{ارشادات عالیہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام}
ایک ادنیٰ سپاہی سرکار کی طرف سے کوئی پروا نہ لے کر آتا ہے تو اس کی بات نہ ماننے والا مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے۔
مجازی حُکّام کا یہ حال ہے تو احکم الحاکمین کی طرف سے آنے والے کی بے عزتی اور بے قدری کرنا کس قدر عدولِ حکمی اللہ تعالیٰ کی ہے۔
عیسائیوں کے ہاتھ میں بڑا حربہ یہی ہے کہ مسیح زندہ ہے اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) فوت ہو گئے۔
اگر تم نے جنگوں سے فتح پانی ہوتی اور تمہارے لیے لڑائیاں کرنا مقدر تھا تو خدا تعالیٰ تم کو ہتھیار دیتا۔ مگر خدا تعالیٰ کا فعل ظاہر کر رہا ہے کہ تم کو یہ طاقتیں نہیں دی گئیں۔
مارنے سے کسی کی تشفّی نہیں ہو سکتی۔ سر کاٹنے سے دلوں کے شبہات دور نہیں ہو سکتے۔ خدا تعالیٰ کا مذہب جبر کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام نے پہلے بھی کبھی پیش دستی نہیں کی۔
جب بہت ظلم صحابہؓ پر ہوا تو دشمنوں کو دفع کرنے کے واسطے جہاد کیا گیا تھا۔
’’چند مولوی اور طلباء آئے۔ حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں۔ قرآن اور رسول کو مانتے ہیں۔آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟
اس پر حضرت اقدس نے فرمایا : انسان جو کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتاہے وہ سب موجبِ معصیت ہو جاتا ہے۔ ایک ادنیٰ سپاہی سرکار کی طرف سے کوئی پروا نہ لے کر آتا ہے تو اس کی بات نہ ماننے والا مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے۔ مجازی حُکّام کا یہ حال ہے تو احکم الحاکمین کی طرف سے آنے والے کی بے عزتی اور بے قدری کرنا کس قدر عدولِ حکمی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ خدا تعالیٰ غیّور ہے۔اس نے مصلحت کے مطابق عین ضرورت کے وقت بگڑی ہوئی صدی کے سر پر ایک آدمی بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائے۔ اس کے تمام مصالح کو پائوں کے نیچے کچلنا ایک بڑا گناہ ہے۔ کیا یہودی لوگ نمازیں نہیں پڑھا کرتے تھے؟ بمبئی کے ایک یہودی نے ہم کو لکھاکہ ہمارا خد اوہی ہے جو مسلمانوں کا خدا ہے اور قرآن شریف میں جو صفات بیان ہیں وہی صفات ہم بھی مانتے ہیں۔ تیرہ سو برس سے اب تک ان یہودیوں کا وہی عقیدہ چلا آتا ہے مگر باوجود اس عقیدہ کے ان کو سؤر اور بندر کہا گیا۔صرف اس واسطے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانا۔
انسان کی عقل خد اتعالیٰ کی مصلحت سے نہیں مل سکتی۔ آدمی کیا چیز ہے جو مصلحتِ الٰہی سے بڑھ کر سمجھ رکھنے کا دعویٰ کرے۔ خدا تعالیٰ کی مصلحت اس وقت بدیہی اور اجلٰی ہے۔اسلام میں سے پہلے ایک شخص بھی مرتد ہو جاتا تھا تو ایک شور بپا ہو جاتا تھا۔ اب اسلام کو ایسا پائوں کے نیچے کچلا گیا ہے کہ ایک لاکھ مرتد موجود ہے۔ اسلام جیسے مقدّس مُطہّر مذہب پر اس قدر حملے کئے گئے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں کتابیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیوں سے بھری ہوئی شائع کی جاتی ہیں۔ بعض رسالے کئی کروڑ تک چھپتے ہیں۔ اسلام کے برخلاف جو کچھ شائع ہوتاہے اگر سب کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک بڑا پہاڑ بنتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ گویا ان میں جان ہی نہیں اور سب کے سب مر ہی گئے ہیں۔ اس وقت اگر خدا تعالیٰ بھی خاموش رہے تو پھر کیا حال ہوگا۔ خدا کا ایک حملہ انسان کے ہزار حملہ سے بڑھ کر ہے اور وہ ایسا ہے کہ اس سے دین کا بول بالا ہو جائے گا۔
حضرت عیسیٰ ؑکو زندہ ماننے کا نتیجہ
عیسائیوں نے انیس سو سال سے شور مچا رکھا ہے کہ عیسیٰ خدا ہے اور ان کا دین اب تک بڑھتا چلا گیا اور مسلمان ان کو اَور بھی مدد دے رہے ہیں۔ عیسائیوں کے ہاتھ میں بڑا حربہ یہی ہے کہ مسیح زندہ ہے اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) فوت ہو گئے۔لاہور میں لارڈ بشپ نے ایک بھاری مجمع میں یہی بات پیش کی۔ کوئی مسلمان اس کا جواب نہ دے سکا۔ مگر ہماری جماعت میں سے مفتی محمد صادق صاحب جو یہ موجود ہیں، اُٹھے اور انہوں نے قرآن شریف،حدیث،تاریخ، انجیل،وغیرہ سے ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں کیونکہ آپؐ سے فیض حاصل کر کے کرامت اور خوارق دکھانے والے ہمیشہ موجود رہے۔ تب اس کا جواب وہ کچھ نہ دے سکا۔ اب خیال کرو کہ عیسیٰ کو زندہ ماننے کا کیا نتیجہ ہے اور دوسرے انبیاء کی مانند وفات یافتہ ماننے کا کیا نتیجہ ہے۔ ذرا چار دن فوت شدہ مان کر اس کا نتیجہ بھی تو دیکھ لیں۔ مَیں نے ایک دفعہ لدھیانہ میں عیسائیوں کو اشتہار دیا تھا کہ تمہارا ہمارا بہت اختلاف نہیں۔ تھوڑی سی بات ہے۔ یہ کہ تم مان لوکہ عیسیٰ فوت ہو گئے اور آسمان پر نہیں گئے۔ تمہارا اس میں کیا حرج ہے؟ اس پر وہ بہت جھنجھلائے اور کہنے لگے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ عیسیٰ مر گیا اور آسمان پر نہیں گیا توآج دنیا میں ایک بھی عیسائی نہیں رہتا۔
دیکھو۔ خدا تعالیٰ علیم و حکیم ہے۔ اس نے ایسا پہلو اختیار کیا ہے جس سے دشمن تباہ ہو جائے۔ مسلمان اس معاملہ میں کیوں اَڑ تے ہیں۔ کیا عیسیٰ ؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھا؟ اگر میرے ساتھ خصومت ہے تو اس میں حد سے نہ بڑھو اور وہ کام نہ کرو جو دینِ اسلام کو نقصان پہنچائے۔ خد اتعالیٰ ناقص پہلو اختیار نہیں کرتا اور بجز اس پہلو کے تم کسرِ صلیب نہیں کر سکتے۔
اِس زمانہ کا جہاد
اگر تم نے جنگوں سے فتح پانی ہوتی اور تمہارے لیے لڑائیاں کرنا مقدر تھا تو خدا تعالیٰ تم کو ہتھیار دیتا۔ توپ و تفنگ کے کام میں تم کو سب سے بڑھ کر چالاکی اور ہوشیاری دی جاتی۔ مگر خدا تعالیٰ کا فعل ظاہر کر رہا ہے کہ تم کو یہ طاقتیں نہیں دی گئیں بلکہ سلطانِ روم کو بھی ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ جرمن یا انگلستان وغیرہ سے ممالک سے بنواتا ہے اور آلاتِ حرب عیسائیوں سے خرید کرتا ہے۔ چونکہ اس زمانہ کے واسطے یہ مقدّر نہ تھا کہ مسلمان جنگ کریں اس واسطے خدا تعالیٰ نے ایک اور راہ اختیار کی۔
ہاں صلاح الدین وغیرہ بادشاہوں کے وقت ان باتوں کی ضرورت تھی۔ تب خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی اور کفّار پر اُن کو فتح دی۔ مگر اب تو مذہب کے واسطے کوئی شخص جنگ نہیں کرتا۔اب تو لاکھ لاکھ پرچہ اسلام کے برخلاف نکلتا ہے۔ جیسا ہتھیار مخالف کا ہے ویسا ہی ہتھیار ہم کو بھی تیار کرنا چاہیے۔ یہی حکمِ خداوندی ہے۔اب اگر کوئی خونی مہدی آجائے اور لوگوں کے سر کاٹنے لگے تو یہ بے فائدہ ہوگا … مارنے سے کسی کی تشفّی نہیں ہو سکتی۔ سر کاٹنے سے دلوں کے شبہات دور نہیں ہو سکتے۔ خدا تعالیٰ کا مذہب جبر کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام نے پہلے بھی کبھی پیش دستی نہیں کی۔ جب بہت ظلم صحابہؓ پر ہوا تو دشمنوں کو دفع کرنے کے واسطے جہاد کیا گیا تھا۔ خدا تعالیٰ کی حکمت کے مطابق کسی کی دانائی نہیں۔ ہر ایک شخص کو چاہیے کہ اس معاملہ میں دعا کرے اور دیکھے کہ اس وقت اسلام کی تائید کی ضرورت ہے یا نہیں۔ جسم پر غالب آنا کوئی شئے نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ دلوں کو فتح کیا جائے۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 494-497۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
No comments:
Post a Comment