اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی مامور اور امام آیا کرتے ہیں ان کو قبول کرنا اور ایمان لانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تمام برکتیں ان سے وابستہ کردی جاتی ہیں۔ اور ان کے بغیر ہر طرف تاریکی اور جہالت ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ’جو شخص (خدا کے مقرر کردہ) امام کو قبول کئے بغیر مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴، صفحہ ۹۶)
رسول اللہ ﷺ کی تاکیدی وصیت
’جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کے خلیفہ مہدی ہوگا۔‘ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)
آپ نے امام مہدی کی بیعت اور اطاعت کرنے کے متعلق تعلیم دیتے ہوئے فرمایا۔ ’جس نے امام مہدی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘ (بحارالانوار جلد ۱۳ صفحہ ۱۷)
پھر فرمایا ۔ ’جس نے مہدی کو جھٹلایا اس نے کفر کیا ‘۔ (حجج الکرامہ صفحہ ۳۵۱) نیز (لوائح الانوار البھیمہ جلد ۲ صفحہ ۸۰)
سلام پہنچاؤ
حضور ﷺ نے اپنی امت کو ارشاد فرمایا کہ امام مہدی اور مسیح موعود کو میرا سلام پہنچانا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ۔ ’ تم میں سے جو کوئی عیسیٰ بن مریم کو پائے اسے میری طرف سے سلام پہنچائے۔‘(الدار المنثورجلد ۲ صفحہ ۲۴۵)
اس بار ہ میں حضور ﷺ کی خواہش اور تمنا غیر معمولی تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا۔ ’میں امید رکھتا ہوں کہ اگر میری عمر لمبی ہوئی تو میں عیسیٰ بن مریم سے خود ملوں گا اور اگر مجھے موت آگئی تو تم میں سے جو شخص بھی اس کو پائے اسے میری طرف سے سلام پہنچائے۔‘ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۲۹۸)
ایمان واجب ہے
ان تمام ارشادات سے نتیجہ نکالتے ہوئے علامہ اسفرائنی فرماتے ہیں ۔ ’ ظہور مہدی پر ایمان واجب ہے جیسا کہ یہ امر علماء دین کے ہاں تسلیم شدہ ہے اور اہل سنۃ و الجماعت کی کتب عقائد میں درج ہے۔‘ (لوائح الانوار البھیمہ جلد ۲ صفحہ ۸۰)
بانی دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی
فرماتے ہیں ’ایک وقت آئے گا جب امام مہدی علیہ السلام بھی پیدا ہوں گے ۔ اور اس وقت جو ان کی اتباع نہ کرے گا اور امام پہچان کر ان کی پیروی نہ کرے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ ‘ (قاسم العلوم مع ترجمہ انوار النجوم صفحہ ۱۰۰)
بزرگان امت کی خواہش
یہی وجہ کہ صحابہ رسول اور بزرگان امت ، رسول اللہ ﷺ کا سلام پہنچانے کے لئے بے قرار رہے اور اپنی نسلوں کو بھی نصیحت کرتے رہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں ۔ ’میری جان اس پر قربان ہو۔ اے میرے بیٹو اس تنہا نہ چھوڑ دینا اور جلدی سے اس کے ساتھ ہوجانا۔‘ (شرح دیوان علی جلد ۲ صفحہ ۹۷)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عزیزوں کو نصیحت کی کہ اگر تمہارے زمانے میں عیسیٰ بن مریم آجائیں تو انہیں کہنا کہ ابوہریرہ آپ کو سلام کہتا ہے۔(الدارالمنثور جلد ۲ صفحہ ۲۴۵)
بارہویں صدی کے مجدد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
فرماتے ہیں ’ اس فقیر کی بڑی آرزو ہے کہ اگر حضرت روح اللہ علیہ السلام کا زمانہ پاوے تو پہلا شخص جو سلام پہنچاوے وہ میں ہی ہوں۔ اور اگر وہ زمانہ مجھے نہ ملے تو میری اولاد یا متبعین میں سے جو کوئی اس مبارک زمانہ کو پاوے وہ رسول اللہ ﷺ کے سلام پہنچانے کی بہت آرزو کرے کیونکہ ہم لشکر محمدیہ ﷺ کے آخری لشکر میں سے ہوں گے۔‘ (مجمویہ وصایا اربعہ صفحہ ۸۴)
مصنف اقتراب الساعۃ نورالحسن خان صاحب
حضرت ابوہریرہؓ کی اس نصیحت کو درج کرکے اپنی اولاد کو یہی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’تم میں سے جو کوئی عیسیٰ کو پاوے وہ ان سے میرا سلام کہے یہ خطاب ہے ساری امت کو۔ میں بھی ایک فرد اسی امت کا ہوں اگر میں نے ان کو پایا تو سب سے پہلے میں ہی انشاء اللہ سلام رسول ﷺ کا پہنچاؤں گا ورنہ میری اولاد میں سے جو کوئی ان کو پاوے بڑی حرص سے سلام نبوت کو ان تک پہنچادے تاکہ پھر لشکر کتائب محمدیہ میں سے میں ہی ہوں یا میری اولاد ہوئے۔ ‘ (اقتراب الساعۃ صفحہ ۱۹۴)
حضرت مومون دہلوی
تیرھویں صدی کے مجدد شہید بالاکوٹ حضرت سید احمدشہید کے درباری شاعر حضرت مومن دہلوی نے دلی آرزو کا اظہار اس طرح کیا ہے:
زمانہ مہدی موعود کا پایا اگر مومن
تو سب سے پہلے تو کہیوں سلام پاک حضرت کا
مدعی موجود ہے
یہ وہ مبارک زمانہ ہے جس میں عین چودھویں صدی کے سر پر حضرت مرزاغلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ نے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں ہی امام مہدی اور مسیح موعود ہوں۔ اور آپ کے حق میں خدا نے بڑے بڑے نشان دکھائے اور سابقہ کتب میں درج پیشگوئیاں پوری کیں۔ پس آپ کے دعویٰ ہر مسلمان کے لئے قابل توجہ ہے اگر آپ واقعتا وہی امام مہدی ہیں جن کا تمام امت مسلمہ انتظار کررہی ہے تو آپ کو قبول کرنا اور ایمان لانا ضروری ہے ورنہ آپ خدا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ پس سوچیں، غور کریں۔ اپنے خدا سے پوچھیں اور جب شرح صدر ہوجائے تو اس کو رسول اللہ ﷺ کا سلام پہنچا کر جماعت احمدیہ میں داخل ہوجائیں۔
No comments:
Post a Comment