف خود ان کے لئے دردِ دل سے دعا کریں بلکہ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح کو بھی ان کے متعلق دعا کے لئے لکھیں اور اُن دوست کو یہ بتائیں کہ آپ ان کے لئے دعا کررہے ہیں ۔ یقینًا اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور فرمائے گا اور جماعت کے حق میں ایک نشان ظاہر فرمائے گا۔
کیا تبلیغ یکطرفہ ٹریفک ہے؟

ایک عام غلط فہمی جو ہمارے اندر پائی جاتی ہے یہ ہے کہ ہم اپنا پیغام تو لوگوں کو سنانا چاہتے ہیں لیکن اُن کی باتیں سننا نہیں چاہتے۔آج کے دور میں جبکہ لوگ مذہب کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتے، ایک بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں سے اُن کے مذہب کے متعلق استفسار کیا جائے اور پھر گفتگو کے دوران حکمت کے ساتھ اور احسن رنگ میں اسلامی عقائد کو پیش کیا جائے۔

بابیت اور بہائیت ۔ ایک جائزہ

انیسویں صدی عیسوی میں اسلام کے خلاف بہت سے فتنے کھڑے ہوئے اور تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں میں سے ایک تحریک بابیت اور بہائیت ہے جس نے شریعتِ اسلامیہ کو منسوخ قرار دیا اور ایک نئی شریعت بنا کر پیش کی گئی۔

اس تحریک نے پوشیدہ رہ کر اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس تحریک کا آغاز کیسے ہوا۔ اسلام کے خلاف اس نے کیسی کیسی خوفناک سازشیں کیں اور پھر اس کی قیادت کس طرح انتشار کا شکار ہو گئی اس کا مختصر جائزہ درج ذیل سطور میں پیش کیا جاتا ہے۔

علی محمد باب

بابی مذہب کے بانی علی محمد ایک تاجر شیعہ گھرانے میں یکم محرم ۱۲۳۶ھ / ۹۔اکتوبر ۱۸۲۰ء کو شیراز (ایران ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم شیخ عابد سے حاصل کی جو فرقہ شیخیہ کے بانی شیخ زین الدین احسائی (۱۱۵۴ھ تا ۱۲۴۲ھ) کے شاگرد سید کاظم رشتی (وفات ۱۸۴۳ء) کے مرید تھے۔ ایک دفعہ سفر کربلا کے دوران علی محمد کی ملاقات سید کاظم رشتی سے ہوئی اور ان سے تعلیم پانے لگے۔ یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔

باب ہونے کا دعویٰ

سید کاظم رشتی کا خیال تھا کہ امام غائب کے ظہور کا وقت قریب آ چکا ہے اس لئے انہوں نے اپنی وفات سے قبل امام غائب کی تلاش میں اپنے مریدوں کو ایران میں پھیلا دیا۔ سید کاظم رشتی کی وفات کے پانچ ماہ بعد ان کے ایک مرید ملا حسین بشروئی شیراز میں علی محمد سے ملے ان کی تحریک پر علی محمد نے ۲۳ مئی ۱۸۴۴ء کو باب ہونے کا دعویٰ کیا۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۳۴‘ ۳۵ نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی ناشر بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)

ملا حسین بشروئی کے متعلق خود بہاء اللہ نے لکھا ہے۔

’’اگر وہ نہ ہوتا تو خدائے بزرگ و برتر مقام رحمت پر جلوہ فرمانہ ہوتا اور اپنے تختِ عزت و جلال پر نزول نہ فرماتا‘‘۔(قرنِ بدیع صفحہ ۳۸ شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسستہ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)
شیعہ عقائد کی رو سے باب امام مہدی اور لوگوں کے درمیان واسطے کو کہتے ہیں ابتداءً علی محمد نے باب ہونے کے دعویٰ پر ہی اکتفا کیا لیکن کچھ عرصہ بعد صاحب شریعت اور تمام نبیوں سے افضل ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ چنانچہ بہاء اللہ نے لکھا:۔

’’۔۔۔ ایسا نقطہ ہیں جس کے گرد تمام انبیاء اور رسولوں کی حقیقت گھومتی ہے اور آپ کا مرتبہ تمام انبیاء سلف سے بڑھ چڑھ کر ہے اور آپ کا ظہور تمام برگزیدہ انبیاء کے خیال اور تصور سے بالاتر ہے۔‘‘ (قرنِ بدیع صفحہ ۹۴ از شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسستہ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)
بابیت کی تبلیغ

علی محمد نے اپنے ابتدائی اٹھارہ مریدوں کو حروف حیٔ کا نام دیا جنہوں نے کھلم کھلا تبلیغ شروع کر دی اور حکومتی معاملات میں بھی دخل اندازی کرنے لگے ان کے مرید مسجدوں میں جا کر اذان دیتے جس میں علی محمد باب کا ذکر تھا اور زبردستی ممبروں پر چڑھ کر تبلیغ کرتے۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۶۹‘ ۱۶۳ از نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی)

علی محمد کی گرفتاری اور دعویٰ سے دستبرداری

متشدّدانہ تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے علی محمد باب کے مریدوں کا عوام الناس سے تصادم ہونے لگا جس کی وجہ سے حکومت نے امن عامہ کی خاطر علی محمد باب کو حراست میں لے لیا اور ملاقات پر پابندی عائد کر دی لیکن علی محمد باب نے اپنی خفیہ سرگرمیاں جاری رکھیں جس کا حکومت نے سختی سے نوٹس لیا تو علی محمد باب دعویٰ سے دستبردار ہو گئے۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۷۱ از نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی)

اس پر حکومت نے انہیں رہا کر دیا لیکن کچھ عرصہ گذرنے کے بعد علی محمد باب اور اس کے مریدوں نے اپنی کارروائیاں پھر تیز کر دیں جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا۔

اسلامی شریعت کی منسوخی کا اعلان

اس دوران علی محمد باب کے سرگرم مرید مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ کی سرکردگی میں ۱۸۴۸ء میں بدشت کے مقام پر بابی سربراہوں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں علی محمد باب کی ایک مرید عورت ام سلمیٰ قرۃ العین طاہرہ نے پہلی دفعہ اسلام کی منسوخی کا اعلان کیا اور علی محمد باب کی رہائی کیلئے مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کانفرنس میں مرزا حسین علی نوری نے اپنے لئے بہاء کا لقب استعمال کیا۔ (قرن بدیع صفحہ ۶۵‘۶۶ از شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسسۃ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)

بدشت کانفرنس کے بعد بابیوں نے پرتشدّد کارروائیاں شروع کر دیں جس کے نتیجے میں ایران میں زبردست فسادات برپا ہوئے۔ اور بابی قلعہ بند ہو کر حکومت کے خلاف کئی ماہ تک لڑتے رہے ان معرکوں میں سرکردہ بابی مرزا حسین علی نوری ملا حسین بشروئی اور قرۃ العین پیش پیش تھے۔ انہوں نے اپنے جانثاروں کو حکومت کا لالچ دیا لیکن اس کے باوجود ان معرکوں میں بابیوں کو بری طرح ناکامی ہوئی۔

بابی شریعت البیان

ادھر قلعہ ماہ کو میں قید علی محمد باب نے شریعت کی کتاب ’’البیان‘‘ لکھنی شروع کی جسے قرآن مجید کا ناسخ قرار دیا (بابی تصور کے مطابق وحی آسمان سے نازل نہیں ہوتی بلکہ دل سے اٹھتی ہے) مگر اسے بھی مکمل نہ کر سکا۔ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۴۱۱ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)

البیان میں بابیوں کو جارحانہ اور پرتشدّد طریق اپنانے کی تلقین کی گئی ہے جیسا کہ عبدالبہاء نے لکھاہے۔

’’حضرت اعلیٰ (علی محمد باب) کا حکم البیان میں یہی ہے کہ جو لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے اور آپ کی تصدیق نہیں کرتے ان کی گردنیں اڑا دی جائیں اور ان کا قتل عام کیا جائے اور علوم و فنون اور مذاہب عالم کی جتنی کتابیں ہیں ان کو جلا دیا جائے اور جتنے مقامات اور قبورانبیاء ہیں ان میں سے بھی کسی کو نہ چھوڑا جائے سب کو گرا دیا جائے‘‘۔ (مکاتیب عبدالبہاء جلد۲ صفحہ ۲۶۶ مطبع کردستان العلمیہ مصر ۱۹۱۰ء)
اسی طرح البیان کے بارہ میں بہاء اللہ و عصر جدید صفحہ ۵۲ عربی میں لکھا ہے۔ ان البیان قد اوحی الیہ ممن یظھرہ اللّٰہ یعنی من یظہرہ اللّٰہ (بہاء اللہ) ہی آپ کے الہام کا واحد منبع اور آپ کی محبت کا یگانہ مرکز ہیں۔

علی محمد باب کی وفات

بابیوں کی سرگرمیاں جب حکومت اور عوام کی نظر میں بہت زیادہ مخدوش اور پرُتشدّد ہو گئیں تو حکومت نے علی محمد باب کو تبریز سے لا کر جولائی ۱۸۵۰ء میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ علی محمد باب نے اپنی موت سے ایک روز قبل مایوس ہو کر اپنے مریدوں سے کہا کہ وہ خود ہی اسے قتل کر دیں اور انہیں یہ وصیت کی کہ جب تم سے میرے بارہ میں استفسار کیا جائے تو تقیہ سے کام لینا اور میرا انکار کر دینا اور مجھ پر لعنت بھیجنا۔ (نقطۃ الکاف صفحہ ۲۴۷ مرزاجانی کاشانی لندن ۱۹۱۰ء)

علی محمد باب کی جانشینی

باب نے اپنی وفات سے قبل بہاء اللہ کے چھوٹے سوتیلے بھائی مرزا یحییٰ صبح از ل کو اپنا جانشین مقرر کیا اور تمام ضروری کاغذات اور مہریں وغیرہ اس کے سپرد کر دیں۔ (نقطۃ الکاف صفحہ ۲۴۴ ایضاً)

علی محمد باب چونکہ اپنی خود ساختہ شریعت ’’البیان‘‘ نامکمل چھوڑ گئے تھے اس لئے صبح ازل نے ’’المستیقظ‘‘ نامی کتاب لکھی جسے ’’البیان‘‘ کا تتمہ قرار دیا۔ لیکن بہائیوں کا کہنا ہے کہ ’’المستیقظ‘‘ میں ’’البیان‘‘ کے حکموں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔بعد میں بہاء اللہ نے یحییٰ صبح ازل کو ’’دجال‘‘ قرار دیا۔

بابیوں کی حکومت مخالف کارروائیاں

۱۶۔ اگست ۱۸۵۲ء کو چند بابیوں نے شاہِ ایران پر گولی چلا دی لیکن نشانہ خطاء گیا اور حملہ آور گرفتار کر لئے گئے۔ (بہاء اللہ و عصر جدید صفحہ ۳۱ از جے۔ای ایسلمنٹ بار ششم ۱۹۸۳ء بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)

شاہِ ایران پر قاتلانہ حملہ کے بعد حکومت نے بابیوں کو گرفتار کرنا شروع کیا جس پر اکثر بابی بھیس بدل کر دوسرے ملکوں میں بھاگ گئے اور بابی تحریک کے سربراہ صبح ازل بھی بغداد چلے گئے۔ چالیس بابی گرفتار ہوئے جن میں مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ بھی تھے۔

چارماہ بعد روسی سفیر کی سفارش پر بہاء اللہ رہا ہوئے۔ (لوح ابن ذئب صفحہ ۴۲ از بہاء اللہ ناشر محفل روحانی ملّی بہائیاں کراچی)

روسی حکومت کی بہاء اللہ میں دلچسپی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی سے زیادہ یہ سیاسی تحریک تھی۔

کچھ عرصہ بعد حکومت نے مرزا حسین علی نوری کو بھی بغداد بھجوا دیا لیکن انہوں نے وہاں بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اس پر حکومت نے انہیں قسطنطنیہ (ترکی) اور پھر ایڈریا نوپل بھیج دیا۔

بہاء اللہ اور صبح ازل میں اختلافات

جب بہاء اللہ اور صبح ازل میں اختلافات شروع ہوئے توبہاء اللہ نے دعویٰ کیا کہ باب نے ’’البیان‘‘ میں پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد من یظھرہ اللّٰہ (جسے خدا ظاہر کرے گا )آئے گا اور وہ میں ہوں اور مرزا یحییٰ صبح ازل باب کے حقیقی جانشین نہیں بلکہ اسے صرف لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے مقرر کیا گیا تھا تا ان کی توجہ بہاء اللہ سے ہٹ جائے اور وہ محفوظ رہے۔(مقالہ سیاح صفحہ ۵۵ عباس آفندی مترجم مصطفی رومی مطبوعہ دہلی)

سوال یہ ہے کہ یہ دھوکا باب نے دیا یا انکے جانشین یحییٰ صبح ازل نے یا بہاء اللہ نے؟

اس اختلاف کے بعد بابی مذہب دو فرقوں میں تبدیل ہو گیا بہاء اللہ کے پیروکار بہائی کہلائے اور صبح ازل کے ماننے والے ازلی کہلائے بہاء اللہ اور صبح ازل نے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کی ایک دوسرے کے خلاف حکومت کے پاس شکایات کیں۔ دونوں فرقوں میں تصادم کے نتیجہ میں بعض افراد قتل بھی ہوئے جس کا الزام دونوں ایک دوسرے پر لگاتے رہے۔ (Materials for the study of the Babi Religion E.E Brawn 1918)

بابیوں کے شدید اختلافات اور فتنہ فساد کی بناء پر ترکی حکومت نے بہاء اللہ اور اس کے ساتھیوں کو عکا فلسطین بھجوا دیا اور صبح ازل کو جزیرہ قبرص روانہ کر دیا۔ بہائی صبح ازل کو دجال اور قبرص کو جزیرہ شیطان قرار دیتے ہیں۔ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۶۰۱۔ ۶۰۲ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)

بہائی شریعت الاقدس

۱۸۷۳ء میں بہاء اللہ نے عکہ میں البیان کو منسوخ کر کے الاقدس لکھنی شروع کی ہر چند کہ یہ شریعت بھی بہائی تصور کے مطابق ان کی اپنی نازل کردہ اور خود ساختہ ہے۔ جس کے بارہ میں ان کا کہنا ہے کہ الاقدس کا ایک لفظ پڑھنا سب الہامی شریعتوں کے پڑھنے سے بہتر ہے۔ لیکن بہاء اللہ نے اسے اپنی زندگی میں شائع کیا نہ اس کے بیٹے اور جانشین عبدالبہاء نے اس کی اشاعت کی اجازت دی اور آج سو سال سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد بھی بہت ہی محدود تعداد میں اسے شائع کیا گیا ہے۔

بہاء اللہ کا دعویٰ الوہیت

بہاء اللہ نے اپنی نسبت لکھا ہے:۔

’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا الْمَسْجُوْنُ الْفَرِیْدُ‘‘ (کتاب مبین از بہاء اللہ صفحہ ۲۸۶)

مجھ اکیلے قیدی کے سوا کوئی معبود نہیں۔

الاقدس اور دوسری الواح میں بہاء اللہ نے اپنے آپ کو مالک قدر‘ سمیع‘بصیر‘ عالم الغیب‘ موجد عالم اور خالق اشیاء قرار دیا ہے۔

بہاء اللہ کے دعویٰ کے بارہ میں محفوظ الحق علمی لکھتے ہیں:۔

’’اہل بہاء نے کبھی نہیں کہا کہ نبوت ختم نہیں ہوئی اور (بہاء اللہ) موعود کل ادیان نبی یا رسول ہے بلکہ اس کا ظہور مستقل خدائی ظہور ہے۔‘ ‘ (کوکب ہنددہلی ۲۴ جون ۱۹۲۸ء)
بہاء اللہ کے بیٹے اور جانشین مرزا عباس آفندی نے لکھا ہے۔

’’پہلے دن انبیاء کے دن کہلاتے تھے لیکن یہ دن یوم اللہ ہے۔‘‘ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۴۹۷ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
بہائی بہاء اللہ سے دعائیں کرتے ہیں۔ (دروس الدیانۃ درس نمبر۹ ۱۔از محمد علی قائنی مصر ۳۴۱ ۱ ھ صفحہ ۲۸)
اسی طرح بہائی بہاء اللہ کی قبر کو سجدہ بھی کرتے ہیں۔ (بہجۃ الصدور ۔از مرزا علی حیدر صفحہ۲۵۸)
اوران کا قبلہ بہاء اللہ کا مزارہے ۔

بہاء اللہ کی وفات اور بہائیوں میں اختلاف

بہاء اللہ نے ۱۸۹۲ء میں عکہ میں وفات پائی اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹے عباس آفندی المعروف عبدالبہاء کو بہاء اللہ کے جانشین ہونے کی وصیت کی اور یہ لکھا کہ عباس آفندی کے بعد دوسرابیٹا مرزا محمد علی جانشین ہو گا اور اس کے بعد ہر پلوٹھابیٹا یا جس کے بارہ میں ولی امر اللہ یعنی موجود بہائی لیڈر وصیت کر جائے وہ جانشین ہو گا۔ لیکن بہاء اللہ کی وفات کے بعد جانشین کے بارہ میں اس کے دونوں بیٹوں میں اختلاف ہو گیا اور بہائیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور بہاء اللہ کی یہ خواہش اور وصیت بھی پوری نہ ہو سکی۔ اور امن کا ڈھنڈورا پیٹنے والی بہائیت کے اختلافات نفرت اور دشمنی کی شکل اختیار کر گئے۔ دونوں کے مرید آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر بہاء اللہ کی تحریرات میں تحریف کا الزام لگانے لگے۔ (Materials for the study of the Babi Religion Page. 156)

الاقدس کی تعلیمات سے انحراف

بہاء اللہ کے بیٹے اور جانشین عبدالبہاء نے یورپ کے دورے کئے اور بہاء اللہ کی تعلیمات کو یورپین معاشرے کے مطابق ڈھالنا شروع کیا مثلاً بہاء اللہ نے اقدس میں لکھا ہے کہ ’’دو شادیوں کی اجازت ہے‘‘۔ (کتاب اقدس صفحہ ۴۴ نمبر ۶۳)

چنانچہ خود بہاء اللہ نے دو شادیاں کیں-

لیکن عبدالبہاء نے صرف ایک شادی کی اجازت دی۔ (کتاب اقدس صفحہ۲۰۸)

اس طرح بہاء اللہ نے نماز با جماعت کے حکم کو منسوخ کیا ہے۔ (کتاب اقدس صفحہ۲۸ نمبر ۱۲)

لیکن عبدالبہاء مسلمانوں کی مساجد میں جا کر ان کے ساتھ نماز باجماعت پڑھتا رہا۔

(Baha'u'llah and the new era by J.E. Esslemont P.82 Bahai Publishing Trust Wilmette,illinois)

عبدالبہاء نے ۱۹۲۱ء میں وفات پائی اس کی نرینہ اولاد نہ تھی اس لئے اس نے اپنے نواسے شوقی آفندی کو جانشین مقرر کیا حالانکہ بہاء اللہ کی وصیت کے مطابق عبدالبہاء کے چھوٹے بھائی محمد علی جانشینی کے حقدار تھے۔

شوقی آفندی کا رجحان مذہب کی طرف نہیں تھا مثلاً انہوں نے دیگر بہائی لیڈروں کے برخلاف اصرار کے باوجود داڑھی نہیں رکھی۔ لوگوں سے میل ملاقات کی بجائے وہ تحریر کے کام میں مصروف رہا۔ شوقی آفندی پر ۱۹۵۷ء میں اچانک دل کا حملہ ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی اور نہ ہی اسے وصیت لکھنے کا موقعہ ملا۔ اس کی وفات کے بعد بہائیت پھر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ایک حصہ شوقی آفندی کی بیوی روحیہ خانم کے ساتھ مل گیا اور دوسرا میسن ریمی کے ساتھ۔ آخر ۱۹۶۳ء میں بیت العدل کا قیام عمل میں آیا جس کے ۹ ممبر ہوتے ہیں اور اب یہی بہائیت کی سربراہی کرتے ہیں۔ بہائیوں کے نزدیک بیت العدل کے رکن اپنی ذات میں معصوم نہیں ہوتے لیکن بیت العدل اور اس کے فیصلوں کو معصوم سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح بہائیت کا ایک بنیادی اصول مرد عورت میں مساوات ہے لیکن بیت العدل کے نوارکان میں ایک بھی رکن عورت نہیں۔

مندرجہ بالا مختصر جائزہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بابیت اور بہائیت کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک کلچر یا سیاسی تحریک کا نام ہے ایک عیسائی عیسائیت یاہندو ہندومت پر قائم رہتے ہوئے بھی بہائی ہو سکتا ہے۔ دہلی میں ان کی عبادت گاہ بہائی ٹمپل ہے تو یورپ میں بہائی چرچ۔ بہائیت دراصل اسلام کے مٹانے کا مذموم مقصد لے کر آئی جس نے آسمانی شریعت قرآن کریم کو منسوخ قرار دیا۔اور مذہب سے آزادی دے کر اباحت کا دروازہ کھولا ہے۔ تا کہ بے دین اور مذہب سے بیزار لوگوں کو اس تحریک میں شامل کیا جا سکے۔ چونکہ اپنے عقائد اور عزائم کو مخفی رکھنا اس تحریک کے بنیادی بارہ اصولوں میں شامل ہے اس لئے بعض اوقات کم علم مسلمان بہائیت کے فریب میں آ جاتے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام الناس اس تحریک کے عزائم سے مطلع ہوں تا یہ تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔

پاکستان کے اہم فرقے

احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ پر ایک ایسا وقت آئے گا جبکہ یہ مختلف فرقوں میں بٹ جائے گی۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:۔

’’بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور ایک فرقہ کے سوا باقی سب ناری ہوں گے ۔ صحابہ نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کون سا ہے تو حضورؐ نے فرمایا جو میری اور میرے صحابہ کی سنت پر قائم ہوگا‘‘۔ (ترمذی کتاب الایمان باب افتراق ھذہ الامۃ)

اس حدیث کے عین مطابق امت فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ بنیادی طور پر دو بڑے گروہ ہیں۔ ۱۔ اہل سنت والجماعت، ۲۔ شیعہ

اہل سنت والجماعت

اہل سنت والجماعت چاروں خلفاء راشدین کو برحق مانتے ہیں۔ ان کے دو بڑے گروہ ہیں۔ ا۔ مقلد، ب۔ غیر مقلد

مقلد

قرآن کریم اور سنت کو سمجھنے کے لئے بزرگان امت اور فقہاء کرام کی تقلید کو واجب قرار دیتے ہیں۔ مقلدین کے مشہور فقہی مسلک چار ہیں:

۱۔ حنفی ۲۔ شافعی ۳۔ مالکی ۴۔ حنبلی

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے ائمہ کی متابعت کو پسند فرمایا ہے:۔

’’میرے خیال میں یہ چاروں مذہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں۔ اور اسلام کے واسطے ایک چار دیواری‘‘۔(ملفوظات جلد اول۔ صفحہ۵۳۴)

حنفی

حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت (ولادت بمقام کوفہ ۸۰ھ وفات ۱۵۰ھ) کے پیروکار ہیں۔ پاک و ہند اور بعض دیگر ممالک میں زیادہ تر اسی مسلک کے مسلمان ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کرلیں‘‘۔ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد۱۹۔ صفحہ۲۱۲)

پاکستان میں حنفیوں کے دو مشہور مکاتب فکر ہیں۔

۱۔ بریلوی ، ۲۔ دیوبندی

بریلوی

مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی (۱۴ جون ۱۸۵۶۔۲۸ اکتوبر۱۹۲۱) اس فرقہ کے بانی تصور کئے جاتے ہیں جو کہ قصبہ بریلی (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ احمد رضا خان صاحب کو ان کے مرید حضور پرنُور، عظیم البرکت، امام اہلسنت، مجدد مأۃ حاضرہ وغیرہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ فاتحہ خوانی، چہلم، گیارہویں، عرس، سجدۂ تعظیمی، تصور شیخ، مجالس میلاد النبی میں آنحضور کو حاضر ناظر جان کر کھڑے ہوکر درود پڑھنے کا ان میں خوب رواج ہے۔ اکثر سجادہ نشین اور گدی نشین اسی مسلک کے ہیں۔

عقائد:۔ ۱۔ آنحضور ﷺ نور ہیں۔ آپ کا سایہ نہیں تھا۔ خدا نے اپنے نور کا ایک حصہ کاٹ کر آپ کو بنادیا۔ جبکہ دیوبندی اور اہل حدیث بشریت پر زور دیتے ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نورانی بشر تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ تو کہہ کہ میں صرف تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں (فرق صرف یہ ہے) کہ میری طرف وحی نازل کی جاتی ہے‘‘۔(الکہف:۱۱۱)

پس بحیثیت محمد بن عبد اللہ آپؐ بشر تھے تو بحیثیت محمد رسول اللہؐ نور تھے۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:۔

؂ نور لائے آسمان سے خود بھی وہ اک نور تھے
قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار

۲۔ بریلوی حضرات کے نزدیک آنحضرت ﷺ غیب کا علم رکھتے تھے۔ قرآن کریم اس کی تردید فرماتا ہے۔ فرمایا:

’’اگر میں غیب کا واقف ہوتا تو بھلائیوں میں سے اکثر اپنے لئے جمع کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی‘‘۔ (الاعراف:۱۸۹)

آپ کو غیب کا علم نہ تھا سوائے اس غیب کے جس کی اللہ تعالیٰ آپ کو اطلاع کردے۔ اگر آپ کو ہر قسم کا علم غیب ہوتا تو طائف کی وادی میں تکالیف سے اپنے آپ کو بچا لیتے۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان کی فوراًتردید فرمادیتے۔ غزوہ احد میں نقصان نہ پہنچتا۔۷۰ حفاظ شہید نہ ہوتے۔ صحابہ کے وفود جاسوسی کے لئے روانہ نہ کرنے پڑتے۔

۳۔ حضورؐ کے نام پر انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگاتے ہیں۔

۴۔ اذان کے ساتھ صلوۃ و سلام کا ورد بآواز بلند کرتے ہیں۔

۵۔ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا گناہ سمجھتے ہیں۔ آمین بالجہر کہنا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ تراویح ۲۰ رکعت ادا کرتے ہیں۔

بریلوی سیاسی تنظیمیں

(i)۔ جمیعت علماء پاکستان (نورانی)۔ (ii)۔ انجمن حزب الاحناف (iii)۔ جمیعت المشائخ۔ (vi)۔ عوامی تحریک کے بانی ڈاکٹر طاہر القادری بھی بریلوی مسلک رکھتے ہیں۔

دیوبندی

حنفیوں کادوسرا بڑا گروہ دارالعلوم دیوبند کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ اس مدرسہ کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی (۱۸۳۲ء تا ۱۸۸۰ء) تھے۔ ان کے بعد علامہ رشید احمد گنگوہی مدرسہ کے سرپرست اور مفتی بنے۔ ان کے فتوے ’’فتاوٰی رشیدیہ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی وفات ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباہلہ کے نتیجہ میں ہوئی۔ انہیں ’خاتم الاولیاء والمحدثین‘ اور ’بانیٔ اسلام کا ثانی‘ کا خطاب دیا گیا۔ ان کے بعد مولوی اشرف علی تھانوی، مولوی محمود الحسن، مولوی بشیراحمد عثمانی شیخ الاسلام ، مفتی کفایت اللہ اور مولوی سید حسین احمد مدنی وغیرہ نے دیوبند مسلک کی بہت خدمت کی۔

دیوبندی احباب فاتحہ خلف الامام کو جائز سمجھتے ہیں واجب نہیں مانتے آنحضرت ؐ کو بشر اور معراج جسمانی مانتے ہیں اور رسوم اور بدعات سے متنفر ہیں

مولوی اشرف علی تھانوی کی مجلس میں احمدیوں کے بارے میں کسی شخص نے کہا ’’حضرت ان لوگوں کا دین بھی کوئی دین ہے، نہ خدا کو مانیں نہ رسول کو‘‘ حضرت نے معاً لہجہ بدل کر ارشاد فرمایاکہ ’’یہ زیادتی ہے، توحید میں ہمارا ان کا کوئی اختلاف نہیں، اختلاف رسالت میں ہے۔ اور اس کے بھی صرف ایک باب میں یعنی عقیدہ ختم رسالت میں۔ بات کو بات کی جگہ پر رکھنا چاہئے‘‘۔ (سچی باتیں از عبد الماجد دریابادی۔ صفحہ۲۱۳۔ نفیس اکیڈمی۔ اسٹریچن روڈ کراچی نمبر۱)

مگر علامہ نانوتوی صاحب کے بیان سے تو یہ فرق بھی کالعدم ہو جاتا ہے۔مولوی قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں:۔

’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا‘‘(تحذیر الناس صفحہ۲۸۔ مطبع مجتبائی دہلی)

مشہور دیوبندی عالم علامہ عبید اللہ سندھی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔

’’یہ جو حیات عیسیٰ لوگوں میں مشہور ہے یہ یہودی کہانی نیز صابی من گھڑت کہانی ہے۔۔۔۔ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ عیسیٰ نہیں مرا‘‘۔ (الہام الرحمان فی تفسیر القرآن۔ صفحہ۲۴۰)

تبلیغی جماعت، مجلس احرار، مجلس تحفظ ختم نبوت، کے اکابرین بھی دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔

غیر مقلد

ان کے دو بڑے گروہ ہیں،i۔ اہل قرآنii۔ اہل حدیث

اہل قرآن

انہیں مخالفین چکڑالوی اورپرویزی بھی کہتے ہیں۔ ان کے ایک عالم مولوی عبد اللہ چکڑالوی کا مناظرہ اہل حدیث مولوی محمد حسین بٹالوی سے ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی‘‘ میں فریقین کی انتہا پسندی کا ذکر کر کے اصل حقیقت کو واضح فرمایا ہے۔ اس فرقہ میں دوسرے مشہور عالم دین غلام احمد پرویز ہیں جنہوں نے دیگر کئی کتب کے علاوہ تفسیر قرآن بھی لکھی ہے۔اہل قرآن احادیث کے منکر ہیں اور حدیث کے کسی حکم کو نہیں مانتے۔ حتیٰ کہ نماز کی پابندی بھی ضروری نہیں سمجھتے۔بقول ان کے نماز کا قرآن کریم میں معین ذکر نہیں۔

اہل حدیث

احادیث کی پابندی میں غلو کرتے ہوئے اسے قرآن پر قاضی قرار دیتے ہیں۔

عقائد: چاروں خلفاء کو برحق مانتے ہیں۔ ائمہ کا احترام بھی کرتے ہیں مگر ائمہ کی تقلید ذاتی و شخصی کے قائل نہیں۔ رسوم و بدعات سے دور ہیں۔ آمین بالجہر، رفع یدین، آٹھ رکعات تراویح، قرأت خلف الامام اور خطبہ جمعہ میں وعظ وغیرہ ان کے مخصوص عقائد ہیں۔ نواب محمد صدیق حسن خان صاحب، مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی، مولوی محمد حسین بٹالوی، مولوی ثناء اللہ امرتسری اور مولوی ابراہیم سیالکوٹی قابل ذکر علماء ہیں۔

مولوی ثناء اللہ امرتسری نے جماعت احمدیہ کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے اپنی تفسیر ثنائی میں لکھا:۔

’’نظام عالم میں جہاں اور قوانین خداوندی ہیں یہ بھی ہے کہ کاذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے۔ ۔۔۔ دعوی نبوت کاذبہ مثل زہر کے ہے جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہوگا‘‘۔ (مقدمہ تفسیر ثنائی جز اول صفحہ۱۷۔ مطبع چشمہ نور امرتسر)

اہل حدیث میں سے ایک گروہ جماعت المسلمین کہلاتا ہے اس کے بانی علامہ مسعود احمد عثمانی ہیں۔ اسی طرح جہادی تنظیم ’’جماعۃ الدعوۃ‘‘ جس کا مرکز مرید کے میں ہے کا تعلق بھی اہل حدیث سے ہے۔

جماعت اسلامی

۲۶ اگست ۱۹۴۱ء کو اسلامیہ پارک چوبرجی لاہور میں بانی جماعت سید ابوالاعلی مودودی (۱۹۰۳ء تا ۱۹۷۹ء) کی رہائش گاہ پر اس جماعت کی بنیاد رکھی گئی۔مودودی کا نظریہ تھا کہ اصلاح معاشرہ کے لئے اقتدار کا حصول ضروری ہے۔ آپ لکھتے ہیں:

’’جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلق خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لئے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔ اسے اٹھنا چاہئے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کر کے غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہئے‘‘۔ (حقیقت جہاد از سید ابوالاعلیٰ۔صفحہ۷۔ مطبوعہ ۱۹۶۴ لاہور)

سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ناقدانہ ذہن کے مالک تھے آپ کے نزدیک اسلام کے پھیلانے میں تلوار کا بڑا دخل تھا۔ لکھتے ہیں:

’’لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی ۔۔۔ تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا ۔۔۔ روحوں کی کثافتیں دور ہو گئیں۔ ۔۔۔ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہو گئی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پردوں کو چاک کردیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام صفحہ۲۱۶۔ ادارہ ترجمان القرآن لمیٹڈ اردو بازار لاہور)

امہات المومنین حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ:

’’یہ نبی ﷺ کے مقابلہ میں کچھ زیادہ جری ہو گئیں تھیں۔ اور حضور سے زبان درازی کرنے لگی تھیں‘‘ (ہفتہ وار ایشیا لاہور ۱۹ نومبر ۱۹۶۷ء۔جلد۱۶ شمارہ۴۵۔ صفحہ۱۷)

مودودی صاحب کے نزدیک حضرت ابوبکرؓ سے ایسی حرکت سرزد ہوئی جو اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ (ترجمان القرآن جلد۱۲۔ نمبر۲۔ صفحہ۴)

حضرت عمرؓ کے بارہ میں لکھا:۔ ’’خلیفہ رسول جن کے قلب سے وہ جذبہ اکابرین پرستی جو زمانہ جاہلیت کی پیداوار تھا محو نہ ہو سکا‘‘۔ (ترجمان القرآن جلد۱۷۔ نمبر۴۔ صفحہ۲۸۸)

ان کے نزدیک حضرت عثمانؓ نے ’’اپنے رشتہ داروں کو بڑے بڑے اہم عہدے عطا کئے اور ان کے ساتھ دوسری رعایات کیں‘‘۔ (خلافت و ملوکیت صفحہ۱۰۶۔ از ابوا لاعلیٰ مودودی۔ادارہ ترجمان القرآن اچھرہ لاہور)

حضرت علیؓ کے بارہ میں لکھا کہ: ’’قاتلین عثمان۔۔۔ ان کے ہاں تقرب حاصل کرتے چلے گئے‘‘۔ (خلافت و ملوکیت صفحہ۱۰۶)

مولانا مودودی صاحب قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ چنانچہ لکھا کہ:۔

’’پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں۔۔۔ اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی‘‘ (سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ۱۳۲)

وفات مسیح کے بارہ میں لکھتے ہیں:۔

’’قرآن کی روح سے زیادہ مطابقت اگر کوئی طرز عمل رکھتا ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ رفع جسمانی کی تصریح سے بھی اجتناب کیا جائے اور موت کی تصریح سے بھی ۔۔۔ اس کی کیفیت کو اسی طرح مجمل چھوڑ دیا جائے جس طرح خود اللہ تعالیٰ نے مجمل چھوڑ دیا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن جلد اول صفحہ۴۲۱۔ سورۃ النساء زیر آیت ۱۵۹)

شیعہ

شیعہ حضرات کا بنیادی عقیدہ خلافت علی بلافصل ہے۔ ان کے متعدد فرقے ہیں مگر پاکستان میں سب سے مشہور فرقہ اثنا عشریہ ہے ان کو ’’امامیہ‘‘ بھی کہتے ہیں یہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد ہے کہ ’’ائمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راست باز اور ان لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد۳۔ صفحہ۳۴۴)

شیعہ تفاسیر:۔ ۱۔ تفسیر صافی ۲۔تفسیر قمی ۳۔مجمع البیان ۴۔ منہج الصادقین ۵۔ عمدۃ البیان ۶۔ تفسیر امام حسن عسکری

کتب احادیث: (۱) کافی، اس کے تین حصے ہیں (i)اصول کافی (ii) فروع کافی (iii) کتاب الروضہ،(۲)۔ تہذیب الاحکام (۳)۔ فقہ من لایحضرہ الفقیہً (۴) الاستبصار (۵)۔ نہج البلاغہ (ملفوظات، مکتوبات حضرت علیؓ)

عقائد:۔ i۔ اصول دین:۔ توحید، عدل، نبوت، امامت، قیامت۔

ii۔ فروع دین:۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، خمس، حج، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تولا (اہل بیت سے محبت)، تبراء (دشمنِ اہل بیت سے بیزاری)

حضرت علیؓ کے علاوہ دیگر خلفاء راشدین کی خلافت کا ثبوت

۱۔ ’’اللہ نے تم میں سے ایمان والوں اور مناسب حال عمل کرنیوالوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنادے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔ اور جو دین ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا۔ اور ان کے خوف کی حالت کو امن کی حالت میں تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دئے جائیں گے‘‘۔ (النور:۵۶)

قرآن مجید کی اس آیت (استخلاف) میں سلسلہ خلفاء کا ذکر ہے نہ کسی صرف ایک خلیفہ کا جو حضرت محمد ﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے ذریعہ قائم ہوا۔ اور پہلے تینوں خلفاء پر وہ تمام نشانیاں جو خلیفہ برحق کی بیان کی گئی ہیں پوری ہوئیں۔

آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جھوٹے مدعیان نبوت مرتدین اور منکرین زکوٰۃ کی وجہ سے دین اسلام خطرہ میں پڑ گیا اور قرآن کریم غیر مدون تھا متواتر جنگوں میں صحابہ اور حفاظ کی اکثریت کی شہادت کے سبب قرآن کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا۔ حضرت ابوبکر نے تائید الٰہی سے مرتدین، رومیوں اور کاذب نبیوں کو شکست دی۔ اور جمع قرآن کمیٹی کے ذریعہ ایک جلد میں جمع کروا کر ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا۔

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومیوں و ایرانیوں کو شکست ہوئی، بھاری اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں باقی ماندہ علاقے فتح ہوئے، قرآن کی مختلف قرأتیں ختم کر کے قریش کی ایک ہی قرأت پر لکھا اور مختلف ملکوں میں ارسال کیاگیا۔ پس تینوں خلفاء کے ذریعہ دین مضبوط ہوا۔ قرآن کریم کی تدوین و اشاعت ہوئی۔ خوف امن سے بدل گیا۔ اندرونی و بیرونی دشمن سے ڈر کر انہوں نے شرک نہیں کیا۔ اس لئے تینوں خلفاء برحق تھے۔

۲۔ ’’جب اللہ کی مدد اور کامل غلبہ آئے گا اور تو اس بات کے آثار دیکھ لے گا کہ اللہ کے دین میں لوگ فوج در فوج داخل ہوں گے‘‘۔(النصر:۲،۳) یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ بشارت دی ہے کہ دین اسلام میں لوگ فوج در فوج داخل ہوں گے۔ اگر تین چار آدمیوں کے علاوہ تمام ایمان لانے والے منافق تھے تو پھر وہ کون سی فوجیں تھیں جو دین اسلام میں داخل ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں افراد آنحضرت ؐ پر صدق دل سے ایمان لائے اور انہی لاکھوں افراد نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کی بیعت کی۔ ان خلفاء کے زمانہ میں بھی لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور انہیں خلفاء کو برحق تسلیم کیا۔ پس اگر خلفاء ثلاثہ کا انکار کیا جائے تو آنحضرت ﷺ کی رسالت کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔

شیعہ کتب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے متعلق حوالہ جات

۱۔ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ کی تفسیر میں حدیث آنحضرتؐ نے سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا جب ایمان ثریا ستارے پر چلا جائے گا تو مسلمان کی قوم میں سے بنوفارس اسے واپس لائیں گے۔ (تفسیر مجمع البیان از علامہ طبری زیر آیت سورۃ جمعہ و اخرین منھم)

۲۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تصدیق کے دو عظیم نشان رمضان کے مہینہ میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا۔ (فروع الکافی جلد۳ کتاب الروضہ صفحہ۱۰۰،۱۰۱۔ و بحار الانوار جلد۵۳ صفحہ۲۱۴)

۳۔ امام قائم ۔۔۔ جس کے لئے زمین سمیٹ دی جائے گی۔۔۔۔ بطور ایک منادی آسمان سے صدا کرے گا جس کو اللہ تعالیٰ تمام اہل ارض کو سنا دے گا۔ (بحار الانوار جلد۵۲۔ صفحہ۳۲۱،۳۲۲۔ از علامہ محمد باقر مجلسی۔بیروت)

۴۔ حضرت امام جعفرؓ صادق فرماتے ہیں کہ مہدی کو امام قائم اس لئے کہتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد کھڑا ہوگا ۔۔۔۔ (بحار الانوار جلد۵۱۔ صفحہ۳۰۔ بیروت)

۵۔ امام مہدی اپنے آپ کو آدم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد وغیرہ قرار دے گا۔ (بحار الانوار جلد۵۳۔ صفحہ۹۔ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)

۶۔ امام ابو عبد اللہ جعفر صادق نے فرمایا کہ امام مہدی کے ساتھ ۳۱۳ اصحاب ہوں گے ۔ ان کے علاقے مختلف مگر مقصد ایک ہوگا۔ (بحار الانوار جلد۵۳۔ صفحہ۳۱۰،۳۱۱)

۷۔ امام جعفرؓ نے فرمایا ’’تم میں سے جو شخص متقی بنے وہ اہل بیت میں سے ہے‘‘۔ (تفسیر الصافی از علامہ فیض کاشانی جلد۱۔ صفحہ۸۹۰۔ تہران)

۸۔ جس نے اپنے وقت کے امام کو نہ پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (بحار الانوار جلد۵۱۔ صفحہ۱۶۰۔ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)

۹۔ ’’انا خاتم الانبیاء و انت یا علی خاتم الاولیائ‘‘۔ (تفسیر صافی از ملا محسن فیض کاشانی۔ الاحزاب آیت خاتم النبیین)

میں خاتم الانبیاء اور اے علی تو خاتم الاولیاء ہے۔

ذکری فرقہ

یہ لوگ اللہ کے ذکر پر زیادہ زور دیتے ہیں بلکہ اس کو نماز کاقائم مقام سمجھتے ہیں۔ اس فرقہ کے بانی سید محمد جونپوری ۱۴۴۳ء میں جونپور (انڈیا) میں پیدا ہوئے ان کو یہ لوگ امام مہدی مانتے ہیں۔ علماء کی مخالفت پر آپ سندھ کے علاقہ ٹھٹھہ، مکران، اور خراسان گئے۔ جہاں ان کے پیروکار اب بھی آباد ہیں۔ نیز گوادر اور تربت اسی طرح کراچی اور اندرون سندھ میں بعض مقامات پر ان کی آبادیاں ہیں۔ بلوچوں کے غیر تعلیم یافتہ اور پسماندگان لوگ زیادہ تر اس فرقے کے پیروکار ہیں۔

جماعت احمدیہ ترقی کی شاہراہوں پر- جولائی 2005ء تک کا جائزہ

جماعت احمدیہ کی مساعی پر طائرانہ نظر

جماعت احمدیہ کا خداتعالیٰ کے فضل سے181 ممالک میں قیام۔

امسال2لاکھ 9ہزار7 سو99 افراد کی جماعت احمدیہ میں شمولیت۔

1993ء سے جولائی 2005ء تک نومبائعین کی کل تعداد 16کروڑ62لاکھ 82ہزار7سو17

دنیا کی 60 زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم کی اشاعت۔

جلسہ سالانہ U.K ؁2005 میں دنیا سے 25 ہزار سے زائد افراد کی شرکت۔

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام (؁1908ء۔ تا ؁1835ء) نے مشرقی پنجاب ہندوستان کی ایک گمنام بستی قادیان میں خداتعالیٰ سے الہام پا کر یہ دعویٰ فرمایا کہ آپ وہی مہدی آخرالزمان اور مسیح موعود ہیں جن کے ظہور کی خبر حضرت خاتم النبیّین محمد ﷺ نے دی تھی اور جس کے ذریعہ اسلام کا تمام ادیان باطلہ پر غلبہ مقدر ہے۔ غلبہ اسلام کی اس عالمگیر اور عظیم الشان مہم کو قیامت تک جاری رکھنے کیلئے آپ نے خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت23 مارچ ؁1889ء کو ہندوستان کے شہر لدھیانہ میں 40 مخلصین سے بیعت لے کر ایک جماعت کی بنیاد رکھی اور اس کا نام آنحضرت ﷺ کے احمد نا م کی مناسبت سے جماعت احمدیہ رکھا۔

؁1908ء میں آپ کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ میں نظام خلافت قائم ہوا۔ اور اب جماعت کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں جو ان دنوں لندن میں مقیم ہیں۔ جماعت احمدیہ نظام خلافت کی برکت سے اپنی توانائیوں کو مجتمع کر کے اکنافِ عالم میں تبلیغ دین اور اشاعت قرآن کریم کا عظیم الشان کام جاری رکھے ہوئے ہے اور انتہائی نامساعد حالات اور ہر قسم کی مخالفتوں کے باوجود جماعت احمدیہ کو محض اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے دنیا کے ہر خطّے میں حیران کن ترقیات نصیب ہو رہی ہیں اور دنیا کے مختلف ملکوں‘قوموں‘ رنگوں‘ نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں اور دنیا امت واحدہ کی شکل اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔

جماعت احمدیہ کی ان ترقیات کا ایک مختصر جائزہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔یہ جائزہ جولائی ؁2005ء تک کا ہے۔

1۔ اس وقت تک جماعت احمدیہ خداتعالیٰ کے فضل سے181 ممالک میں قائم ہو چکی ہے۔امسال تین نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ ہوا۔ (یہ تعداد اب 2008ء میں 193 ہوگئی ہے)

2۔ پچھلے اکیس سالوں میں 90 نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ ہوا۔

3۔ امسال پاکستان کے علاوہ دنیامیں488 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں اور 497نئے مقامات پر احمدیت کا پودا لگا ہے اس طرح مجموعی طور پر985 علاقوں میں جماعت احمدیہ کا نفوذ ہو ا ہے

4۔ امسال خدا کے فضل سے بیرون پاکستان319بیوت الذکر کا اضافہ ہوا ۔ان میں سے184 بیوت الذکر نئی تعمیر کی گئی ہیں اور135 بیوت الذکر بنی بنائی اماموں سمیت جماعت کو ملی ہیں۔

5۔ہجرت کے 21سالوں میں بیرون پاکستان خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کی بیوت الذکر میں 13776 کا اضافہ ہوا ہے جن میں سے11695بیوت الذکراماموں اور مقتدیوں سمیت جماعت احمدیہ کواللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں۔

6۔امسال 189نئے مراکز دعوت الی اللہ قائم ہوئے ۔اس طرح ہجرت کے اکیس سالوں میں85 ممالک میں1587نئے مراکز دعوت الی اللہ قائم ہوئے ۔

7۔ دنیا کی 60زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہو چکے ہیں اور مزید 21زبانوں میں تراجم مکمل ہو چکے ہیں.اب ان پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔

8۔دوران سال مختلف ممالک میں18زبانوں میں 58 نئی کتب اور فولڈرز تیار ہوئے ۔اس وقت 27زبانوں میں 151فولڈرز تیار کروائے جا رہے ہیں ۔اسلامی اصول کی فلاسفی 53زبانوں میں چھپ چکی ہے ۔اور مزید 4زبانوں میں اس کا ترجمہ کروایا جارہا ہے۔رسالہ الوصیت9زبانوں میں طبع ہوچکا ہے۔اس کا مزید 21 زبانوں میں ترجمہ کا پروگرام ہے ۔طاہر فاؤنڈیشن کے تحت خطبات طاہر کی تین جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔

9۔دوران سال257 نمائشوں کا اہتمام کیا گیا اور تقریباً پانچ لاکھ سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا یا گیا۔

10۔دوران سال جماعت احمدیہ کی طرف سے2755 بکسٹال اور بک فیئرکا انتظام کیا گیا اور 19لاکھ افراد تک جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچایاگیا۔

11۔دوران سال رقیم پریس اسلام آباد برطانیہ سے 2لاکھ11ہزار کی تعدادمیں کتابیں اور پمفلٹ شائع ہوئے ہیں اسی طرح افریقہ کے مختلف پریسوں سے 3لاکھ9ہزار5سوکتب اور رسائل شائع ہوئے۔

12۔ اس وقت افریقہ کے 12ممالک میں 37 ہسپتال اور کلینک دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں اور 465ہائیرسیکنڈری اور جونئیرسیکنڈری سکولزعلم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔

13۔اس سال جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا کے مختلف T.Vچینلز پر 805گھنٹوں کے 1086پروگرام نشر ہوئے جن کے ذریعہ7 کروڑ سے زائدافراد تک جماعت احمدیہ عالمگیر کا پیغام پہنچا۔

14۔ بورکینا فاسو میں جماعت احمدیہ کا پہلا ریڈیو اسٹیشن قائم ہو چکا ہے ۔جس کے ذریعہ روزانہ ساڑھے سولہ گھنٹے تک دین حق کا پیغام پہنچایا جا رہا ہے ۔اب ان کے دارالحکومت میں T.Vاسٹیشن قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔

15۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے انٹرنیٹ پر ویب سائیٹ www.alislam.orgجماعت احمدیہ امریکہ کی زیر نگرانی کام کر رہی ہے ،انگریزی ویب سائیٹ کے علاوہ عربی، چینی اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ویب سائیٹس موجود ہیں ۔ عربی میں 13 کتب اور پمفلٹس انٹر نیٹ پر دئے جا چکے ہیں ۔احمدیہ ویب سائیٹ کو ہر مہینے 22لاکھ افراد وزٹ کرتے ہیں۔

16۔خدمت خلق کے لئے خدام الاحمدیہ کی عالمی تنظیم Humanity Firstنے سونامی کے موقع پر عظیم الشان خدمات سر انجام دیں ۔انڈونیشیا ۔انڈیا اور سری لنکا میں 9لاکھ ڈالر اکٹھے کر کے خرچ کئے۔ukسے 2لاکھ 85ہزار کلو گرام سامان ارسال کیا گیا۔ جس میں خوراک ادویات کپڑے بستر اور ٹینٹ وغیرہ شامل تھے۔

انڈونیشیا میں8ڈاکٹرز اور 9مددگار سٹاف نے طبی سہولتیں بہم پہنچائیں۔پھر 16ڈاکٹرز دوبارہ گئے۔4ڈاکٹرز امریکہ سے گئے ہیومینٹی فرسٹ کے تحت ہی43مچھیروں کو نئی یا مرمت شدہ کشتیاں دی گئیں۔جن کی کشتیاں ٹوٹ گئی تھیں یا بہہ گئی تھیں۔ سکولوں کی مرمت کا کام ہوا۔400طلباء کو انڈونیشیا میں کتابیں دی گئیں۔اسی طرح بہت سی جگہوں پر ہسپتالوں کو سامان دیا گیا۔ مکانوں کی مرمت کروائی گئی ۔پھر اس کے تحت صحارا ڈیزرٹ کے قریب ڈیڑھ سو ٹن خوراک فراہم کی گئی ۔مالی میں تیس ٹن کے قریب خوراک مہیا کی ۔ یوگنڈا کے بعض علاقوں میں دس ٹن کھانے کا سامان دیا گیا ۔اس کے علاوہ نلکوں اور کنوؤں کے ذریعہ پانی مہیا کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔

17 ۔55 ممالک میں650چھوٹے بڑے ہومیو شفا خانے کام کر رہے ہیں ۔جن کے ذریعہ لاکھوں مریضوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی گئی۔طاہر ہومیو ریسرچ انسٹیٹیوٹ ربوہ کے ذریعہ ایک لاکھ 2ہزارسے زائد مریضوں کا مفت علاج کیا گیا جن میں 40ہزارسے زائدافراد غیر از جماعت تھے .

18۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو یہ ایک عظیم الشان امتیاز عطا فرمایا ہے کہ جنوری1993؁ء سے مسلسل سیٹلائٹ کے ذریعہ ساری دنیا میں دینی پروگرام نشر کئے جارہے ہیں جو ڈش انٹینا کے ذریعہ ٹیلی ویژن پر دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں ۔M.T.A(مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ)کی نشریات چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہیں یہ دینی پروگرام ایک درجن سے زائد زبانوں میں نشر ہوتے ہیں۔ ایم۔ٹی۔اے خدا کے فضل سے نئے دور میں داخل ہو چکا ہے اور پانچوں براعظموں میں ڈیجیٹل نشریات پہنچائی جا رہی ہیں ۔

اللہ کے فضل سے M.T.A.2کا اجراء بھی ہو چکا ہے اور بیت الفتوح لنڈن سے بھیLiveپروگرام دکھائے جا رہے ہیں۔ابM.T.Aکی نشریات موبائل فون پر بھی دستیاب ہیں M.T.Aکے132شعبہ جات میں 99مرد اور39خواتین خدمت سر انجام دے رہے ہیں ان میں سے اکثریت رضا کاروں کی ہے۔

19۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپریل1987؁ء میں تحریک فرمائی کہ جماعت احمدیہ میں آئندہ دو سال کے دوران پیدا ہونے والے بچے دین کی خدمت کے لئے وقف کئے جائیں ۔اس تحریک کو تحریک وقف نو کا نام دیا گیا اب یہ تحریک مستقل تحریک بن چکی ہے ۔اس تحریک کے تحت تیس ہزار سے زائد بچے وقف کئے جا چکے ہیں جن میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے دگنی ہے ۔

20۔ گذشتہ سال جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک سال کے اندر مزید پندرہ ہزار احباب جماعت کو نظام وصیت میں شامل کرنے کی تحریک فرمائی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امسال 16 ہزار ایک سو48احباب نظام وصیت میں شامل ہوئے۔

واضح ہو کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے1905ء میں نظام وصیت قائم فرمایا اور الٰہی بشارات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے متقی پرہیز گار اور احکام شریعت کے پابند اور اپنی جائیدا وآمد کا کم از کم 1/10اور زیادہ سے زیادہ1/3حصہ دین کی اشاعت کے لئے پیش کرنے والے احباب کو جنت کی خوشخبری دی اور ایسے احمدی جو جماعتی نظام کے مطابق ان شرائط کی پابندی کا عہد کرتے ہیں وہ نظام وصیت میں شامل ہو جاتے ہیں ۔

21۔امسال 2لاکھ9ہزار7سو99افراد نے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق پائی۔

22 ۔ جماعت احمدیہ برطانیہ اپنا جلسہ سالانہ اسلام آباد ٹلفورڈ لندن میں منعقد کیا کرتی تھی ۔لیکن جگہ کی قلت اور مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے امسال جلسہ سالانہ یوکے رشمور میں کرایہ پر حاصل کردہ 120ایکڑ رقبہ میں منعقد ہوا اور جلسہ کے انتظامات دو جگہ اسلام آباد اور رشمور میں کرنے پڑے لیکن اب جماعت احمدیہ نے جلسہ گاہ کے لئے اسلام آباد ٹلفورڈ لندن سے گیارہ میل کے فاصلے پر 208ایکڑ رقبہ پچیس لاکھ پونڈ میں خرید لیا ہے

23۔عالمی بیعت 1993ء سے جولائی2005ء تک جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والوں کی تعداد16کروڑ62لاکھ82ہزار 7سو17ہے۔

24۔امسال جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ یوکے میں دنیا سے 25ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی توفیق پائی۔

یہاں پر طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ جو دنیا کے مقابل پر ایک چھوٹی سی جماعت ہے اور مالی وسائل کے اعتبار سے بھی نہ اس کے پاس تیل کی طاقت ہے نہ صنعتی وسائل ہیں۔ پھر اسے یہ عظیم الشان کامیابی اور عظیم الشان وسعتیں کیسے نصیب ہو رہی ہیں جبکہ دوسری مذہبی جماعتیں مسلسل افتراق اور انتشار کا شکار ہیں اور دن بدن ٹوٹتی اور بکھرتی جا رہی ہیں۔

واضح ہو کہ جماعت احمدیہ کی ترقی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے پیچھے وہ خداتعالیٰ ہے جو تمام طاقتوں کا مالک ہے اور تمام وسائل جس کے تصرف میں ہیں اور یہ جماعت ایسا پودا ہے جس کی نگہبانی وہ قادر و توانا ہستی کر رہی ہے۔

دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ وہ خدا جو واحد ہے اس نے اس جماعت کو بھی وحدت بخشی ہوئی ہے اور یہ جماعت اس کے فضل سے ہر قسم کے بغض و نفاق اور افتراق و انتشار سے پاک ہے اور خدا تعالیٰ نے افراد جماعت کے دلوں کو محبت اور الفت کے رشتوں میں باندھ دیا ہے اور یہ بھائی بھائی بن چکے ہیں اور اس جماعت میں ایک عالمگیر اخوت کا ماحول خداتعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو چکا ہے۔

تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کو ایک عالمگیر امامت نصیب ہے۔ امام جماعت احمدیہ ہر احمدی سے بے انتہا شفقت اور ماں باپ سے بڑھ کر ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں اور ہر فرد جماعت اپنے امام سے بے پناہ محبت اور وفاشعاری کا مضبوط تعلق رکھتا ہے اور ان کے ہر فرمان پر عمل کرنا اپنی زندگی کی سب سے بڑی سعادت تصور کرتا ہے گویا امامت اور افراد میں باہمی محبت وپیار کا ایسا رشتہ ہے جس کی مثال دنیوی رشتوں میں نہیں ملتی جبکہ دوسری دنیا آج اس نعمت سے محروم ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر جماعت احمدیہ کو خداتعالیٰ کے فضل سے غیرمعمولی ترقیات نصیب ہو رہی ہیں۔ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء

دجال کی حقیقت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ میں امت کی اصلاح کے لئے ایک مسیح اور مہدی کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی اور اس کے ظہور کی علامات میں سے ایک ضروری علامت دجال کا ظہور بیان فرمائی۔ دجال کے متعلق عوام الناس میں عجیب و غریب قسم کی کہانیاں مشہور ہیں اور وہ اسے عجیب الخلقت غیر معمولی قوتوں اور طاقتوں کا حامل فرد قرار دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دجال کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشگوئیاں فرمائی ہیں وہ آپ کے رؤیا اور مکاشفات پر مشتمل ہیں جیسا کہ دجال کا ذکر کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔

بَیْنَمَا اَنَا نَائِمٌ اَطُوْفُ بِالْکَعْبَةِ (بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

یعنی میں نے سوتے ہوئے خواب میں کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔

رؤیا، مکاشفات اور پیشگوئیوں سے متعلق یہ مسلمہ اصول ہے کہ اکثر و بیشتر تعبیر طلب ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب میں گیارہ ستاروں، چاند اور سورج کو اپنے سامنے سجدہ کرتے دیکھا تو اس سے مراد ظاہری سورج اور چاند ستارے نہ تھے بلکہ ان کے بھائیوں اور والدین کا زیر احسان ہو کر ان کے پاس آنا تھا۔

اسی طرح مسلم کتاب الفتن باب ذکرابن صیاد میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے ایک یہودی لڑکے ابن صیاد (جو بعد میں مسلمان ہو گیا) پر دجال ہونے کا شبہ کیا اور حضرت عمرؓ نے آپ کے سامنے اس بات پر قسم کھائی کہ یہی دجال ہے اور آپ نے اس کی تردید نہیں فرمائی۔ حالانکہ ظاہراً ابن صیاد میں دجال کی اکثر علامات بالکل مفقود تھیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ بھی دجال کے متعلق پیشگوئیوں کو مجازی رنگ میں سمجھتے تھے اور تمام علامات کا ظاہری اور جسمانی طور پر پایا جانا ہرگز ضروری نہ سمجھتے تھے۔

قرآن کریم، احادیث نبویہ اور دجال کے لغوی معنوں سے پتہ چلتا ہے کہ دجال سے مراد کوئی عجیب الخلقت فرد نہیں بلکہ آج کی ترقی یافتہ مغربی عیسائی اقوام کے مذہبی راہنما ہیں۔ چند دلائل پیش ہیں:۔

۱۔ دجال کے لغوی معنی

(i)۔ کذاب یعنی سخت جھوٹا۔

(ii)۔ مالدار اور خزانوں والا۔

(iii)۔ بڑا گروہ جو اپنی کثرت سے زمین کو ڈھانپ لے۔

(iv)۔ ایسا گروہ جو اموال تجارت اٹھائے پھرے۔ (لسان العرب)

گویا دجال کے لغوی معنی یہ بنے کہ ایک کثیر تعداد جماعت جو تاجر پیشہ ہو اور اپنا تجارتی سامان دنیا میں لئے پھرے جو نہایت مالدار اور خزانوں والی ہو اور جو تمام دنیا کو اپنی سیر و سیاحت سے قطع کر رہی ہو اور ہر جگہ پہنچی ہوئی ہو گویا کوئی جگہ اس سے خالی نہ رہی ہو۔ اور مذہباً وہ ایک نہایت ہی جھوٹے عقیدہ پر قائم ہو اور یہ تمام علامات مغربی ممالک کی مسیحی اقوام کے مذہبی راہنماؤں میں موجود ہیں۔

دجال اور قرآن کریم و احادیث نبویہ

۲۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے فتنہ سے بچنے کے لئے سورۂ کہف کی ابتدائی آیات پڑھنے کا ارشاد فرمایا اور سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات میں مسیحیت کا رد فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:۔

وَّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا (الکہف:۵)

یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے کہ اس کے ذریعہ ان کو ڈرایا جائے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا بنا لیا۔

پس دجال کا فتنہ اور مسیح کا فتنہ ایک ہی شے ہے کیونکہ علاج بیماری کے مطابق ہوتا ہے اگر دجالی فتنہ مسیحی فتنہ سے علیحدہ ہوتاتو ممکن نہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا حکیم انسان دجال سے بچنے کے لئے ایسی آیات پڑھنے کا حکم دیتا جن میں اس کا ذکر تک نہیں۔

۳۔ حدیث میں دجال کے فتنہ کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ (مسلم کتاب الفتن باب فی بقیہ احادیث الدجال)

قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے خطرناک فتنہ مسیحیوں کا مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دینا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:۔

قریب ہے کہ تمہاری اس بات سے آسمان پھٹ کر گر جائیں اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر زمین پر جا پڑیں۔ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا (مریم:۹۲)کہ ان لوگوں نے خدائے رحمان کا بیٹا قرار دیا ہے۔

اور اس خطرناک فتنہ کے بانی مبانی عیسائی پادری ہی ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرارد یا اور وہی دجال ہیں۔

۴۔ سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو فتنوں سے بچنے کی دعا سکھلائی ہے۔

(ا) مغضوب علیھم کا فتنہ جس سے مراد یہود ہیں۔

(ب)۔ الضالین کا فتنہ جس سے مراد عیسائی ہیں۔

یہود کو دجال قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْا (آل عمران:۱۱۳) یعنی جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں ان پر ذلت نازل کی گئی ہے۔ گویا یہود ہمیشہ مغلوب رہیں گے لیکن قرآن کریم اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ مسیح اور مہدی کے زمانہ میں عیسائیت کا غلبہ ہوگا۔

پس معلوم ہوا کہ دجال سے مراد عیسائی پادری ہی ہیں اور اگر اس سے مراد کوئی اور فرد یا قوم ہوتی تو سورہ فاتحہ میں ضرور اس سے بچنے کی دعا سکھلائی جاتی۔

۵۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کے غلبہ کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ‌‌ۚ (آل عمران:۵۶)

ترجمہ:۔ (اے عیسیٰ) جو تیرے پیرو ہیں انہیں ان لوگوں پر جو منکر ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا۔

اس آیت کے مطابق غلبہ اور سلطنت قیامت تک یا عیسائیوں کے لئے مقدر ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کے رسمی متبع ہیں یا مسلمانوں کے لئے جو آپ کے حقیقی متبع ہیں۔ مسلمانوں کو دجال قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ حدیث میں دجال کو کافر کہا گیا ہے لہذا حضرت عیسیٰ ؑ کے رسمی متبع عیسائیوں ہی کو دجال قرار دیا جاسکتا ہے جن کے غلبہ کا اس آیت میں ذکر ہے۔

۶۔ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت تمیم داریؓ نے دجال کو ایک مغربی جزیرہ کے گرجے میں مقید دیکھا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دجال سے مراد مغربی عیسائی قومیں ہیں۔

علامات دجال

(۱)۔ بخاری کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتاب مریم میں ہے کہ ’’دجال دائیں آنکھ سے کانا ہوگا‘‘

پھر فرمایا

’’اس کی بائیں آنکھ بہت چمکتی ہوئی ہوگی گویا کہ وہ ایک موتی ہے‘‘ (کنز العمال جلد۱۴ باب فی خروج الدجال حدیث ۳۸۷۸۴ مکتبۃ التراث حلب)

اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی بائیں آنکھ یعنی دنیا کی آنکھ بہت تیز ہوگی اور دنیوی معاملات میں بڑی گہری نظر رکھے گا لیکن دائیں آنکھ سے اندھا یعنی دین سے بے بہرہ ہوگا۔

۲۔ ’’اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک۔ ف۔ ر لکھا ہوگا جسے پڑھا ہوا اور ان پڑھ دونوں پڑھ سکیں گے‘‘ (صحیح بخاری۔ کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

یعنی اس کا کفر ظاہر و باہر ہوگا۔

۳۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو ظاہری حلیہ کے لحاظ سے ایک تنومند نوجوان، چوڑے سینے والا، سفید رنگ روشن پیشانی والا دیکھا (مصنف ابن ابی شیبہ جلد۱۵ کتاب الفتن ما ذکر فی فتنۃ الدجال)

مغربی اقوام کے یہی خدو خال ہیں جن کے نمائندہ کے طور پر آپ کو ایک شخص دکھایا گیا۔

۴۔ مسلم کتاب الفتن باب فی بقیۃ قصۃ الدجال میں ہے کہ ’’اصفہان کے ۷۰ ہزار یہودی دجال کے ساتھ ہوں گے‘‘

آج یہودی مسیحی اقوام کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔

۵۔ فرمایا دجال روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کی نہر ساتھ لے کر چلے گا۔ اور بڑی تیزی سے دنیا میں پھیلے گا۔ اور ہر طرف فتنہ و فساد اور تباہی پھیلائے گا اور جسے چاہے گا قتل کرے گا اور جسے چاہے گا زندہ کرے گا اس کے حکم پر بارش بھی برسے گی اور زمین کھیتی اگائے گی اور اپنے خزانے نکال باہر کرے گی۔(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

اس حدیث کے ظاہری معنوں کی رو سے دجال کو خدا یا خدائی طاقتیں رکھنے والی ہستی ماننا پڑتا ہے جو اسلام کے بنیادی عقیدہ توحید کے خلاف ہے پس اس حدیث کا یہ مطلب لئے بغیر چارہ نہیں کہ دجال اپنی خصوصیات اور کارگزاریوں سے خدا کے کاموں پر ہاتھ ڈالے گا اور کوشش کرے گا کہ بارش برسانا، بارش بند کرنا، پانی بکثرت پیدا کرنا اور خشک کرنا تمام نظام طبعی پر اسے تصرف حاصل ہوجائے روٹیوں کے پہاڑ اور پانی کی نہر ساتھ ہونے میں ایک تو ان طاقتور مغربی قوموں کے کل دنیا پر اقتصادی اور معاشی ا قتدار اور غلبہ کا ذکر ہے۔ دوسری طرف اس کی ایجاد کردہ سواریوں، ریل گاڑی، ہوائی جہاز، بحری جہاز کی طرف اشارہ ہے جن میں دوران سفر خوراک وغیرہ کے جملہ سامان مہیا ہوتے ہیں۔

۶۔ اس کے ساتھ جنت بھی ہوگی اور آگ بھی ہوگی اور جسے وہ جنت کہے گا وہ حقیقتاً آگ ہوگی۔ (بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللہ ولقد ارسلنا نوحا)

اس کے بھی ظاہری معنی قبول کرنے محال اور خلاف توحید ہیں یہی وجہ ہے کہ شارح بخاری علامہ ابن حجر نے اس کی یہ تشریح کی ہے کہ:۔

دجال انعام و اکرام اور سزا پر قادر ہوگا جو اس کی اطاعت کرے گا اس پر انعام و اکرام کرے گا گویا وہ اسے اپنی جنت میں داخل کرے گا لیکن حقیقتاً اخروی لحاظ سے یہ جہنم ہوگی اور جو اس کی نافرمانی کرے گا وہ اس کی دنیا جہنم بنا دے گا مگر ایسے لوگ اخروی جنت کے وارث ہوں گے۔ (فتح الباری شرح بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

یہ صفات بھی آج عیسائی اقوام میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

۷۔ دجال کے دونوں کانوں میں سے ہر ایک کی لمبائی تیس (۳۰) ہاتھ ہوگی۔ (کنزالعمال۔ کتاب القیامہ من قسم الافعال باب الدجال حدیث ۳۹۷۰۹)

یعنی دجال ایسی ایجادات کرے گا جس سے پیغام رسانی کا کام آسان ہو جائے گا۔ جیسے ٹیلیفون، فیکس، ای میل وغیرہ۔ اور یہ ایجادات مغربی اقوام کی ہی ہیں۔

۸۔ مسیح موعود دجال کو باب لد کے پاس قتل کرے گا۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

لدکے معنی ہیں بحث کرنے والے جھگڑنے والے افراد۔

فرمایا وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا‏ (مریم:۹۸) یعنی قرآن اس لئے آیا ہے کہ تو اس کے ذریعہ بحث کرنے والی قوم کو انذار کرے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود دجالی عقائد باطلہ کو علمی و عقلی دلائل سے توڑے گا اور اس پر فتح حاصل کرے گا چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے عیسائیت کے خلاف ایسے روشن دلائل پیش فرمائے کہ اس کی بنیادیں ہل گئیں۔

۹۔ دجال مسیح موعود کو دیکھ کر نمک کی طرح گھلتا جائے گا اور اللہ تعالیٰ مسیح کے ذریعہ دجال کو ہلاک کرے گا۔ (مسلم کتاب الفتن باب فی فتح قسطنطنیۃ و خروج الدجال و نزول عیسی ابن مریم)

دجال مشرق سے نکلے گا اور وہ زمانہ اختلاف اور فرقہ بندی کا ہوگا اور دجال کا غلبہ چالیس دن رہے گا(یعنی اسے کامل غلبہ حاصل ہوگا) مومن سخت تنگی محسوس کریں گے تب حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لا کر لوگوں کی امامت کرائیں گے اور جونہی وہ رکوع سے سر اٹھائیں گے اللہ تعالیٰ دجال کو قتل کر دے گا اور مسلمان غالب آجائیں گے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد جلد۷ صفحہ۳۴۹۔ مکتبۃ القدسی القاہرہ ۱۳۵۳ھ)

ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ مسیح موعود اور اس کی جماعت کو دجال کے مقابل پر غلبہ عبادات اور دعاؤں کے نتیجہ میں حاصل ہوگا۔

۱۰۔ دجال خانہ کعبہ کا طواف کرے گا۔ (بخاری کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتٰب مریم)

اس حدیث کی تشریح میں علامہ تو ربشتی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت نبی اکرمؐ کی رؤیا اور مکاشفات میں سے ہے اور حضرت عیسیٰ 174کے خانہ کعبہ کے گرد طواف کا مطلب یہ ہے کہ آپ دین کی اصلاح اور اسے قائم کرنے کے لئے دین کے گرد طواف کریں گے اور دجال دین میں فساد اور کجی پیدا کرنے کے لئے دین کے گرد چکر لگائے گا۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد۹ صفحہ۴۱۱ کتاب الفتن باب علامات بین یدی الساعۃ)

اسی شرح مشکوٰۃ میں مولوی عبد الحق صاحب محدث دہلوی نے بھی دجال کے خانہ کعبہ کے طواف سے مراد یہ لیا ہے کہ دجال خانہ کعبہ کی ویرانی اور تباہی کے درپے ہوگا۔ (مظاہر الحق شرح مشکوۃ جلد۴ کتاب الفتن باب علامۃ بین یدی الساعۃ و ذکر الدجال )

یہ علامت بھی مغربی عیسائی اقوام اور ان کے پادریوں میں بدرجہ اتم موجود ہے کیونکہ وہ اسلام پر اعتراض کرنے اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

خر دجال کی علامات

دجال ایک ایسے گدھے پر سوار ہوگا جو روشن ہوگا اس کے دونوں کانوں کے درمیان ستر گز کا فاصلہ ہوگا۔ (مشکوۃ المصابیح کتاب الادب باب العلامات و ذکر الدجال)

دجال کے گدھے کے ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں کا فاصلہ ایک دن اور ایک رات کے برابر ہوگا اور وہ ساری زمین کا سفر کرے گا۔وہ بادلوں کو پکڑنے پر قادر ہوگا اور سورج کے غروب ہونے کی جانب سفر کرتے ہوئے سورج سے بھی آگے نکل جائے گا۔وہ سمندر میں چلے گا اور سمندر کا پانی اس کے ٹخنوں تک ہوگا۔جب وہ سفر کرے گا تو بلند آواز سے یہ اعلان کرے گا اے میرے دوستو میری طرف آجاؤ۔ اے میرے پیارو میری طرف آجاؤ۔ (کنز العمال کتاب القیامۃ من قسم الافعال باب الدجال۔حدیث ۳۹۷۰۹)

ان سواریوں میں سوراخ یعنی دروازے بھی ہوں گے اور زینیں یعنی نشتیں بھی ہوں گی۔ (بحار الانوار جلد۵۲ صفحہ۱۹۲ از امام محمد باقر مجلسی دار احیاء التراث العربی لبنان)

ان احادیث میں دجالی قوموں کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ ایسی تیز رفتار سواریاں ایجاد کریں گی جن میں لائیٹس لگی ہوں گی جن پر بیٹھنے کے لئے نشستیں ہوں گی وہ سواریاں زمین پر بھی چلیں گی یعنی ریل گاڑیاں اور موٹریں وغیرہ اور فضا میں بھی اڑیں گی یعنی ہوائی جہاز اور سمندر میں بھی چلیں گی یعنی بحری جہاز اور گدھے کے دو کانوں کے درمیان فاصلے سے یہ مراد ہے کہ یہ قومیں ایسی ایجادات کریں گی جس سے پیغام رسانی کا کام بہت ہی کم وقت میں سر انجام دیا جاسکے گا جیسے ٹیلیفون، انٹر کام وغیرہ اور پیغام رسانی کی یہ سہولتیں دجال کی ایجاد کردہ سواریوں میں بھی موجود ہوں گی اور عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔

چنانچہ بعض علماء نے دجال کے گدھے سے مراد ریل گاڑی لی ہے۔ (ھدیہ مہدویہ صفحہ۸۹،۹۰ مطبع کانپور ۱۳۹۳ھ)

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کی جو علامات بیان فرمائیں تھیں وہ آج لفظ بلفظ پوری ہو چکی ہیں اور اگر دجال ظاہر ہوچکا ہے تو مسیح موعود کا ظہور بھی ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیح موعود کا بھی ظہور ہو چکا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دجال کی تباہ کاریوں سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اس موعود کو پہچانا جائے۔

یاجوج و ماجوج کی حقیقت

حدیث میں مسیح موعود اور مہدی معہود کے ظہور کی ایک علامت یاجوج وماجوج کا خروج بیان کی گئی ہے۔ یاجوج و ماجوج کے متعلق عوام الناس میں عجیب و غریب کہانیاں پائی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس، انگریز اور ان کی اتحادی حکومتیں ہیں کیونکہ قرآن اور حدیث میں دجال اور یاجوج وماجوج دونوں کے غلبہ کا ایک ہی زمانہ میں ذکر ملتا ہے جبکہ دونوں کا بیک وقت غلبہ ممکن نہیں۔ دراصل دجال اور یاجوج وماجوج ایک ہی قوم کے دو نام ہیں مغربی عیسائی قوموں کے مذہبی راہنماؤں کو دجال کا نام دیا گیا ہے اور ان ہی کا سیاسی و قومی نام یاجوج و ماجوج ہے۔

یاجوج و ماجوج کے الفاظ أجَّ سے مشتق ہیں جس سے مراد آگ کے شعلے مارنے اور بھڑکنے کے ہیں۔ (لسان العرب زیر لفظ یاجوج)

ان قوموں کے اس نام میں ایک اشارہ آگ کو مسخر کرنے اور بڑی مہارت سے آگ سے کام لینے کی طرف ہے اور دوسرا اشارہ ان قوموں کی ناری سرشت کی طرف تھا کہ یہ متکبر قومیں انتہائی تیز اور چالاکی اور ہوشیاری میں یکتا ہوں گی اور انہیں اقوام کا سیاسی اور قومی نام یاجوج اور ماجوج ہے۔

حضرت بانی جماعت احمدیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’یہ خیال کہ یاجوج ماجوج بنی آدم نہیں بلکہ اور قسم کی مخلوق ہے یہ صرف جہالت کا خیال ہے۔ کیونکہ قرآن میں ذوالعقول حیوان جو عقل اور فہم سے کام لیتے ہیں اور مورد ثواب یا عذاب ہو سکتے ہیں وہ دو ہی قسم کے بیان فرمائے ہیں۔ (۱)ایک نوع انسان جو حضرت آدم کی اولاد ہیں۔ (۲)دوسرے وہ جو جنات ہیں۔ انسانوں کے گروہ کا نام معشر الانس رکھا ہے اور جنات کے گروہ کا نام معشر الجن رکھا ہے۔ پس اگر یاجوج ماجوج جن کے لئے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں عذاب کا وعدہ ہے معشر الانس میں داخل ہیں یعنی انسان ہیں تو خواہ مخواہ ایک عجیب پیدائش ان کی طرف منسوب کرنا کہ ان کے کان اس قدر لمبے ہوں گے اور ہاتھ اس قدر لمبے ہوں گے اور اس کثرت سے وہ بچے دیں گے ان لوگوں کا کام ہے جن کی عقل محض سطحی اور بچوں کی مانند ہے اگر اس بارے میں کوئی حدیث صحیح ثابت بھی ہو تو وہ محض استعارہ کے رنگ میں ہوگی۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کی قومیں ان معنوں سے ضرور لمبے کان رکھتی ہیں کہ بذریعہ تار کے دور دور کی خبریں ان کے کانوں تک پہنچ جاتی ہیں اور خدا نے بری اور بحری لڑائیوں میں ان کے ہاتھ بھی نبرد آزمائی کی وجہ سے اس قدر لمبے بنائے ہیں کہ کسی کو ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔۔۔۔ پس جبکہ موجودہ واقعات نے دکھلا دیا ہے کہ ان احادیث کے یہ معنی ہیں اور عقل ان معنوں کو نہ صرف قبول کرتی بلکہ ان سے لذت اٹھاتی ہے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ خوامخواہ انسانی خلقت سے بڑھ کر ان میں وہ عجیب خلقت فرض کی جائے جو سراسر غیر معقول اور اس قانون قدرت کے برخلاف ہے جو قدیم سے انسانوں کے لئے چلا آتا ہے اور اگر کہو کہ یاجوج ماجوج جنات میں سے ہیں انسان نہیں ہیں تو یہ اور حماقت ہے کیونکہ اگر وہ جنات میں سے ہیں تو سد سکندری ان کو کیونکر روک سکتی تھی جس حالت میں جنات آسمان تک پہنچ جاتے ہیں جیسا کہ آیت فَاَتْبَعَہٗ شَھَابٌ ثَاقِبٌ ۱؂ سے ظاہر ہوتا ہے تو کیا وہ سد سکندری کے اوپر چڑھ نہیں سکتے تھے جو آسمان کے قریب چلے جاتے ہیں۔ اور اگر کہو کہ وہ درندوں کی قسم ہیں جو عقل اور فہم نہیں رکھتے تو پھر قرآن شریف اور حدیثوں میں ان پر عذاب نازل کرنے کا کیوں وعدہ ہے کیونکہ عذاب گنہ کی پاداش میں ہوتا ہے اور نیز ان کا لڑائیاں کرنا اور سب پر غالب ہوجانا اور آخر کار آسمان کی طرف تیر چلانا صاف دلالت کرتا ہے کہ وہ ذوالعقول ہیں بلکہ دنیا کی عقل میں سب سے بڑھ کر‘‘۔(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد۲۳۔ صفحہ۸۴،۸۵ حاشیہ)
بائیبل میں روس کے فرمانرواؤں کو جوج کا نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔

’’اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبل کا فرمانروا ہے متوجہ ہو اور اس کے خلاف نبوت کر اور کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ دیکھ اے جوج، روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالف ہوں‘‘۔ (حزقیل باب۳۸ آیت۱تا ۳)
واضح ہو کہ مسک (ماسکو) اور توبل (ٹوبالسک) روس کے ہی مختلف علاقے ہیں۔ اور ماسکو شہر دریائے ماسکو کے کنارے آباد ہے اور اسی بنا پر اس شہر کو ماسکو کا نام دیا گیا ہے اس طرح ٹوبالسک شہر نے دریائے توبل کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے ٹوبالسک کا نام پایا۔

قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ یاجوج و ماجوج آخری زمانہ میں بہت زیادہ ترقی کریں گے اور ان کا زمین کے اکثر حصہ پر تسلط، غلبہ اور اثر و رسوخ ہوگا۔ چنانچہ فرمایا

حَتّٰٓى اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ‏ ( الانبیاء:۹۷)

یعنی ’’یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیا جائے گا اور وہ ہر پہاڑی اور ہر سمندر کی لہر پر سے پھلانگتے ہوئے دنیا میں پھیل جائیں گے‘‘۔

حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ

اللہ تعالیٰ (موعود) عیسٰیؑ کو وحی کرے گا کہ میں نے ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن کے ساتھ کسی کو جنگ کی طاقت نہیں پس میرے بندوں کو طور پہاڑ کی طرف لے جا اور اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو کھڑا کرے گا اور وہ ہر بلندی سے چڑھ دوڑیں گے۔ ۔۔۔ نبی اللہ عیسیٰ اور اس کی جماعت دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی ہلاکت کے لئے طاعون پیدا کرے گا۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
یعنی یاجوج و ماجوج سے ظاہری مقابلہ کی کسی کو طاقت نہ ہوگی تب مسیح موعود کو اپنی جماعت کے ساتھ طور پہاڑ کی پناہ لینے کی ہدایت کی جائے گی یعنی عبادات اور دعاؤں کی طرف توجہ دلائی جائے گی اور بالآخر دعاؤں اور آسمانی نشانوں سے ہی مسیح موعود کی جماعت کو ان طاقت ور قوموں پر فتح ہوگی۔

پھر مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال میں ہے۔

’’یاجوج و ماجوج آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے‘‘
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج قومیں آگ سے کام لے کر علم ہیئت اور خلائی تحقیق میں بہت زیادہ ترقی کریں گی اور جدید قسم کی خلائی گاڑیاں اور میزائل وغیرہ ایجاد کر کے مختلف سیاروں پر پہنچیں گی۔

مندرجہ بالا علامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یاجوج وماجوج سے مراد روس اور آج کی ترقی یافتہ مغربی اقوام اور امریکہ ہیں جنہوں نے آگ کی قوت کو تسخیر کر کے اور ایٹم بم ایجاد کر کے اپنی ناری سرشت کے اظہار کے طور پر ساری دنیا پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے۔ چنانچہ یہ قدیمی نام آج تک مغربی اقوام اپنے لئے استعمال کر رہی ہیں گلڈ ہال لندن میں نصب یاجوج و ماجوج کے مجسمے اس کی کافی شہادت ہیں جن کو دوبارہ ایستادہ کرنے کی تقریب پر ۱۹۵۱ء میں چرچل نے یاجوج کو روس اور ماجوج کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا نشان قرار دیا تھا۔ (لندن ٹائم ۱۰ نومبر ۱۹۵۱ء)

چنانچہ خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں:۔

’’یاجوج ماجوج روس و جرمن کی قومیں ہیں جو سیلاب طوفان کی طرح دنیا پر امڈنا چاہتی ہیں‘‘۔ (کتاب الامر از خواجہ حسن نظامی صفحہ۸ سٹیم پریس امرتسر ۱۹۱۲ء)
اسی طرح علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے انہیں قوموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:۔

’’کھل گئے‘‘ یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرفِ ’’ینسلون‘‘

(بانگ درا صفحہ۲۸۹۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشر لاہور)

اہل سنت کے محقق حکیم سید محمد حسن صاحب امروہی نے لکھا:

’’ہزار سال دولت اسلامیہ کے بعد خروج دوئم یاجوج وال183 روس و ماجوج انگریز وغیرہ جیسے فرمایا تھا وہ سب کچھ پورا ہوا‘‘۔(کواکب دریہ صفحہ۱۶۳ ۔از حکیم سید محمد حسن امروہی)
پس یاجوج و ماجوج کے متعلق قرآن کریم اور ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مکاشفات میں آج سے چودہ سو سال قبل جو علامتیں بیان فرمائی تھیں وہ آج لفظ بلفظ پوری ہو چکی ہیں ان علامتوں کا پورا ہونا جہاں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا ایک عظیم الشان نشان ہے وہاں ہمیں اس بات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ ہم اس موعود مہدی اور مسیح کو بھی تلاش کریں جس کے زمانہ کی یہ ساری علامتیں آپؐ نے بیان فرمائی ہیں۔

اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ علامات تو ساری پوری ہو جائیں لیکن وہ موعود ظاہر نہ ہو۔ ہاں وہ موعود بھی ظاہر ہوچکا ہے اور اس نے ببانگ دہل یہ اعلان فرمایا :۔

؂ میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار

فرقہ ناجیہ

آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہؓ کو یہ خبر دی کہ ایک وقت میں میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ اور ان میں سے ایک فرقہ جنتی ہوگا۔ تو

صحابہؓ نے پوچھا۔ یا رسول اللہ! ﷺ اس ناجی فرقہ کی علامت کیا ہوگی؟ تو آپ ﷺ نے دو علامتیں بیان فرمائیں۔

(۱) الجماعۃ وہ ایک منظم جماعت ہوگی

(۲) ما انا علیہ و اصحابی وہ میرے اور میرے صحابہؓ کے نقش قدم پر چلنے والا ہوگا

آج بلاشبہ امت مسلمہ 73 فرقوں میں بٹ چکی ہے۔ مگر وہ کون سا فرقہ ہے جو نجات یافتہ ہے؟ تاکہ ہر مسلمان اس سے وابستہ ہوکر دنیا اور آخرت میں

سرخرو ہو۔

عالمگیر جماعت

آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے فرقوں میں سے ایک صرف جماعت احمدیہ ہے جو عالمگیر جماعت ہے۔ اس کی تعداد 15 کروڑ کے لگ بھگ

ہے ۔ 193 سے زیادہ ملکوں میں پھیل چکی ہے مگر ایک امام کے ہاتھ پر اکٹھی ہے اور تنظیم اور اتحاد میں بے مثال ہے۔ یہی وہ جماعت ہے جو

آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے نقش قدم پر چل کر دین کی خاطر حیرت انگیز قربانیاں پیش کررہی ہے جس کا اعتراف مسلمان فرقوں کے لیڈروں

اور غیر مسلموں کو بھی ہے۔

حکیم برہم صاحب ایڈیٹر مشرق گورکھپور

ہندوستان میں صداقت اور اسلامی سپرٹ صرف اس لئے باقی ہے کہ یہاں روحانی پیشواؤں کے تصرفات باطنی اپنا کام برابر کررہے ہیں اور کچھ عالم بھی

اس شان کے ہیں جو عبدالدرہم نہیں ہیں اور سچ پوچھو تو اس وقت یہ کام جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کے حلقہ بگوش اسی طرح انجام دے رہے

ہیں جس طرح قرون اولیٰ کے مسلمان سر انجام دیا کرتے تھے ۔ (مشرق 24 جنوری 1929ء)

یہی اخبار مزید لکھتا ہے:

اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزی یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہورہے ہیں ۔ ایک

احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سر انجام دے رہی ہے۔ (مشرق

23ستمبر1927ء)

سکھ سکالر سردار شمشیر سنگھ صاحب

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ احمدی مسلمانوں نے اپنے دین اسلام کی تبلیغ کے لئے عملی صورت میں جتنی سرتوڑ کوشش کی ہے وہ شاید ہی عرب کے

خلفاء (راشدین) کے بعد کسی اور اسلامی جماعت نے کی ہو۔ (ماہنامہ پنجابی جیون پریتی پٹیالہ مارچ 1963ء)

صحابہؓ رسول کی راہ

اب تک اس جماعت کے سو سے زائد افراد کو دین کے نام پر دنیا کے مختلف خطوں میں شہید کیا جاچکا ہے۔ 1984ء سے کلمہ طیبہ مٹانے کی تحریک

میں اس جماعت کو صحابہ کی طرح قربانیاں دینے کی توفیق ملی۔ ربوہ میں قریباً 50ہزار احمدی بستے ہیں ۔ اور ان تمام پر کلمہ پڑھنے کے جرم میں مقدمہ

قائم کیا گیا ہے۔ (نوائے وقت 21دسمبر1989ء)

اصغر علی گھرال ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ الزام تو لگتا رہا کہ مسلمانوں نے زبردستی کافروں کو کلمہ طیبہ پڑھوایا۔ البتہ پڑھنے والوں کو بنوک

شمشیر اس سے باز رکھنے کی کوئی مثال پہلے نہیں ملتی ۔ (اسلام یا ملاازم صفحہ 146)

حسین شاہ صاحب ایڈووکیٹ

ایک وہ زمانہ تھا جب مسلمان کلمہ طیبہ کی تبلیغ اور صوم صلوٰۃ کے قیام کے لئے دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے اور ایک دن یہ ہے کہ اگر کوئی

قادیانی صدق دل سے بھی کلمہ طیبہ پڑھنا چاہے تو نہیں پڑھ سکتا کیونکہ اس کے لئے کلمہ طیبہ پڑھنے پر پابندی ہے بلکہ ایساکرناتعزیری جرم بھی ہے۔

(آمریت کے سائے ، صفحہ 384)

قربانیوں کی کہکشاں

اپریل 1984 ؁ء سے لے کر مارچ 2011 ؁ء تک پاکستان میں شہید کئے جانے والے احمدی: 205

اپریل 1984 ؁ء سے لے کر دسمبر 2009 ؁ء تک :

جن پر قاتلانہ حملے کئے گئے 120

احمدیوں کی قبریں اکھیڑنے کے واقعات 28

عام قبرستانوں میں تدفین میں رکاوٹ ڈالنے کے واقعات 47

کلمہ طیبہ لکھنے اور بیج لگانے پر مقدمات 764

آذان دینے پر مقدمات 38

تبلیغ کرنے پر مقدمات 719

مسلمان ظاہر کرنے پر مقدمات 434

اسلامی شعار استعمال کرنے پر مقدمات 161

صدسالہ جوبلی 1989منانے پر مقدمات 27

صدسالہ جوبلی سورج چاند گرہن 1994 ؁ء 50

ایک حرف ناصحانہ تقسیم کرنے پر مقدمات 27

مباھلہ کا اعلان تقسیم کرنے پر مقدمات 148

قرآن کریم کی بے حرمتی کے جھوٹے اور ناپاک الزام پر مقدمات 27

السلام علیکم کہنے ، قرآن کی تلاوت یا قرآن کی اشاعت اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے پر مقدمات: 938

نماز پڑھنے پر مقدمات 93

توہین رسالت کے جھوٹے اور ناپاک الزام پر مقدمات 295

جماعت احمدیہ کے اخبارات و رسائل پر مقدمات 103

ضبط شدہ کتب و رسائل کی تعداد 462

جتنے احمدیوں کو ان مقدمات میں سزا ہوئی 112

مسجدیں جو مکمل شہید کردی گئیں 22

مسجدیں جو جزوی طور پر گرادی گئیں 11

مسجدیں جو سیل کر دی گئیں 22

مسجدیں جن پر قبضہ کرلیا گیا 14

مسجدیں جن کی تعمیر میں رکاوٹ پیدا کی گئی 41

(ماخوز از دی پرسیکیوشن ویب سائٹ ThePersecution.org )
اپریل 1984 ؁ء سے لے کر 1992 ؁ء تک:

مسجدیں جن کی پیشانیوں سے کلمہ طیبہ مٹایا گیا 66

جتنے احمدیوں کو نوکری سے نکال دیا گیا 31

ربوہ میں احمدیوں کی جتنی زمین پر مخالفین نے قبضہ کرلیا 245کنال

(ماخوز از ہفت روزہ لاہور 28نومبر 1992ء)
تاج محمد بھٹی صاحب ناظم اعلیٰ تحفظ ختم نبوت کوئٹہ

نے عدالت میں یہ بیان دیا کہ یہ درست ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں جو آدمی نماز پڑھتا تھا آذان دیتا تھا یا کلمہ پڑھتا تھا اس کے ساتھ مشرک یہی

سلوک کرتے تھے جو اب ہم احمدیوں سے کررہے ہیں۔ (بحوالہ جدید علم کلام کے عالمی تاثرات صفحہ 27)

جماعت احمدیہ کے شدید معاند مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب

نے جماعت احمدیہ کے ایک امام کولکھا کہ ہمارا حق ہے یا نہیں کہ ہم آپ پر (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے مشن پر وہ سوالات کریں جو آپ

کے رسول کے رسالت کے منافی ہوں جس طرح عیسائی اور آریہ وغیرہ آنحضرت ﷺ کی رسالت پر اعتراض کرتے ہیں ۔ (اخبار اہلحدیث 24مارچ

1911ء صفحہ 2)

سچائی کھل گئی

ان بیانات سے یہ بات خوب روشن ہے کہ جماعت احمدیہ کا کردار صحابہؓ رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر ہے اور اس کے مخالفین منفی کردار ادا کررہے

ہیں ۔ حق اسی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ آج نجات امام مہدی اور مسیح موعود کی جماعت سے وابستہ ہے ۔ جلد آؤ اور اس میں شامل ہوجاؤ۔