مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کے موقعہ پر ذکر حبیبؑ کے عنوان سے بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی سیرت و اخلاق کے حسب ذیل سات پہلوؤں پر خطاب فرمایا:
(۱)۔۔۔ والدین کی خدمت اور اطاعت
(۲)۔۔۔ بچوں سے شفقت
(۳)۔۔۔ اقرباء سے حسن سلوک
(۴)۔۔۔ مخالفین اور غیر مذاہب والوں سے سلوک
(۵)۔۔۔ دوستی
(۶)۔۔۔ خدام نوازی
(۷)۔۔۔ مہمان نوازی
ذیل میں ہم بشکریہ ماہنامہ تحریک جدید ربوہ ،فروری ۱۹۷۴ء اس خطاب کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو اپنانے اور آپ کے ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ (ادارہ)
*۔۔۔*۔۔۔*
والدین کی خدمت اور اطاعت
۲۱؍ اپریل ۱۸۹۹ء یوم عیدالاضحی کے موقعہ پر حضور ؑ نے فرمایا کہ :
’’ پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی یہ ہے کہ والدہ کی عزت کرے ۔ اویس قرنی کے لئے بسا اوقات رسول اللہ ﷺ یمن کی طرف منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے۔ آپ ؐ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتاہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آسکتا۔
بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خدا ﷺ موجود ہیں مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے۔
مگر میں دیکھتاہوں کہ رسول خداؓ نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی یا اویس کو یا مسیح کو ۔ یہ عجیب بات ہے جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی‘‘۔
’’ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اوررسول اللہ ﷺ کی پاک ہدایت کا بتلادیناہے اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کر کے اس کو ماننا نہیں چاہتا تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے ؟۔۔۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ مادرپدر آزاد کبھی خیر و برکت کا منہ نہ دیکھیں گے ۔ پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور وفاداری کے رنگ میں خدا اوررسول کے فرمودہ پر عمل کرنے کو تیار ہوجاؤ۔ بہتری اسی میں ہے ورنہ اختیار ہے ہمارا کا م صرف نصیحت کرنا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۹۵،۲۹۶)
ایک مرتبہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی والدہ محترمہ قادیان تشریف لائی ہوئی تھیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے حضورؑ کی خدمت میں اپنی والدہ کی پیری اور ضعف کا اوران کی خدمت کا جو وہ کرتے ہیں ذکرکیا ۔ حضرت ؑ نے فرمایا:
’’والدین کی خدمت ایک بڑابھاری عمل ہے ۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں ۔ ایک وہ جس نے رمضان پایا اوررمضان گزر گیا اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے۔ اوردوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اوروالدین گزر گئے اوراس کے گناہ نہ بخشے گئے۔ والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتاہے تو اس کے تمام ہمّ و غم والدین اٹھاتے ہیں۔ جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے ۔ خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے کیونکہ والدہ بچہ کے واسطے بہت دکھ اٹھاتی ہے۔ کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہوچیچک ہو، ہیضہ ہو، طاعون ہو، ماں اس کو چھوڑ نہیں سکتی۔ ماں سب تکالیف میں بچہ کی شریک ہوتی ہے ۔ یہ طبعی محبت ہے جس کے ساتھ کوئی دوسری محبت مقابلہ نہیں کر سکتی‘‘۔
حضور کو اپنی زندگی کے ابتدائی چند سالوں میں اپنے والد محترم کی خدمت کا موقع بھی میسرآیا۔ گو فطرتاً حضور کو دنیا اور دنیا کے کاموں میں کوئی لگاؤ نہ تھا لیکن صرف حصول ثواب کے لئے حضور نے اپنے والد محترم کی مرضی اورمنشاء کے مطابق پورے انہماک سے وہ خدمت سرانجام دی جو ان کے سپرد کی گئی تھی۔
حضورؑ نے اپنی تصنیف کتاب البریّہ میں خود اس بارہ میں تحریر فرمایاہے۔ فرماتے ہیں:
’’میرے والد صاحب اپنے آباء واجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کررہے تھے ۔ انہوں نے انہی مقدمات میں مجھے بھی لگایااور ایک زمانہ دراز تک میں ا ن کاموں میں مشغول رہا ۔
مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع ہو گیا اوراس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا مگرتاہم میں خیال کرتاہوں کہ میں نے نیک نیتی سے، نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کردیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتاتھا اور وہ مجھے دلی یقین سے بربالوالدین جانتے تھے‘‘۔
حضور کی زندگی کے یہ ایام دست بکار و دل بایار کے مصداق تھے لیکن والد صاحب کی وفات کے بعد دنیا اور دنیا کے کاموں سے کلیۃً کنارہ کش ہو کر دست کاریار میں اور دل یاد یار میں محو ہو گئے اور یہی آپ کی زندگی کا مقصود اور مدعا تھا۔
بچوں سے شفقت و محبت
اب میں امر دوم یعنی بچوں سے شفقت ،محبت اور سلوک کے بارہ میں چند روایات پیش کرتاہوں۔
*۔۔۔حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ الحکم میں تحریر فرماتے ہیں:
’’محمود (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) چار ایک برس کا تھا ۔حضرت معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے ۔ میاں محمود دیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا۔ پہلے کچھ دیر تک آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی ان مسودات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے اور حضرت لکھنے میں مشغول ہیں۔ سر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہو رہاہے ۔ اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودے راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ حضرت کو سیاق و سباق عبارت کے ملانے کے لئے کسی گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس سے پوچھتے ہیں خاموش! اُس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتاہے آخر ایک بچہ بول اٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دئے۔ عورتیں بچے اور گھر کے سب لوگ حیران اورانگشت بدندان کہ اب کیا ہوگا اور درحقیقت عادتاً بری حالت اور مکروہ نظار ہ کے پیش آنے کا گمان اور انتظار تھا اور ہونابھی چاہئے تھا۔ مگر حضرت مسکرا کرفرماتے ہیں ،’’خوب ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھا ئے‘‘۔(سیرت مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب)
حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓسے روایت ہے کہ :’’ آپ بچوں کی خبرگیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی۔ اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمارداری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا اورکوئی فکر ہی نہیں مگر باریک بین دیکھ سکتاہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے او رخداکے لئے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مدنظر ہے ۔ آپ کی پلوٹھی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہوئی آپ اس کے علاج میں یوں دوا دہی کرتے کہ گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف اور اصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاہی کر ہی نہیں سکتا۔ مگر جب وہ مر گئی آپ یوں الگ ہو گئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اورجب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی‘‘۔
’’اسی طرح صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی علالت کے ایام میں آپ نے شبانہ روز اپنے عمل سے دکھایا کہ اولاد کی پرورش اور صحت کے لئے ہمارے کیا فرائض ہیں‘‘۔(سیرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی صاحب عرفانیؓ)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ تراب اپنی تصنیف سیرت مسیح موعودؑ حصہ سوم میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’آپ بچوں کو گود میں اٹھائے ہوئے باہر نکل آیا کرتے تھے اور سیرمیں بھی اٹھا لیا کرتے ۔ اس میں کبھی آپ کو تأمل نہ ہوتاتھا۔ اگرچہ خدام جو ساتھ ہوتے وہ خود اٹھانا اپنی سعادت سمجھتے مگر حضرت بچوں کی خواہش کا احساس یا انکے اصرار کو دیکھ کر آپ اٹھا لیتے اور انکی خوشی پوری کر دیتے ‘‘۔
بچوں کا مناسب احترام ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے ضروری امر ہے جس کی طرف احمدی والدین کو توجہ کرنی چاہئے۔ بسااوقات دیکھا گیا ہے کہ یا تو والدین بچوں کے سوالات کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے یا سختی سے روک دیتے ہیں ۔یہ طریق بچوں کی ذہنی نشوونما اور خوداعتمادی کے لئے ضرررساں ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے عمل سے جماعت کی اس جہت میں بھی راہنمائی ملتی ہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ڈاکٹرمیر محمد اسماعیل صاحبؓ نے بیان فرمایا کہ :
’’جب حضرت مسیح موعودؑ نے لدھیانہ میں دعویٰ مسیحیت شائع کیا تو ان دنوں میں چھوٹا بچہ تھا اور شاید تیسری جماعت میں پڑھتا تھا مجھے اس دعویٰ سے کچھ اطلاع نہ تھی ۔ ایک دن میں مدرسہ گیا تو بعض لڑکوں نے مجھے کہا کہ وہ جو قادیان کے مرزا صاحب تمہارے گھر میں ہیں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ فوت ہو گئے ہیں اور یہ کہ آنے والے مسیح وہ خود ہیں ۔ میں نے ان کی تردید کی کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ تو زندہ ہیں اورآسمان سے نازل ہونگے۔ خیر جب میں گھر آیا تو حضرت صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔میں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں کہ آپ مسیح ہیں؟ میرا یہ سوال سن کر حضرت صاحب خاموشی سے اٹھے اورکمرے کے اندر الماری سے ایک نسخہ فتح اسلام لاکر مجھے دے دیا اور فرمایا اسے پڑھو۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ نے ایک چھوٹے بچہ کے معمولی سوال پر اس قدر سنجیدگی سے توجہ فرمائی ورنہ یونہی کوئی بات کہہ کر ٹال دیتے ‘‘۔(سیرت مسیح موعود ؑ از عرفانی صاحب)
اقرباء سے حُسنِ سلوک
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنی تصنیف سیرت المہدی حصہ دوم میں تحریر فرماتے ہیں:
’’خواجہ عبدالرحمان صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذیعہ خط بیان کیا کہ مکرمی لَسّہ ڈار ساکن آسنور کشمیر اپنے بھائی حاجی عمر ڈار صاحب سے روایت کرتے تھے کہ جب میں پہلی دفعہ قادیان میں بیعت کے لئے آیا تو میر ے یہاں پہنچنے کے بعد جو پہلی تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی وہ حقوق اقرباء کے متعلق تھی۔ چونکہ میں نے اپنے بھائی کا کچھ حق دبایا ہوا تھا میں سمجھ گیا اور کشمیر پہنچ کر ان کا حق ان کو ادا کر دیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالٰی نے انبیاء و مرسلین سے اصلاحِ خلق کا کام لینا ہوتا ہے اس لئے وہ عموماً ایسا تصرف کرتا ہے کہ جو کمزوریاں لوگوں کے اندر ہوتی ہیں انہی کے متعلق ان کی زبان پر کلام جاری کر دیتا ہے جس سے لوگوں کو اصلاح کا موقع مل جاتا ہے‘‘۔
سیرۃ المہدی حصہ دوم میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اقرباء سے حسن سلوک کا ایک بہت ہی پیارا واقعہ بیان فرمایا ہے ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائی ایام کا ذکر ہے کہ والد بزرگوار ( یعنی خاکسار کے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم) نے اپنا ایک بانات کا کوٹ جو مستعمل تھا ہمارے خالہ زاد بھائی سید محمد سعید کو جو ان دنوں قادیان میں تھا کسی خادمہ عورت کے ہاتھ بطور ہدیہ بھیجا۔ محمدسعید نے نہایت حقارت سے وہ کوٹ واپس کر دیا اور کہا کہ میں مستعمل کپڑا نہیں پہنتا۔ جب وہ خادمہ یہ کوٹ واپس لا رہی تھی تو راستہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میر صاحب نے یہ کوٹ محمد سعید کو بھیجاتھا مگر اُس نے واپس کر دیا ہے کہ میں اترا ہوا کپڑا نہیں پہنتا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اس سے میر صاحب کی دلشکنی ہوگی تم یہ کوٹ مجھے دے جاؤ ہم پہنیں گے اور ان سے کہہ دینا کہ میں نے رکھ لیا ہے ‘‘۔
یہ ایک انتہائی شفقت اور دلداری کا اظہار تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ مستعمل کوٹ خود اپنے لئے رکھ لیا تا حضرت نانا جان کی دلشکنی نہ ہو ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کوٹوں کی کمی نہ تھی۔ حضور ؑ کے خدام حضورؑ کی خدمت میں بہتر سے بہتر کوٹ پیش کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی یہ انتہائی سادگی اور بے نفسی کا بھی اظہار تھا کہ دین کا بادشاہ ہو کر اترے ہوئے کوٹ کے استعمال میں تامل نہیں کیا۔
یہ واقعہ جن بزرگ کے متعلق ہے وہ حضورعلیہ السلام کے خسر بھی تھے اور بیعت کنندگان میں شامل اور حضور ؑ کے مریدوں میں سے تھے۔ آئیں اب دیکھیں کہ حضورؑ کے وہ رشتہ دار جو نہ صرف یہ کہ جماعت میں شامل نہ تھے بلکہ عداوت اور دشمنی میں کسی اور سے پیچھے نہ تھے کو ئی موقع ایسانہیں آیا کہ وہ ایذاء د ہی کر سکتے ہوں اور اس سے باز رہے ہوں۔ ان کی عداوت شقاوت کا رنگ رکھتی تھی ۔ ان سے حضور علیہ السلام کاکیسا معاملہ تھا ۔ ایک واقعہ کا ذکر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ان الفاظ میں کیا ہے ۔ آپ لکھتے ہیں کہ :
’’ و ہ گلی جو بازار اور جامع مسجد کو جاتی ہے ایک شارع عام تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچازاد بھائیوں میں سے مرز ا امام الدین کو حضرت صاحب اور سلسلہ کے ساتھ عداوت اور عناد تھا اور کوئی دقیقہ تکلیف دہی کا اٹھا نہ رکھتے تھے ۔ ایک دفعہ اس نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس راستہ کو جو بازار اور مسجد مبارک کا تھا ایک دیوار کے ذریعہ بند کر دیا ۔ دیوار ہماری آنکھوں کے سامنے بن رہی تھی اور ہم کچھ نہیں کرسکتے تھے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم تھی کہ شرکا مقابلہ شر سے نہ کرو ورنہ اگرچہ جماعت اس وقت بہت قلیل تھی اور قادیان میں بہت تھوڑے آدمی تھے لیکن اگر اجازت ہوتی تو وہ دیوار ہرگز نہ بن سکتی۔۔۔۔۔۔ غرض وہ دیوار چن دی گئی اور اس طرح ہم سب کے سب پانچ وقت کی نمازوں کے لئے مسجد مبارک جانے سے روک دئے گئے۔ اور مسجد مبارک کے لئے حضرت صاحب کے مکانات کا ایک چکر کاٹ کر آنا پڑتا تھا۔۔۔۔۔۔ جماعت میں بعض کمزور اور ضعیف العمر انسان بھی تھے بعض نابینا تھے اور بارشوں کے دن تھے راستہ میں کیچڑ ہوتا تھا۔ اور بعض بھائی گر بھی پڑتے تھے جس سے ان کے کپڑے گارے کیچڑ میں لت پت ہوجاتے تھے۔ ان تکلیفوں کا تصور بھی آ ج مشکل ہے۔ غرض وہ دیوار ہو گئی اور راستہ بند ہو گیا اور پانی تک بند کر دیا گیا آخر مجبوراً عدالت میں جانا پڑا اور عدالت کے فیصلہ کے مطابق خود دیوار بنانے والوں کو اپنے ہی ہاتھ سے دیوار گرانا پڑی۔
عدالت نے نہ صرف دیوار گرانے کا حکم دیا بلکہ حرجانہ اور خرچ کی ڈگری بھی فریق ثانی پر کر دی۔ حضر ت اقدس نے کبھی اس خرچہ اور حرجانہ کی ڈگری کا اجراء پسند نہ فرمایا یہاں تک کہ اس کی میعاد گزرنے کو آ گئی ۔ اس وقت خواجہ کمال الدین صاحب نے اس خیال سے کہ میعاد گزر نہ جائے اس کے اجراء کی کارروائی کی اور اس میں حسب ضابطہ نوٹس مرزا نظام الدین صاحب کے نام جاری ہوا۔ حضرت اقدس کو اس واقعہ کی کچھ خبر نہ تھی۔ مرزا نظام الدین صاحب کو جب نوٹس ملا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط لکھا اس کامضمون یہ تھا کہ دیوار کے مقدمہ کے خرچ وغیرہ کی ڈگری کے اجراء کا نوٹس میرے نام آیا ہے اور میری حالت آپ کو معلوم ہے ۔اگرچہ میں قانونی طورپر اس روپیہ کے ادا کرنے کا پابند ہوں اور آپ کا بھی حق ہے کہ آپ وصول کریں مجھ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری طرف سے ہمیشہ آپ کو کوئی نہ کوئی تکلیف پہنچتی رہی ہے مگر یہ بھائی صاحب کی وجہ سے ہوتاتھا۔ مجھ کو بھی شریک ہونا پڑتاتھا۔ آپ رحم کر کے معاف فرماویں۔ حضرت اقدس اس وقت گورداسپور میں مقیم تھے ۔حضرت اقدس کے پاس جس وقت یہ خط پہنچا تو آپ نے سخت رنج کا اظہار فرمایا کہ کیوں اجراء کرائی گئی ہے مجھ سے کیوں دریافت نہیں کیا گیا۔ خواجہ صاحب نے عذر کیا کہ محض میعاد کومحفوظ کرنے کے لئے ایسا کیا گیا الاّ اِجرا مقصود نہ تھا۔ حضر ت اقدس نے اس عذر کو بھی پسند نہ فرمایا اور فرمایا کہ آئندہ کبھی اس ڈگری کا اجراء نہ کروایاجائے ہم کو دنیا داروں کی طرح مقدمہ بازی اور تکلیف دہی سے کچھ کا م نہیں۔ انہوں نے اگر تکلیف دینے کیلئے کوئی حرکت کی توہمارا یہ کام نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے اس غرض کے لئے دنیا میں نہیں بھیجا۔ اور اسی وقت ایک مکتوب مرزا نظام الدین صاحب کے نام لکھا اور مولوی یارمحمد صاحب کو دیا کہ وہ جہاں ہوں ان کو فوراً جا کر وہاں پہنچائیں‘‘۔
’’اس خط میں حضور علیہ السلام نے مرزا نظام الدین صاحب سے ہمدردی کا اظہار فرمایا تھا اور تحریر فرمایا تھا کہ اس ڈگری کا کبھی اجراء نہیں کروایا جائے گا اور سب کچھ معاف فرمایا تھا‘‘
مخالفین اور غیر مذاہب والوں سے حسن سلوک
حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ نے ایک واقعہ بیان فرمایا ہے جو سیرت المہدی حصہ دوم میں درج ہے۔ حضرت مولوی صاحب نے بیان کیا کہ :
’’ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگا کہ میں ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر آپ کے دعویٰ کی تحقیق کے لئے آیا ہوں اور پھر اس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور بڑے تکلف سے خوب بنا بناکر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتاتھا۔ اس کے جواب میں حضرت صاحب نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کرکہنے لگا کہ آپ کومسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ ہے مگر آپ الفاظ کا تلفظ بھی اچھی طرح نہیں ادا کر سکتے۔ اس وقت مولوی عبداللطیف صاحب شہید (حضرت مولوی صاحب جماعت کے پہلے شہید ہیں جن کوکابل میں والی کابل امیر حبیب اللہ نے احمدیت کی وجہ سے سنگسار کر وادیا تھا) بھی مجلس میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے تھے ان کو بہت غصہ آ گیا اور انہوں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی ۔ حضرت اقدس نے مولوی عبداللطیف صاحب کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور پھر کسی دوسرے وقت جبکہ مولوی عبداللطیف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے فرمانے لگے کہ اس وقت مولوی صاحب کوبہت غصہ آ گیا تھا۔ چنانچہ میں نے اس ڈر سے کہ کہیں وہ ا س غصہ میں اس مولوی کو کچھ مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا‘‘۔ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ ۵۲)
میرٹھ شہر سے ایک شخص احمد حسین شوکت نامی نے ایک اخبار شحنہ ہندجاری کیا ہوا تھا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں اس نے اپنے اخبار کا ضمیمہ جاری کیا جس میں ہر قسم کے گندے مضامین مخالفت میں شائع کرتا اور اس طرح پر جماعت کی دلآزاری کرتا ۔ میرٹھ کی جماعت کو خصوصیت سے تکلیف ہوتی کیونکہ وہاں سے ہی یہ گندہ پرچہ نکلتا تھا۔ ۲؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء کا واقعہ ہے کہ میرٹھ کی جماعت کے پریذیڈنٹ شیخ عبدالرشید صاحب نے حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ ضمیمہ شحنہ ہندکے توہین آمیز مضامین پر عدالت میں نالش کروں۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
’’ہمارے لئے خدا کی عدالت کا فی ہے۔ یہ گناہ میں داخل ہوگا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدم کریں۔ اس لئے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کا م لیں‘‘۔ (سیرت مسیح موعودؑ از عرفانیؓ صاحب)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ جب منارۃ المسیح بننے کی تیاری ہوئی تو قادیان کے لوگوں نے افسران گورنمنٹ کے پاس شکایتیں کیں کہ اس مینارہ کے بننے سے ہمارے مکانوں کی پردہ دری ہوگی۔ چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک ڈپٹی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرہ میں ملا۔ اس وقت قادیان کے بعض لوگ جو شکایات کرنے والے تھے وہ بھی اس کے ساتھ تھے۔ حضرت صاحب سے ڈپٹی کی باتیں ہوتی رہیں اور اس گفتگو میں حضرت صاحب نے ڈپٹی کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’یہ بڈھا مل بیٹھا ہے آ پ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے موقع ملا ہو اور میں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو اور پھر اس سے پوچھ لیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقع ملا ہو تواس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر چھوڑی ہو‘‘۔ حافظ صاحب نے بیان کیا کہ میں اس وقت بڈھامل کی طرف دیکھ رہا تھا اس نے شرم کے مارے اپنا سر نیچے اپنے زانوؤں میں دیا ہوا تھا اور اس کے چہرہ کا رنگ سپید پڑگیاتھا اور وہ ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بول سکا‘‘۔(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۱۳۴)
سیرت المہدی حصہ اول میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کی مندرجہ ذیل روایت درج فرمائی ہے:
’’بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ مارٹن کلارک کے مقدمہ میں ایک شخص مولوی فضل دین لاہوری حضور کی طرف سے وکیل تھا ۔ یہ شخص غیر احمدی تھا اور شاید اب تک زندہ ہے اور غیر احمدی ہے۔ جب مولوی محمد حسین بٹالوی حضرت صاحب کے خلاف شہادت میں پیش ہوا تو مولوی فضل دین وکیل نے حضرت صاحب سے پوچھا کہ اگر اجازت ہو تو میں مولوی محمد حسین صاحب کے حسب نسب کے متعلق کوئی سوال کروں۔ حضرت صاحب نے سختی سے منع فرمایا کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اور فرمایا لایحب اللہ الجھر بالسّوء ۔مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ یہ واقعہ خود مولوی فضل دین نے باہر آ کر ہم سے بیان کیا تھا اور اس پر اس بات کا بڑا اثر ہوا تھا۔ چنانچہ وہ کہتا تھا کہ مرزا صاحب نہایت عجیب اخلاق کے آدمی ہیں ایک پرلے درجے کا دشمن ہے اور وہ اقدام قتل کے مقدمہ میں آپ کے خلاف شہادت میں پیش ہوتا ہے اورمیں اس کا حسب نسب پوچھ کر اس کی حیثیت کو چھوٹا کر کے اس کی شہادت کو کمزور کرنا چاہتا ہوں اور اس سوال کی ذمہ داری بھی مرزا صاحب پر نہیں تھی بلکہ مجھ پر تھی مگر میں نے جب پوچھا تو آپ نے بڑی سختی سے روک دیا کہ ایسے سوال کی میں ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ خاکسار عرض کر تاہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نسب میں بعض معیوب باتیں سمجھی جاتی تھیں ۔ واللہ ا علم جن کو وکیل اپنے سوال سے ظاہر کرنا چاہتا تھا مگر حضرت صاحب نے روک دیا ۔ دراصل حضرت صاحب اپنے ہاتھ سے کسی دشمن کی بھی ذلت نہیں چاہتے تھے۔ ہاں جب خدا کی طرف سے کسی کی ذلت کا سامان پیدا ہوتا تھا تو وہ ایک نشان الٰہی ہوتا تھا جسے آپ ظاہر فرماتے تھے ‘‘۔ (سیرت المہدی)
یہی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جنہوں نے مخالفت اور دشمنی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا ۔اپنے اخبار میں گالیاں دیں۔ آپ ؑ کے خلاف کفر کا فتویٰ تیار کیا اور تمام ہندوستان کے مولویوں سے اس پر دستخط کروائے۔ گورنمنٹ میں آپ کے خلاف جھوٹی مخبریاں کیں۔ آپ کے خلاف مقدمات میں جھوٹی گواہیاں دیں ۔لیکن آخیر میں جب ان کا اخبار اشاعۃ السنۃ بند ہو گیا اوران کی حالت ایسی تباہ و زار ہوئی کہ وہ اپنا مضمون لئے پھرتے تھے اور کوئی مولوی یا ایڈیٹر اخبار اسے چھاپتا نہ تھا تو حضرت اقدس ؑ نے مولوی صاحب موصوف کو کہلا بھیجا کہ :
’’آپ ہمارے پاس قادیان آ جائیں ہم آپ کے مضمون کی کتابت بھی کروا دیتے ہیں اور چھپوا بھی دیتے ہیں‘‘۔
دوستوں سے وفاداری محبت اور خدام نوازی
اب میں حضور علیہ السلام کی سیرت سے دوستوں سے وفاداری، محبت اور خدام نوازی کے متعلق کچھ عرض کروں گا ۔ یہ امر یاد رکھنے کے لائق ہے کہ دوستی ایک بڑا قیمتی سرمایہ ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ، غلط فہمیاں، چھوٹے موٹے اختلافات سے شکررنجیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہو سکتی ہیں لیکن عہد دوستی میں رخنہ یا بگاڑ کا موجب نہ بن جانی چاہئیں۔ اس بارہ میں حضور علیہ السلام کا اپنا فرمان ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے ۔حضور فرماتے ہیں:
’’میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مجھ سے عہد دوستی باندھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر و ہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں۔ ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہواہو اور کُتّے اس کا منہ چاٹ رہے ہوں تو بلا خوف لومۃ لائم اسے اٹھا کر لے آئیں گے۔ فرمایا عہد دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے اس کو آسانی سے ضائع کر دینا نہ چاہئے اور دوستوں میں کیسی ہی ناگوار بات پیش آوے اسے اغماض اور تحمل کے محل میں اتارنا چاہئے‘‘۔(سیرت مسیح موعودؑ ازعرفانی صاحب)
’’سلسلہ احمدیہ‘‘ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسا دل عطا کیا تھا جو محبت اور وفاداری کے جذبات سے معمور تھا۔ آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کسی کی محبت کی عمارت کو کھڑا کر کے پھر اس کو گرانے میں کبھی پہل نہیں کی۔ایک صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آپ کے بچپن کے دوست اور ہم مجلس تھے مگر آپ کے دعویٰ مسیحیت پر آ کر ان کو ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے نہ صرف دوستی کے رشتے کو توڑ دیا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشد ترین مخالفوں میں سے ہو گئے اور آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ لگانے میں سب سے پہل کی ۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں آخر وقت تک ان کی دوستی کی یاد زندہ رہی اور گو آپ نے خدا کی خاطر ان سے قطع تعلق کر لیا اور ان فتنہ انگیزیوں کے ازالہ کے لئے ان کے اعتراضوں کے جواب میں زور دار مضامین بھی لکھے مگر ان کی دوستی کے زمانہ کو آپ کبھی نہیں بھولے اور ان کے ساتھ قطع تعلق ہو جانے کو تلخی کے ساتھ یاد رکھا۔ چنانچہ اپنے آخری زمانہ کے اشعار میں مولوی محمد حسین صاحب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں
قَطَعتَ وَداداً قدَ غَرَسنا ہ فِی الصّبا وَ لَیسَ فؤادِی فِی الوَدَادِ یُقَصّرُ
ترجمہ: یعنی تُونے تو اس محبت کے درخت کو کاٹ دیا جو ہم دونوں نے مل کر بچپن میں لگایاتھا مگر میرا دل محبت کے معاملے میں کوتاہی کرنے والا نہیں‘‘۔ (سلسلہ احمدیہ صفحہ ۲۱۴)
نیز فرمایا:
’’ خدا کی قسم میں اس تعلق کے زمانہ کو بھولتا نہیں اور میرا دل سنگلاخ زمین کی طرح نہیں ہے‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دیرینہ تعلق رکھنے والے میرعباس علی صاحب لدھیانوی تھے ان کو بھی مولوی محمد حسین بٹالوی کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی اشاعت کے وقت ابتلا آگیا۔ میر صاحب نے مخالفت کا اعلان کیا اور اس مخالفت میں حد ادب اور رعایت اخلاق سے بھی وہ نکل گئے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کسی تحریر یا تقریر میں ان کے تعلق کے عہد کو فراموش نہ کیا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ :
’’جالندھر کے مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرصاحب کو سمجھارہے تھے اور اس فروتنی اور انکسار کے ساتھ کہ ایک سنگدل اور خشونت طبع والا انسان بھی اگر قبول نہ کرے تو کم از کم اس کے کلام میں نرمی اور متانت آ جانی چاہئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب بھی اس سے خطاب کرتے تو ’’میر صاحب‘‘ ، ’’جناب میر صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے اور فرماتے کہ آپ میرے ساتھ چلیں میرے پاس کچھ عرصہ رہیں خدا تعالیٰ قادر ہے کہ آپ پر حقیقت کھول دے ۔ مگر میر صاحب کی طبیعت میں باوجود صوفی ہونے کے خشونت اور تیزی آ جاتی اور ادب اور اخلاق کے مقام سے الگ ہو کر حضرت سے کلام کرتے تھے مگر بایں حضرت صاحب نے اپنے طرز خطاب کو نہ بدلا۔ ’’آسمانی فیصلہ‘‘ کے اخیر میں میر صاحب کے متعلق ایک مبسوط تحریر موجود ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کس محبت اور دلسوزی سے آپ نے خطاب کیا ہے‘‘۔(سیرت مسیح موعودؑ از عرفانی صاحبؓ)
میر عباس علی صاحب سے حضور علیہ السلام کے تعلق محبت و دوستی پر اس خط سے روشنی پڑتی ہے جو حضور نے میر صاحب کی ایک بیماری کے ایام میں ان کو لکھا جبکہ وہ لدھیانہ میں بیمار ہو گئے ۔ حضور تحریر فرماتے ہیں:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
مخدوم مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ عاجزچند روز سے امرتسر گیا ہوا تھا آج بروز چہار شنبہ بعد روانہ ہو جانے ڈاک کے یعنی تیسرے پہر قادیان پہنچا اور مجھ کو ایک کارڈ میر امداد علی صاحب کا ملا جس کے دیکھنے سے بمقتضائے بشریت بہت تفکر اور تردد لاحق ہوا۔ اگرچہ میں بیمار تھا مگر اس بات کو معلوم کرنے سے کہ آپ کی بیماری غایت درجہ کی سختی پر پہنچ گئی ہے مجھ کو اپنی بیماری بھول گئی اور بہت تشویش پیدا ہو گئی۔ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے عمر بخشے اور آپ کو جلد تر صحت عطا فرمائے ۔ اس تشویش کی جہت سے آج بذریعہ تار آپ کی صحت دریافت کی اور میں بھی ارادہ رکھتا ہوں کہ بشرطِ صحت و عافیت ۱۴؍ اکتوبر تک وہیں آ کر آپ کو دیکھوں اور میں خدا تعالٰی سے دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو صحت عطا فرمائے ۔ آپ کے لئے بہت دعا کروں گا۔ اور اب توکلاً علی اللہ آپ کی خدمت میں یہ خط لکھا گیا۔ آپ اگر ممکن ہو تواپنے دستخط خاص سے مجھ کو مسرور الوقت فرمائیں‘‘۔
والسلام خاکسار مرزا غلام احمدؑ ‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلقات دوستی اپنے احباء اور متبعین کے تعلق میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ فرماتے ہیں:
’’جب کوئی دوست کچھ عرصہ کی جدائی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملتا تو اسے دیکھ کر آپ کا چہرہ یوں شگفتہ ہو جاتا تھا جیسے کہ ایک بند کلی اچانک پھول کی صورت میں کھل جاوے اور دوستوں کے رخصت ہونے پر آپ کے دل کو ازحد صدمہ پہنچتا تھا۔ ایک دفعہ جب آپ نے اپنے بڑے فرزند اور ہمارے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کے قرآن شریف ختم کرنے پر آمین لکھی اور اس تقریب پر بعض بیرونی دوستوں کو بھی بلا کر اپنی خوشی میں شریک فرمایا تو اس وقت آپ نے اس آمین میں اپنے دوستوں کے آنے کا بھی ذکر کیا اور پھر ان کے واپس جانے کا خیال کر کے اپنے غم کا بھی اظہار فرمایا ۔ چنانچہ فرماتے ہیں
مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت
دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میر ی راحت
پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت
یہ روز کر مبا رک سبحان من یرانی
دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے
ر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے
شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھرہی بے بقا ہے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
(سلسلہ احمدیہ)
قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب کے زمانہ کا ایک پھل دار باغ ہے جس میں مختلف قسم کے ثمردار درخت ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ جب پھل کا موسم آتا تو اپنے دوستوں اور مہمانوں کو ساتھ لے کر اس باغ میں تشریف لے جاتے اور موسم کا پھل تڑوا کر سب دوستوں کے ساتھ مل کر نہایت بے تکلفی سے نوش فرماتے۔ اس وقت یوں نظر آتا تھا کہ گویا ایک مشفق باپ کے ارد گرد اس کی معصوم اولاد گھیرا ڈالے بیٹھی ہے۔ (سلسلہ احمدیہ)
حضرت اقدس ؑ کو اپنے خادموں پر بے حد اعتبار ہوا کرتا تھا۔ ملازم مرد یاعورت جو سودا لاتے ان سے کبھی بازپرس نہ فرماتے اورجو کچھ و ہ خرچ کرتے اورجو کچھ واپس دیتے آنکھ بند کر کے لے لیتے کبھی گرفت یا سختی نہیں کی۔ کبھی باز پرس نہ کی ۔خدا جانے کیا قلب ہے۔ درحقیقت خدا ہی ان قلوب مطہرہ کی حقیقت کو جانتا ہے جو خاص حکمت و ارادہ سے انہیں پیدا کرتاہے۔ مولوی عبدالکریم صاحبؓؓ سیالکوٹی اپنی عینی شہادت اس طرح پیش کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’اتنے عرصہ دراز میں میں نے کبھی بھی نہیں سنا کہ اندر تکرار ہو رہی ہے اورکسی شخص سے لین دین کے متعلق بازپرس ہورہی ہے ۔ سبحان اللہ کیا سکون فزا دل اور پاک فطرت ہے جس میں سوء ظن کا شیطان نشیمن نہیں بنا سکا ۔ اور کیا ہی قابل رشک بہشتی دل ہے جسے یہ آرام بخشا گیا ہے‘‘۔ (سیرت مسیح موعودؑ مؤلفہ مولوی عبدالکریم صاحبؓ)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ سیرت المہدی حصہ اول میں تحریر فرماتے ہیں:
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کسی سے ملتے تھے تو مسکرا تے ہوئے ملتے تھے اور ساتھ ہی ملنے والے کی ساری کلفتیں دور ہو جاتی تھیں۔ ہر احمدی یہ محسوس کرتا تھا کہ آپ کی مجلس میں جاکر دل کے سارے غم دُھل جاتے ہیں۔ بس آپ کے مسکراتے ہوئے چہرے پر نظر پڑی اور سارے جسم میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ آپ کی عادت تھی کہ چھوٹے سے چھوٹے آدمی کی بات بھی توجہ سے سنتے تھے اور بڑی محبت سے جواب دیتے تھے۔ ہر آدمی اپنی جگہ سمجھتا تھا کہ بس مجھ سے ہی زیادہ محبت ہے۔ بعض وقت آدابِ مجلسِ رسول سے ناواقف حال لوگ دیر دیر تک اپنے لاتعلق قصے سناتے رہتے تھے اورحضرت صاحب خاموشی کے ساتھ بیٹھے سنتے رہتے اورکبھی کسی سے یہ نہ کہتے تھے اب بس کرو۔ نمازوں کے بعد یابعض اوقات دوسرے موقعوں پر بھی حضور مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور ارد گرد مشتاقین گھیرا ڈال کر بیٹھے جاتے تھے اور پھر مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہتی تھیں اور گویا تعلیم و تربیت کا سبق جاری ہو جاتاتھا۔ مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگ محسوس کرتے تھے کہ علم و معرفت کاچشمہ پھوٹ رہا ہے جس سے ہر شخص اپنے مقدور کے موافق اپنابرتن بھرلیتاتھا۔ مجلس میں کوئی خاص ضابطہ نہ ہوتا تھا بلکہ جہاں کسی کوکوئی جگہ ملتی تھی بیٹھ جاتا تھا اور پھر کسی کو کوئی سوال ہوا تو اس نے پوچھ لیا اورحضرت صاحب نے جواب میں کوئی تقریر فرما دی یا کسی مخالف کا ذکر ہو گیا تواس پر گفتگو ہو گئی یا حضرت صاحب نے اپنا کوئی نیا الہام سنایا تو اس کے متعلق کچھ فرما دیا یاکسی فرد یا جماعت کی تکالیف کا ذکر ہوا تو اس پر کلام کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ غرض آپ کی مجلس میں ہرقسم کی گفتگو ہو جاتی تھی ۔ اورہر آدمی جو بولنا چاہتا تھا بول لیتاتھا‘‘۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے تحریرفرمایا ہے کہ:
’’ایک دفعہ اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت صاحب ’’تبلیغ ‘‘لکھا کرتے تھے مولوی نورالدین صاحب تشریف لائے۔ حضرت صاحب نے ایک بڑا دوورقہ مضمون لکھا اور اس کی فصاحت وبلاغتِ خداداد پر حضرت صاحب کونازتھا اور وہ فارسی ترجمہ کے لئے مجھے دیناتھا مگر یاد نہ رہا اور جیب میں رکھ لیا اور باہر سیر کو چل دئے۔ مولوی صاحب اور جماعت بھی ساتھ تھی ۔ واپسی پر کہ ہنوز راستہ میں ہی تھے ۔ مولوی صاحب کے ہاتھ میں کاغذ دے دیا کہ وہ پڑھ کر عاجز راقم کو دے دیں۔ مولوی صاحب کے ہاتھ سے مضمون گر گیا۔ واپس ڈیرہ میں آئے اور بیٹھ گئے ۔ حضرت صاحب معمولاً اندر چلے گئے میں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت صاحب نے مضمون نہیں بھیجا اورکاتب سر پرکھڑا ہے اور ابھی مجھے ترجمہ بھی کرنا ہے۔ مولوی صاحب کو دیکھتاہوں تو رنگ فق ہو رہا ہے ۔حضرت صاحب کو خبر ہوئی معمول ہشاش بشاش چہرہ، تبسم ریز لب تشریف لائے اور بڑا عذر کیا کہ مولوی صاحب کو کاغذ کے گم ہونے سے بڑی تشویش ہوئی۔ مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر تگاپو کیوں کیا گیا ۔ میراتو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بہتر عطا فرمائے گا‘‘۔(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۲۶۱)
یہ روایت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کی ہے۔ حضرت مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب صحابہ اور صادقین میں سے تھے ۔ حضور علیہ السلام سے والہانہ عشق کا تعلق تھا اور حضورعلیہ السلام بھی حضرت مولوی صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے ایک ظاہربین خادم و مخدوم اور محب و محبوب میں فرق نہیں کر سکتا تھا۔ حضرت مولوی صاحب ۱۹۰۵ء میں زیادہ بیمار ہو گئے اور دو ماہ بیمار رہ کر وفات پائی۔ آپ کی بیماری بڑی دکھ دہ تھی۔ بعض دفعہ شدت تکلیف میں نیم غشی کی سی حالت میں وہ کہا کرتے تھے کہ سواری کا انتظام کرو میں حضرت صاحب سے ملنے کے لئے جاؤں گا ۔ بعض اوقات فرماتے اور ساتھ زار زار رو پڑتے تھے کہ دیکھو میں نے اتنے عرصہ سے حضرت صاحب کا چہرہ نہیں دیکھا ۔ ایک دن اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ جاکر حضرت صاحب سے کہو کہ میں مر چلا ہوں مجھے صرف دور سے کھڑے ہو کر اپنی زیارت کرا جائیں ۔ انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی حضرت صاحب نے جواباً فرمایا کہ کیا کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ میرا دل مولوی صاحب کو ملنے کو نہیں چاہتا؟ اصل بات یہ ہے کہ میں ان کی تکلیف کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ حضرت امّ المومنینؓ اس وقت پاس ہی تشریف رکھتی تھیں انہوں نے کہا کہ جب وہ اتنی خواہش رکھتے ہیں تو آپ کھڑے کھڑے ہو آئیں ۔ حضور ؑ نے فرمایا اچھا میں جاتا ہوں لیکن ان کی تکلیف دیکھنے سے میں بیمار پڑ جاؤں ۔ یہ کہہ کر حضور اس طرف روانہ ہوئے تو مولوی صاحب کی اہلیہ نے آگے جا کر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو اطلاع دی کہ حضور تشریف لا رہے ہیں۔ اس پر حضرت مولوی صاحب نے اپنی اہلیہ کو ملامت کی کہ کیوں حضرت صاحب کو تم نے تکلیف دی ۔ کیا میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں تشریف نہیں لا تے۔ میں نے تو اپنے دل کا دُکھڑا رویا تھا تم فوراً جا کر عرض کرو کہ حضور تکلیف نہ فرمائیں۔ بسااوقات مسجد میں حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے مگر میں ان کی تکلیف نہیں دیکھ سکتا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوحضرت مولوی صاحب کی وفات کاایسا صدمہ ہوا جیسے ایک محبت کرنے والے باپ کوایک لائق بیٹے کی وفات کا ہواکرتا ہے مگر آپ کی محبت کا اصل مرکزی نقطہ خدا کاوجود تھا اسلئے آپ نے کامل صبر کا نمونہ دکھایا۔ اورجب بعض لوگوں نے زیادہ صدمہ کا اظہارکیا اوراس بات کے متعلق فکرظاہرکیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی ذات کے ساتھ بہت کام وابستہ تھے اب ان کے متعلق کیا ہوگا تو آ پ نے ایسے خیالات پر توبیخ فرمائی اورفرمایا کہ:
’’مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر حد سے زیادہ افسوس کرنا اور اس کی نسبت یہ خیال کر لینا کہ اس کے بغیر اب فلاں حرج ہوگا ایک قسم کی مخلوق کی عبادت ہے ۔ کیونکہ جس سے حد سے زیادہ محبت کی جاتی ہے یاحد سے زیادہ اس کی جدائی کا غم کیاجاتا ہے و ہ معبود کے حکم میں ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اگرایک کو بلا لیتاہے تو دوسرااس کے قائم مقام کردیتاہے۔ وہ قادر اوربے نیاز ہے‘‘۔(سلسلہ احمدیہ)
شرک کی باریک سے باریک راہوں سے بھی اجتناب کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے جیسے بت پرستی شرک ہے اسی طرح انسان پرستی بھی شرک میں داخل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس ارشاد میں جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے ۔ یہ سبق بھلانے والانہیں۔
مہمان نوازی
اب میں حضور ؑ کے اخلاق فاضلہ میں سے مہمان نوازی کے خلق پر کچھ عرض کروں گا۔
آپؑ کی مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ جہاں کوئی دوست آیا اور آپ کا چہرہ خوشی سے پھول کی طرح کھل گیا۔ مہمان کو اچھی جگہ بٹھاتے اس کے متعلقین کی خیریت دریافت فرماتے اورجو کچھ و ہ عرض کرتا بڑی توجہ سے سنتے۔ جو خدام مہمان نوازی کے کام پر متعین تھے ان کوباربار تاکید فرماتے کہ مہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ رہ جائے ۔پھرخود بھی ذاتی توجہ ہر مہمان کے آرام اور اس کی ضروریات کے متعلق فرماتے۔ اگر کسی دوست نے کچھ عرصہ قیام کرنا ہوتا تو اس سے دریافت فرماتے کہ گھر میں وہ کیا کیا کھانے کھاتے تھے تا ان کی عادت کے مطابق خوراک کا انتظام فرما سکیں۔ مدتوں حضورعلیہ السلام دوستوں کے ساتھ مل کر باہرکھانا تناول فرمایا کرتے تھے لیکن دراصل یہ ساتھ کھاناکھانے کی غرض کم اور خدمت کی غرض زیادہ رکھتا تھا۔ کھانے کے دوران اٹھ اٹھ کر گرم چپاتی اندر سے لے کر آتے۔ کسی دوست کی خواہش کے اظہار پر اچار مربّہ اندر سے لے آتے۔ حضور بہت کم خور تھے زیادہ وقت دوستوں کوکھلانے ہی میں گزر تا تھا۔ ایک دوست حافظ عظیم بخش صاحب پٹیالوی آنکھوں سے نابینا تھے و ہ ذکر کیا کرتے تھے کہ حضرت اقدس مجھے اپنے ہاتھ سے لقمہ بنا کر دیتے اور میں کھاتا‘‘۔
قاضی محمد یوسف صاحب جو عرصہ دراز تک صوبہ سرحد کے امیر رہے ہیں اور سلسلہ کے ایک مخلص خادم تھے بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اور عبدالرحیم خان صاحب پسر مولوی غلام حسین خا ن صاحب پشاوری مسجد مبارک میں کھانا کھا رہے تھے جو حضرت صاحب کے گھر سے آیا تھا ناگاہ میری نظر کھانے میں ایک مکّھی پر پڑی ۔ چونکہ مجھے مکھّی سے طبعاً نفرت ہے میں نے کھانا ترک کر دیا ۔ اس پر حضرت کے گھر کی ایک خادمہ کھانا اٹھا کر واپس لے گئی۔ اتفاقاً ایسا ہوا کہ اسی وقت حضرت اقدس اندرون خانہ کھانا تناول فرما رہے تھے ۔خادمہ حضرت کے پاس سے گزری تو اس نے حضرت سے ماجرا عرض کر دیا۔ حضرت نے فوراً اپنے سامنے کا کھانا اٹھا کر اس خادمہ کے حوالہ کر دیا کہ یہ لے جاؤ اور انپے ہاتھ کا نوالہ بھی برتن میں ہی چھوڑ دیا ۔ و ہ خادمہ خوشی خوشی ہمارے پاس و ہ کھانا لائی اور کہا کہ لو حضرت صاحب نے اپنا تبرک دے دیا ہے۔ اس روایت کے لکھتے وقت ایک امر نے خاص طور پر مجھے متوجہ کیا وہ یہ کہ حضور علیہ السلام کے صحابہ اپنے اخلاص فدائیت جذبہ خدمت محبت اور وفا کے باوجود حضور علیہ السلام سے ایسے بے تکلف تھے جیسے گہرے دوست ۔ حضور علیہ السلام کی ذات ان کے لئے ایک ہوّا نہ تھی کہ خوف میں دبے جاتے ہوں۔ حضور کی مجالس میں بھی اورحضور کا ذکر کرتے ہوئے بھی صرف ’’حضرت‘‘کے لفظ کا استعمال عدم احترام نہیں بلکہ قرب اور پیار اور جانثاری پر دلالت کرتا ہے۔ آپ میں اور آپ کے صحابہ میں کسی قسم کی کوئی غیریت نہ تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرسلین او ر مامورین کی یہی شان ان میں وہ مقناطیسی قوت پیدا کرتی تھی جو سننے سے نہیں دیکھنے سے ہی سمجھ آ سکتی ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بڑی رات گئے ایک مہمان آ گیا ۔ کوئی چارپائی خالی نہ تھی اور سب سو رہے تھے ۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا ذرا ٹھہرئیے میں ابھی انتظام کرتاہوں۔ آپ اندر تشریف لے گئے اور دیر تک واپس تشریف نہ لائے ۔ مہمان نے خیال کیا کہ شاید حضرت بھول گئے ۔ اس نے ڈیوڑھی میں جھانکا تو دیکھا کہ ایک صاحب چارپائی بن رہے ہیں اورحضرت خود مٹی کا دیا اٹھائے اس کے پاس کھڑے ہیں ۔چارپائی بُنی گئی او ر مہمان کو دی گئی۔ ادھر مہمان صاحب عرق ندامت میں غرق ہو رہے تھے کہ میں نے آدھی رات کے وقت حضرت کو اس قدر تکلیف دی ۔ ادھر حضرت اقدس عذر فرما رہے تھے کہ چارپائی لانے میں دیر ہو گئی‘‘۔
حضور علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام کی بات ہے کہ حضور ؑ کے ایک صحابی بابوشاہ دین صاحب بہت بیمار ہو گئے ۔ انہی دنوں حضور کو لاہورکا سفر اختیار کرنا پڑا۔ یہ حضور علیہ السلام کا آخری سفر تھا ۔ وفات سے تیرہ روز قبل حضورعلیہ السلام نے حضرت ڈاکٹرخلیفہ رشیدالدین صاحب کو ایک خط لکھا ( جو ان دنوں قادیان میں تھے)جس میں بابوصاحب کی تیمارداری کی طرف خاص توجہ دلائی گئی تھی۔ حضور نے تحریر فرمایا:
’’بابو شاہ دین صاحب کی خبر گیری سے آپ کو بہت ثواب ہوگا۔ میں بہت شرمندہ ہوں کہ ان کے ایسے نازک وقت میں قادیان سے سخت مجبوری کے ساتھ مجھے آنا پڑا اور جس خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے میں حریص تھا وہ آپ کو ملا ۔امید ہے آپ ہرروز خبر لیں گے اوردعا بھی کرتے رہیں گے اور میں بھی دعا کرتاہوں‘‘۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے اپناایک واقعہ یوں بیان فرما یا ہے کہ :
’’ دو چاربرس کاعرصہ گزرتاہے کہ آپ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے ۔ جون کامہینہ تھا اور اندر مکان نیا نیا بنا تھا۔ میں دوپہر کے وقت وہا ں چارپائی بچھی ہوئی تھی اس پرلیٹ گیا۔ حضرت ٹہل رہے تھے۔ میں ایک دفعہ جاگا تو آپ فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے ۔ میں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ آپ نے بڑی محبت سے پوچھا آپ کیوں اٹھے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سوئے رہوں۔ مسکرا کر فرمایا میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے‘‘۔(سیرت مسیح موعودؑ مؤلفہ عرفانی صاحبؓ)
محترم چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے بیان کیا کہ:
’’ ایک دن دوپہر کے وقت ہم مسجد مبارک میں بیٹھے کھاناکھا رہے تھے کہ کسی نے اس کھڑکی کو کھٹکھٹایا جو کوٹھڑی سے مسجد مبارک میں کھلتی تھی ۔میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود تشریف لائے ہیں۔ آپ کے ایک ہاتھ میں طشتری ہے جس میں ایک ران بھنے ہوئے گوشت کی ہے وہ حضور نے مجھے دی اور حضور خود واپس اندر تشریف لے گئے اورہم نے بہت خوشی سے اسے کھایا۔ اس شفقت اور محبت کا اثر اب تک میرے دل میں ہے۔ اور جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو میرادل خوشی اور فخر کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے‘‘۔(سیرت المہدی حصہ چہارم ،غیر مطبوعہ)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کی مہمان نوازی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:۔
’’یہ صفت آپ میں اتنی نمایاں تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ ہروقت مہمانوں کی آمد کے لئے چشم براہ رہتے ہیں اورجب بھی کوئی مہمان آتا تھا خواہ وہ غریب ہو یا امیر آپ کی دل کی کلی شگفتہ ہو کرپھول کی طرح کھل جاتی تھی اور آپ اس کے آنے پر ہررنگ میں دلی خوشی کا اظہار کرنے اورہرممکن طریق سے آنے والے مہمان کو آرام پہنچانے کی فکرمیں لگ جاتے تھے ۔
شروع شروع میں آپ اکثراوقات اپنے مکان کے مردانہ حصے میں مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے تھے اور یہ مجلس یوں نظرآتی تھی کہ جیسے ایک شفیق اور بے تکلف باپ اپنے بچوں کے درمیان بیٹھا ہے اور ایسے موقع پر علمی اور دینی مذاکرے کے علاوہ عام قسم کی باتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ آپ اپنے دوستوں کی باتیں سنتے تھے اور انہیں اپنی باتیں سناتے تھے۔ اور ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ کوئی مہمان بھوکا نہ رہے اور دسترخوان کی ہر چیز ہرشخص کے سامنے پہنچ جائے اور چونکہ آپ بہت کم کھاتے تھے اس لئے بسا اوقات آپ شکم سیر ہونے کے بعد بھی روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرے توڑ کر وقفہ وقفہ سے منہ میں ڈالتے رہتے تھے تا کہ کوئی مہمان آپ کو فارغ دیکھ کر شرم کی وجہ سے کھانے سے ہاتھ نہ کھینچ لے۔ ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم مرحومؓ نے دسترخوان پر نظردوڑا کر اچار کا نام لیا اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوراً کھانا چھوڑ کر اٹھے اور اندرون خانہ جا کر اچار لے آئے اورحضرت مولوی صاحب کے سامنے رکھ دیا۔
آپ کا یہ بھی طریق تھاکہ شہتوت وغیرہ کے موسم میں مہمانوں کو ساتھ لے کر اپنے باغ میں تشریف لے جاتے اورشہتوت اتروا کر مہمانوں کے سامنے رکھوا دیتے۔ اور پھر مہمانوں کے ساتھ مل کر خود بھی کھاتے اور مہمانوں کو بھی کھلاتے۔ اور ساتھ ساتھ ہر قسم کی گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ ایسے موقعوں پر بے تکلفی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بسا اوقات آپ نیچی چارپائی پر بیٹھے ہوتے تھے اورمہمان اونچی چارپائی پر جگہ پاتے تھے یا آپ پائنتی کی طرف بیٹھے ہوتے تھے اور مہمان سرہانے کی طرف ہوتے تھے۔ یا آپ ننگی چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اورمہمانوں کے نیچے کھیس یا چادر والی چارپائی ہوتی تھی۔ حتی کہ بعض اوقات ایک اجنبی شخص کے لئے یہ جاننا مشکل ہو جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود کون ہیں او ر کہاں تشریف رکھتے ہیں۔ لیکن اس بے تکلفی کے باوجود آپ کے عقیدت مندوں کے دل میں آپ کی اتنی محبت تھی کہ اس کی نظیر ملنی مشکل ہے ۔وہ پروانوں کی طرح آپ کے گرد گھومتے تھے۔ کیونکہ آ پ کا تعلق اپنے مریدوں کے ساتھ افسر ماتحت کا نہیں تھا بلکہ باپ بیٹے کا تھا۔
بعض اوقات جب آپ کی طبیعت اچھی ہوتی تھی اور کوئی مہمان قادیان کے قیام کے بعد اپنے وطن کو واپس جانے لگتا تھا تو آپ اسے رخصت کرنے کے لئے ایک ایک دو دومیل تک اس کے ساتھ جاتے تھے اورپھر بڑی محبت اوردعا کے ساتھ رخصت کرتے تھے اورمہمانوں کی واپسی کے وقت آپ کے دل کو ایسا صدمہ ہوتا تھا کہ گویا ایک نہایت ہی پیارا عزیز جدا ہو رہاہے اور آپ بسااوقات واپس جانے والے مہمان کو تاکید فرماتے تھے کہ پھرآؤ اور باربار آؤ۔
جب صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جو علاقہ خوست کے چوٹی کے عالم اور رئیس خاندان سے تھے قادیان کے قیام کے بعد افغانستان واپس جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کورخصت کرنے کے لئے قریباً دو میل تک ان کے ساتھ بٹالہ کی سڑک پر پیدل تشریف لے گئے ۔ جب عین جدائی کا وقت آیا تو صاحبزادہ صاحب فرطِ غم کی وجہ سے بیتاب ہوکر حضرت مسیح موعود ؑ کے قدمو ں میں گر گئے اور زار زارروتے ہوئے عرض کیا:
’’حضرت میں محسوس کرتا ہوں کہ میری موت قریب ہے اورمجھے حضور کا مبارک چہرہ پھردیکھنا نصیب نہیں ہوگا‘‘۔
اور یہی ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کی وجہ سے کابل پہنچنے پر اس عاشقِ مسیح کوزمین میں کمر تک گاڑ کر ہزاروں پتھروں کی بے پناہ بارش سے شہید کردیا گیا‘‘۔(ماہنامہ انصاراللہ، دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۲۱،۲۲)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیرمعمولی جمالی صفات اور آپ کے بے مثال حسن و احسان کا ہی یہ ثمرہ تھا کہ آپ کے حلقہ بگوش اپنا تن من دھن آپ ؑ پر قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہتے تھے۔ گو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ فرق کرنا بھی بڑا مشکل تھا کہ پروانے شمع پر نثار ہو رہے ہیں یا شمع پروانوں پر۔
اللّٰھُمّ صَلّ عَلٰی مُحَمّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمّدٍ
وَ بَارک وَ سَلّم اِنّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ
*۔۔۔*۔۔۔*
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍مارچ ،۲۷؍مارچ ۱۹۹۸ء )
No comments:
Post a Comment