آنحضرت ﷺکی خدمت اقدس میں دور ونزدیک سے بہت سے لوگ اکیلے یا وفود کی صورت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے۔ آپ ؐ کا ان کے ساتھ خاص عزت و احترام والا سلوک ہوتاتھا۔جب آ پؐ کو وفود کے آنے کی خبرہوتی تو آپ ؐان کے ٹھہرنے کے لئے بعض صحابہ کرامؓ کے گھروں میں بندوبست کرتے اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دیتے تھے۔ وفود کی آمد پراکثر حضرت رملہ بنت حارثؓ کے مکان پران کے قیام کا انتظام کیا جاتا تھا۔ ان کے علاوہ حضور ﷺ بعض اور صحابہ کرامؓ کوبھی اس خدمت کا موقعہ عنایت فرماتے تھے جن میں حضرت ابوثعلبہ ؓ، حضرت قیس بن حارثؓ ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت مقداد بن عمروؓ ، حضرت سعد بن عبادہؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت فروہ بن عمرالبیاضیؓ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت بلالؓ کو بھی مہمان نوازی کا خاص موقعہ ملاکرتا تھا۔
بعض وفود چونکہ دور سے آتے تھے اس لئے مدینہ میں ان کا قیام لمبا ہو جاتاتھا۔ بعض دس دن ٹھہرے رہتے تو بعض مہینہ مہینہ حضورؐ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے لئے رک جاتے۔ بعض وفود کا قیام اس سے بھی لمبا ہو جاتاتھا ۔ لیکن اس کے باوجود وفود کی مہمان نوازی کے لئے حضور اکرم ؐ بنفس نفیس ان کی قیامگاہ پر تشریف لے جاتے جن میں وفد بنی البکاء بھی شامل ہے ۔ (طبقات ابن سعد جلد دوم صفحہ ۹۲)
وفد بَلّی اپنے سردار رویفع بن ثابت البلوی کے مکان پر ٹھہرے تھے۔ رویفع بن ثابت البلوی وفد کو لے کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور ؐ نے ان کے بعض سوالات کے جوابات دئے ۔ جب یہ لوگ رویفع کے مکان پرواپس آئے تو کچھ دیر کے بعد آپؐخود ان کے لئے کھجوریں لے کرآئے اور ان کی مہمانوازی کی ۔
وفد بہراء حضرت مقداد بن عمروؓ کے ہاں قیام پذیر تھا۔( زادالمعاد صفحہ ۱۴۷)۔ انہوں نے بڑے تپاک کے ساتھ ان کا خیرمقدم کیا۔ ان کی خوب خاطر مدارات کی ۔ مقداد نے کچھ کھانا حصول برکت کی خاطر حضور ؐ کی خدمت میں بھجوایا۔ حضور ؐ نے تھوڑا سا کھانا لے کر باقی واپس بھیج دیا۔ اب حضرت مقداد دونوں وقت وہ کھاناپیش کرتے لیکن وہ ختم نہ ہوتا۔ وفدکے استفسار پر حضرت مقدادؓ نے اسے آنحضرت ﷺ کی انگلیوں کی برکت قرار دیا جنہوں نے اس کھانے کو چھؤا تھا۔
اسی طرح بنی عبس کے ایک قبیلہ کے سردار ربیعہ شام کے وقت حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضور ﷺ کھانا تناول فرما رہے تھے ۔ حضور ؐ نے ربیعہ کو بھی کھانا کھلایا۔ اسکے بعد انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
حضور ؐ مہمانوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے ۔ خود زمین پر بیٹھ جاتے تھے لیکن مہمانوں کو اچھی جگہ بٹھاتے۔ عدی بن حاتم جب مسجد نبوی میں رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ؐ نے ان کا نام پوچھااور پھران کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں پکڑ کر کاشانۂ اقدس کی طرف روانہ ہوئے۔ گھر پہنچ کرحضور ؐنے عدی کو باصرار چمڑے کے گدّے پر بٹھایا اور خو د زمین پر بیٹھ گئے۔ عدی کو پختہ یقین ہو گیا کہ آپ کوئی دنیا دار بادشاہ نہیں ہیں ۔ اس کے بعد رسول اکرم ﷺ اور عدی کے درمیان گفتگوہوئی۔ اس گفتگو کے بعدعدی اسلام لے آئے۔
تحائف اور انعام و اکرام سے نوازنا
حضور ﷺ تقریباً تمام وفود کو انعام و اکرام سے نوازتے تھے اوران کی ضروریات کے مطابق انہیں عطاکیاکرتے تھے۔وفدبنی سعد ہذیم جب واپس روانہ ہونے لگاتو آپؐ نے حضرت بلالؓ کوحکم فرمایا کہ ان کو چند اوقیہ چاندی تحفہ دے دیں۔
اسی طرح وفد بنی جعدہ کے قبیلے میں سے صرف رقاد بن عمرو بن ربیعہ بن جعدہ ابن کعب بطور وفد حضور ؐکی خدمت میں حاضرہوئے اوراسلام قبول کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مقام فلج میں ان کوایک خاص جائیداد عطا فرمائی۔
وفد بنی البَکّاء کی واپسی پر آپؐ نے انہیں بھیڑیں عنایت فرمائیں۔
وفدحضرموت کو حضورﷺ نے سالانہ پیداوار سے کچھ غلّہ عطا فرمایا۔
وفد بنی مراد کی طرف سے جب فروہ آپؐکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے انہیں بہت سے انعام و اکرام سے نوازا۔ ظہوراسلام سے کچھ عرصہ قبل مراد اور ہمدان کے درمیان لڑائی ہوئی تھی۔ اس کے ایک معرکے میں جسے ’’یوم الروم‘‘ کہا جاتاہے ہمدان نے مراد کو عبرتناک شکست دی تھی۔ جب فروہ آپؐکی خدمت میں پہنچے تو آپؐ نے پوچھا ، یوم روم میں تمہاری قوم کوجو مصیبتیں پہنچی ہیں ، کیاوہ تمہارے لئے ناخوشگوار بن سکیں؟ فروہ نے جواب دیا ’’کون ایساہے کہ اس قوم کووہ مصیبتیں پہنچیں جو میری قوم کو یوم روم میں پہنچی ہیں اور وہ ناخوشگوار نہ سمجھی گئی ہوں‘‘۔
آپؐ نے فرمایا ’’لیکن اسلام تمہاری قوم کے لئے بھلائی کے سواکچھ نہ بڑھا ئے گا‘‘۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں بارہ اوقیہ چاندی ، اچھی نسل کا ایک اونٹ اورعمّان کی تیارشدہ ایک خلعت عطا فرمائی ۔(طبقات ابن سعد صفحہ ۱۲۳)
آنحضرت ﷺ نے وفد بنی رہاویّین کوخیبر کی پیداوار میں سے ایک سو وسق عطا کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (طبقات ابن سعد دوم صفحہ ۹۲)
اس کے علاوہ حضور ﷺنے وفد بنی حارث بن کعب کے افراد کو دس ، دس اوقیہ چاندی عطافرمائی اور قیس بن حصین کو ساڑھے گیارہ اوقیہ عنایت فرمائیں۔
وفد سلاماں کو آنحضرت ﷺ نے ۵،۵ اوقیہ چاندی عطا فرمائی۔ حضرت بلالؓ نے آخرمیں معذرت کی کہ آج زیادہ مال نہیں ورنہ زیادہ دیتے ۔ (زاد المعاد سوم صفحہ ۱۶۳)
آنحضرت ﷺنے وفد بنی خولان کے ہررکن کے ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی عنایت کرنے کاارشاد فرمایا۔ ( طبقات ابن سعد دوم صفحہ ۱۱۹)
وفد بنی حنیفہ کے ہر رکن کو حضور ؐ نے چاندی پانچ اوقیے عطا فرمائے۔ انہوں نے عرض کیاکہ ہم اپنے ایک ساتھی کو سامان اورسواریوں کی حفاظت کے لئے پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ حضورؐ نے اس کے لئے بھی اتنا ہی عطیہ دینے کا حکم دیا جتنا انہیں دیاتھا اور فرمایا وہ( تمہاری سواریوں اور سامان کی حفاظت کرنے کی وجہ سے ) بُرے مقام پر نہیں ہے ۔
جب حضور ﷺکی خدمت میں وفدِ احمس حاضر ہوا تو آپ ؐ نے حضرت بلالؓکوحکم دیا پہلے قبیلہ احمس کے افراد کو عطیہ دو اور پھر بجیلہ کے سواروں کو دو۔ اس وقت بنو بجیلہ کا وفد بھی بارگاہ رسالت میں حاضر تھا۔
حضور ﷺ نے وفد بنی عذرہ کے افراد کو انعام و اکرام سے نوازا۔ ان کے ایک شخص کو آ پؐ نے چادر بھی اوڑھائی تھی(زادالمعاد دوم )
اسی طرح جب کعب بن زہیرؓ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا اور اپنا شہرہ آفاق قصیدہ پیش کیا تو آپ ؐنے اسے پسند فرمایا اورکعب بن زہیر کو اپنی رداء مبارک عطا فرمائی۔
وفد بنی تجیب کے افراد جب ارکان اسلام سیکھنے کے بعد واپس روانہ ہوئے تو حضور ﷺنے وفد کے ہرممبر کوا نعامات سے نوازا۔ آپ ؐ کے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لڑکا انعام حاصل کرنے سے رہ گیاہے۔ آپ ؐ نے اس لڑکے کے عرض کرنے پر اس کے لئے دعا کی اور انعام سے نوازا۔ (طبقا ت ابن سعد دوم صفحہ ۱۱۸)
۱۰ ہجری میں حضور ﷺ حج کے لئے تشریف لے گئے تو تجیب کے سولہ افراد حضورؐ سے منیٰ میں ملے ۔ آپؐ نے اس لڑکے کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ حضور آج تک ہم نے اس سے زیادہ قناعت کرنے والا نہیں دیکھا ۔ یہ حضور ﷺ کی دعااورانعام و اکرام کی برکت تھی جس سے اسے قناعت کی دولت ملی۔
ان وفود کے علاوہ بھی بہت سے وفود کو حضور ؐ نے انعامات عطاکئے۔ جن میں سے خاص طور پر وفد بَلّی ، وفد بنی کلب، وفد بہرائ، وفد بنی محارب، وفد بنی جثعم، وفد بنی غسمان ، وفد بنی تغلب وغیرہ شامل ہیں۔
وفد داریین کے ایک فرد تمیم نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ہمارے نواح میں روم کی ایک قوم آباد ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ حضور ؐ کو ملک شام پر فتح دے تو ان کے گاؤں ’’جری اور بیت عیون‘‘ مجھے ھبہ فرما دیں۔ آنحضور ؐ نے فرمایا ’’ وہ تمہارے ہی ہونگے‘‘۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓکے زمانہ میں جب یہ علاقے فتح ہوئے تو آپ ؓنے ان کو یہ گاؤں عطاکئے ۔
اوّل تو آنحضرتؐ خود وفود کے اراکین کو انعامات عطافرماتے تھے لیکن اگر ان میں سے کوئی کچھ مانگ لیتا تو آپ ؐ وہ بھی اسے عطا فرماتے تھے۔ اسی طرح تنگی کے وقت بھی حضور ﷺ وفود کا ہر طرح خیال رکھتے اور انہیں کچھ نہ کچھ ضرور عطا فرماتے تھے۔
وفود کی دینی تعلیم و تربیت پر نظر
حضور ﷺ کے پاس جب وفدِ بنی صدف مسجد نبوی میں حاضر ہوا تو بجائے اس کے کہ وہ سلام کرتے وہ خاموشی سے آ کر بیٹھ گئے ۔ حضور ﷺ کو ان کی اس حرکت پر تعجب ہوا تو آپ ؐنے ان سے پوچھا کہ کیا تم لوگ مسلمان ہو ؟ انہوں نے جواب دیا ، ہاں!۔ یہ مزید تعجب انگیز بات تھی کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اسلام کے اس اعلیٰ طریق یعنی سلام کرنے کواختیار نہیں کیا تھا۔ اس پرآنحضور ﷺ نے دریافت فرمایا ’’آپ لوگوں نے سلام کیوں نہیں کیا؟۔ چنانچہ اہل وفد کھڑے ہوئے اور پھر سلام عرض کیا ۔ حضور ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور پھربیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔ آنحضرت ﷺ نے اس طرح سے ان کی تعلیم و تربیت فرمائی اور ایک اعلیٰ اسلامی خلق سکھایا۔ معلوم ہوتاہے کہ وہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ابھی انہیں اسلامی تعلیم اور اسلامی آداب سے خاص واقفیت نہ تھی۔
اسی وفد کے اراکین نے نماز اور صدقات کے بارے میں سوالات کئے۔ حضور ﷺ نے انہیں ان کی تفصیلات بتائیں۔ خاص طورپر انہیں زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید فرمائی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب وفد جعفی آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہواہے کہ تم لوگ جانور کا دل نہیں کھاتے ۔ ان کے ’ہاں ‘میں جواب دینے پرآپ ؐ نے فرمایاکہ اس کے بغیر تمہارا اسلام مکمل نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی بظاہر ایک چھوٹی سی بات نظرآتی ہے یعنی اگر کسی شخص کو دل اچھا نہیں لگتا تو اس کے نہ کھانے میں بظاہر کوئی حرج نظر نہیں آتا لیکن حضور ﷺ کے اصرار کرنے میں خاص حکمت پوشیدہ تھی۔ دل جو کہ حرام نہیں ہے اور اس کے کھانے سے وفود کے ان اراکین کو کسی قسم کی بیماری کا بھی کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اگر حضور ﷺ انہیں دل نہ کھانے سے نہ روکتے تو بعید از قیاس نہیں تھاکہ وہ اسے حدیث تقریری کے طور پرلیتے یعنی جس عمل کو حضور ﷺنے دیکھ کر منع نہیں فرمایا اور خاموشی اختیار کی اس کے نتیجے میں ان کے قبیلہ کے دوسرے لوگ بھی ان کی دیکھا دیکھی دل کھانے سے رک جاتے ۔ وہ سمجھتے کہ چونکہ حضور ﷺ نے اس عمل کے نہ کرنے پر خاموشی اختیار کی ہے اورانہیں منع نہیں فرمایاہے تو اس لئے وہ اسے اچھا عمل سمجھتے اور دل کھانا ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیتے ۔ اس کے نتیجہ میں جو لوگ دل کھانا چاہتے ان کے لئے بھی مشکل پیدا ہو جاتی۔
آنحضور ﷺ وفود کی روحانی اوراخلاقی حالت کو دیکھ کر انہیں اس کے مطابق نصیحت فرماتے تھے۔ وفدبنی تجیب آپ ؐ کے ہاں اسلام قبول کرنے کی غرض سے آئے ۔ آپ ؐنے ان کے معیار کے مطابق شرائط اسلام سے آگاہ فرمایا۔ ا ن کے مقابلے میں جب وفدِبنی کلب حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہیں نصیحت کرنے کاانداز اور تھا۔ آپؐ نے سادہ الفاظ میں ان کی عقل و فہم کے مطابق ارشاد فرمایا کہ :
’’میں نبیٔ اُمّی ، صادق اور پاک ہوں۔ ہلاک ہو گیا وہ انسان جو میری تکذیب کرے اور مجھ سے روگردانی اختیار کرے اورجنگ کرے۔اور کامیاب ہو گیاو ہ انسان جو مجھے جگہ دے ، مجھ پر ایمان لائے، میری مدد کرے،میرے قول کی تصدیق کر ے اور میرے ہمراہ جہاد کرے‘‘۔(طبقات ابن سعد حصہ دوم صفحہ ۱۳۱)
وفد عبدقیس جب اسلام لے آیا تو انہوں نے ایک ایساسوال کیاجس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ اس عارضی زندگی کے فنا ہوجانے پرسچے دل سے ایمان لا چکے ہیں ، آخرت کو اپنا اصل ٹھکانا سمجھتے ہوئے انہوں نے حضور ﷺ سے کہا کہ ہمیں کوئی ایساحکم دیں جو ہمیں جنت میں داخل فرمادے۔ آپؐ نے ان کے ا س سچے ایما ن کو دیکھتے ہوئے انہیں چار باتیں کرنے کی نصیحت فرمائی اور چار باتیں نہ کرنے کاحکم دیا۔ آپ نے فرمایا:
’’اٰمُرُکم بأربعٍ و اَنہاکُم عن اَربعٍ ، شہادۃ اَنْ لاَ الٰہ الاّ اللّٰہ و انَّ مُحمّدًا رسول اللّٰہ واقامِ الصَّلوٰۃ واِیتَاء الزّکوٰۃ وادَاء الخُمْس ۔ اَنھاکم عَن اربعٍ، عن الدباء والحَنْتَم والنَّقِیر و المَزفّت‘‘۔ (بخاری کتاب المغازی باب ما جاء فی وفد عبدالقیس)
یعنی میں تمہیں چار باتوں کے کرنے کاحکم دیتاہوں اور چار باتوں سے روکتاہوں۔ یہ گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے اور خمس کی ادا ئیگی کا حکم دیتاہوں۔ اور چار چیزوں سے روکتاہوں یعنی دُبّائ، حنَتَم، نفیر اور مزفّت کے استعمال سے ۔(یہ ایسے برتن تھے جن میں عرب زمانہ ٔ جاہلیت میں شراب وغیرہ بناتے تھے)۔
ان نصائح سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ﷺ موقعہ محل کے مطابق ہر ایک کو اُن باتوں کی نصیحت فرماتے تھے جن کی انہیں ضرورت ہوتی تھی۔
حضور ﷺ کی خدمت میں جب وفد کِندہ حاضر ہوا تو اس وقت وہ لوگ ریشمی قبائیں زیب تن کئے ہوئے تھے جن پر سونے کے پتر چڑھائے گئے تھے۔ آپ ؐ نے انہیں ریشمی کپڑے پہننے سے منع فرمایا تو انہوں نے وہیں کپڑے پھاڑ کر پھینک دئے۔ یہ حضور ﷺ کی اعلیٰ نصیحت ہی کا اثر تھا جس نے ان کے ایمان کو طاقت بخشی تھی اور وہ حضور ﷺ کے حکم پر فوراً لبیک کہتے تھے۔
وفد بنی خولان کو آپ ؐ نے اخلاقی باتوں کی طرف توجہ دلائی جو یہ ہیں کہ عہد کرو تو اس کو پورا کرو، ہمیشہ امانت ادا کرو، ہمسایہ سے اچھا سلوک کرو، کسی پر کبھی ظلم نہ کرو۔(زاد المعاد سوم صفحہ ۱۵۴)
اس کے علاوہ حضورؐ نے انہیں بُت ’’عم انس‘‘ کو منہدم کرنے کی بھی نصیحت فرمائی ۔واپس جا کر انہوں نے حضور ﷺ کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بت کو منہدم کردیا۔
حضور ﷺ کے پاس جب وفدِ بَلہُحَیم آیا تو اس وفد کے ایک رکن ابوجُرَیّ بن سُلیم بھی تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک قطری تہبند باندھے ہوئے تھا جس کے کنارے میرے قدموں تک تھے اور میں چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مجھے کچھ سکھائیے جس سے اللہ مجھے نفع دے۔ آپؐ نے فرمایا ’’تم ذرا سی بھلائی کوحقیر نہ جانو۔ اگرچہ تم اپنے برتن سے پیاسے کے برتن میں پانی ڈال دو اور یہ کہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو اورجب وہ چلا جائے تو اس کی غیبت نہ کرو۔ یہ باتیں بیان فرما کر حضورﷺ نے یہ نصیحت فرمائی کہ کسی کو گالی نہ دینا اور اپنے تہبند کو زیادہ نیچا نہ لٹکانا کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے۔ حضورﷺ نے ان کے تہبند کو لٹکتا دیکھ کر پہلے بلا واسطہ طریقے سے انہیں نصیحتیں فرمائیں کہ تکبر اچھی چیز نہیں ہے ۔ اس کے بعد آپ نے انہیں کھول کر بتادیاکہ تہبند کوزیادہ نیچا نہ رکھنا چاہئے، یہ تکبر کی علامت ہے۔ حضورﷺ کے اس اندازسے نصیحت فرمانے میں یہ حکمت بھی تھی کہ اگر چہ بظاہرتہبند کے نیچا ہو کر گھسٹنے سے فرق نہیں پڑتا۔ لیکن یہ بات چونکہ اُس زمانے میں تکبرکی علامت بن چکی تھی اس لئے آپؐ نے انہیں اس سے منع کیا۔
وفد بنی ہلال کے ایک رکن حضرت قبیصہؓ تھے جن پر کچھ قرض تھا۔ انہوں نے حضور ؐ سے درخواست کی کہ یہ قرض اتارنے میں میری مدد فرمائیے۔ اس وقت آپ ؐ کے پاس کچھ نہ تھا۔ اس لئے آ پ نے انکار کی بجائے انہیںیہ فرمایا کہ تم یہاں رہو جب صدقات آئیں گے تو تمہارا قرض ادا کردیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی آپ ؐ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ ’’اے قبیصہ !سوال کرنا صرف تین آدمیوں کے لئے جائز ہے۔ ایک وہ جس پر قرض ہو، دوسرا وہ جس کا مال تلف ہو گیا ہو، تیسرا وہ جو فاقہ میں مبتلا ہو اور اس کی قوم کے تین آدمی کہہ دیں کہ یہ شخص فاقہ میں مبتلاہے۔ بس ان تین کے سوا کسی کے لئے سوال کرنا جائز نہیں‘‘۔ ان کے سوال کرنے پرآپ ؐ نے ہرگزانکار نہیں فرمایا کیونکہ قرض دار ہونے کی حیثیت سے ان کا سوال کرنا جائزتھا لیکن ساتھ ہی انہیں تنبیہ بھی فرما دی تاکہ انہیں سوال کرنے کی عادت ہی نہ پڑ جائے۔ اوروہ ہر چھوٹی موٹی ضرورت کے لئے سوال نہ کرنے لگ جائیں۔
قبیلہ بنی عبس جب اسلام لے آیاتو ایک وفد میں ان کے تین آدمی حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمارے قاری نے کہا ہے کہ جس نے ہجرت نہیں کی اس کا اسلام بھی کوئی نہیں۔ اس پر آنحضورﷺ نے انہیں بڑی پاکیزہ نصیحت فرمائی ۔ آپ ؐ نے فرمایا’’اتقوا اللّٰہ حیث کنتم فلن یلتکم من اعمالکم شیئاً ‘‘ یعنی تم جہاں بھی ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو وہ تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا۔
اُ س وفد کے اراکین نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگراس شخص کاکوئی اسلام نہیں جس نے ہجرت نہیں کی توہم اپنے مال مویشی فروخت کر دیتے ہیں اور ہجرت کر آتے ہیں۔ آپؐ نے انہیں ایسا کرنے سے روکا اور فرمایا کہ اصل چیز تو تقویٰ ہے اسے اختیار کرو۔
وفود کی واپسی پر اپنے قبیلے والوں کو تبلیغ
جیساکہ پہلے ذکر آیاہے کہ بعض وفود حضور ﷺ کے پاس زیادہ دیر کے لئے ٹھہر جاتے تھے لیکن بعض وفود تبلیغ حق کے لئے جلد ہی اپنے علاقوں میں لوٹ جاتے تھے۔ جن میں سے ایک وفد، وفد بن رواس بھی ہے۔ اس قبیلے کے سردار عمرو بن مالک تھے جو اسلام لانے کے بعد جلد ہی اپنے قبیلے میں لوٹ آئے اورتبلیغ کافریضہ سرانجام دینے لگے۔
تبلیغ کا شوق رکھنے والے ایک اورنو مسلم جوکہ وفد بنی ثقیف سے تعلق رکھتے تھے حضورؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اور کہا کہ مجھے ثقیف میں اسلام پھیلانے کی اجازت دی جائے۔ آپ ان کے علاقے کے حالات سے واقف تھے۔ اس لئے فرمایا کہ تمہاری قوم تمہارے ساتھ جنگ کرے گی اور مخالفت پر آمادہ ہو جائے گی۔(ابن ھشام حصہ دوم صفحہ ۶۴۶)
لیکن اسلام کے اس فدائی نے اس نیکی سے محروم رہناپسند نہ کیا اوراصرار کرتے ہوئے کہا کہ وہ مجھے اکلوتے بیٹوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ مجبوراً آپ ؐنے انہیں اجاز ت دے دی۔ انہوں نے واپس جا کر قوم میں تبلیغ کی تو وہ آپؓ کے دشمن ہو گئے اور آ پؓ کو نماز کی حالت میں شہید کردیا۔ لیکن ان کے اس سچے ارادے کی تکمیل اس طرح ہوئی کہ کچھ عرصہ کے بعد باقاعدہ طورپر ثقیف کا وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اورمشرف باسلام ہوا۔
حضور ﷺ نے حضرت خالد بن ولیدؓکو بنی حارث بن کعب کی طرف مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تبلیغ کے لئے بھیجا۔ اس سے پہلے اس وفد کے ۱۷۔افراد اسلام لاچکے تھے ۔ جب مسلمان ان کے علاقہ میں پہنچے تو انہوں نے دعوت اسلام کوقبول کر لیا ۔ اس کی ایک وجہ وہ ۱۷۔ افراد تھے جوکہ اس سے پہلے حضور ﷺ کی صحبت سے فیضیاب ہو چکے تھے۔ ظاہرہے کہ انہوں نے اس کا فیض اپنی قوم کو بھی پہنچایا ہوگا جس کے نتیجے میں حضرت خالد بن ولید ؓکے وہاں جانے پرکوئی جنگ نہ ہوئی اور انہوں نے صدق دل سے اسلام کو قبول کر لیا۔
وفد ازدشُنوأہ کے ایک باثر شخص ضمادؓ تھے جو کہ جھا ڑ پھونک اور طبابت کا کام کرتے تھے۔ جب انہوں نے آنحضورؐ کی باتیں سنیں توان پران کا بہت گہرا اثر ہوا اور آپ کو دوبارہ ساری باتیں دہرانے کاکہا۔ اس طرح آپ نے تین دفعہ ان باتوں کودہرایا۔ اسکے بعد وہ اسلام لے آئے۔آپؐ نے ان کے اسلام میں اس قدر دلچسپی لینے کو مدنظر رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ واپس جا کر اپنی قوم میں بھی ان باتوں کی تبلیغ کریں۔ انہوں نے کہا کہ بہت اچھا میں ایسا ہی کروں گا۔ حضور ﷺ جانتے تھے کہ ایسا شخص جو اپنی قوم میں مشہور ہو اورلوگ اس کی باتیں سنتے ہوں اور اس کا پیشہ ایسا ہو جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کی خدمت کرتا ہو اور لوگوں کے لئے اس کے دل میں ہمدردی ہووہ تبلیغ کے کام کوبڑے احسن طریق سے سرانجام دے سکتاہے۔
قیس بن مالک جو کہ وفد بنی ارحب سے تعلق رکھتے تھے اسلام لے آئے ۔ آپ ؐ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم مجھے ان باتوں کے ساتھ جن کی میں تبلیغ کرتاہوں اپنے ساتھ لے جاؤ گے۔ انہوں نے کہا: ہاں۔آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم خود جاؤ اور اپنے قبیلے میں تبلیغ کرو۔ اس کے نتیجہ میں قبیلہ بنو ارحب مشرف باسلام ہوگیا۔
بعض وفود کاسخت اندازِ گفتگو
وفد بنی تمیم جو کہ مردوں، عورتوں اور بچوں پرمشتمل تھا حضور ﷺ کے پاس آئے۔ ان سب کو سریہ عینیہ یاسریہ تمیم میں گرفتار کیاگیاتھا۔ اس کے باوجود انہوں نے بڑے اکھڑ طریقے سے حضور ﷺکوپکارا ۔ حضور نے ان کے پکارنے پر فوری جواب نہ دیا بلکہ آپ مسجد میں نماز کے لئے چلے گئے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس کے باوجود آپؐ نے انہیں جنت کی بشارت دی اور ان کے ساتھ بڑے حسن سلوک سے پیش آئے۔
بعض افراد جو اسلام لانے سے پہلے اسلام کے سخت دشمن تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی غیبی طاقت انہیں اسلام کی طرف لے ہی آئی جس کے نتیجے میں وہ آپؐ سے اسلام کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کرتے جن میں سختی کا عنصر شامل ہوتاتھا۔ وفد معاویہ بن عبدۃ قشیری کے ایک شخص جو اسلام کے ایسے شدید مخالف تھے کہ وہ آپ ؐ کے پاس بھی نہیں آنا چاہتے تھے۔ لیکن آخر کار ان کا دل اس طرف مائل ہوا اور انہوں نے آپؐ سے اس انداز میں سوال کیا کہ میں خدا کا واسطہ دے کر آپؐ سے پوچھتاہوں کہ ہمارے پروردگار نے آپؐ کو ہمارے پاس کیا کیا حکم دے کر بھیجا ہے۔ آپ ؐ نے ان کو بڑا تسلی بخش جوا ب دیا ۔ اس طرح کے انہوں نے کئی سوال کئے۔ جن کے جوابات آپ ؐ نے بڑے صبر و تحمل اورحکمت سے دئے۔ ان کے سوال میں یہ بات نظر آتی ہے کہ وہ خدا کے قائل تھے۔ اور ان کا دل اس خدا کی تلاش میں تھا جو ان کو آپ ﷺ کے پاس آنے سے مل گیا۔
اسی طرح ایک اعرابی نے آپؐکی اونٹنی کی مہار اس وقت پکڑ لی جب آپؐ سفر پر جا رہے تھے۔ آپؐ نے اس کے لئے اپنی سواری روک دی۔ اس نے دو ٹوک سوال کیاکہ مجھے وہ بات بتائیے جو مجھے جنت سے قریب کر دے اور آگ سے دور کر دے۔ اس پر آپؐ نے اپنے صحابہؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اسے اچھی توفیق ملی۔ یعنی اگرچہ اس کا انداز عجیب تھا لیکن چونکہ اس میں سچی تڑپ تھی اس لئے آپ ؐ جو بھی اسے نصیحت فرمائیں گے ،وہ اسے قبول کرلے گا۔ کیونکہ اسے جنت کی قربت اور آگ سے دور ی چاہئے تھی۔ چنانچہ آپؐ نے اسے چند نصائح فرمائیں۔
وفود کا اپنے بُت منہدم کرنا
عرب جو کہ بت پرستی میں ڈوباہوا تھا، انہیں وحدانیت کی طرف لانے کے لئے ضروری تھا کہ انہیں بت پرستی سے منع کیا جائے۔ جووفود حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے وہ یاتو پہلے ہی اپنے بُت توڑ آتے تھے یا پھر آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد واپس آ کر بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیتے تھے۔ بعض وفود کو حضور ﷺ خود تاکید فرماتے تھے کہ بتوں کو توڑ دو۔ وفد سعدالعشیر ہ کے ایک فرد جب اسلام لائے تو انہوں نے اپنے بُت کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ یہ کام انہوں نے حضور ؐ کی خدمت اقدس میں پیش ہونے سے پہلے سرانجام دیا ۔ ان کے اس بُت کا نام ’’فرّاض‘‘ تھا ۔اس طرح بُت کو توڑ کر اور اپنے دل میں توحید کی شمع روشن کر کے وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور بیعت کا شرف حاصل کیا۔اسی طرح جب وفد بنی جثعم کے افرادآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے جانے لگے تو پہلے انہوں نے اپنے بُت ذوالخلصہ کو توڑا اور پھر آپؐ کے پاس پہنچ گئے اور بیعت کر لی۔
وفد بنی خولان جو کہ ’’عمِّ انس‘‘ بُت کے پجاری تھے آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف باسلام ہوئے ۔ آپ ؐ کے فرمانے پر وہ بُت کو منہدم کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ وفد کے اراکین نے بتایاکہ اب صرف ایک بوڑھا اور ایک بڑھیا ’’عم انس ‘‘ کے دامن سے چمٹے ہوئے ہیں۔ لیکن واپس جا کر انہوں نے بُت کو ریزہ ریزہ کر دیا ۔
وفود کے لئے امن کی تحریر
بعض وفود کی واپسی پر حضور ﷺ نے ان کے لئے امن کی تحریرات لکھ کر دیں۔ جن کا بنیادی مقصد وفود کے جان و مال کی حفاظت تھا۔ وفد بنی بارقا اسلام لایا تو آپ ؐ نے انہیں امن کی ایک تحریر لکھ کر دی جو کچھ اس طرح تھی کہ یہ فرمان محمدؐ رسول اللہ کی طرف سے بارق کے لئے ہے۔ نہ تو بارقا کی اجازت کے بغیر ان کے پھل کاٹے جائیں گے ، نہ جاڑے اور گرمی میں ان کے علاقہ میں مویشی چرائے جائیں گے ۔ جو مسلمان چراگاہ نہ ہونے کے سبب یاخود روگھاس چرانے کے لئے ان کے پاس سے گزرے تو بارقا تین دن کے لئے ان کی مہمان نوازی کریں گے۔ اگر بارقا کے پھل پک کر گر پڑیں گے تو مسافرکو صرف شکم سیر کرنے کے لئے پھل حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس فرمانِ رسول ؐ پر ابوعبیدہ بن الجراحؓ اور حذیفہ بن الیمانیؓ نے بطور گواہ دستخط کئے اور اسے ابی ابن کعب ؓ نے رقم کیا۔
حریث بن حسانؓ اور حضرت قیلہؓ جو کہ وفد بنی شیبان سے تعلق رکھتے تھے جب مسلمان ہوئے تو آنحضور ﷺ نے حضرت قیلہؓ اور ان کی بیٹیوں کے لئے سرخ چمڑے پر ایک تحریر لکھوا کر عنایت فرمائی۔ اس دستاویز کا مضمون یہ تھا کہ ’’ان کی حق تلفی نہ کی جائے، ان سے زبردستی نکاح نہ کیا جائے اورہر مومن مسلمان ان کا مددگار رہے۔ تم نیک کام کرو اور بُرے کاموں سے اجتناب کرو‘‘۔
ان وفود کے علاوہ حضور ﷺ نے اور وفود کوبھی امن وغیرہ کی تحریر لکھ کر دی۔ جن میں وفد بنی جذام ، وفد بنی جرم، وفد بنی جعدہ، وفد بنی کلب، وفدبنی رہاویین، وفد بنی جثعم، وفدبنی حوّان اور وفد بنی ثمالہ وغیرہ شامل ہیں۔ (تاریخ ابن خلدون حصہ اول صفحہ ۱۹۸)
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۷؍مئی۱۹۹۹ء تا۱۳؍مئی ۱۹۹۹ء)
No comments:
Post a Comment