انبیاء علیہم السلام کی بعثت ایسے وقت میں ہوتی ہے جبکہ دنیا میں ظلمت اور تاریکی کا دور دورہ ہوتا ہے اور ’’ظھر الفساد فی البر والبحر‘‘ کی کیفیت ہوتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے طفیل اللہ تعالیٰ ان ظلمتوں اور اندھیروں کو اپنے نور کے ذریعہ زائل کرتا ہے اور ایمان لانے والی اور عمل صالح کرنے والی جماعتیں کھڑی کر دیتا ہے۔ نورنبوت کے فیضان کو امت میں لمبے عرصہ تک ممتد کرنے کے لئے ان ایمان داروں اور عمل صالح کرنے والے لوگوں میں خلافت کا سلسلہ جاری فرماتا ہے ۔ ہمارے اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے احیاء اور شریعت اسلامیہ کے قیام کی غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کی وفات کے بعد جماعت میں اپنی قدرت ثانیہ کا ظہور فرماتے ہوئے سلسلہ خلافت کو قائم فرمایا۔
جماعت احمدیہ میں سب سے پہلی خلافت ۲۷؍ مئی ۱۹۰۸ء کو قائم ہوئی۔ چنانچہ اسی وجہ سے ہر سال ۲۷ ؍ مئی کو یوم خلافت منایا جاتا ہے۔ تا کہ اس موقعہ پر خلافت کی اہمیت اورخلیفہ کے مقام کی اہمیت جماعت کے افراد پر واضح کی جایا کرے۔ پس ’’ ذکر فان الذکر تنفع المومنین‘‘ کے ارشاد خداوندی کے تحت ذیل میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی تحریرات ’’ خلیفہ کا مقام اور اس کی اہمیت‘‘ کے بارہ میں پیش کی جاتی ہیں تا کہ احباب جماعت ا ن ارشادات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی نعمت خلافت کی قدر کریں اور ’’ ولئن شکرتم لازیدنکم‘‘ کے مطابق اس نعمت کو اپنے اندر دیر تک جاری رکھنے کا موجب ہوں۔
خلافت کی اطاعت سے ہی الٰہی نصرت ملتی ہے
سیدنا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ خلافت کی اطاعت کی طرف جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ ۔۔۔وہی خدا جو اس وقت فوجوں کے ساتھ تائید کے لئے آیا آج میری مدد پر ہے اور اگر آج تم خلافت کی اطاعت کے نکتہ کو سمجھو تو تمہاری مددکو بھی آئے گا۔ نصرت ہمیشہ اطاعت سے ملتی ہے جب تک خلافت قائم رہے نظامی اطاعت پر، اور جب خلافت مٹ جائے انفرادی اطاعت پر ایمان کی بنیاد ہوتی ہے‘‘۔(الفضل ۴؍ ستمبر ۱۹۳۷ء)
خلافت کی اطاعت سے باہر ہونے والا نبی کی اطاعت سے باہر ہو جاتا ہے
حضور فرماتے ہیں :
’’ بیشک میں نبی نہیں ہوں لیکن میں نبوت کے قدموں پر اور اس کی جگہ پر کھڑا ہوں۔ ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتا ہے وہ یقیناً نبی کی اطاعت سے باہرہوتا ہے ۔۔۔ میر ی اطاعت اور فرمانبرداری میں خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے‘‘۔(الفضل ۴؍ ستمبر ۱۹۳۷ء)
اطاعت رسول خلافت سے ہوتی ہے
فرمایا: ’’ اطاعت رسول بھی جس کااس آیت میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے رشتہ میں پرویا جائے ۔ یوں تو صحابہ ؓ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں۔ صحابہؓ بھی حج کرتے تھے اورآج کل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں۔ پھر صحابہؓ اور آج کل کے مسلمانوں میں فرق کیا ہے؟ یہی کہ صحابہ میں ایک نظام کا تابع ہونے کی وجہ سے اطاعت کی روح حد کمال تک پہنچی ہوئی تھی چنانچہ رسول کریم ﷺ انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے صحابہ اسی وقت اس پر عمل کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے لیکن یہ اطاعت کی روح آج کل کے مسلمانوں میں نہیں ۔۔۔ کیونکہ اطاعت کامادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ پس جب خلافت ہوگی، اطاعت رسول بھی ہوگی‘‘۔ (تفسیر کبیر ، سورہ نور صفحہ ۳۶۹)
ہر قسم کی فضیلت امام کی اطاعت میں ہے
حضورؓ فرماتے ہیں: ’’ یاد رکھو ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے ۔۔۔۔۔۔ ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں ۔ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتاہوں۔ خداکے حضور اس کے ان دعووں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا۔ جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتاہے۔ جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اسکی اطاعت میں اپنی زندگی کاہر لمحہ بسر نہیں کرتا۔ اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہو سکتا‘‘۔ (الفضل ۱۵ ؍نومبر۱۹۴۶ء)
خلفاء ہی قرب الٰہی کے حصول میں ممد ہیں
حضورؓ فرماتے ہیں : ’’انبیاء اور خلفاء اللہ تعالٰی کے قرب کے حصول میں ممد ہوتے ہیں جیسے کمزورآدمی پہاڑ کی چڑھائی پر نہیں چڑھ سکتا تو سونٹے یا کھڈ سٹک کا سہارا لے کر چڑھتا ہے۔ اسی طرح انبیاء اور خلفاء لوگوں کے لئے سہارے ہیں ۔ وہ دیواریں نہیں جنہوں نے الٰہی قرب کے راستوں کوروک رکھا ہے بلکہ وہ سونٹے اور سہارے ہیں جن کی مدد سے کمزور آدمی بھی اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کر لیتا ہے‘‘۔(الفضل ۱۱؍ ستمبر ۱۹۳۷ء)
دین کی صحیح تشریح اور وضاحت خلفاء ہی کرتے ہیں
حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’خلفاء کے ذریعہ سنن اور طریقے قائم کئے جاتے ہیں ورنہ احکام تو انبیاء پر نازل ہو چکے ہوتے ہیں۔ خلفاء دین کی تشریح اور وضاحت کرتے ہیں اور مغلق امور کو کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں اور ایسی راہیں بتاتے ہیں جن پر چل کر اسلام کی ترقی ہوتی ہے‘‘۔ (الفضل ۴؍ ستمبر ۱۹۳۷ء)
اقامت صلوٰۃ خلیفہ کے ذریعہ ہی ہوتی ہے
فرمایا: ’’اقامت صلاۃ بھی اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صلاۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ اور قومی ضرورتوں کو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اب اگر خلافت کا نظام نہ ہوتو قومی ضروریات کا پتہ کس طرح لگ سکتاہے۔ مثلاً پاکستان کی جماعتوں کوکیاعلم ہو سکتا ہے کہ چین اورجاپان اور دیگر ممالک میں اشاعت اسلام کے سلسلہ میں کیا ہو رہاہے اوراسلام ان سے کن قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اگر ایک مرکز ہوگا اور ایک خلیفہ ہوگا جو تمام مسلمانوں کے نزدیک واجب الاطاعت ہوگا تو اسے تمام اکناف عالم سے رپورٹیں پہنچتی رہیں گی کہ یہاں یہ ہو رہا ہے اور وہاں یہ ہو رہا ہے اور اس طرح وہ لوگوں کو بتا سکے گا کہ آج فلاں قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اورآج فلاں قسم کی خدمات کے لئے آپ کو پیش کرنے کی حاجت ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ وہ لوگوں کو بتا سکے گا کہ آج فلاں قسم کی خدمات کے لئے آپ کو پیش کرنے کی حاجت ہے ۔۔۔۔۔۔ مگرجب خلافت کا نظام نہ رہے تو انفرادی رنگ میں کسی کو قومی ضرورتوں کا کیا علم ہو سکتا ہے‘‘۔(تفسیرکبیر سور ہ نور صفحہ ۳۶۸)
تمام برکات خلیفہ وقت سے تعلق کے نتیجہ میں مل سکتی ہیں
سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں:
’’ جب تک باربار ہم سے مشورے نہیں لیں گے اس وقت تک ان کے کام میں برکت پیدا نہیں ہو سکتی۔ آخر خد ا نے ان کے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ نہیں دی۔ میرے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ دی ہے۔ انہیں خدا نے خلیفہ نہیں بنایا مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور جب خدا نے اپنی مرضی بتانی ہوتی ہے تو مجھے بتاتا ہے انہیں نہیں بتاتا۔ پس تم مرکز سے الگ ہوکر کیا کر سکتے ہو۔ جس کو خدا اپنی مرضی بتاتا ہے، جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے ، جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنا دیا ہے اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کر کے تم کام کر سکتے ہو۔ اس سے جتنا تعلق رکھو گے اسی قدر تمہارے کاموں میں برکت پیدا ہوگی۔ ۔۔۔۔۔۔ وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہووہ اتنا کام بھی نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکروٹا کر سکتاہے‘‘۔(الفضل ۲۰؍ نومبر ۱۹۴۶ء)
خلیفہ وقت کی موجوگی میں کسی آزادانہ تدبیر اورمظاہرہ کی ضرورت نہیں
حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ اگر ایک امام اورخلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لئے کسی آزاد تدبیر اور مظاہرہ کی ضرورت ہے تو پھر خلیفہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اٹھاتا ہے اس کے پیچھے اٹھاتا ہے، اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے، اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے، اپنےا رادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے، اپنی آرزوؤں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے۔ اگر اس مقام پر مومن کھڑ ے ہو جائیں تو ان کے لئے کامیابی اور فتح یقینی ہے‘‘(خطبہ جمعہ مندرجہ الفضل ۴؍ ستمبر ۱۹۳۷ء)
خلیفہ وقت کی سکیم کے سوا اور کوئی سکیم قابل عمل نہیں ہونی چاہئے
حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم ،وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں ، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں‘‘ ( خطبہ جمعہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۳۶ء مندرجہ الفضل ۳۱؍ جنوری ۱۹۳۶ء)
پھر فرماتے ہیں:۔
’’ ۔۔۔۔۔۔ جس پالیسی کو خلفاء پیش کریں گے ہم اسے ہی کامیاب بنائیں گے۔ اور جو پالیسی ان کے خلاف ہوگی اسے ناکام بنائیں گے۔ پس اگر کوئی مبایع اور مومن کوئی اور طریق اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ہم اسے ناکام کریں گے ۔۔۔۔۔۔ صرف خلیفہ کی پالیسی کو ہی کامیاب کریں گے‘‘۔ (خطبہ مندرجہ الفضل ۴؍ ستمبر ۱۹۳۷ء)
نیز فرماتے ہیں:
’’ دین کے ایک معنی سیاست اور حکومت کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے سچے خلفاء کی اللہ تعالیٰ نے یہ علامت بتائی ہے کہ جس سیاست اور پالیسی کو وہ چلائیں گے اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں قائم فرمائے گا‘‘۔ (تفسیر کبیر ، سورہ نور صفحہ ۳۷۶)
انسانی عقلیں اور تدبیریں خلافت کے تحت ہی کامیابی کی راہ دکھا سکتی ہیں
حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ تم کتنے ہی عقل مند اور مدبر ہو اپنی تدابیر اور عقلوں پر چل کر دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے جب تک تمہاری عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت نہ ہوں اور تم امام کے پیچھے پیچھے نہ چلو ہر گز اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کر سکتے۔ پس اگر تم خدا تعالیٰ کی نصرت چاہتے ہو تو یادرکھو اس کاکوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تمہارا اٹھنا ، بیٹھنا، کھڑا ہونا اور چلنا اور تمہارا بولنا اور خاموش ہونا میرے ماتحت ہو‘‘۔ (الفضل ۴؍ستمبر ۱۹۳۷ء)
خلیفہ کو عصمت صغریٰ حاصل ہوتی ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ اطاعت جس طرح نبی کی ضروری ہوتی ہے ویسے ہی خلفاء کی ضروری ہوتی ہے ۔ ہاں ان دونوں اطاعتوں میں ایک امتیاز اور فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ نبی کی اطاعت اور فرمانبرداری اسوجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ وحی الٰہی اور پاکیزگی کا مرکز ہوتا ہے مگر خلیفہ کی اطاعت اس لئے نہیں کی جاتی کہ وہ وحی الٰہی اور تمام پاکیزگی کا مرکز ہوتا ہے بلکہ اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ تنفیذ وحی الٰہی اور تمام نظام کا مرکز ہے ۔ اسی لئے واقف اوراہل علم لوگ کہا کرتے ہیں کہ انبیاء کوعصمت کبریٰ حاصل ہوتی ہے اور خلفاء کو عصمت صغریٰ‘‘ ( الفضل ۱۷؍ فروری ۱۹۳۵ء)
نیز فرمایا: ’’ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ذاتی معاملات میں خلیفہ وقت سے کوئی غلطی ہو جائے لیکن ان معاملات میں جن پر جماعت کی روحانی اورجسمانی ترقی کا انحصار ہو اگر اس سے کوئی غلطی سرزد بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی حفاظت فرماتا ہے اورکسی نہ کسی رنگ میں اسے اس غلطی پر مطلع کر دیتا ہے۔ صوفیاء کی اصطلاح میں اسے عصمت صغریٰ کہا جاتا ہے۔ گویا انبیاء کو عصمت کبریٰ حاصل ہوتی ہے لیکن خلفاء کو عصمت صغریٰ حاصل ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان سے کوئی اایسی غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کے لئے تباہی کا موجب ہو۔ ان کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر انجام کار نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کو غلبہ ہوگا اور اس کے مخالفوں کو شکست ہوگی۔ گویا بوجہ اس کے کہ ان کو عصمت صغریٰ حاصل ہوتی ہے خد ا تعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہوگی جو ان کی ہوگی۔ بیشک بولنے والے وہ ہوں گے ، زبانیں انہی کی حرکت کریں گی ، ہاتھ انہی کے چلیں گے ، دماغ انہی کا کام کرے گا مگر ان سب کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہوگا‘‘۔ (تفسیر کبیر سورہ نور صفحہ ۳۷۶، ۳۷۷)
اللہ تعالیٰ خلیفہ وقت کو اپنی صفات بخشتا ہے
حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ خدا تعالیٰ جس شخص کوخلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کوزمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے۔ ۔۔۔ ۔۔۔ تو اس کے کیا معنی ہیں کہ خلیفہ خود خدا بناتا ہے۔ اس کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جب کسی کو خدا خلیفہ بناتا ہے تو اسے اپنی صفات بخشتا ہے۔ اگر وہ اسے اپنی صفات نہیں بخشتا تو خدا تعالیٰ کے خود خلیفہ بنانے کے معنی ہی کیا ہیں‘‘۔ (الفضل ۲۲؍ نومبر ۱۹۵۰ء)
خلفاء کا ادب و احترام ہی کامیابی کا ذریعہ ہے
فرمایا: ’’ شریعت وہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہے اور آداب وہ ہیں جو خلفاء کی زبان سے نکلیں۔ پس ضروری ہے کہ آپ لوگ ایک طرف تو شریعت کا احترام قائم کریں اوردوسری طرف خلفاء کا ادب و احترام قائم کریں اور یہی چیز ہے جو مومنوں کو کامیاب کرتی ہے‘‘۔ (الفضل ۴؍ ستمبر ۱۹۳۷ء)
خلیفہ کی دعا ہی سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے
حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت کو بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اسکی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے ۔۔۔ میں جو دعا کرو ں گا وہ انشاء اللہ فرداً فرداً ہر شخص کی دعا سے زیادہ طاقت رکھے گی‘‘۔ (منصب خلافت صفحہ ۳۲)
خلیفہ ہی دشمن کو زیر کرنے کا ذریعہ ہے
حضور رضی اللہ عنہ جماعت کو خلیفہ کی کامل فرمانبرداری کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کو دیکھتے ہوئے میں انسانوں پر انحصار نہیں کر سکتا۔ اور تم بھی یہ نصرت اسی طرح حاصل کر سکتے ہو کہ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ اور ایسا کرنے میں صرف خلیفہ کی اطاعت کا ثواب نہیں بلکہ موعود خلیفہ کی اطاعت کا ثواب تمہیں ملے گا۔ اگر تم کامل طور پر اطاعت کرو گے تو مشکلات کے بادل اڑ جائیں گے ، تمہارے دشمن زیر ہو جائیں گے اور فرشتے آسمان سے تمہارے لئے ترقی والی نئی زمین اور تمہاری عظمت و سطوت والا نیا آسمان پیدا کریں گے لیکن شرط یہی ہے کہ کامل فرمانبرداری کرو‘‘۔ (الفضل ۴؍ ستمبر ۱۹۳۷ء)
بیعت خلافت کے بعد کوئی کام امام کی ہدایت کے بغیر نہیں ہونا چاہئے
بیعت خلافت کے بعد مبایعین کی ذمہ داریاں بیان فرماتے ہوئے سیدنا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
’’ جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں ان پر کچھ ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتے ۔۔۔۔۔۔ ان شرائط اور ذمہ داریوں میں سے ایک اہم شرط اورذمہ داری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے توپھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس کے قدم اٹھانے کے بعد اپنا قدم اٹھانا چاہئے اور افراد کو کبھی بھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے جن کے نتائج ساری جماعت پر آ کر پڑتے ہوں کیونکہ پھر امام کی ضرورت اور حاجت ہی نہیں رہے گی ۔۔۔ امام کا مقام تویہ ہے کہ وہ حکم دے اور ماموم کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے‘‘۔ (الفضل ۵؍ جون ۱۹۳۷ء )
خلافت کی ناقدری فسق پر منتج ہوتی ہے
نعمت خلافت کی قدردانی کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ ۔۔۔۔۔۔ خلافت بھی چونکہ ایک بھاری انعام ہے اس لئے یاد رکھو جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے ۔ ۔۔۔ فسق کا فتویٰ انسان پراسی صورت میں لگ سکتا ہے جب وہ روحانی خلفاء کی اطاعت سے انکار کرے‘‘۔ (تفسیر کبیر،سورہ نور صفحہ ۳۷۰،۳۷۴)
حضور رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا ارشادات سے خلیفہ کا مقام اور اس کی اہمیت عیاں ہے۔ خلیفہ وقت کی بیعت کے بعد دوسرے تمام لوگوں کی اطاعتیں اور تمام قسم کی وفاداریاں صرف اسی وقت تک جائز سمجھی جا سکتی ہیں جب تک ان کی وجہ سے خلیفہ وقت کی اطاعت سے انحراف نہ ہو۔ لیکن اگر واجب الاطاعت خلیفہ کے احکام اور ارشادات و تحریکات کے ساتھ کسی اور چیز کا مقابلہ پڑے تو پھر باقی تمام رشتوں اور تعلقات کا انقطاع اور تمام دوستوں اور محبتوں کا اختتام ہو جانا ضروری ہے۔ صرف اور صرف خلیفہ وقت کی اطاعت ہی مومنین کے مدنظر ہونی چاہئے۔ کیونکہ بیعت کے بعد دراصل حقیقی رشتہ خلیفہ وقت سے قائم ہونا چاہئے اور باقی سب رشتے اسی کی خاطر ہونے چاہئیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو خلیفہ وقت کا مقام اور اس کی اہمیت صحیح طور پر سمجھنے کی توفیق دے اور حقیقی اطاعت اور فرمانبرداری کی روح ہمارے اندر پیدا کرے ۔آمین۔
(بشکریہ ماہنامہ الفرقان ربوہ ۔ مئی ، جون ۱۹۶۷ء صفحہ ۳۱ تا ۳۹)
No comments:
Post a Comment