حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں
تالیف

حسن محمد عارف

شائع کردہ: مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان


دیباچہ

اللہ تعالیٰ جب اپنے مامورین اور مرسلین کو دنیا میں مبعوث کرتا ہے تو کثرت کے ساتھ امورِ غیبیہ ان پر ظاہر کرتا ہے اوراپنے دستِ قدرت سے آسمانی نشانات اور معجزات کے ذریعہ ان کی تائید و نصرت فرماتا ہے۔ اس آخری زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تواپنی اس قدیم سنت کے موافق کثرت کے ساتھ ارضی و سماوی معجزات و نشانات آپؑ کو عطا فرمائے۔ چنانچہ آپ ؑ نے خدائے قادر سے خبر پا کر بہت ساری پیشگوئیاں فرمائیں جو خداتعالیٰ کے فضل سے نہایت صفائی کے ساتھ پوری ہوگئیں۔

کتاب ھذامیں حضرت مسیح موعودعلیہ ا لسلام کی ان ہزارہا پیشگوئیوں میں سے نمونۃً چند پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں تاکہ خدام واطفال ان پیشگوئیوں کو پڑھ کر اپنے ایمان کو تازہ کریں اور خدا تعالیٰ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت پر ان کا نورِ یقین مضبوط سے مضبوط تر ہو۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین

والسلام
خاکسار

سید محمود احمد

صدرمجلس خدام الاحمدیہ پاکستان

پیش لفظ

مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خدام و اطفال کی تعلیم و تربیت کے لیے آسان اور عام فہم زبان میں کتابیں شائع کرنے کی توفیق پارہی ہے۔ یہ کتاب "حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں "اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔

یہ کتاب مکرم حسن محمد عارف صاحب کی تالیف ہے جو 1979ء میں سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے زمانۂ صدارت میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔ شعبہ اشاعت مجلس خدام احمدیہ پاکستان اسے ایک مرتبہ پھر بعض ناگزیر تبدیلیوں کے بعد شائع کرنے کی توفیق پا رہا ہے۔

کتاب ہذا کی دوسری اشاعت میں خاکسار کے ساتھ مکرم میر انجم پرویزصاحب ، مکرم طاہراحمدمختارصاحب،محمدصادق ناصر صاحب اورمکرم ملک علاء الدین صاحب (خلافت لائبریری) نے تعاون کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین

والسلام
خاکسار

اسفندیارمنیب

مہتمم اشاعت

مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں

ہم اس چھوٹی سی کتاب میں آپ کو بہت ہی ضروری مضمون بتائیں گے۔ اگر آپ نے غور سے اس کا مطالعہ کیا تو ہمیں امید ہے کہ اس کے سمجھ جانے سے اور کئی مضمون بھی آپ کی سمجھ میں آجائیں گے۔ ہمارا یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے بارہ میں ہے۔

آپ کو یہ تو پتہ ہی ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کون تھے؟ کب پیدا ہوئے اور کب فوت ہوئے؟ اس دنیا میں آپ کے تشریف لانے کا کیا مقصد تھااور آپ نے کون کون سے کارنامے سرانجام دئیے؟ لیکن اس کتاب میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند پیشگوئیوں کے بارہ میں بتائیں گے۔ تاکہ آپ کو یہ بھی علم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے تو انہیں ایسے ایسے راز بتاتا ہے جو دُنیا میں کسی اور کو معلوم نہیں ہوتے۔ وہ اس بندے کو بعد میں آنے والے زمانے کی خبریں بتاتا ہے جس کے پتہ کرنے کی انسان کو ہر گز طاقت نہیں دی گئی۔ تم خود ہی سوچ کر دیکھ لو کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ کوئی بیمار شفا پا جائے گا یا فوت ہو جائے گا؟ مقدمہ میں ہم جیت جائیں گے یا ہمارا مخالف جیت جائے گا؟ کیا اس سال سیلاب آئے گا یا نہیں؟ ہم تو صرف اندازہ ہی لگاتے ہیں کہ آج دھوپ نکلی ہے۔ اورگرمی کا موسم ہے تو کل بھی دھوپ نکلے گی۔ لیکن تم نے یہ بھی تو دیکھا ہوگا کہ یکایک بادل آئے اور بارش ہو گئی۔ ہم بیمار کی صحت یابی کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں۔ اُس کے لیے ڈاکٹر کو بلاتے ہیں۔ دوائی خرید کر لاتے ہیں۔ اُس کی خوراک میں احتیاط کرتے ہیں۔ جس سے ہمیں یہ امید ہو جاتی ہے کہ مریض اچھا ہو جائے گا۔ لیکن ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ ضرور اچھا ہو جائے گا۔ کئی بار ہم نے ایسا بھی دیکھا ہے اور تم نے بھی دیکھا ہوگا کہ معمولی سی بیماری تھی اچھے سے اچھا ڈاکٹر بلایا تھا۔ احتیاط بھی کی جارہی تھی۔ لیکن مریض اچانک فوت ہو گیا۔ کئی بار مقدموں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ہم مقدمہ ضرور جیت جائیں گے۔ ہمارے دلائل بڑے مضبوط ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود ہم مقدمہ ہار جاتے ہیں۔ بس یہ اندازے ہی ہوتے ہیں یقینی بات نہیں ہوتی۔ اسی سے تو انسان کی بے بسی کا پتہ چلتا ہے لیکن جب خدا اپنے بندے کو یہ بتادیتا ہے کہ یہ مریض اچھا ہو جائے گا۔ تو خواہ وہ شخص کتنا ہی بیمار کیوں نہ ہو ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ وہ مریض جسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اب یہ موت کے منہ میں ہے اور اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں اور یہ آج نہیں تو کل مرجائے گا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس بیماری سے شفا پاجاتا ہے اور یہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ خدا نے ایسا کہا اور خداکی بات کو دُنیا کی کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی۔ اسی طرح اگر خدا اپنے بندے کو یہ بتادے کہ اس مقدمہ میں فتح ہو گی تو خواہ مخالف کتنا ہی زور لگائیں۔ جج کیسا ہی دشمن کیوں نہ ہو اس مقدمہ میں ہرگز شکست نہیں ہو گی۔ اسے کہتے ہیں خدا کی خدائی۔ اور خدا جب کسی بندے کو کثرت سے غیب کی خبریں دیتا ہے،جو پوری ہوتی چلی جاتی ہیں تو پھر اسے نبی کہا جاتا ہے۔

بچو! نبی عربی کا لفظ ہے۔ اور اس کے متعلق اگر تم کسی عربی ڈکشنری میں معنی دیکھو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ خدا تعالیٰ جس کو کثرت سے غیب کی خبریں دیتا ہے وہ نبی ہی ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے کثرت کے ساتھ غیب کی خبریں دیں۔ آپ نے سینکڑوں پیشگوئیاں فرمائیں اور خدا کے حکم سے ہی یہ باتیں بیان کیں اور یہ سب کی سب اپنے وقت پر پوری ہوئیں اور سچی ثابت ہوئیں۔ اس چھوٹی سی کتاب میں ہم آپ کو چند ایسی پیشگوئیاں بتائیں گے جن سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے اس پیارے بندے کو آنے والے زمانہ کی خبریں دیں اور پھر آپ نے اسی وقت ان کا اعلان بھی کر دیا اور دُنیا کو بتا دیا کہ خدا نے مجھے یہ خبر دی ہے اور اب یہ بات ضرور پوری ہو کر رہے گی۔ اور وقت آنے پر وہ سب باتیں پوری بھی ہو گئیں۔ بے شمار پیشگوئیاں آپ نے اپنی کتابوں میں شائع کیں۔ بعض کے متعلق آپ نے اپنے دوستوں کو بتایا۔ بعض کے بارہ میں آپ نے مخالفین کو بھی بتادیا تاکہ اُنہیں بعد میں یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ یہ یونہی دھوکہ یا فریب تھا۔ یا پہلے تو بتایا نہیں اور جب واقعہ ہوگیا تو کہہ دیا کہ میں نے یہ پیشگوئی کی تھی۔ تو یہ تو پیشگوئی نہ ہوئی۔ اور نہ اسے پیشگوئی کہتے ہیں۔ اس طرح تو بعض نجومی وغیرہ بھی بتا دیتے ہیں۔ پھر بھی نجومی یہ بات کبھی نہیں کہتے اور نہ کہہ سکتے ہیں ،کہ خدا نے انہیں یہ بات بتائی ہے اور یہی فرق خدا کے نبی اور عام نجومی یا دوسرے لوگوں میں ہوتا ہے۔ کہ خدا کا نبی خدا سے خبر پاتا ہے اور پھر اس کے مطابق دنیا کو بتاتا ہے اور اعلان کرتا ہے اور اُسے پورا یقین ہوتا ہے اسی لیے اسے کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا اور وہ پیشگو ئی جو خدا نے اسے بتائی ہے وہ عین وقت پر بڑی شان اور شو کت سے پوری ہوتی ہے اور اس کی سچائی کو ثابت کرتی ہے جس سے خدا کی شان دنیا کو نظر آجاتی ہے۔

سچی پیشگوئی اور سچا الہام کیسا ہوتا ہے؟ اس کے متعلق یہ بات تم ہمیشہ یاد رکھو کہ اس قسم کے کلام میں ہمیشہ شان وشوکت اور برکت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک نور ہوتا ہے۔ ایک روشنی ہوتی ہے اور جسے یہ نور دیا جاتا ہے اُسے پھر ان باتوں کے بارہ میں یقین سے بھر دیا جاتا ہے۔ اور اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کا کلام یا بات جو خدااپنے بندے سے کرتا ہے اور اس میں کوئی پیشگوئی ہوتی ہے تو پھر اس قسم کی پیشگوئی کا اثر دور دور تک پڑتا ہے اور یہ ہر لحاظ سے بے نظیر ہوتی ہے اور پھر اس میں خدا تعالیٰ کا بڑا رعب نظر آتا ہے۔ خدا کی مدد اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ بعض اوقات پیشگوئی اس کے اپنے لیے ہوتی ہے اور کبھی اس کی بیوی اور بچوں کے لیے ہوتی ہے اور کبھی اس کے دوستوں کے لیے ہوتی ہے اور کبھی دشمنوں کے لیے اور بعض اوقات ساری دُنیا کے لیے ہوتی ہے۔ اور خدا کا وہ پیارا بندہ بڑی چھپی ہوئی اور مخفی باتوں کو دیکھ لیتا ہے۔ اور اکثر اوقات اسے تحریریں دکھائی جاتی ہیں اور کبھی دور دراز کی چیزیں پوری اس کے سامنے آجاتی ہیں گویا کہ وہ انہیں اپنے پاس ہی پڑی ہوئی دیکھ رہا ہے۔ اور پھر اس کے کانوں کو بھی ایسی طاقت دی جاتی ہے کہ وہ خدا کے فرشتوں کی آوازیں سنتا ہے اور تسلی،اطمینان اور سکون پاتا ہے اور اس کے دل کو ایسی قوت دی جاتی ہے کہ بے شمار باتیں اس کے دل میں پڑجاتی ہیں جو بالکل صحیح ہوتی ہیں۔

بچو! تم یوں سمجھ لو کہ اُس کی زبان پھر خدا کی زبان ہوتی ہے۔ اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور جو کچھ اُس کی زبان بولتی ہے وہ خدا کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اور پھر اس پر ایک نور ہی نور ہوتا ہے۔ جسے ایک نہ ماننے والا بھی محسوس کر سکتا ہے۔ اُس کا تو پہنا ہوا کپڑا بھی برکتوں سے بھر جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات تو اس شخص کو چھونا بھی برکت اوررحمت کا باعث ہو جاتا ہے اور جس جگہ وہ رہتا ہے خدا اس جگہ میں بھی رحمتیں اور برکتیں رکھ دیتا ہے۔ اس کے گاؤں اور شہرکو خاص برکت عطا کی جاتی ہے۔ اور دیکھوکہ یہ بات کیسی عجیب ہے کہ جن لوگوں سے وہ خوش ہوتا ہے خدا ان کو ترقی دیتا ہے ان کو مصیبتوں اور بلاؤں سے بچاتا ہے لیکن وہ جن سے ناراض ہوتا ہے ان کی تباہی اور بربادی میں کوئی شک نہیں رہتا۔ اس کی دعا معمولی دعا بھی نہیں ہوتی اور جس شخص کے لیے وہ دعا کرتا ہے اس کی مصیبتیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔

پیارے بچو! یہ باتیں تم نے پڑھ لیں تواب اس کے بعد ہم آپ کو یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اس زمانہ کی اصلاح کے لیے حضرت مرزا غلام احمد صاحب تشریف لائے وہ مسیح موعود بھی تھے اور خدا کے نبی بھی۔ خدا نے ان سے پیار کیا اور انہوں نے خدا سے محبت کی جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے انہیں بے شمار نشان عطا کیے جو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد تک پہنچتے ہیں اس چھوٹی سی کتاب میں ہم سارے نشان کیسے بیان کر سکتے ہیں اس کے لیے تو بہت بڑی کتاب کی ضرورت ہو گی۔ آپ نے تو اپنے ان نشانات اور پیشگوئیوں کو اپنی بڑی بڑی کتابوں میں تفصیل سے لکھا ہے لیکن ہم آپ کے لیے صرف چند پیشگوئیاں اس کتاب میں بیان کریں گے کہ وہ کن حالات میں کی گئیں اورکس طرح پوری ہوئیں؟ اب ہم آپ کو وہ چند پیشگوئیاں سناتے ہیں جن کے بارہ میں خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبل ازوقت بتایا اور کس طرح وہ بڑی شان و شوکت سے پوری ہوئیں۔
1

یہ بات تو آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ حضرت صاحب بڑے رئیسوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے آپ کے والد کئی گاؤں کے مالک تھے جن کے انتظام وغیرہ کی وجہ سے انہیں دنیا داری میں مصروف رہنا پڑتا تھا۔ اور یہ تو ساری دنیا کا قاعدہ ہے کہ اپنی جائیداد کی دیکھ بھال پر انتظام کے لیے بڑا وقت خرچ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن چونکہ خدا نے حضرت صاحب سے دنیا کی اصلاح کا کام لیناتھا اس لیے دنیا داری کے کاموں کی طرف توجہ نہ تھی۔ وہ تو سارا دن اور ساری رات خدا کی عبادت میں مشغول رہتے۔ حضرت صاحب کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب جائیداد کے انتظامات میں اپنے باپ کی مدد کرتے۔

یہ1876ء کا واقعہ ہے کہ آپ کے والد بیمار ہوئے لیکن پھر صحت بھی ہو گئی۔ معمولی بیماری باقی تھی کہ یکایک حضور کو الہام ہوا کہ "وَالْسَّمَآءِ وَالْطَّارِقِ" اور اس کے یہ معنی ہیں کہ قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی جو سورج غروب ہونے کے بعد ظاہر ہوگا اور پھرساتھ ہی یہ سمجھا دیا گیا کہ یہ تمہارے والد کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ گویا یہ خدا کی طرف سے عزا پُرسی تھی۔ یعنی ایک طرح کا اظہار ہمدردی تھا۔ اور آپ سمجھ گئے کہ مجھے یہ میرے والدکی وفات کی خبر دی گئی ہے جو غروبِ آفتاب کے بعد ہو گی اور پھر حضرت صاحب نے اپنی کتابوں میں قسم کھا کر یہ اعلان کیا ہے کہ ایسا ہی واقعہ ہوا جیسا کہ خدا نے آپ کو اپنے الہام کے ذریعہ بتایا تھا اور سورج ڈوبنے کے بعد آپ کے والد وفات پا گئے۔

بچو! یہ بات یاد رکھنا کہ آپ کے والد کا نام مرزا غلام مرتضیٰ تھا اور آپ نے ماہِ جون 1876ء میں وفات پائی۔ تو دیکھا بچو! حضرت صاحب کوا للہ تعالیٰ نے قبل از وقت خبر دی جو عین وقت پر پوری بھی ہوئی۔
2

اب اسی سلسلہ میں اگلی پیشگوئی بھی سن لو:۔

آپ نے اپنے ابا جان یا امی یا کسی اور احمدی کے ہاتھ میں ایک ایسی انگوٹھی دیکھی ہو گی جس پر عربی میں کچھ الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی ایک آیت ہے۔ "اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ"۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک الہام بھی ہے جو حضرت صاحب کو اُن کے والد کی وفات کے دن ہوا۔ اور یہ الہام آپ کی زندگی میں دس بیس بار نہیں بلکہ سینکڑوں بار پورا ہوا۔ ابھی اوپرآپ نے پڑھا کہ حضرت صاحب تو سارادن اور ساری رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے۔ دنیا داری کے کاموں سے تعلق نہ تھا۔ والد کی وفات کوئی معمولی بات نہ تھی کیونکہ آمدنی کے قریباً سارے ہی ذرائع کا تعلق اُن کی زندگی سے تھا۔ سرکار انہیں پنشن دیتی تھی اور انعام کی ایک بہت بڑی رقم ملا کرتی جو ان کی وفات کے بعد بند ہوجانی تھی۔ اب ساری زندگی کی مشکلات اور مسائل سامنے تھے۔ آمد کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آرہا تھا۔ جائیداد کا انتظام بڑے بھائی کے ہاتھوں میں تھا اور یوں نظر آرہا تھا گویا کہ محتاجی کی زندگی ہو گی فکروں کے دن اور تشویش کی راتیں ہوں گی۔ یہ پہاڑ سی زندگی کیسے کٹے گی۔ اب تو اللہ ہی ہے جو کوئی ڈھب کی صورت بنا دے۔ بس انہی فکروں میں تھے کہ ایک دوسرا الہام ہوا"اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ"۔

یہ عربی کا فقرہ ہے اور قرآن مجید کی ایک آیت بھی ہے اور اس کے معنی ہیں "کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں "اورحضرت صاحب لکھتے ہیں کہ اس الہام کے ساتھ ہی میرا دل ایسا مضبوط ہوگیا جیسے کسی بڑے ہی دردناک زخم پر نہایت ہی آرام دینے والی مرہم لگا دی جائے اور وہ اچھا ہوجائے اور پھر میں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے تباہ اور برباد نہیں کرے گا۔ اسی وقت حضور نے گاؤں کے ایک ہندو کو بلایا اور اسے یہ سارا واقعہ سنایا۔ اور الہام لکھ کر دیا کہ وہ امرتسر جائے اور کسی نگینہ پر کھدوا کر ایک انگوٹھی بنوا لائے۔ اس ہندو کا نام ملاوامل تھا۔ بچو! میں نے اس شخص کو اپنی آنکھوں سے 1945ء میں دیکھا ہے۔ لیکن اس وقت یہ بہت ضعیف ہو چکا تھا۔ اور حضرت صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کام اس لیے اس ہندو کے ذریعہ کروایا تاکہ یہ اس شاندار پیشگوئی کا گواہ بھی ہوجائے۔ اس وقت یہ انگوٹھی پانچ روپے میں تیار ہوئی تھی۔ اور یہ اس وقت تیار ہوئی جبکہ آپ کو کوئی بھی نہ جانتا تھا۔ قادیان ایک ویران سا گاؤں تھا۔ اور وہ وقت بھی آیا کہ جب دنیا کے لوگ جوش اور شوق سے بھاگے چلے آتے تھے اور خدا تعالیٰ نے اتنا مال دیا کہ حضور لکھتے ہیں کہ میرے پاس خدا کے شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ بھی نہیں ہیں اور اتنی بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے لیکن خدا نے ایسی مدد کی کہ لاکھوں روپیہ حضور کی خدمت میں آیا اور تم اس روپیہ کا اندازہ اس بات سے کر لو کہ آج سے اسّی برس پہلے صرف لنگر خانہ کا خرچ ڈیڑھ ہزار روپے ماہوار ہوا کرتا تھا اور پھر سکول بھی تھا اس پر بھی خرچ ہوتا تھا۔ اور کتابوں کی چھپائی تھی اور انہیں سارے ہندوستان اور باہر بھجوانا ہوتا تھا۔ یہ سب کچھ آخر پیسوں سے ہی ہوتا تھا۔ اور یہ سامان خدا کی اس عظیم الشان پیشگوئی کی وجہ سے مہیا ہوا۔ ساری زندگی آپ کو روپے پیسے کی وجہ سے کبھی پریشانی اور تشویش نہیں ہوئی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ خدا جب کوئی وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے حالات چاہے کیسے بھی ہو جائیں خدا کی باتیں پوری ہوکر رہتی ہیں۔ اور دوسرے عام انسانوں کے لیے یہ عجیب بات ہوتی ہے۔ یہ بات بھی تمہارے علم کے لیے بتا دوں کہ اس وقت یہ انگوٹھی ہمارے امام سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے پاس ہے اور آپ کبھی حضور سے ملیں گے تو دیکھیں گے کہ یہ انگوٹھی حضور کے دائیں ہاتھ میں ہوگی اور نگینہ کے اوپر کپڑا سیا ہوا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوگی کہ نگینہ گھسنے سے محفوظ رہے۔
3

بچو! اب تم ایک اور عظیم الشان نشان کی تفصیل سنو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں (دین حق)کی محبت کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ حضور کی خواہش تھی کہ یہ سچا مذہب اور خدا کا دین جلدسے جلد دنیا میں پھیل جائے اور اس مقصد کے حاصل کرنے کے لیے آپ نے ایک نہایت شاندار کتاب لکھی جس کانام "براہین احمدیہ"تھا۔ آپ نے اپنی اس کتاب میں اسلام کی سچائی کے لیے سینکڑوں ثبوت اور دلائل پیش کیے اور پھر یہ بھی کیا کہ دنیا کے تمام مذاہب کو چیلنج دیا کہ جو کوئی اس کتاب کا جواب لکھے گا اسے دس ہزار روپے انعام دئیے جائیں گے۔ اس زمانہ کے دس ہزار روپے آج کے دس لاکھ روپے سے بھی زیادہ تھے لیکن نہ کسی عیسائی کو ہمت ہوئی اور نہ کسی اور مذہب والے کو کہ وہ اس کا جواب لکھتا۔ اس کتاب سے آپ کا نام سارے ہندوستان میں مشہور ہوگیا۔

صوابی ضلع پشاور میں ایک ہندو آریہ پولیس کے محکمہ میں ملازم تھا اس کانام پنڈت لیکھرام تھا۔ یہ شخص اسلام کا سخت دشمن تھا اور بڑا بدزبان تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے کربہت خوش ہوتا۔ اسلام کا مذاق اڑاتا۔ مسلمانوں کے خدا کو مکّار کہا کرتا۔

یہ شخص 1885ء میں قادیان آیا۔ لیکن اسے حضرت صاحب سے ملنے کی جرأت نہ ہوئی بس فضول خط وکتابت کے ذریعہ ہی باتیں بناتا رہا۔ حضرت صاحب کی بڑی خواہش ہوا کرتی تھی کہ لوگ آپ کے پاس آئیں اور اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھیں کہ کس طرح وہ آپ سے پیار کرتا ہے اور اسلام کی سچائی کے لیے کیسے کیسے نشانات دکھاتا ہے اور لیکھرام بھی اگر حضور کے پاس ٹھہرتا تو نشان دیکھتا مگر اس کا مقصد تو محض مذاق اور ٹھٹھا تھا۔ اس لیے وہ چند روز ٹھہر کر واپس چلا گیا اور جاتے ہوئے حضور کو ایک خط لکھا جس کے آخر پر لکھا:"اچھا آسمانی نشان تو دکھا دیں۔ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیرالماکرین سے میری نسبت کوئی نشان تو مانگیں "۔ اب اس فقرہ کو ذرا دوبارہ پڑھیں اور غور سے پڑھیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ شخص کس قدر شوخ شریر اور اسلام کا کس قدر دشمن تھا۔ حضرت صاحب نے بھی اس خط کا جواب دیاکہ:

"جناب پنڈت صاحب! آپ کا خط میں نے پڑھا۔ آپ یقینا سمجھیں کہ ہمیں نہ بحث سے انکار اور نہ نشان دکھانے سے۔ مگر آپ سیدھی نیّت سے طلب حق نہیں کرتے۔ بے جا شرائط زیادہ کر دیتے ہیں۔ آپ کی زبان بد زبانی سے رکتی نہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں۔ یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلمے ہیں "۔

پھر اس خط کے آخر پر حضرت صاحب نے لکھا کہ :

"نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلادے"۔

اور اس کے بعد20 فروری 1886ء تک آسمانی نشان دکھلانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ لیکن لیکھرام یہ لکھ کر قادیان سے چلا گیا کہ میں آپ کی پیشگوئیوں کو واہیات سمجھتا ہوں اور میرے حق میں جو چاہو شائع کرو۔ میری طرف سے اجازت ہے میں ان باتوں سے ڈرنے والا نہیں۔

اس پر بھی حضور خاموش رہے۔ اور اس کے خلاف کچھ نہ لکھا۔ لیکن جب اس کی شوخی اور شرارت حد سے زیادہ ہو گئی،تو ۰۲ فروری ۳۹۸۱ء کو حضور نے اس کے متعلق ایک اشتہار شائع کیا اور اس میں اس شریر کے متعلق پیشگوئی درج فرمائی۔ اس سے پہلے آپ نے ایک نہایت شاندار کتاب لکھی جس کا نام "آئینہ کمالات اسلام" رکھا۔ اس میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فارسی میں ایک نظم لکھی۔ اس کے آخر میں تین چار شعر اس بدزبان شخص کے بارہ میں لکھے جو اس کی تباہی اور بربادی کی طرف اشارہ کر رہے تھے کس قدر ہیبت ناک یہ شعر ہیں۔ آپ بھی پڑھیں۔ یہ فارسی زبان میں ہیں اور ان کے نیچے ہم ان کا ترجمہ دے رہے ہیں :

الا اے دشمنِ نادان و بے راہ

بترس از تیغِ برّانِ محمدؐ

رہ مولیٰ کہ گم کردند مردم

بجو در آل و اعوانِ محمدؐ

الا اے منکر از شانِ محمدؐ

ہم از نورِ نمایانِ محمدؐ

کرامت گرچہ بے نام و نشان است

بیا بِنگر زِ غلمانِ محمدؐ

ترجمہ! خبردار اے احمق اور گمراہ دشمن! توڈر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی تیز تلوار سے

۲۔ مولیٰ کی راہوں سے مخلوق خدابھٹک چکی ہے اوراب تو اگر چاہے کہ تجھے سیدھا راستہ نصیب ہو تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی آل اولاد اور اس کے مددگاروں کے پاس پہنچ۔

۳۔ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی شان سے انکاری۔ خبردار ہوجا۔ تو اگر نورِ محمدؐ دیکھنا چاہے تو آ ہم تجھے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا نور دکھاتے ہیں۔

۴۔ معجزات کا یوں تو آج نام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ مگر توا گر کوئی معجزہ دیکھنا چاہتا ہے تو محمدؐ کے غلاموں اور خدمتگاروں کے پاس آکر دیکھ لے۔

جس اشتہار کا ذکر آپ نے اوپر پڑھا ہے اس میں حضرت صاحب نے لکھا کہ اس شخص کے بارہ میں مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ بے جان بچھڑا ہے اس کے اندر سے مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کی گستاخیوں اور بد زبانیوں کی وجہ سے اسے سزا ملے گی۔ اور اسے عذاب دیا جائے گا۔ اگر چھ برس کے اندر اندر اس پر کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو عام تکلیفوں جیسا ہی ہوا اور اس نشان کے اندر خدائی رعب اور ہیبت نہ ہوئی تو سمجھو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں اور مَیں اس کے نتیجہ میں ہر قسم کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں گا چاہے مجھے سولی پر ہی کیوں نہ چڑھا دیا جائے۔ اس شریر کی بدزبانیاں اور بے ادبیاں ایسی ہیں کہ جنہیں پڑھ کر ہر(مومن) کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ خاص اسی مطلب کے لیے دُعا کی گئی تو خدا نے مجھے اس کا یہ جواب دیا ہے۔

اس کے ڈیڑھ ماہ بعد2 اپریل 1893ء کو آپ نے ایک اور اشتہار دیا جس میں آپ نے لکھا کہ آپ نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک بڑا طاقتور اور خوفناک شکل والا شخص ہے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویاوہ انسان نہیں بلکہ بڑا سخت فرشتہ ہے۔ اُس نے پوچھا لیکھرام کہاں ہے تو پھر اس وقت حضور نے یہ سمجھا کہ یہ وہ شخص ہے جسے لیکھرام کی سزا کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔

اس اشتہار کی پیشگوئی سے معلوم ہوا کہ لیکھرام قتل کیا جائے گا۔ اس کے بعد حضور نے ایک اور پیشگوئی فرمائی کہ جس دن لیکھرام کی موت ہوگی وہ عید کے ساتھ والادن ہوگا۔

اب دیکھو بچو! تین پیشگوئیاں ہوگئیں۔ اوّل یہ کہ یہ شخص چھری سے قتل ہوگا۔ دوسری یہ کہ وہ دن عید کے ساتھ والادن ہوگا۔ اور تیسری یہ کہ چھ سال کے اندر مارا جائے گا۔ اس سلسلہ میں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ حضور کے ایک الہام کے الفاظ ہیں :۔ "یُقْضٰی اَمْرُ ہٗ فِیْ سِتٍّ"۔ یعنی چھ میں اس کا کام تمام کیا جائے گا۔

اب دیکھو! اس الہام میں چھ کا ہندسہ اس واقعہ سے کیسا عجیب تعلق رکھتا ہے۔ سو بالکل اسی طرح ہوا یعنی یہ شخص چھ سال کے اندراندر مارا گیا۔ اس کے قتل کادن چھ مارچ ۷۹۸۱ء تھا یہ چھٹے گھنٹے میں قتل ہوا۔ یہ دن مسلمانوں کی عید کا اگلا دن تھا۔ اور آریوں کے لیے بھی یہ دن عید کاہی دن تھا کیونکہ اس دن ایک مسلمان نے ہندو مذہب قبول کرنا تھا۔ اب تم اصل واقعہ سنو کہ یہ کیسے ہوا؟

لیکھرام کے پاس ایک شخص آیا۔ اور کہا جناب میں مسلمان ہوں لیکن میرے باپ دادے ہندو تھے اور میں اب پھر سے ہندو بننا چاہتا ہوں یہ سن کر لیکھرام کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اسے بڑے بڑے ہندؤوں کے پاس لے گیا اور انہیں بتایا کہ یہ ہمارا پہلا شکار ہے چنانچہ سات مارچ ۷۹۸۱ء کا دن مقرر ہوا کہ جب اِسے ہندو بنایا جانا تھا۔ اس لیے بڑی دھوم دھام سے اس کا انتظام کیا جارہا تھا۔ اور ہندؤوں کے لیے تو گویا یہ عید کا دن تھا۔

۶ مارچ کو ہفتہ کا دن تھا کہ لیکھرام جی نے قمیض اتاری ہوئی تھی اور اپنے کمرہ میں بیٹھے تھے۔ پاس ہی وہ شخص کمبل اوڑھے بیٹھا تھا۔ کہ لیکھرام نے انگڑائی لی۔ اور اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر اس شخص نے پورا خنجر لیکھرام کے پیٹ میں اتار دیا اور یہاں تک کہ اس کی انتڑیاں باہر آگئیں اور منہ سے ایسی آواز نکلی جیسے کہ بیل نکالتا ہے جسے سن کر اس کی بیوی اور ماں بھاگی ہوئی کمرہ میں آگئیں۔ اب وہاں کیا رکھاتھا۔ وہ شخص بھاگ چکا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ دروازہ تک دوڑی گئیں۔ سنا جاتا ہے کہ وہ یہ کہتی تھیں کہ انہوں نے قاتل کو سیڑھیوں پر سے اترتے دیکھا ہے۔ لیکن آگے پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں غائب ہوگیا۔ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ کیونکہ وہ گلی ایک طرف سے بالکل بند تھی اور اس طرف سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا اور دوسری طرف جو کھلی تھی اس طرف کسی کی شادی تھی۔ اور وہاں خوب کھانے وغیرہ پک رہے تھے اور لوگ بیٹھے تھے اور وہاں سے بھاگتے ہوئے کسی نے دیکھا نہیں تو اب بتاؤ وہ شخص گیا تو کہاں گیا؟ ہندؤوں کا محلہ۔ بھاگنے کو راستہ نہیں۔ کسی ہندو کے مکان میں چھپنے کی جگہ نہیں تو پھر آخر وہ مسلمان جا کہاں سکتا تھا۔ ہندؤوں نے بڑا شور مچایا اور لاہور میں مسلمان اداروں کی تلاشیاں ہوئیں۔ یہاں تک کہ قادیان میں حضرت صاحب کے مکان تک کی تلاشی ہوئی۔ انگریز سپرنٹنڈنٹ پولیس نے خود تلاشی لی۔ حضرت صاحب نے اسے سب کاغذات دکھائے۔ معاہدہ کا وہ کاغذ بھی دکھایا کہ جس میں دونوں فریقوں نے رضا مندی سے سچی پیشگوئی کو سچائی کا معیار ٹھہرایا تھا۔ وہاں سے جانے کے بعد کپتان پولیس نے گورنمنٹ کو رپورٹ بھجوائی کہ ان الزامات میں کوئی حقیقت اور سچائی نہیں اور کوئی سازش نہیں ہوئی اور ساراپراپیگنڈا بالکل غلط ہے

ادھر لیکھرام کی سُنو۔ اُسے فورًامیوہسپتال پہنچایا گیا۔ شام کا وقت ہو چکا تھا ایک انگریز ڈاکٹر نے اس کا آپریشن کرکے ٹانکے لگائے۔ چو نکہ اس کی حالت بہت نازک ہوچکی تھی اس لیے ڈاکٹرنے پولیس کو بیان لینے سے بھی روک دیا۔ صبح ہوتے ہی پنڈت لیکھرام جی اگلے جہان کوروانہ ہو گئے۔

دیکھو اس دن جبکہ ہندؤوں کے لیے عیدکا دن تھا۔ ایک مسلمان نے ہندو بنناتھا وہی ان کے لیے ماتم کا دن بن گیا۔ اسی دن لیکھرام کی لاش ڈاکٹروں نے چیری بھی اور پھاڑی بھی۔ اسی دن پھر اس کا جنازہ اُٹھایا گیا اور اسی دن اُسے جلایا بھی گیا اور بے شمارہندو مرگھٹ تک سا تھ گئے۔ جہاں لیکھرام کا فوٹو لیا گیااوراس کے بعد اُسے لکٹریوں کی ایک بہت بڑی چتا پر رکھ کر جلا دیا گیا اور پھر اس کی راکھ دریائے راوی میں بہادی گئی اور خدا کا الہام یُوں پُورا ہؤا اور بڑی شان وشوکت کے ساتھ پُورا ہوا۔
4

اس کے بعد ہم آپ کو ایک اَور عظیم الشان پیشگوئی کاحال سُناتے ہیں۔ یہ بات تو ہم آپ کو پہلے بتاچکے ہیں کہ آنے والے زمانہ میں کسی بات کا یقینی طور پربتانا کسی بھی انسان کے لیے ہرگز ممکن نہیں ،کون جانتا ہے کہ کل کیا ہونا ہے اور 5سال بعد کیا ہونا ہے دس(10)برس یا بیس(20)برس کے بعد کیا ہوگا۔ لیکن اللہ اپنے پیارے بندوں کوایسی باتیں بتا دیا کرتا ہے اور اسی کو پیشگوئی کہتے ہیں۔

آپ نے پیچھے لیکھرام والی پیشگو ئی پڑھ لی جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چھ سال کے اندر اندر پوری ہوگی۔ یہ قہر کا نشان تھا۔ یہ ہندؤوں کے لیے بڑی بدقسمتی والی پیشگوئی تھی۔ یہ ایک شریراور شیطان کو سزادینے والی پیشگوئی تھی۔ اب تم رحمت کی پیشگوئی سنو۔ برکت کا نشان دیکھو۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ یہ نشان بھی ہندؤوں نے ہی مانگاتھا جو انہیں دکھایا گیا جسے نہ صرف اُنھوں نے دیکھا بلکہ ساری دُنیا نے دیکھا۔

حضرت مسیح مو عود علیہ الصّلوٰۃ والسَّلام کچھ عرصہ علیحدہ طور پر اور بالکل تنہائی میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتے تھے۔ اسے بچو چلّہ کشی بھی کہتے ہیں۔ اگر آپ پرانے بزرگوں کی زندگیوں کے حالات پڑھیں تو کئی اولیاء اللہ نے اس قسم کی عبادتیں کی ہیں اسی طرح حضرت صاحب بھی چاہتے تھے اور اس کے لیے آپ کا خیال تھا کہ سو جان پور جو قادیان سے کافی فاصلے پر تحصیل پٹھانکوٹ میں برلبِ نہر ایک پرانا اور غالباً تاریخی قصبہ ہے وہاں جائیں اوروہاں جاکر یہ چلّہ کشی کریں حضرت صاحب کو تو چونکہ اسلام سے عشق تھا اس لیے اس دین کی سر بلندی کے لیے آپ نے ساری دنیا کو چیلنج کیا ہوا تھا کہ جو اس دین کی سچائی اور صداقت کے لیے کوئی نشان دیکھنا چاہتا ہے وہ آپ کے پاس قادیان آئے اور آپ کے پاس کچھ عرصہ ٹھہرے تو آپ اسے اس قسم کا نشان دکھانے کے لیے تیار ہیں۔ اس اعلان کو قادیان کے ہندوؤں نے بھی سن رکھا تھا لیکھرام جس کا ذکر تم اوپر پڑھ آئے ہو وہ بھی قادیان آچکا تھا اور کافی شور اور شرارتیں کر گیا تھا۔ بس انہی سب باتوں کو دیکھ کر ان لوگوں کو خیال پیداہوا اور یہ لوگ ایک وفد بنا کر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضور نے ساری دنیا کو تویہ چیلنج دے رکھا ہے کہ میرے پاس آکر اسلام کی صداقت کے لیے نشان دیکھو لیکن ہم لوگ تو آپ کے ہمسائے ہیں آپ کے گاؤں میں رہتے ہیں آپ کے پاس ہی ہیں ہم خود یہ نشان دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں تو کہیں باہر سے آنا بھی نہیں پڑے گا تو آپ ہمیں نشان کیوں نہیں دکھاتے۔ اس پر حضرت صاحب نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی، خدا سے اس کا جواب مانگا تو آپ کو بتایا گیا کہ تیری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی یعنی تیری مشکل کا حل ہوشیار پور میں بتایا جائے گا۔ اس پر آپ نے ہوشیار پور جانے کا ارادہ کر لیا۔

آپ نے اپنے دو نہایت مخلص دوستوں کو لکھا کہ وہ آپ کے ساتھ جانے کے لیے قادیان آجائیں۔ ان میں ایک تو حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری تھے۔ جنھیں شروع سے ہی حضرت صاحب سے بڑی محبت اور عقیدت تھی اور ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وقت حضور کے پاس گذاریں۔ انہیں جب یہ پیغام ملا تو یہ بہت خوش ہوئے اور قادیان آگئے۔ دوسرے دوست شیخ حامد علی صاحب تھے جو قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں فیض اللہ چک کے رہنے والے تھے یہ بھی آگئے۔ ایک اور شخص بھی حضور کے ساتھ گیا جس کا نام فتح خان تھا۔

حضرت صاحب کے ایک دوست ہوشیار پور میں رہتے تھے۔ ان کانام شیخ مہر علی تھا۔ یہ ہوشیار پور کے ایک معزز رئیس تھے۔ انہیں بھی حضرت صاحب سے بڑی محبت اور عقیدت تھی۔ حضور جب بھی ہوشیار پور تشریف لے جاتے تو انہی کے پاس ٹھہرتے۔ اس لیے حضرت صاحب نے انہیں لکھا کہ میں چند دن کے لیے ہوشیار پور آنا چاہتا ہوں آپ میرے لیے شہر سے باہر کہیں ایسی جگہ مکان کا انتظام کردیں جہاں لوگوں کا زیادہ آنا جانا نہ ہو۔ کیونکہ یہ دن میں بالکل تنہائی میں خدا تعالیٰ کی عبادت میں گذارنا چاہتا ہوں۔ شیخ مہر علی صاحب نے فوراً اس کا انتظام کر دیا۔ ان کا اپنا ہی ایک مکان شہر کے باہر ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک حویلی سی تھی جو بے آباد تھی اور دومنزلہ تھی۔ (یہ مکان اب جماعت احمدیہ کی تحویل میں ہے) جب یہ انتظام ہوگیا تو حضور 20 جنوری1886ء کو قادیان سے ہوشیار پور کے لیے روانہ ہوگئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب قادیان میں ابھی ریل گاڑی نہیں آئی تھی لوگ عام طور پر یکّوں اور بہلیوں میں سفر کرتے تھے۔ بچّو! جانتے ہو بہلی کیا ہوتی ہے۔ یہ ایک گڈّا ہوتا ہے جسے بیل کھینچتے ہیں لیکن اس میں مال اسباب رکھنے کی بجائے ایک بڑی سی پیڑھی رکھ دی جاتی ہے اور اس کے گرد چاروں طرف ڈنڈے لگا کر پردے لگا دئیے جاتے ہیں اور اس پیڑھی پر بیٹھ کر لوگ سفر کرتے ہیں اور حضرت صاحب بھی قادیان سے بہلی میں ہی روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک دریا بھی آتا ہے اس دریا کانام دریائے بیاس ہے۔

جب ان چار آدمیوں کا قافلہ دریائے بیاس پر پہنچا تو دریا پار کرنے کے لیے کشتی پرسفر کرنا تھا۔ لیکن کشتی دریا کے اندر کچھ دور تھی۔ کنارے پر نہیں تھی۔ وہ ملّاح جو کشتی چلاتا تھااس نے حضرت صاحب کو کندھے پر اٹھا کر کشتی میں بٹھایا۔ خیر حضرت صاحب نے رات ایک گاؤں میں گذاری اور اگلے دن ہوشیار پور پہنچ گئے۔ رات حویلی میں بالاخانہ پر گذاری۔ بچّو! بالا خانہ مکان کی دوسری منزل کو کہتے ہیں۔ اور آپ نے کام تقسیم کر دئیے۔ حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری کے سپرد تو کھانے پکانے کاکام ہوگیا۔ حضرت شیخ حامد علی صاحب کے سپرد سودا وغیرہ لانے کاکام ہوا اور دوسرے چھوٹے موٹے کام فتح خان کے سپرد ہوئے۔

اس کے بعد پھر حضرت صاحب نے اشتہار کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کر دیا کہ میں چالیس دن اکیلے عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے لوگ مجھے ملنے نہ آئیں اور نہ ہی کوئی دعوت وغیرہ کریں۔ ان چالیس دنوں کے بعد میں بیس دن اور ٹھہروں گا۔ ان دنوں جس کا جی چاہے آکر سوال جواب کرے اور دعوت کرنے والے دعوت بھی کر لیں اور حضور نے یہ حکم دیا کہ مکان کے اندر کی کنڈی ہمیشہ لگی رہے اور حضور کو کوئی نہ بلائے اور اگر حضور کوئی بات پوچھیں تو صرف اُس بات کا اتنا ہی جواب دیا جائے جتنا ضروری ہو۔ اوپر بھی کوئی نہ آئے میرا کھانا اوپر پہنچا دیا جائے اور میرے کھانے کا انتظار نہ کیا جائے۔ میں جب چاہوں گا کھا لوں گا۔ اور خالی برتن پھرکسی وقت آکر لے جایا کریں یہاں تک کہ جمعہ پڑھانے کے لیے شہر سے باہر ایک باغ میں ویران سی مسجد تلاش کر لی جہاں یہ چاروں چلے جاتے اور حضرت صاحب خود خطبہ پڑھتے اور نماز پڑھادیتے۔

حضرت منشی محمدعبداللہ صاحب سنوری نے لکھا ہے کہ حضور نے مجھے ایک مرتبہ فرمایاکہ:۔ "میاں عبداللہ! اِن دنوں مجھ پر خدا تعالیٰ کے فضل کے بڑے بڑے دروازے کھلے ہیں بعض اوقات دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے اگر ان کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہو جاویں "۔ اس چلہ سے متعلق اور بھی بعض واقعات ہیں جو ہم چھوڑتے ہوئے آگے چلتے ہیں کیونکہ اس طرح بات لمبی ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو ایک عظیم الشان خبر دی اور یہ وہ پیشگوئی ہے جسے اب ہم تمہیں بتانا چاہتے ہیں۔ حضور نے اپنے قلم سے 20 فروری1886ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جو امرتسر کے ایک اخبار"ریاض ہند" میں یکم مارچ 1886ء کے پرچہ میں شائع ہوا آپ اسے پڑھیں اور بار بار پڑھیں۔ اس کے الفاظ، اس کے فقرے کس قدر شان وشوکت والے ہیں اس میں دین اسلام کی ترقی کی پیشگوئی ہے۔ اپنے ایک عظیم الشان بیٹے کی پیدائش کی پیشگوئی ہے۔ پھر ان رشتہ داروں کی تباہی کی پیشگوئی ہے جو ہر وقت حضرت صاحب کو تنگ کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کو ذلیل اور رسوا کرنے کی کوشش کیا کرتے اور پھر آپ یہ دیکھیں کہ یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی۔ وہ بیٹا پیدا ہوا اور جوان ہوا اور پیشگوئی کے سب الفاظ اس بیٹے پر پورے ہوئے۔ آپ کے وہ سب رشتہ دار جو ہمیشہ آپ کی تباہی کے سامان سوچا کرتے تھے اور آپ کو برباد کرنے کے درپے تھے سب کے سب ہلاک اور برباد ہو گئے۔ اب آپ یہ پیشگوئی خود پڑھیں۔

"پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ واعلامہ عزّوجل خدائے رحیم وکریم بزرگ وبرتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے (جلّ شانہ وعزّ اسمہ‘) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سنااور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لیے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اورظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین۔۔۔ کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سوکرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیؐ کوانکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اورپاک لڑکاتجھے دیا جائے گاایک زکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیت و نسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کانام عنموائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے۔ اور وہ رجس سے پاک ہے وہ نور اللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیوں کہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے اپنے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین وفہیم ہو گااور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری وباطنی سے پر کیا جائے گااور وہ تین کو چار کرنے والاہوگا۔ (اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے)دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ۔ مَظْھَرُالْحَقِّ وَالْعَلَائِ کَأَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الہی کے ظہور کاموجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہوگا۔ اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گااور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًامَّقْضِیًّا۔ پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتینِ مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گاتیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا۔ مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر ایک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گایہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے۔ ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خداتیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گااور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا۔ تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا۔ اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلا لوں گا پر تیرا نام صفحۂ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گااور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گااور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس واموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تابروزِ قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنااجر پائیں گے"۔ (اشتہار20 فروری 1886ء ضمیمہ اخبار "ریاض ہند"امرتسر مطبوعہ یکم مارچ 1886ء صفحہ 147۔ 148)

ابھی یہ پیشگوئی آگے بھی چلتی ہے جس میں آئندہ کی اور خبریں بھی دی گئی ہیں۔ لیکن ہم نے چونکہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ایک عظیم الشان بیٹے کے متعلق ہی بتانا ہے اس لیے اسے یہاں پر ختم کر دیا گیا ہے۔

پھر اس کے بعد حضور نے 22 مارچ 1886ء کو ایک اوراشتہار کے ذریعہ یہ بھی بتلا دیا کہ:"اس عاجز کے اشتہار مورخہ 20 فروری 1886ء۔۔۔ میں ایک پیشگوئی دربارہ تولد ایک فرزند صالح جو بصفات مندرجہ اشتہار پیدا ہوگا ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی نو برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا۔ "

اب بچّو! دیکھو اگراس پیشگوئی کے سارے ہی پہلو گننے شروع کریں توپھر ہماری یہ تفصیل بہت لمبی ہو جائے گی لیکن ہم آپ کو چند خصوصیات بتاتے ہیں اور اس کے بعد یہ بھی سمجھائیں گے کہ یہ سب کیسے پوری ہوئیں۔

اول: یہ کہ ایک لڑکا دیا جائے گا۔

دوم: یہ کہ وہ نو برس کے اندر اندر پیدا ہوگا۔

سوم: یہ کہ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔

چہارم: یہ کہ خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگااور وہ جلد جلد بڑھے گا۔

پنجم: یہ کہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔

ششم: یہ کہ سخت ذہین و فہیم ہوگا۔

اب اگر اوپر والی عبارت آپ نے غورسے پڑھی ہے تو اس کے ہر فقرہ میں ایک پیشگوئی ہے اور ہم یہاں ایک ایک پیشگوئی کی تفصیل بیان کرنا شروع کریں تو پوری کتاب ہی اس سے بھر جائے اور واقعی یہ بات ہے بھی صحیح کہ اتنی شاندار اور عظیم الشان پیشگوئی کے لیے تو پوری ایک کتاب بھی تھوڑی ہے لیکن ہم نے آپ کو صرف ایک پیشگوئی ہی نہیں سمجھانی اور بھی مختلف پیشگوئیاں بتانی ہیں اس لیے اس میں سے صرف چار پانچ باتیں ہی منتخب کی ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا نے بتایا کہ ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ اب تم خود سوچ لو کہ کیا خدا کے ساتھ زبردستی کی جاسکتی ہے کہ وہ لڑکا ضرور دے۔ اور وہ لڑکے کی بجائے لڑکیاں ہی دے سکتا ہے۔ اور اگر خدا تعالیٰ لڑکیاں ہی دیتا تو یہ پیشگوئی کہاں پوری ہوتی۔ پھر یہ کہ تم نے دیکھا ہوگا کہ کئی لوگ ہیں کہ جن کے نہ لڑکا ہوتا ہے اور نہ لڑکی۔ سینکڑوں دوائیوں اور علاج کے باوجود اُن کے ہاں اولاد ہوتی ہی نہیں تو پھر یہ کہنا کہ لڑکا پیدا ہوگا تو یہ عظیم الشان پیشگوئی نہیں تو اور کیا ہے۔ اور دیکھوخدا تعالیٰ نے یہ لڑکا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کودے بھی دیا۔

اب دوسری بات لو۔ وہ یہ کہ یہ لڑکا نو برس کے اندر پیدا ہوگا۔ اور اگر نو برس میں نہ پیدا ہوتا تو پھر کوئی خدا تعالیٰ کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ وہ توقادر مطلق ہے وہ ہم سب کا مالک ہے۔ ہم تو اُس کے بندے اور غلام ہیں۔ وہ چاہے تو ایک برس کے اندر دے دے اور نہ چاہے تو پچاس برس تک نہ دے۔ لیکن اگر واقعی یہ پیشگوئی سچی تھی اور خدا نے ہی یہ بات اپنے پیارے بندے کو بتائی تھی تو پھر خواہ کچھ بھی ہوجاتا نو برس سے ایک دن بھی زیادہ ہونا ممکن نہ تھا۔ وہ اپنی بات ہر رنگ میں پوری کرتا ہے اورپھر خواہ کچھ بھی ہو جائے اس کی بات ردّ نہیں ہو سکتی۔ اور نہ ہی کی جاسکتی ہے۔ پس یہ لڑکا 9 برس تو دور کی بات ہے تین برس کے اندر یعنی 12 جنوری1889ء کو پیدا ہوگیا۔ کیا اسے پیشگوئی پوری ہونا کہتے ہیں یا نہیں۔ پس پیشگوئی کا یہ حصہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہوگیا۔

اب لو تیسری بات جوہم نے پیچھے ذکر کی ہے اور وہ یہ کہ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔

اگرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بات نعوذ باللہ اپنے دل سے ہی بنائی ہوتی تو خداتعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں کو خدا عزت ہی کیوں دیتاوہ بیٹا ہی کیوں دیتا۔ اور پھر وہ نوبرس میں کیوں دیتا پندرہ برس میں کیوں نہ دیتا۔ اگر دے بھی دیا تو یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ وہ اندھا ،کانا،لنگڑا لُولا یا پاگل ہی پیدا ہوتا۔ پھر یہ کہ اگر لڑکا صحیح اور تندرست اور 9 برس کے اندر ہی پیدا ہوگیا تھا تو بعد میں بڑے ہو کر وہ کوئی برا آدمی بھی بن سکتا تھا۔ یا کوئی قلی مزدور بنتا یا کوئی عام کسان یا دکان دار بن جاتاجسے اپنے ہی گاؤں میں کوئی نہ جانتا۔ تودیکھو بچو! یہ بات خدا تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا اور نہ ہی یقین سے کہہ سکتا ہے کہ میرا بیٹا بڑا ہوکر عزّت اور شہرت کا مالک ہوگا۔ اور پھر اگر وہ یہ بات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے کہے اور پھر وہ بات بالکل اسی طرح پوری ہوجائے تو پھر تو وہ یقینا سچی پیشگوئی ہے۔ اب اس روشنی میں اس پیشگوئی پر غور کرو اور دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ لڑکا پیدا ہوا۔ 9سال میں پیدا ہوا۔ وہ زندہ رہا۔ جوان ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اسے جماعت احمدیہ کا امام اور سربراہ بنایا وہ لاکھوں احمدیوں کا خلیفہ بنا اور یہ تھے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبشر اولاد میں سے سب سے بڑے بیٹے تھے جواس پیشگوئی کے مطابق حضور کے ہاں پیدا ہوئے۔

تو دیکھو یہ کتنی بڑی عظمت ہے اور کس قدر عزت اور احترام کی بات ہے کہ سب احمدیوں نے آپ کو اپنا سردار تسلیم کیا۔ آپ کو عزت واحترام اور اطاعت کی نظروں سے دیکھا۔ آپ کے حکم کو بجا لانے میں اپنی سعادت سمجھی۔ ہر رنگ میں اس کی خدمت کو اپنے لیے عزت اور برکت کا باعث سمجھا۔ اور پھر ایک وقت آیا کہ ۴۴۹۱ء میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے الہام کے ذریعہ ان کو یہ بھی بتا دیا کہ آپ ہی وہ لڑکے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی اور الہام میں وعدہ فرمایا تھا اور آپ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلح موعود قرار دئیے گئے ہیں۔

چوتھی پیشگوئی اس میں یہ تھی کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ اب اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوسکتا کہ وہ دس برس میں بیس برس کا ہوجائے گا۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنے عظیم الشان کاموں کو جلد جلدمکمل کرے گا اور اس کی شہرت اور عظمت میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ اس کا حال یوں سنو کہ آپ دنیاوی علم کے لحاظ سے چاہیے تو یہ تھا کہ آپ بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرتے۔ لیکن اس لحاظ سے تو آپ میٹرک سے بھی آگے نہ جاسکے۔ صحت آپ کی اتنی کمزور کہ کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا۔ محنت کہاں سے کرتے اور ڈگریاں کس طرح ملتیں۔ علاوہ ازیں گاؤں میں رہنا جہاں نہ یونیورسٹی اور نہ کالج۔ لیکن یہ کوئی انسانی کام تو نہیں یہ تو خدا کا کہا پورا ہونا تھا اس لیے باوجود اس ساری کمی کے اللہ تعالیٰ نے اپنی بات پوری کی۔ آپ ابھی بہت ہی چھوٹی عمر کے تھے یعنی 25 برس کے ہی تھے کہ جماعت نے آپ کو اپنا خلیفہ اور امام چُن لیا۔ اور یوں آپ پرساری جماعت کی ذمّہ داریاں آن پڑیں لیکن ساری جماعت کو علم ہوگیا کہ آپ ہمارے امام ہیں اور پھر اس وقت جماعت کے بعض بڑے بڑے لوگوں نے اپنی علیحدہ جماعت بنا کر آپ کے لیے بڑے مسائل پیدا کر دئیے۔ لیکن آپ نے بڑی ہمت اور بہادری سے وہ سب مسائل حل کر دئیے۔ جماعت میں ایک قسم کا سکون اور چَین پیدا کر دیا۔ پھر یہ کہ آپ نے اپنی تقریروں سے اور تحریروں اور کتابوں سے ساری جماعت کے لیے ایک ایسا علمی ذخیرہ فراہم کر دیا کہ سب لوگ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اور اگر آپ پر خدا کا سایہ نہ ہوتا تو یہ سب کیسے ہوجاتا؟ آپ نے یورپ میں اسلام کے پھیلانے کے لیے مساجدکی تعمیر کا آغاز کیا۔ سب سے پہلی مسجد تو لنڈن میں بنوائی۔ یہ مسجد عورتوں نے اپنے چندہ سے بنائی۔ پھر ہالینڈ میں۔ پھر سوئٹزرلینڈ میں۔ پھر جرمنی میں دومساجد بنوائیں۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یورپ کے ان تہذیب یافتہ ملکوں میں یہ چھوٹی سی غریب جماعت اتنی شاندار مساجدتعمیر کرے گی۔ اور یورپ میں اسلام کی بنیاد رکھ دے گی۔ پھر آپ نے دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے شروع کروائے۔ انگریزی ترجمہ تو دیر ہوئی شائع کروا بھی دیا پھر اس کے ساتھ ہی جرمن،ڈچ،ڈینش اور مشرقی افریقہ کی سواحیلی زبان کے ترجمے بھی شائع کروادئیے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھنی شروع کی جو بہت بڑا عظیم الشان کام تھا۔ اور کئی سال کی سخت محنت کے بعد کئی ہزار صفحات کی تفسیر لکھ دی۔ اس کے ساتھ ہی چونکہ یہ بہت بڑی تفسیر تھی اور کئی حصوں میں تھی اس لیے آپ نے اسے مختصر بھی فرمایا اوریہ تفسیر صغیر کے نام سے شائع ہوئی۔ چونکہ آپ بیمار ہو گئے اس لیے بڑی تفسیر آپ مکمل نہ کر سکے اور اسی کی روشنی میں پھر انگریزی کی تفسیر تیار ہوئی جو پانچ جلدوں میں شائع ہوئی لیکن چونکہ یہ تفسیر بھی بہت بڑی تھی اور ہر شخص نہ اسے خریدنے کی طاقت رکھتا تھا اور نہ ہی روزانہ اسے مطالعہ کر سکتا تھا اس لیے اس کو چھوٹا کر کے ایک ہی جلد میں شائع کیا۔ یہ سب کس قدر مشکل کام تھے اور اگر خدا کا سایہ ان کے سر پر نہ ہوتا تو یہ کام کب اور کیسے ہوجاتا۔

بچو! 1947ء میں انگریز ہندوستان کو آزادی دے کر چلے گئے اور پاکستان ایک علیحدہ ملک بن گیا۔ لیکن ہمارا مرکز قادیان ہندوؤں کے حصے میں آگیا۔ بڑی قتل وغارت شروع ہو گئی اور ممکن تھا کہ بے شمار احمدی قتل ہو جاتے۔ لیکن آپ نے اس سارے معاملہ کو ایسی عقلمندی اور دانش مندی سے حل کیا کہ شاید ہی کسی احمدی کی جان گئی ہو۔ قادیان کے سب احمدی کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے سب خیرو عافیت سے پاکستان پہنچ گئے۔ پھر اس سے بھی بڑا کارنامہ سنو۔ اور وہ یہ کہ جب ہم لوگ پاکستان پہنچے تو ہم لوگوں کے پاس کوئی مرکز نہ تھا۔ اپنا کوئی گاؤں یا شہر نہ تھا کوئی احمدی کہیں اور کوئی کہیں۔ اس لیے آپ نے بڑی دعاؤں اور تلاش کے بعد ایک جگہ منتخب کی جسے آپ اور ہم اب ربوہ کہتے ہیں۔ زمین کا یہ ڈھائی میل لمبا اور میل بھر چوڑا ٹکڑا حکومت سے روپیہ دے کر خرید لیا۔ اور یہاں ایک نئے شہر کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یہ وہ جگہ تھی جس کے چاروں طرف سوکھی اور خشک پہاڑیاں اور چٹانیں اور زمین شور اور کلر زدہ تھی۔ درخت تو درکنار گھاس کا پتّا نظر نہ آتا تھا۔ پانی کانام ونشان نہ تھا۔ ہم نے جب 1948ء میں یہاں پر خیمے لگائے تو عجیب نظارہ تھا دور دور تک کوئی آبادی نظر نہ آتی تھی۔ رات کو ہواسائیں سائیں کرتی دن کو بگولے اور جھکّڑ چلتے۔ تیز لوئیں چلاکرتیں۔ چند لوگ تھے جنہیں دیکھنے والے دیوانے اور پاگل کہا کرتے۔ یہی دیوانے کئی ماہ ان خیموں میں رہے۔ دور سے پانی لایا کرتے۔ تقریباً10کلومیٹر دور چنیوٹ کا شہر تھا وہاں سے دال سبزی اور ضرورت کی دوسری چیزیں خرید لاتے۔ اسی طرح مہینوں گذر گئے اور پھر اس کے بعد گارے اور مٹی کے چند کچے گھر بنا لیے۔ اور اپنے دفتر بھی اسی طرح بوسیدہ اور پرانی کھڑکیوں اور دروازوں کے ساتھ کچی اینٹوں کے بنا لیے تا کہ کام شروع ہو جائے۔ اب تو ایک ننّھاساگاؤں بن گیا پاس ہی ریل گاڑی گذرتی تھی وہ بھی ٹھہرنی شروع ہو گئی ربوہ ریلوے اسٹیشن بن گیا۔ دوسری طرف بڑی سڑک گذرتی تھی جس پر سے لاہور اور فیصل آباداور سرگودھا جانے والی بسیں گذرتی تھیں وہ بھی ٹھہرنی شروع ہو گئیں۔ یوں آمدورفت کا اچھا بھلا سامان ہوگیا۔ رفتہ رفتہ پکی اور مستقل عمارتیں بننی شروع ہو گئیں۔ لیکن پانی کی شدید تکلیف تھی۔ آخر ہمارا یہی خلیفہ ربوہ آیا اور دعاؤں سے ایک جگہ کی نشاندہی کر دی۔ اور جب وہاں کھودا تو پانی نکل آیا اور پھر اس کے بعد پانی کی تو بہار آگئی۔ لیکن یہ پانی صحت کے لیے کچھ مفید نہ تھااس میں وہ ضروری اجزاء نہ تھے جو اچھے پانی میں ہونے ضروری ہیں لیکن کافی عرصہ کے بعد ایک ٹنکی بن گئی جس میں دریا سے پانی لاکر ڈالا گیا اور یہ پانی بہت عمدہ تھا۔ اب آہستہ آہستہ آبادی بڑھنی شروع ہوگئی۔ ڈاک خانہ بن گیا پھر 1955ء میں بجلی بھی آگئی۔ ٹیلیفون لگ گئے اور ربوہ ایک تیزی سے ترقی پذیر شہر بن گیا۔ جہاں آج غالباً دنیا کی ہر نعمت میسر ہے۔

اب دیکھو بچّو! یہ اسی لڑکے کا کارنامہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ:"خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا اور وہ جلد جلد بڑھے گا"۔ اگر خدا کا سایہ اس کے سر پر نہ ہوتا تو کیا یہ سارے کام اس کے لیے کبھی ممکن بھی تھے؟ یہ تو خدا کا کہا تھا۔ جوپورا ہوا۔ اور کون ہے جو خدا کے کہے کو پورا ہونے سے روک دے؟۔

اب ایک اور بات لو۔ پیشگوئی میں یہ بات بھی بتائی گئی کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ ذرا دل میں سوچو کہ گاؤں میں پیدا ہونے والا ایک بچہ اور وقت بھی وہ جبکہ نہ ہوائی جہاز،نہ موٹریں نہ ریڈیو اور نہ ٹی وی۔ یہ بات کیسے پوری ہوگی۔ دنیا کے کناروں تک کیسے شہرت پائے گا۔ ابھی جماعت احمدیہ کی بنیاد بھی نہیں رکھی گئی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ پیشگوئی بتائی۔ لیکن خدا سچے وعدوں والا ہے وہ کبھی غلط بات نہیں کہتا اس کی بتائی ہوئی سب باتیں سچی ہوتی ہیں۔ پیارے بچو! اس لڑکے کی پیدائش کے ساتھ ہی جماعت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یعنی حضور نے بیعت لینے کا سلسلہ شروع کر دیا اور اب حضور کی جماعت باقاعدہ ایک جماعت بن گئی۔ لیکن آپ 1914ء میں جماعت کے خلیفہ بنے۔ اس وقت ہندوستان سے باہر جماعت کا صرف ایک مشن تھا جولنڈن میں قائم کیا گیا تھا۔ دوسرا مشن 1915ء میں جزیرہ ماریشس میں آپ نے ہی قائم کیا۔ اگر کبھی آپ ماریشس کے رہنے والوں سے بات کریں۔ تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ کہا کرتے ہیں کہ ہمارا جزیرہ دنیا کا کنارہ ہے لو خدا کی بات تو 1915ء میں ہی پوری ہو گئی کہ آپ کا نام دنیا کے کنارے تک پہنچ گیا۔ لیکن یہ بات ہم تمہارے علم کے لیے بتا رہے ہیں کہ آپ کی زندگی میں ہی جماعت احمدیہ کے مشن دنیا کے پچاس مختلف ملکوں میں کھلے۔ یہ مشرق میں بھی تھے اور مغرب میں بھی۔ شمال میں بھی اور جنوب میں بھی۔ کالوں میں بھی اور گوروں میں بھی سرخ لوگوں میں بھی اور زرد میں بھی۔ اگر سب کی فہرست لکھی جائے۔ تو بہت لمبی ہو جائے گی۔ مختصر طور پر سنو کہ کہاں کہاں آپ کی زندگی میں آپ کا نام پہنچا اور مشن قائم ہوئے۔ یورپ میں انگلستان، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، سپین، ہنگری، آسٹریا، چیکوسلواکیہ، اٹلی، جرمنی، یوگوسلاویہ، روس اور امریکہ میں شمالی اور جنوبی امریکہ۔ مغربی افریقہ میں غانا، نائیجیریا، سیرالیون،گیمبیا،لائبیریا، ٹوگولینڈ، آئیوری کوسٹ۔ مشرقی افریقہ میں کینیا، یوگینڈا، تنزانیہ اور جنوبی افریقہ میں اور پھر مشرق وسطیٰ میں بھی کئی ملکوں میں مشن کھلے۔ مشرق قریب میں سری لنکا اور برما اور ایران۔ مشرقِ بعید میں جاوا، سماٹرا، ملایا، سنگاپور، جاپان، چین، ہانگ کانگ اور جزائرفجی میں آپ کا نام پہنچ گیا۔ بچو! یہاں پر تمہیں ایک دلچسپ بات بھی بتائیں۔ جزائر فجی کے قریب جغرافیہ دانوں نے ایک فرضی لکیر کھینچی ہے جس کے مشرق میں چلے جاؤ تو ایک تاریخ کم ہوگی اور اس خط کے مغرب میں آجاؤتو ایک تاریخ زیادہ ہوگی اب سوچ کر بتاؤ کہ اسے دنیا کا کنارہ کہتے ہیں یا نہیں۔ بس خدا کی یہ بات پوری ہونی تھی جو ہو گئی اور آپ کا نام زمین کے کناروں تک پہنچ گیا۔

اب اگر اس عظیم الشان پیشگوئی کے ہر پہلو کی تفصیل بیان کریں توپھر یہ ساری کتاب اسی سے بھر جائے گی۔ اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ تمہیں یہ بات اب خوب سمجھ آگئی ہوگی۔ اس لیے ہم اب اگلی پیشگوئی کے بارہ میں تمہیں کچھ بتاتے ہیں۔
5

یہ بات ہم تمہیں کھول کر بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ بہت ہی رحم کرنے والا،پیار کرنے والا اور کرم کرنے والا خدا ہے لیکن اگر بندے ہی ظلم اور سرکشی پر اتر آئیں۔ خدا کی مسلسل نافرمانی کریں۔ اس کے پیارے بندے کو دکھ دیں اور تکلیفیں پہنچائیں تو پھر خدا تعالیٰ ناراض بھی ہوتا ہے اور ان کی اصلاح کے لیے کچھ سزا بھی دیتا ہے۔ تو بچّو! اب ہم تمہیں ایسے ہی ایک نشان کی تفصیل بھی سناتے ہیں۔ اور وہ ہے طاعون کا نشان۔ ایسے نشان سے اللہ تعالیٰ کا مقصد صرف مخلوق کی اصلاح ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی بدکاریوں اور گناہوں سے باز آجائیں اور نیکیوں اور بھلائیوں کو اختیار کریں۔ دنیا کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنیں اور سکھ اور آرام کا باعث بن جائیں۔

بچّو! طاعون ایک خطرناک بیماری کانام ہے۔ یہ دوسری بیماریوں کی طرح نہیں ہوتی جیسے کھانسی، زکام، نزلہ، پیٹ درد یاسر درد۔ یہ بیماری عام طور پر وبا کی صورت میں پھوٹتی ہے اور جب پھوٹتی ہے تو دوچار یا دس موتیں نہیں ہوتیں پھر سینکڑوں ہزاروں لوگ مرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں یہ بیماری جب بھی پھیلی بڑی خوفناک صورت میں پھیلی، اسے خدا کا عذاب بھی کہا گیا ہے۔ جن ممالک یا اقوام میں یہ بیماری پھوٹی اس کا مختصر تذکرہ بھی بہت لمبا ہو جائے گا اس لیے مختصراً یہ بتانا ہی کافی ہوگا کہ یہ عام طور پر چوہوں سے پھیلتی ہے۔ ایک زہریلا قسم کا پِسّوجو طاعون زدہ چوہے کو کاٹتا ہے وہی پِسّو پھر کسی آدمی کو کاٹ لیتا ہے۔ اور اسے بھی طاعون ہو جاتی ہے۔ اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ بغل میں یا رانوں میں بڑی تکلیف دہ گلٹیاں اُبھر آتی ہیں اور ساتھ ہی تیز بخار چڑھ جاتا ہے اور دوتین دن کے اندر اندر مریض ختم ہوجاتا ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے 6 فروری 1898ء کوایک خواب دیکھا جس کی تفصیل حضور یوں بیان فرماتے ہیں :۔

"آج جو 6 فروری 1898ء روز یک شنبہ ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک(فرشتے)پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں۔ اور وہ درخت نہایت بد شکل اور سیاہ رنگ اور خوف ناک اور چھوٹے قد کے ہیں۔ میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں۔ جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے"۔

اب یہ وہ زمانہ ہے کہ پنجاب میں کوئی طاعون نہ تھی۔ لیکن خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو بہت پہلے سے اس کی خبر دے دی اور حضور نے اسے اپنی کتاب"ایّام الصلح"کے صفحہ161 پر شائع فرمادیا۔ اور بچو! اگر تم یہ پیشگوئی دوبارہ پڑھو تو تمہیں یہ بات کتنی صاف نظر آئے گی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ فرشتے ملکِ پنجاب میں طاعون کے پودے لگا رہے ہیں۔ مگر یہ وہ وقت ہے کہ پنجاب میں طاعون کا نام ونشان نہ تھا۔ اور اگر یہ خبر خدا کی طرف سے نہ ہوتی تو خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت تھی کہ ایک جھوٹی خبر کو سچی کرنے کے انتظامات کر دیتا، لیکن1902ء میں یعنی پیشگوئی کے ۴ سال بعد یہ بیماری پنجاب میں خوفناک طریق پر پھوٹی اور اس طرح پھوٹی کہ بعض جگہ ایک ایک گھر میں ایک ہی دن میں تین تین چار چار موتیں ہو گئیں ، دفنانے کے لیے لوگ نہیں ملتے تھے۔ بعض تو گاؤں کے گاؤں ہی صاف ہو گئے۔ غرض عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ انسانی جان اس قدر سستی ہو گئی تھی کہ کوئی ایک دوسرے کو پوچھنے کا روادار نہ تھا۔

ان دنوں حکومت نے لوگوں کو طاعون کا ٹیکہ لگانے کا حکم دیا تا کہ اس وجہ سے جانے بچ سکیں۔ یہ دوائی بہت مفید تھی اور حکومت نے بڑی خیرخواہی سے پبلک کے لیے اس کا انتظام کیا تھا۔

اب تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس خوفناک وبا اور بیماری کے پھوٹنے کی پہلے ہی اطلاع دی اور عین اس کے مطابق واقعہ بھی ہو گیا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن اور عجیب اور دلچسپ بات سنو۔

جب طاعون پھیلی تو ٹیکہ لگوانا ضروری تھا تاکہ لوگ اس بیماری سے محفوظ ہو جائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو خبر دی کہ آپ کو ٹیکہ لگوانے کی ضرورت نہیں۔ اور نہ صرف آپ کو بلکہ ان سب لوگوں کے لیے بھی ضروری نہیں جو آپ کے گھر کی چاردیواری میں رہتے ہیں اور چاردیواری کے متعلق آپ نے فرمایا کہ:۔ اس سے مراد یہ اینٹوں اور پتھروں کی چاردیواری ہی نہیں بلکہ اس سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو سچے طور پر آپ کی جماعت میں شامل ہیں۔ اور آپ کی بتائی ہوئی تعلیم پر عمل کرتے ہیں۔ اور اس سلسلہ میں آپ نے ایک بڑی مشہور کتاب لکھی جس کا نام "کشتیٔ نوح" ہے۔ اس کے پہلے صفحے پر آپ لکھتے ہیں کہ :۔

"لیکن ہم بڑے ادب سے اس محسن گورنمنٹ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر ہمارے لیے ایک آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹیکہ کراتے اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لیے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے۔ سو اُس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایاکہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے۔ اوران آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا۔ تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے"۔

تھوڑی دیر کے لیے سوچ کر دیکھو کہ اوّل تو بیماری کے پھیلنے کی کئی سال پہلے اطلاع دی جاتی ہے اور یہ بیماری عین پیشگوئی کے مطابق پھوٹ پڑتی ہے اور بیماری بھی وہ بیماری ہے جو خطرناک اور خوفناک ہے اور وبا کی صورت میں پھیلی ہے۔ اب اگر یہ پیشگوئی خدا کی طرف سے نہیں تھی تو اوّل تو یہ بیماری ہی نہ پھوٹتی۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس خوف ناک بیماری سے بچنے کی اطلاع بھی دی۔ نہ صرف آپ کو بلکہ ہر اس شخص کو جو آپ کے گھر کی چاردیواری کے اندر رہتا تھا۔ پھر نہ صرف یہ کے گھر کے اندر رہنے والے ہی اس بیماری سے محفوظ رہیں گے بلکہ آپ کو سچا ماننے والے آپ پر ایمان لانے والے اور آپ کی تعلیم پر سچے دل سے عمل کرنے والے بھی اس سے محفوظ رہیں گے۔ آپ کو اور آپ کے گھر میں قیام کرنے والوں کو اور آپ کوسچا اور حقیقی ماننے والوں کو ٹیکے کی ضرورت نہیں تھی۔ اور بالکل اسی طرح پھرظاہر بھی ہوا۔ آپ خود طاعون سے محفوظ رہے، آپ کی بیوی اور بچے اس سے محفوظ رہے، اور وہ سب لوگ جو آپ کے گھر کے اندر رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے سب کو اس خوفناک بیماری سے محفوظ رکھااور آپ کے گھر میں اس بیماری سے ایک بھی موت نہیں ہوئی۔

اوپر آپ کو یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ یہ بیماری اس بری طرح سے پھیلی کہ بعض تو گاؤں کے گاؤں ہی تباہ ہو گئے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا کہ قادیان میں طاعون آئے گی، لیکن جھاڑو پھیر دینے والی بیماری کی طرح نہیں آئے گی، اور بالکل اسی طرح ہوا کہ اس گاؤں میں طاعون تو آئی لیکن یہ ایسی نہیں تھی کہ لوگ کتوں کی طرح مرتے اور مارے غم کے پاگل ہوجاتے اور اس گاؤں کے لوگ دوسرے مخالفین کی نسبت یقینا محفوظ رہے۔

دیکھو بچو! کیا یہ تعجب والی بات نہیں کہ خدا تعالیٰ کی مدد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت کے ساتھ تھی اور اس نے خاص رحمت سے ان لوگوں کو ایسا بچایا جس کی مثال نہیں ملتی اور لوگوں کے لیے یہ بڑی حیرت کی بات بن گئی کہ کیاواقعی ایسا خدا موجود ہے جو اس طریق پر بھی اپنے بندوں پر اپنا فضل نازل کر سکتا ہے۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ ہاں ایساخدا موجود ہے اور اس میں اتنی طاقت اور قدرت ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے پیارے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے تو زندہ ہی مرجاتے۔ وہ عجیب قدرتوں والا خدا ہے۔ ایک طرف مخالفوں اور دشمنوں کو اپنے دوستوں پر کتوں کی طرح مسلط کر دیتا ہے اور دوسری طرف اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ ان کی خدمت کریں۔ ان کی حفاظت کریں اور ان کو ہر قسم کے نقصان سے محفوظ بھی رکھیں۔

ایسا ہی جب اس کا غضب اور غصہ بھڑک اٹھتا ہے تو اس کے پیار کی آنکھ اپنے پیاروں اور اپنے خاص لوگوں کی حفاظت بھی کرتی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے بندوں کا تو کارخانہ ہی ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہو جاتا اور کوئی ان کو پہچان ہی نہ سکتا۔ خوب یاد رکھو کہ اس کی قدرتیں بے انتہا ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے مگر غیر معمولی نشان انہی کے لیے دکھائے جاتے ہیں جو خدا سے پیار اور محبت کی انتہا کر دیتے ہیں اور اس کی عجیب قدرتوں پر پورا ایمان رکھتے ہیں اور یہی طاعون کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے ماننے والوں کے ساتھ ہوا اور آپ اور آپ کے ماننے والے اس کی رحمت کے ساتھ بغیر ٹیکہ کے بچائے گئے اور آپ پر اُس کی رحمتوں کا سایہ رہا اور یہ بہت بڑا نشان تھا۔
6

اب ایک اور عظیم الشان نشان کا حال پڑھو۔ امریکہ کے مشہور شہر شکاگو کے پاس ایک شہر صیحون آباد ہے۔ یہ شہر ایک شخص پادری جان الیگزینڈر ڈوئی نے آباد کیا تھا۔ یہ شخص اسلام کا بڑا دشمن تھا۔ اُس نے پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ بھی کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھتا تھا۔ اورآپؐ کو گالیاں دیا کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ دین اسلام جلد سے جلد ختم کر دیا جائے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا سمجھتا تھا اور عیسائیت کو پھیلانے کے لیے سخت کوشش کرتا۔ اس کا اپنا ایک اخبار بھی تھا جس کا نام "نیوز آف ہیلنگ" رکھا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے اپنے اس اخبار میں 19 دسمبر1903ء میں لکھا کہ:۔

"میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جاوے۔ اے خدا تو ایسا ہی کر۔ اے خدا اسلام کو ہلاک کر دے۔ "

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ میں نے پادریوں کی سینکڑوں کتابیں دیکھی ہیں مگر ایسا جوش کسی میں نہیں پایا جتنا کہ ڈاکٹر ڈوئی میں ہے۔ اس نے اپنے اسی اخبار میں 12 دسمبر 1903ء میں لکھا کہ:۔

"اگر میں سچا نبی نہیں ہوں تو پھر روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو خدا کا نبی ہو"۔

اس کے علاوہ وہ سخت مشرک تھا اور کہتا تھا کہ مجھ کو الہام ہو چکا ہے کہ ۵۲ برس تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر آئیں گے۔

یہ شخص در حقیقت حضرت عیسیٰ کو خدا سمجھتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا اور یہی بات تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بہت دکھ دیا کرتی تھی۔ جب اس کی بد زبانی اور گالیاں اور تلخ کلامی انتہا کو پہنچ گئی تو حضور علیہ السلام نے اسے ایک خط لکھا اور کہا کہ تم میرے لیے دعا کرو اور میں تمہارے لیے کہ خدا تعالیٰ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اسے سچے کی زندگی میں ختم کر دے اور ہلاک کر دے۔ اور یہ خط ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ بھجوایا اور امریکہ کے بعض اخباروں میں بھی یہ چیلنج شائع ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب "حقیقۃ الوحی" میں ایسے بتیس اخباروں کے نام لکھے ہیں جن میں یہ چیلنج شائع ہوا اور اس کواخباروں میں شائع کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ ڈاکٹر ڈوئی نے حضور کے دونوں خطوں کا جواب ہی نہیں دیاتھا۔ اگرچہ یہ سب عیسائی اخبارات تھے لیکن ان سب نے بڑے زور سے اس مضمون کو شائع کیا۔ اور اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام سچا مذہب ہے۔ عیسائی مذہب کا عقیدہ جھوٹا ہے اور میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی مسیح ہوں جو آخری زمانہ میں آنے والا تھااور جس کا نبیوں کی کئی کتابوں میں وعدہ دیا گیا تھا۔ اور ڈاکٹر ڈوئی اپنے رسول ہونے اور عیسائیوں کے تین خداؤں کے عقیدے میں بالکل جھوٹا ہے اور اگر وہ مجھ سے مباہلہ کرے تو وہ میری زندگی میں ہی بڑی تکلیف کے ساتھ جان دے گا۔ اور اگر مباہلہ نہ بھی کرے تب بھی وہ عذاب سے بچ نہیں سکے گا لیکن ڈوئی اپنی دولت، شہرت اور طاقت کے نشہ میں تھا۔ وہ مغرور اور متکبر تھا۔ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کو بڑی حقارت کی نظروں سے دیکھا اور اپنے اخبارمورخہ 26 ستمبر 1903ء میں انگریزی میں چند سطریں شائع کںے اور لکھا کہ :۔

"ہندوستان میں (نعوذباللہ) ایک بے وقوف محمدیؐ مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا۔ مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دونگا اگر مںر ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا"۔

غرض یہ شخص حضور کے چیلنج کے بعد شوخی اور شرارت میں بڑھ گیا اور حضور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے کہ خدا تعالیٰ سچے اور جھوٹے میں فرق کر کے دکھائے اور جھوٹے کو سچے کی زندگی میں ہلاک کرے۔ اور پھر ڈوئی کے مرنے سے پندرہ دن پہلے خدا تعالیٰ نے حضور کو اس فتح کی اطلاع بھی دے دی۔ اور ۰۲ فروری ۷۰۹۱ء کو ایک اشتہار میں شائع کردیاکہ اللہ تعالیٰ ایک ایسا نشان دکھائے گا،جس میں فتح عظیم ہو گی اور یہ ساری دنیا کے لیے ایک نشان ہوگا۔

اس کے پندرہ دن بعد ہی ڈوئی کی موت کی اطلاع آگئی۔

تو دیکھو بچو! خدا تعالیٰ کس طرح اپنے پیارے بندوں کی بات سنتا ہے ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اوران کے دوستوں کو تکلیفوں اور مصیبتوں سے بچاتا ہے۔ اور ان کے دشمنوں کو تباہ اور برباد کرتا ہے اور ڈاکٹر ڈوئی کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ اور اگر ہم اس کی تباہی اور بربادی کی پوری کہانی لکھنی شروع کریں تو یہ سارا واقعہ بہت لمبا ہو جائے گا۔ بس اتنا سمجھ لو کہ اُ س کی زندگی میں ہر طرف مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا وہ شخص جو بڑے بڑے نوابوں اور شہزادوں کی طرح معزز تھا وہ ہر رنگ میں ذلیل ہوا۔ اُس کی بے ایمانی اور بددیانتی سب پر ثابت ہو گئی وہ کہا کرتا تھا کہ شراب پینا حرام ہے لیکن لوگوں کو پتہ چل گیا کہ خود شرابی ہے۔ اس نے خود ایک شہر بسایا تھا جس کا نام صیحون تھا وہاں سے بڑی ذلت کے ساتھ نکالا گیا جسے اس نے لاکھوں روپے خرچ کر کے آباد کیا تھا۔ سات کروڑ روپے جو اس کے پاس تھے اس سے بھی اس کو جواب مل گیا۔ اس کی بیوی اور اس کا اپنا بیٹا اس کے دشمن ہو گئے اور آخر میں اس پر فالج گرا اور لوگ اسے تختے کی طرح اٹھا کر لے جاتے رہے۔ اس کے بعد وہ انہیں غموں سے پاگل ہوگیا اور یوں مارچ 1907ء میں بڑے دکھ اور بڑی تکلیف اور مصیبت سے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اور اس طرححضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی بڑی شان اور شوکت سے پوری ہوئی اور اس خبر کو امریکہ کے مشہور اخباروں نے بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ امریکہ میں شائع کر دیا۔

یہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شائع فرمائیں اور اپنے وقت پر پوری ہوتی رہیں۔ کچھ ہندو قوم کے لیے کچھ مسلمانوں کے لیے اور کچھ عیسائیوں کے لیے تھیں۔ جیسا کہ آپ نے پیچھے پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اور روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے پیار اور محبت کے سلوک کا اظہار کرتا ہے۔ اب ہم چند واقعات اسی قسم کے آپ کو سناتے ہیں۔
7

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک نہایت ہی پیارے دوست اور مرید تھے، جن کا نام حضرت مولانا نورالدین صاحب تھا اور حضور کی وفات کے بعد آپ ہی جماعت کے سب سے پہلے خلیفہ منتخب ہوئے۔ یہ بھیرہ کے رہنے والے تھے اور بہت بڑے عالم اور فاضل تھے۔ حضرت مولوی صاحب بہت بڑے اور مشہور حکیم تھے یہاں تک کہ مہاراجہ کشمیر نے انہیں اپنا ذاتی حکیم مقرر کر کے اپنے دربار میں رکھا ہوا تھا۔ اور یوں آپ شاہی طبیب بھی تھے۔ آپ کا ایک بیٹا تھا اور وہ فوت ہوگیا۔ اس پر دشمنوں نے بڑی خوشی ظاہر کی کہ مولوی صاحب اب لاولد رہ گئے۔ تب حضور نے مولوی صاحب کے لیے بڑی دعا کی اور دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تمہاری دعا سے ایک لڑکا پیدا ہوگا اور اس بات کا نشان کہ وہ محض دعا کے ذریعہ ہی پیدا ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس کے بدن پر بہت سے پھوڑے نکل آئیں گے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبدالحئی رکھا گیا اور اس کے بدن پر غیر معمولی طور پر بہت سے پھوڑے نکلے جن کے داغ اس کے بدن پر دیر تک موجود رہے۔ یہ کس قدر روشن نشان ہے۔

8

ایک مرتبہ حضور کو الہام ہوا کہ:" آج حاجی ارباب محمدلشکر خاں کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے "۔ اور آپ نے یہ پیشگوئی اپنے گاؤں کے رہنے والے دو ہندوؤں کو بھی سنا دی ان کا نام شرمپتؔاور ملاواملؔ تھا۔ اور انہی دونوں میں سے ایک یعنی ملاوامل ڈاکخانہ گیا تاکہ معلوم کرے کہ واقعی ارباب محمد لشکر خان کے کسی رشتہ دار کی طرف سے روپیہ آیا ہے یا نہیں وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ ایک خط آیا ہے جس میں لکھا تھا کہ ارباب محمد سرور خان نے دس روپے بھیجے ہیں۔ لیکن آریوں نے انکار کیا کہ یہ ارباب محمد سرور خان ارباب لشکر خان کا کوئی رشتہ دار ہے۔ اُس وقت حضور نے ایک شخص منشی الٰہی بخش کو خط لکھا۔ اور پوچھا کہ ارباب محمد سرور خان کی ارباب محمد لشکر خان سے کیا رشتہ داری ہے۔ تو ان کا جواب آیا کہ سرور خان ارباب محمد لشکر خان کا بیٹا ہے اور یوں ہندو لاجواب ہو گئے۔

9

اسی طرح ایک اور وحی ہوئی کہ: "عبداللہ خان۔ ڈیرہ اسماعیل خان"۔ یہ صبح کا وقت تھا اور اس وقت کچھ ہندو بھی پاس موجود تھے۔ ان میں سے ایک شخص کانام بشن داس تھا۔ حضور نے ان سب کو بتا یا کہ خدا نے مجھے یہ سمجھایا ہے کہ اس نام کے ایک شخص کی طرف سے کچھ روپیہ آئے گا۔ تو بشن داس نے کہا کہ اچھا میں خود ڈاکخانہ جاکر پتہ کروں گا۔ ان دنوں ڈاک دو۲ بجے آیا کرتی تھی۔ وہ اسی وقت ڈاکخانہ گیا۔ اور جواب لایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک دوست عبداللہ خان نے روپیہ بھیجا ہے۔ اور پھر اس نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہو گئی۔ تو حضور نے جواب دیا کہ وہ خدا جس کو تم نہیں پہچانتے یہ خبر اُس نے دی ہے۔

10

سیالکوٹ میں ایک صاحب لالہ بھیم سین ہوتے تھے۔ انہوں نے وکالت کا امتحان دیا تو حضور نے انہیں اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس ضلع کے سب اشخاص جنہوں نے امتحان دیا ہے فیل ہو جائں گے اور صرف لالہ بھیم سین پاس ہونگے اور یہ خبر نہ صرف لالہ بھیم سین کو دی بلکہ تیس کے قریب اور لوگوں کو بھی سنا دی گئی چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ سیالکوٹ کی ساری جماعت فیل ہو گئی اور صرف لالہ بھیم سین ہی پاس ہوئے۔
11

حضور کو خواب میں دکھایا گیا کہ شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے فرش کو آگ لگی ہوئی ہے اور حضور نے اس آگ کو بار بار پانی ڈال کر بجھایا ہے۔ اور پھر اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضور کو اس خواب کے معنی سمجھائے کہ شیخ صاحب پر اور ان کی عزت پر بڑی مصیبت آئے گی اور پھر وہ مصیبت صرف حضور کی دعاؤں سے ہی دور ہو گی۔ اور شیخ صاحب کو بذریعہ خط اس کی اطلاع بھی کر دی گئی چنانچہ اس کے چھ ماہ بعد شیخ صاحب ایک الزام میں پھنس گئے ان پر ایک مقدمہ بن گیا بلکہ یہاں تک کہ انہیں پھانسی کی سزا کا حکم بھی ہو گیا۔ ایسے وقت میں ان کے بیٹے کی طرف سے دعاکی درخواست ملی کہ ان کی رہائی کے لیے دعا کی جائے اور پھر حضور نے ان کے لیے دعا کی اور ان کے بیٹے کو ان کی رہائی کی خوشخبری لکھ دی گئی۔ چنانچہ اس کے بعد وہ رہا ہو گئے۔

12

ایک دفعہ آپ نے عالم کشف میں دیکھا کہ آپ کا چوتھا بیٹا صاحبزادہ مبارک احمد چٹائی کے پاس گر پڑا اور اسے سخت چوٹ آئی ہے اور کرتہ خون سے بھر گیا ہے۔

خدا کی قدرت کہ ابھی اس کشف کو تین منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ حضور اپنے کمرہ سے باہر آئے تو دیکھا کہ مبارک احمد جس کی عمر قریباً سوا دوسال کی تھی کا پیر پھسل گیا اور وہ گر گیا اور زمین پر جا پڑا۔ اور اسے چوٹ بھی لگی اور کپڑے خون سے بھر گئے اور بالکل جیسے کشف میں دیکھا تھا بالکل ویسے ہی واقعہ بھی ہو گیا۔ اور اس بات کی بہت سی عورتیں جو گھر میں تھیں گواہ ہیں۔

13

1897ء میں مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جو میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے ڈاکٹری کا امتحان دیا۔ اور حضور نے ان کے لیے دعا کی تو الہام ہوا:۔

"تم پاس ہو گئے ہو"۔

اور یہ اس بات کی طرف اشارہ طرف تھا کہ یعقوب بیگ کامیاب ہو جائے گا اور ایساہی واقعہ ہوا کہ یہ نوجوان بڑی خوبی سے پاس ہوا ور لاہور کے ہی میڈیکل کالج میں ہاؤس سرجن مقرر ہوا۔

14

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ڈاکٹرمارٹن کلارک کی طرف سے دائر کئے گئے مقدمے میں باعزت بریّت ہے۔ جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے قبل ازوقت آپ ؑکو بتا دیا تھاکہ ایسا مقدمہ ہونے والا ہے اور پھر یہ اطلاع بھی دے دی تھی کہ" آخر بریّت ہے"۔ اس نشان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام حقیقۃ الوحی میں 162ویں نشان کے طور پر لکھتے ہیں :۔

"جب میرے پرڈاکٹر مارٹن کلارک کی طرف سے خون کا مقدمہ دائر ہوا اِس مقدمہ کے بارے میں ایک تویہ نشان تھا کہ خدا نے اس مخفی بلا سے پہلے مجھے اطلاع دی کہ ایسا مقدمہ ہونے والا ہے۔ اور پھر یہ بھی اطلاع دے دی کہ آخر بریّت ہے۔ اور جب اس پیشگوئی کے مطابق جب وہ بلا ظاہر ہوگئی اور ڈاکٹرمارٹن کلارک نے میرے پر خون کا مقدمہ دائر کردیا اور گواہوں نے ثبوت دے دیااور مقدمہ کی صورت خطرناک ہوگئی تو مجھے الہام ہوا۔ مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت۔ پس خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا اتفاق ہوا کہ مخالفوں میں پھوٹ پڑگئی اور عبدالحمید جو خون کا مخبر تھا اور میری نسبت یہ الزام لگاتا تھا جو مجھے خون کرنے کے لئے بھیجا ہے اُس نے دوسرے مخالفوں سے الگ ہو کر سچ سچ حالات بیان کردیئے جس سے میں بری کیا گیا۔ اور مدعی کے ایک معززگواہ کو کچہری میں ذلت اور اہانت بھی دیکھنی پڑی۔ اور اس طرح پر یہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ شکر کا مقام ہے کہ اس پیشگوئی اور بریّت کی پیشگوئی کے تین سو سے زیادہ گواہ ہیں "۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلدنمبر۲۲صفحہ۵۷۔ ۴۷۳)

15

اسی طرح ایک اور الہام کے بارہ میں حضور نے اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ حضور کے بیٹے مرزا بشیر احمد صاحب کی بچپن میں آنکھیں خراب ہو گئیں اور ہر وقت پانی بہتا رہتا تھا یہاں تک کہ پلکیں بھی گر گئیں ایک لمبے عرصہ تک دیسی علاج بھی کیا اور انگریزی بھی کیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوتا تھا اور تکلیف ویسی کی ویسی ہی تھی۔ جس کی وجہ سے حضور کو پریشانی بھی تھی کیونکہ آنکھوں کا معاملہ تھا اگر بڑھ جاتا تو آنکھیں ضائع ہونے کا خطرہ بھی تھا جس کی وجہ سے فکر تھا۔ علاج سے بجائے فائدہ ہونے کے بیماری بڑھتی چلی جارہی تھی۔ تو حضور نے اپنے بچے کے لیے دعاکی تو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ:۔ "بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْرٌ"یعنی میرے بچے بشیر کی آنکھیں اچھی ہو گئیں۔ اس الہام کے ایک ہفتہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے بچے کو شفا دے دی اور آنکھیں بالکل تندرست ہو گئیں۔ اسی کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کہتے ہیں وہ جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو علاج کے ذریعہ شفا بخشے اور اگر نہ چاہے تو اسی علاج کے ذریعہ صحت نہ دے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع دی کہ بشیر کو شفا ہو گئی تو ایک ہفتہ کے اندر آرام آگیااور سب پریشانیاں اور فکر دور ہوگئے۔ الحمدللہ رب العالمین۔
16

یہ 1888ء کا واقعہ ہے جو حضور نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضور کو پچاس روپے کی ضرورت پیش آئی اور اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت حضور کے پاس کچھ نہ تھا اور جب صبح کے وقت حضور سیر کے لیے تشریف لے گئے تو اس ضرورت کے خیال سے طبیعت میں جوش پیدا ہوا کہ اس ضرورت کے لیے دعا کریں۔ پس حضور نے اس جنگل میں جاکر اس نہر کے کنارہ پر جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بہتی ہے دعا کی تو دعا کے بعد حضور کو عربی میں الہام ہوا جس کا ترجمہ ہے کہ:۔ "دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں "۔ تو حضور خوشی خوشی قادیان واپس آئے اور بازار کی طرف تشریف لے گئے تا کہ ڈاکخانہ جاکر معلوم کریں کہ کیا کو ئی رقم آئی ہے یا نہیں۔ چنانچہ وہاں حضور کو ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ لدھیانہ سے کسی نے پچاس روپے بھجوائے ہیں۔ اور پھر وہ روپیہ حضور کو اسی دن یا اگلے دن مل بھی گیا۔

٭
اب دیکھو بچو! یہ صرف چند پیشگوئیاں اور الہامات اور نشانات ہیں ورنہ اس قسم کے دس بیس یا سو دوسو نشان نہیں بلکہ ہزاروں نشانات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں ظاہر ہوئے جن کی اللہ تعالیٰ نے حضور کو قبل از وقت اطلاع دی اور جس کا حضور نے لوگوں میں اعلان کر دیا اور پھر بعینہٖ اسی طرح واقعہ بھی ہوا جس طرح حضور نے قبل از وقت اعلان فرمایا تھا۔ اور یہ نشانات اور الہامات حضور نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی کئی کتابوں میں درج فرمائے ہیں جن میں سے صرف دو کے نام ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کانام ہے "نزول المسیح"اور دوسری کانام "حقیقۃ الوحی"ہے۔ اور تمہیں بھی چاہئے کہ ان نشانات کو جو حضور کی ان کتابوں میں تفصیل سے درج ہیں دیکھو تا کہ آپ کے ایمان میں اور اخلاص میں اضافہ ہو۔

بچّو! یہ بات خوب یاد رکھو کہ بعض لوگ اندازے سے بھی کسی بات کے متعلق کہہ دیا کرتے ہیں اوروہ اسی طرح واقع بھی ہو جاتی ہے جیسے کوئی بادلوں کو آتے ہوئے دیکھ کر کہہ دے کہ آج بارش ہو گی اور بارش ہو بھی جائے۔ تو یہ خدا کی طرف سے پیشگوئی نہیں ہوگی۔ یہ تودنیا کے حالات دیکھ کر اندازہ ہوگا جو بعض اوقات پورا ہوجاتا ہے اور بعض اوقات نہیں ہوتا۔ خداکے پیارے بندے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر پاکر اعلان کرتے ہیں تو وہ یہ بات واضح طور پر اور کھول کر بتایا کرتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے خبر ہے۔ یہ خدا کی طرف سے الہام ہے۔ یہ خدا کی طرف سے نشان ہے اور پھر خدا اپنے قول کا سچا ہے اس کا کہنا کبھی غلط نہیں ہوتا اور اگر کوئی جھوٹ موٹ اپنی طرف سے اور اپنے دل سے ہی بنا کر یہ کہہ دے کہ خدا نے اسے یہ بات بتائی ہے حالانکہ اس نے بتائی نہ ہو تو پھر خدا کا غضب بھڑکتا ہے اور وہ اس کی سخت سزا دیتا ہے اس کا سارا سلسلہ تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔ اس کا خاندان ذلیل وخوار ہو جاتا ہے اور طرح طرح کی مصیبتیں اور بلائیں اسے گھیر لیتی ہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ اس نے خدا کے نام پر جھوٹ بولا۔

لیکن دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو واقعی خدا تعالیٰ نے ہی یہ غیب کی خبریں دی تھیں اسی لیے وہ سب کی سب پوری ہوئیں۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھو کہ اس قسم کے نشانات کو سچی آنکھ سے دیکھنے کے لیے پاک روح کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو سعید روحیں رکھتے تھے، وہ سب حضور پر ایمان لے آئے۔ حضور کی زندگی میں ہی یہ سلسلہ بڑھا، پھلا اور پھولا۔ حضور ایک چھوٹے سے دور دراز گاؤں میں پیدا ہوئے آپ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا اور نہ ہی آپ کی اپنی خواہش تھی کہ لوگوں میں شہرت پائیں لیکن خدا چاہتا تھا کہ آپ اسلام کی مدد اور حمایت کے لیے کھڑے ہوں اور اسی وجہ سے خدا نے آپ کی مدد فرمائی۔ اور آپ کو شہرت عطا کی۔ آپ کے خاندان کو عزت و برکت عطا کی۔ آپ کے اس ننھے سے گاؤں کو ترقیات عطا کیں اور دنیا کے دور دراز ملکوں میں اسے شہرت عطا کی۔ اور ملکوں کے لوگ اب اسی گاؤں میں کھنچے چلے آتے ہیں۔ آپ کو مال و دولت عطا کیا۔ اولاد دی اور اولاد بھی ایسی جس نے دین کی خدمت میں ساری عمر قربان کردی اور پھر ایسی جماعت عطا کی جو آپ پر ہزار جان سے قربان تھی۔ وہ تنہا شخص جو قادیان کے گمنام سے گاؤں میں اکیلا کھڑا ہوا۔ آج 117سال میں دنیا کے کناروں پر اس کے ماننے والے اوراس کے درجات کو بلند کرنے کے لیے دعائیں کرنے والے موجود ہیں۔ اس کی جماعت امریکہ میں موجود ہے یورپ میں بھی اس کے ماننے والے پائے جاتے ہیں۔ افریقہ کے لوگ اور جزائر کے رہنے والے آپ پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے موجود ہیں اور وہ وقت بھی تھا جب آپ کو ایک کتاب چھاپنے کے لیے چند سو روپوں کے مانگنے کی ضرورت پڑجاتی۔ اور آج یہ عالم ہے کہ آپ کا خلیفہ کسی مالی قربانی کا اسی جماعت سے مطالبہ کرتا ہے تو یہ جاں نثار جماعت کروڑوں روپے سے بھی زیادہ اس کے قدموں پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ کیا یہ ناکامی ونامرادی ہے یا اسے کامیابی اور کامرانی کہا جاتا ہے۔ کیا یہ شکست ہے یا فتحِ عظیم ہے کیا یہ ذلت ہے یا عزت ہے۔

بچو! یاد رکھو کہ باوجود اتنی مخالفتوں کے یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا اور اب بھی خدا کی برکتوں والا ہاتھ اس کے ساتھ ہے اور کوئی نہیں جو خدا کے اس سلسلہ کو بڑھنے سے اور پھلنے سے اور پھولنے سے روک سکے۔ یہ سلسلہ بڑھے گا اور ترقی کرے گا۔ خدا کی رحمتوں کا سایہ اس کے سر پر ہے۔ لیکن ہمیں بھی اور تمہیں بھی چاہئے کہ خود بھی نیک بنیں۔ دوسروں کو بھی نیکی کی نصیحت کریں۔ خود بھی اچھے احمدی بچے بن جائیں اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت کریں۔

مقدمہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک

سو سال پہلے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی طرف سے اقدام قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا ۔ مسلمان مولویوں بالخصوص محمد حسین بٹالوی صاحب اور آریوں نے عیسائیوں کی طرف سے اس مقدمہ میں جھوٹی گواہیاں دیں۔ حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بذریعہ الہام اس مقدمہ اور حکام کی طرف سے تہدید سے متعلق خبر دے دی تھی اور آپ کی باعزت بریت اور معاندین کی ذلت و اہانت کے متعلق بتا دیا تھا چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا ۔ اس مقدمہ سے متعلق حضور علیہ السلام نے اپنی تصنیف ’’ کتاب البریہ‘‘ میں تفصیل سے ذکر فرمایا ہے اور فرمایا کہ :۔ ’’ یہ حکم بری کرنے کا جو ۲۳ ؍ اگست ۱۸۹۷ ؁ء کو مجسٹریٹ ضلع کی قلم سے نکلا اور یہ نوٹس جو بطور تہدید لکھا گیا یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جن سے ہماری جماعت کو فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ ان کو ایک مدت پہلے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر ان دونوں باتوں کی خبر دی گئی تھی۔ اب انہیں سوچنا چاہئے کہ کیونکر ہمار ے خدا نے یہ دونو ں غیب کی باتیں پیش از وقت اپنے بندہ پر ظاہر کردیں۔ جن لوگوں نے یہ نشان بچشم خود دیکھ لیا ہے چاہئے کہ وہ ایمان اور تقویٰ میں ترقی کریں اور خدا کے نشانوں کو دیکھ کر پھر غفلت میں زندگی بسر نہ کریں‘‘۔( کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۳۰۱)
سو سال ہوئے کہ یکم اگست ۱۸۹۷ ؁ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف ایک پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے امرتسر (ہندوستان) کے ڈپٹی کمشنر جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی کہلاتا تھا ،کی عدالت میں ایک فوجداری مقدمہ دائر کیا کہ (نعوذباللہ ) آپ نے ایک شخص عبدالحمید کو ا س کے قتل کرنے کے لئے قادیان سے امرتسر بھیجا۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک عیسائیت کے اینگلیکن فرقہ کی چرچ مشنری سوسائٹی کی طرف سے ضلع امرتسر کے ایک گاؤں جنڈیالہ میں میڈیکل مشن کے انچارج تھے۔ وہ ایک پٹھان عورت کے بیٹے تھے جس نے ان کو پشاور کے مشن ہسپتال میں جنا تھا۔ انہو ں نے عدالت کو بتایا کہ ان کو اپنے باپ کے نام کا علم نہیں۔ایک بڑے پادری رابرٹ مارٹن کلارک نے لے پالک بنا کر ان کی پرورش کی اور ان کو اپنے نام مارٹن کلارک کے ساتھ ہنری نام دیا۔ انگریز بچوں کی طرح پرورش کی اور اعلیٰ تعلیم دلائی اور وہ ڈاکٹر ہو کر مشن کے ہسپتال کے انچارج بنا دئے گئے۔ مقدمہ انتہائی سنگین نوعیت کا تھا کیونکہ اقدام قتل کا کیس تھا جس کی انتہائی سزا پھانسی بھی ہو سکتی تھی۔ ایک عیسائی پادری نے الزام لگا یا ، انگریز پادری کا لے پالک ہونے کی وجہ سے انگریزی حکومت میں اعلیٰ حلقوں میں رسوخ حاصل تھا اس لئے ان کو زعم تھا کہ حکومت بھی ان کا ساتھ دے گی اور ایسے شواہد بھی موجود تھے جو آگے بیان کئے جائیں گے کہ واقعی حکومت کے ذمہ دار لوگ ذاتی حیثیت میں مقدمہ میں دلچسپی لے رہے تھے ۔

پس منظر

اس مقدمہ کا پس منظر یہ تھا کہ ۱۸۹۳ ؁ء میں جنڈیالہ میں پادری ہنری مارٹن کلارک نے مسلمانوں کو مناظرہ کا چیلنج دیا ۔ وہا ں احمدی کوئی نمایاں حیثیت میں تو نہ تھے لیکن مسلمانوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے درخواست کی کہ آپ اس چیلنج کو قبول فرمائیں۔ مختصر یہ کہ یہ مناظرہ ہوا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شرط یہ بھی چاہی کہ دونوں مذاہب اپنے زندہ مذہب ہونے کے ثبوت میں نشان نمائی کریں ۔ عیسائیوں نے پرانے نشانات پیش کرنا کافی سمجھا البتہ آپ کو اجازت دی کہ اگرآپ کوئی نیا نشان دکھائیں تو ان کو اعتراض نہ ہوگا۔ چونکہ جنڈیالہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اس لئے تجویز ہوئی کہ مناظرہ کسی بڑے شہر میں ہو ۔ چنانچہ فریقین کی رضامندی سے مناظرہ امرتسر میں ہونا قرار پایا۔ مئی کے مہینہ میں مناظرہ دو ہفتے تک جاری رہا۔ دونوں طرف سے تحریری پرچے پیش ہوتے جو مقرر ہ محدود تعداد میں حاضرین میں سنا دئے جاتے ۔ عیسائیوں نے نشانات الٰہیہ کا تمسخر بھی اڑایا اور حضور سے سنت اللہ کے خلاف نشان کا مطالبہ کیا ۔ حضور ؑ نے سنت اللہ کے مطابق نشان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور آخری پرچے میں حضور نے پیش گوئی فرمائی کہ دونوں فریقوں میں سے جو فریق حق کو جھٹلا رہا ہے وہ پندر ہ مہینے کے اندرہلاک ہو گا۔ بشرطیکہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایا کہ فریق مخالف کے مناظر عبداللہ آتھم اب آنحضرت ﷺ کی صداقت کا نشان دیکھیں گے کیونکہ انہوں نے آنحضور ﷺ کو اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں دجال لکھا ہے۔ اس لئے وہ اللہ کی قہری تجلی کا نشان بنیں گے۔ تو اسی وقت جائے مناظرہ میں عبداللہ آتھم نے اپنے کانوں کوہاتھ لگائے اور کہا کہ میں نے جان بوجھ کر نبء اسلام کی شان میں گستاخی نہیں کی ۔جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ان کی شان میں گستاخی کروں اور پھر وہ پندرہ مہینے بالکل خاموش رہے اور اسلام اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے خلاف ایک لفظ منہ سے نہ نکالا۔ بلکہ وہ یہی کہتے تھے کہ ان کو ہتھیار بند لوگ گھوڑوں پر سوار نظر آتے ہیں جو ان کو مارڈالیں گے ۔حالانکہ وہ سخت پہرے میں رہتے تھے اور کوئی آدمی ان کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔ آخری دو مہینے تو باقاعدہ پولیس کا پہرہ بھی رہا لیکن چونکہ ان کا ضمیر ان کو ملامت کرتا تھا اس لئے وہ نفسیاتی مریض ہو گئے۔ یہی ان کا رجوع بحق تھا ورنہ ہر ایک غیر مسلم پر عذاب نہیں آتا ۔ اس لئے وہ پندر ہ ماہ میں فوت نہ ہوئے۔ عیسائیوں اور مخالفین نے شورمچایا کہ پیش گوئی جھوٹی نکلی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان فرمایا کہ اگر عبداللہ آتھم قسم کھا کر کہہ دیں کہ انہوں نے مخالفت سے توبہ نہیں کی اور اب بھی اسلام کو جھوٹا مذہب اور آنحضرت ﷺ کو دجال سمجھتے ہیں تو وہ ایک سال میں مر جائیں گے۔ انہوں نے قسم نہ کھائی اور اس طرح ان کا رجوع حق ثابت ہوگیا۔ آخر ۲۷؍ جولائی ۱۸۹۶ ؁ء کو وہ فوت ہو گئے ا ور ایک پہلو سے پیشگوئی پوری ہوئی کہ فریقین میں سے حق کو جھٹلانے والا سچے کے سامنے فوت ہو جائیگا۔ ا س طرح مناظرہ کو کو عیسائیوں کا دیا ہوا نام ’’ جنگ مقدس‘‘ اسلام کے حق میں سچا ثابت ہوا۔

اس مناظرہ اور اس سارے مخاصمہ کے بانی مبانی ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک تھے ۔ انہوں نے مسلمانوں کو چیلنج کیا ۔ ان کا خیال تھا کہ کوئی مقابلہ پر نہیں آئے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چیلنج کو قبو ل فرما کر ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ عیسائی مناظر پندرہ روز ہ مناظرہ میں عیسائیت کو اسلام کے مقابلہ میں سچا مذہب ثابت نہ کر سکے۔ چنانچہ اس زمانہ میں ایک عیسائی امریکن مشنری نے اس مناظرہ کے بارے میں رپورٹ کرتے ہوئے ایک اخبار میں لکھا: The replies of the Christian debater had been inadequate کہ عیسائی مناظر کے جوابات بالکل ناکارہ تھے

علمی لحاظ سے بھی ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو مایوسی ہوئی ۔ ادھر ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ ؁ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آریہ سماجی ہندو لیڈر پنڈت لیکھرام کی موت بذریعہ قتل واقع ہوئی اور قاتل پکڑا نہ گیا۔ آریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر الزام لگایا کہ آپ نے قاتل بھیج کر لیکھرام کو قتل کروایا ہے۔ اس پر پولیس نے پوری کارروائی کی اور حضور کے مکانات کی اور قادیان میں خوب تلاشی ہوئی۔ آریوں کی نشاندہی پر مشکوک لوگوں کی پوچھ گچھ کی گئی، کوئی سراغ نہ ملا اور معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا اور حکومت نے مزید کوشش ترک کر دی۔ لیکن ڈاکٹر مارٹن کلارک پھر بھی پیچ و تاب میں رہے اور آخر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اقدام قتل کا الزام لگایا اور اس سازش میں اپنے ساتھ آریوں کو بھی ملا لیا حتیٰ کہ مولوی محمد حسین بٹالوی بھی اس میں شامل ہوگئے۔

عبدالحمید

اس سازش کا مزعومہ قاتل عبدالحمید جہلم کا رہنے والا نوجوان تھا۔ وہ ایک دفعہ قادیان حضرت مولانا نورالدین صاحب (خلیفۃ المسیح الاول) رضی اللہ عنہ کے پاس بغرض علاج آیا ۔ اس نے بتایا کہ وہ حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی کا بھتیجا ہے اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اس کے ساتھ شفقت کا سلوک کیا اور آپ کے علاج سے وہ ٹھیک بھی ہوگیا تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت کی خواہش ظاہر کی جو حضور نے نامنظور فرمائی۔ یوں بھی اکثر اوقات حضور ہر بیعت کنندہ کی بیعت پہلی درخواست پر قبول نہ فرماتے تھے بلکہ مزید تحقیق کا موقع دیا کرتے تھے لیکن یہاں یہ تصرف الٰہی کا کرشمہ تھا کیونکہ درخواست حضو ر کے ایک مقرب مرید صحابی مولوی برہان الدین کے بھتیجے نے کی اور سفارش حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے کی تھی۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ڈالا کہ بیعت قبول نہ کی جائے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ پھر قادیان آیا ۔ اس دفعہ اس کے تایا حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ بھی وہا ں موجود تھے ۔ انہوں نے اس کو وہاں دیکھ کر فرمایا کہ یہ یہاں کیوں آیا ہے اور پھر سب کو اس کے لچھن بتائے کہ بڑا لا ابالی قسم کا نوجوان ہے۔ کوئی کام نہیں کرتا ، آوارہ پھرتا رہتا ہے۔ کبھی کسی فرقے میں کبھی کسی فرقے میں جاتا ہے۔ حتی کہ ہندو اور عیسائی بھی بن چکا ہے ۔ اس کو اپنے حلوے مانڈے سے غرض ہے۔ جس کے پاس جاتا ہے وہاں اس کی نئے ہونے کی وجہ سے خاطر مدارات کی جاتی ہے۔ جب اس میں کمی آ جاتی ہے تو پھرکہیں جا کر کچھ اور بن جاتا ہے۔ اس کا ذکر غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی کیا اس لئے حضور نے اندر سے بذریعہ تحریر ارشاد فرمایا کہ اس کو یہاں نہ رکھا جائے ۔ چنانچہ اس کو جلد چلتا کیا گیا۔

عبدالحمید قادیان سے امرتسر میں امریکن مشن آیا ۔ وہاں پادری نورالدین اور انچارج پادری گرے سے ملا۔ اس نے کہا کہ میں ہندو پیدا ہوا تھا ، رلیا رام نام تھا پھرمسلمان ہوگیا اب قادیان سے آیا ہوں عیسائی ہونا چاہتاہوں۔ پادری گرے کو اس کی باتوں پر یقین نہ آیا تو پادری نورالدین کو کہا کہ اس کو کہو تمہاری مالی مدد نہیں کریں گے۔ اس پر نورالدین نے کہا کہ ا س کو پادری ہنری مارٹن کلارک کے پاس اینگلیکن مشن میں بھیج دیتے ہیں۔ یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کا خیال کیوں آیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کوہنری مارٹن کلارک کے خیال کا پتہ تھا کہ وہ کسی شخص کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہتا تھا جو یہ کہے کہ اس کو مرزا صاحب نے ہنری کو قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ چونکہ یہ ایک لالچی شخص تھا اس لئے یہ لالچ میں آ کر ایسا کردار ادا کرنے پر راضی ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے پاس چلا گیا۔

یہاں وہ تو یہ کہتا رہا کہ پہلے ہندو تھا پھر مسلمان ہوا اور اب قادیان سے یہاں عیسائی ہونے آیا ہے اور ہنری مارٹن کلارک کے ساتھ کے پادری عبدالرحیم وارث دین اور بھگت پریم داس اس کو یہی کہتے رہے کہ نہیں تم یہاں خون کرنے آئے ہو کیونکہ تم کہتے ہو کہ تم قادیان سے آئے ہو اس لئے ضرور تم کو مرزا صاحب نے ہنری مارٹن کلارک کو قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے اس کو اپنے ان ماتحت پادریوں کے ساتھ بیاس بھجوا دیا اور وہ اس کو ا س بات پر آمادہ کرتے رہے اسی عرصہ میں ڈاکٹر کلارک خود بھی بیاس آئے اور اپنے کیمرہ سے اس کی تصویر کھینچی۔ پھروہ امرتسر آیا یہاں بھی اس کی تصویریں فوٹو گرافر سے کھنچوائیں۔ فوٹو کیوں کھینچا اور اس کو کس طرح مزعومہ قتل کی سازش میں شر یک کیا گیا آگے مضمون میں بیان ہوگا۔ لیکن اس کے بہلانے پھسلانے ،ڈرانے دھمکانے میں کئی دن گذر گئے۔ اس عرصہ میں ڈاکٹر کلارک نے عبدالرحیم کو قادیان بھیجا۔ وہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام سے ملا اور آپ نے اس کو بتایا کہ عبدالحمید قادیان آیا تھا مگر لالچی آدمی ہے تم اس کو روٹی کپڑا دو تو وہ عیسائی ہو جائے گا۔ اور آپ نے بتایا کہ وہ مسلمان پیدا ہوا۔ پیدائشی نام رلیا رام نہ تھا۔
امرتسر ضلع سے وارنٹ گرفتاری

عبدالحمید کے راضی ہونے پر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے فوراً مارٹینو ڈپٹی کمشنر ضلع امرتسر کو جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی تھے درخواست دی جنہوں نے عبدالحمید اور ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے بیانات لے کر دفعہ ۱۱۴ ضابطہ فوجداری کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گرفتاری کے لئے وارنٹ جاری کر دیا اور ساتھ حفظ امن کے لئے ایک سال کے واسطے ۲۰ ہزار روپے کا مچلکہ اور بیس بیس ہزار کی دو ضمانتیں بھی طلب کیں۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ضلع گورداسپورتھا اس لئے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کو جو کیپٹن مانٹیگو ڈگلس تھے یہ وارنٹ وغیرہ بھجوا دئے کہ وہ اپنی ضلعی پولیس سے اس پر عمل کرا کے ملزم کو امرتسر بھجوا دیں۔ ادھر پادریوں نے اس خبر کو شہر میں پھیلا دیا اور ہر روز مخالفین نے امرتسر کے ریلوے سٹیشن پر جانا شروع کر دیا کہ وہ وارنٹ پر عملدرآمد خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ مارٹینو ڈپٹی کمشنر امرتسر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ملزم نے جہاں اقدام قتل کا ارادہ کیا اور اپنے ایجنٹ کوقتل پر آمادہ کر کے روانہ کیا وہیں کے ضلع میں مقدمہ درج ہونا چاہئے اور کارروائی وہیں ہونی چاہئے نہ کہ کسی اور ضلع میں۔ اس لئے اس نے تار بھیجا کو جو وارنٹ گرفتاری گورداسپور بھجوایا گیا ہے اسکو منسوخ سمجھا جائے اور کارروائی کے لئے کیس گورداسپور بھیجا جا رہا ہے۔ تارملنے پر کیپٹن ڈگلس حیران ہوا کہ یہ کون سا وارنٹ ہے کہ ضلع گورداسپور کے دفتر میں پہنچا ہی نہیں۔ اور پھر بعد میں اس وارنٹ کا پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ گیا کہاں۔

اتفاق سے اس دن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت چوہدری رستم علی صاحبؓ جو خود پراسیکیوٹر انسپیکٹر آف پولیس تھے گورداسپور آئے ہوئے تھے انہوں نے وارنٹ اور اس کی گمشدگی کے بارے میں سنا تو فوراً قادیان روانہ ہوگئے ا ور حضور اقدس کو اطلاع دی۔ جماعت قادیان کے احباب سخت پریشان ہو ئے کہ بہرحال آج نہ سہی کل پرسوں وارنٹ گرفتاری پہنچ جائے گا اور اس پر عمل بھی ہوگا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام باہر تشریف لائے تو آپ بالکل مطمئن تھے اور ہشاش بشاش ۔ فرمایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں بلکہ خوشی کی بات ہے کہ جو خبر ایک ہفتہ قبل خدا نے دی اس کے پورے ہونے کا وقت آ گیا ہے ۔ آپ لوگوں کو یاد ہوگا وہ الٰہی خبر یہ تھی:

مقدمہ سے متعلق پیشگوئی

’’ ۲۹؍ جولائی ۱۸۹۷ ؁ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ ۔۔۔میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی آواز ہے اور نہ اس نے کچھ نقصان کیا ہے بلکہ وہ ایک ستارہ روشن کی طرح آہستہ حرکت سے میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے ۔۔۔ اور جبکہ وہ قریب پہنچی تومیرے دل میں تو یہی ہے کہ یہ صاعقہ ہے مگر میری آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا سا ستارہ دیکھا ۔۔۔ اور مجھے الہام ہوا کہ ’’ ما ھذا الا تھدید الحکام ‘‘ یعنی یہ جو دیکھا اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہیں کہ حکام کی طرف سے کچھ ڈرانے کی کاروائی ہوگی۔۔۔ پھر بعد اس کے الہام ہوا ’’ قد ابتلی المومنون یعنی مومنوں پر ایک ابتلا آیا ‘‘۔

اسی طرح فرمایا: ’’ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق ( اور پھر اخیر حکم ابراء) یعنی بے قصور ٹھہرانا۔ پھر بعد اس کے الہام ہوا ’’و فیہ شی ء۔۔۔‘‘ پھر ساتھ اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ’ بلجت آیاتی‘ کہ میرے نشان روشن ہونگے‘‘ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۴۱)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے احباب کو تسلی دی اور نصیحت فرمائی کہ اب دعاؤں کاوقت ہے کہ ایک حصہ پیشگوئی کا پورا ہوا کہ ایک ضلع میں حکام نے کارروائی کی ہے جو خوفناک تھی لیکن ابھی اس کا اثر ظاہر نہیں ہوا،آگے بھی یہ بے اثر ہی ثابت ہواور بجائے کسی رسوائی کے یہ ابتلا ہمارے لئے ایک نشان الٰہی بن جائے اور مخالفین کی شکست اور ناکامی کا موجب بنے۔

کیس واقعی بڑی سنگین نوعیت کا تھا ۔ اگر وارنٹ گرفتاری گورداسپور پہنچ جاتا اور ضابطہ کی کارروائی میں کسی کو غلطی کا خیال نہ آتا تو تعجب کی بات نہیں۔ ایک دفعہ عمل درآمد ہو جاتا تو اگر بعد میں اس کے خلاف کارروائی بدل بھی جاتی پھر بھی دشمنوں کو دو دن کے لئے ہی سہی خوشی کا موقع مل جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بھی نہ چاہا اور ان کو جھوٹی خوشی بھی میسر نہ ہوئی ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ تھا جو اس مقدمہ کے شروع میں ظاہر ہوا۔

کیس کیپٹن ڈگلس کی عدالت گورداسپور میں

دو دن بعد کیس تفصیل کے ساتھ گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے آیا ۔ اس اثناء میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک بھی گورداسپور پہنچ گئے تا کہ کیپٹن ڈگلس پر بھی اپنا اثر و رسوخ اور اپنے چرچ کا اثر ڈالیں اور اپنی من پسند کارروائی کروائیں۔ لیکن کیپٹن ڈگلس ایک انصاف پسند حاکم تھے ۔ کیس کو دیکھتے ہی فیصلہ کیا کہ ساری کارروائی غلط ہوئی ہے۔ عبدالحمید جب اپنے ارادہ میں ناکام ہوا اور پادریوں نے اسے پکڑ لیا تو کیس پولیس کو جانا چاہئے تھا ۔ پھر مجسٹریٹ سے عبدالحمید کا ریمانڈ لیا جاتا۔ اور تفتیش پوری ہو کر کیس سیشن کے سپرد کیا جاتا ۔ نہ پولیس میں رپورٹ، نہ اقبالی ملزم کا ریمانڈ ، محض شبہ کی بنیاد پر ایک تیسرے شخص کی گرفتاری اور بیس ہزار کا مچلکہ اور بیس بیس ہزار کی د و ضمانتیں کیا نامعقول کارروائی ہے۔ انہوں نے کہا میں یہ کیس پولیس کو دیتا ہوں وہ تفتیش کی کارروائی کرے۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے کہا دراصل میں بیماری کی چھٹی پر جانا چاہتاہوں اس لئے میں چاہتاہوں کہ جتنی جلدی ہو سکے میرا ملزم جو قادیا ن کے مرزا صاحب ہیں گرفتار ہونا چاہئے۔ ڈگلس نے کہا اچھا تو میں مرزا صاحب کو اپنی عدالت میں بلاتا ہوں اور خود عبدالحمید اورمرزا صاحب کے بیانات سن کر فیصلہ کروں گا۔ اس کے لئے وارنٹ کی ضرورت نہیں صرف سمن کافی ہے اور امن قائم رکھنے کے لئے صرف ایک ہزار کامچلکہ اور ایک ہزار کی ضمانت مانگی جا سکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ۱۰؍ اگست ۱۸۹۷ ؁ء کو بجائے گورداسپور کے بٹالہ تحصیل سب ڈسٹرکٹ میں حاضر ہونے کاسمن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام مچلکہ اور ضمانت کے ساتھ جاری کیا۔ گویا یہ بھی الٰہی تصرف تھا کہاں گرفتاری اور بیس بیس ہزار کا مچلکہ اور دو ضمانتیں اور کہاں صرف سمن اور ایک ہزار کا مچلکہ ، ایک ہزار کی ایک ضمانت جس کے داخل کئے جانے کا فیصلہ بھی بہر حال بیانات کے بعد ہوگا۔

سماعت سے ایک روز قبل ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے ریڈر غلام حیدر صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مرید نہ تھے امرتسرسے واپس اپنے کام پر جانے کے لئے بٹالہ کی گاڑی میں بیٹھے تو دیکھا کہ اسی سیکنڈ کلاس کے ڈبے میں بیٹھنے کے لئے پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک جن کو گورے رنگ اور وضع قطع سے (یاد رہے کہ ہنری کو ایک یورپین پادری نے انگریز بچوں کی طرح پالا تھا) لوگ یوروپین ہی سمجھتے تھے ایک اوریوروپین کے ساتھ داخل ہوئے ۔ اتنے میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی آگئے۔ چونکہ غلام حیدر صاحب، ڈاکٹر ہنری کلارک اور مولوی صاحب تینوں ایک دوسرے سے واقف تھے اس لئے باتیں شروع ہوئیں اور غلام حیدر صاحب کو پتہ چلا کہ دونوں کسی کام سے ایک ساتھ جا رہے ہیں اور مولوی صاحب کا ٹکٹ بھی پادری صاحب نے خریدا ہے۔ جب ان دونوں کو پتہ چلا کہ غلام حیدر ان دنوں ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے ریڈر ہیں تو دونوں نے خوش ہو کر کہا ’’ تب تو شیطان کا سر کچلنے کے لئے آپ بہت کارآمد ہونگے‘‘ ۔ غلام حیدر صاحب نے کہا ’’ میں سمجھا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں‘‘ تب انہوں نے مقدمہ کے بارے میں بتایا۔ غلام حیدر صاحب کو بہت افسوس ہوا کہ مولوی صاحب دشمن اسلام کے ساتھ مل کر ایک ایسے شخص کے خلاف مقدمہ میں شریک ہیں جو عیسائیوں سے اسلام کے دفاع میں مقابلہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ عدالت کا معاملہ ہے میں اس میں مددنہیں دے سکتا ہاں اتنا کہہ سکتاہوں کہ جو شیطان ہے اس کا سر خود بخود کچلا جائے گا‘‘۔

دوسرے دن سماعت سے پہلے صبح نماز کے بعد غلام حیدر صاحب سیر کے لئے باہر نکلے تو مولوی فضل الدین صاحب وکیل بھی مل گئے ۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وکیل تھے۔ اگرچہ وہ ابھی احمدی نہ تھے ۔ دونوں باتیں کرتے کرتے اینگلیکن مشن کے پاس سے گزر ے جو ایک کوٹھی میں تھا جس میں گھاس کا لان تھا۔ گرمی کا موسم تھا اس لئے لوگ باہر ہوا میں بیٹھے تھے ۔دونوں کویہ دیکھ کرحیرت ہوئی کہ مولوی محمد حسین صاحب بھی پادریوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ اور لوگ تھے یہ سب ایک نوجوان کے ہاتھ پر پینسل سے کچھ نشانات لگا رہے تھے ۔ مولوی فضل الدین صاحب کو حیرت ہوئی کہ مولوی محمد حسین یہاں مرزا صاحب کے مقدمہ کے دن پادری صاحب کے پاس آئے ہیں اس پر غلام حید ر صاحب نے ان کو بتایا کہ کل یہ دونوں امرتسر سے ایک ساتھ آئے اور ٹکٹ بھی مولوی صاحب کا پادری صاحب نے خریدا۔ جو لوگ وہاں موجو د تھے ان میں مولوی فضل الدین صاحب نے لاہور کے ایک مشہور ہندو وکیل رام بھجدت کو بھی دیکھا گویا کہ عیسائی پادری ، آریہ وکیل اور مسلمان مولوی محمد حسین سب آپس میں مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف صف آرا تھے ۔ بعض پولیس والے بھی وہاں موجود تھے اس طرح کچھ پولیس کے اہلکار بھی ان کی مدد کر رہے تھے ۔

بٹالہ میں سماعت

وقت مقررہ سے ذرا پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مع اپنے خدام کے بٹالہ کی کچہری پہنچ گئے۔ دوسرے لوگ بھی آ گئے۔ کیپٹن ڈگلس جب احاطہ کچہری میں داخل ہوئے تو حضرت اقدس کو وہاں دیکھا۔ ضرور پتہ کیا ہوگا کہ یہ کون ہیں تو معلوم ہونے پر کہ یہی مرزا غلام احمد صاحب علاقہ کے رئیس ہیں ۔ دفتر کے کمرہ میں پہنچ کر انہوں نے اپنے اردلی سے حضور اقدس کو سلام بھجوایا (حیات احمد مصنفہ حضرت عرفانی صاحب)۔ گویا حضور کے پاکیزہ چہرہ کا ان کے دل پر ایک اثر ہوا۔ جب عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو حضور کو کرسی پر بیٹھنے کے لئے اشارہ کیا ۔ اس پر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے مولوی محمد حسین صاحب کے لئے کرسی کی سفارش کی کہ وہ مسلمانوں کے فرقہ اہل حدیث کے سرغنہ ہیں اور میرے گواہ ہیں۔ اس پرڈپٹی کمشنر نے غلام حیدر صاحب ریڈر کو کرسی نشینوں کی فہرست دیکھنے کو کہا ، اس میں ان کا نام نہ تھا۔ البتہ غلا م حیدر صاحب نے کہا کہ جب کبھی مولوی صاحب کو حکام سے ملنے کاموقع ہوتا ہے تو وہ ان کو دفتر میں کرسی دے دیا کرتے ہیں۔ مولوی صاحب عدالت میں موجود تھے اور انہوں نے بھی کرسی کا مطالبہ کیا۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ آ پ کانام ضلع کے کرسی نشینوں کی فہرست میں نہیں اس لئے کرسی پیش نہیں کی جاسکتی۔ اس پر مولوی صاحب نے کہا میں لاٹ صاحب یعنی گورنر پنجاب وغیرہ سے ملتا ہوں تو کرسی پر بٹھا کر بات کرتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا وہ نجی ملاقات ہوتی ہے یہ عدالت ہے۔ مولوی صاحب نے کچھ کہنا چاہا تو کیپٹن ڈگلس ڈی سی نے ڈانٹ کر کہا سیدھے کھڑے رہو اور زیادہ بک بک نہ کرو۔جوبیان مولوی صاحب نے دیا اس کا ذکر تو آئے گا لیکن وہ عدالت سے نکلے تو برآمدہ میں کرسی پر بیٹھ گئے ۔ چپراسی نے اس پر بھی نہ بیٹھنے دیا کہ کپتان صاحب پولیس کی اجازت نہیں۔ وہ وہاں سے اٹھے تو دیکھا کہ کچھ مسلمان چادر بچھا ئے بیٹھے تھے وہ اس کے ایک کونہ پر بیٹھ گئے ۔ جب ان مسلمانوں کو پتہ چلا کہ یہ مولوی صاحب مرزا صاحب کے خلاف پادریوں کے حق میں گواہی دینے آئے ہیں تو انہوں نے بھی اپنی چادر گھسیٹ لی اور کہا کہ مسلمانوں کے سرغنہ ہو کر جھوٹی گواہی دیتے ہو، ہمارے کپڑے کو ناپاک نہ کرو۔ اس پر غلام حیدر صاحب غیر احمدی کا بیان ہے کہ مولانا نورالدین صاحب نے مولوی صاحب کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’آپ یہاں ہمارے پاس بیٹھ جائیں۔ ہر چیز کی حد ہونی چاہئے ‘‘۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت و توقیر باوجود الزام لگنے کے اللہ تعالیٰ خود دکھا رہا تھا اور پادری صاحب کی کوئی بات اپنی مرضی کے مطابق نہ ہو رہی تھی اور مولوی محمد حسین صاحب کو ذلت و رسوائی مل رہی تھی اور مقدمہ کے فیصلے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہو رہی تھی کہ ایک شخص متنافس کی ذلت و ملامت خلق۔

بیانات شروع ہوئے عبدالحمید کا بیان وہی تھا کہ اس کو مرزا صاحب نے پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو مارنے کے لئے امرتسر بھیجا تھا لیکن اس کے بیان کی تفصیل میں اس بیان سے جو اس نے امرتسر میں وہاں کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مارٹینو کی عدالت میں دیا تھا بہت فرق تھا ۔ بلکہ جو بات اس نے ہنری مارٹن کلارک کو بتائی کہ بٹالہ کا پیدائشی ایک برہمن ہندو ہوں جس کو مرزا صاحب نے مسلمان کیا ۔ ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر مارٹینو کے سامنے نہ کہی بلکہ وہاں اس نے اپنے آپ کو سلطان محمود کا بیٹا جہلم کا رہنے والا بتایا۔ ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کیپٹن ڈگلس کے سامنے کہا میں پہلے مسلمان تھا اب میں عیسائی ہونا چاہتا ہوں جبکہ مارٹینو ڈپٹی کمشنر امرتسر کو کہا کہ میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے پاس اس کے قتل کرنے کے ارادے سے گیا تھا کیونکہ مرزا صاحب نے کہا تھا کہ مسلمان کا عیسائی کو قتل کرنا جائز ہے۔ تو گویا جب ڈاکٹر کلارک کو کہا کہ میں عیسائی ہونا چاہتا ہوں تو وہ دھوکہ دہی کے لئے تھا لیکن اب کیپٹن ڈگلس ڈپٹی کمشنر کے سامنے متلاشی عیسائی کیوں کہا ۔ مارٹینو کے سامنے بیان میں کہا کہ مرزا صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’ ڈاکٹر کلارک کو قتل کرنے کے بعد قادیان چلے آنا تم بالکل محفوظ رہو گے‘‘۔ جبکہ کیپٹن ڈگلس کے سامنے کہا کہ ’’ امرتسر میں ایک شخص قطب الدین مرید مرزا صاحب کاہے۔ مرزا صاحب نے بتلایا تھا کہ تم اس کے پاس جانا وہ تمہیں قادیان پہنچا دے گا‘‘۔ کیا تضاد ہے ۔ پہلے ایک دم قادیان چلے آنا کہیں نہ جانا۔ دوسری دفعہ قطب الدین کا نام لیا کہ اس کے پاس جانا۔ قادیان موقع مصلحت کے مطابق پہنچانا اس کا کام ہوگا۔ تو یہ بات پہلے کیوں نہ کہی۔ کہیں اپنے باپ کا نام سلطان محمود بتایا اور کہیں لقمان بتایا ۔

غلام حیدر صاحب کا بیان ہے کہ چونکہ مولوی فضل الدین وکیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۱۰؍ اگست کی صبح کو بٹالہ میں عبدالحمید کو اینگلیکن مشن ہاؤس میں دیکھ چکے تھے جہاں ا س کے ہاتھ پر پنسل سے کچھ لکھا جا رہا تھا یا نشان لگائے جا رہے تھے اس لئے جب انہوں نے عدالت میں عبدالحمید سے مشن ہاؤس میں اور رام بھجدت وکیل اور بعض پولیس والوں کے ساتھ ہونے کے بارے میں سوال کیا تو عبدالحمیدنے اس کوتسلیم کیا۔ اسی طرح مولوی فضل الدین صاحب یہ بات بھی عدالت کے نوٹس میں لائے کہ عبدالحمید کے ہاتھ پر پنسل سے اس کی یادداشت کے لئے کچھ اشارے بھی اسی دن صبح بنائے گئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بیان خود اس کا نہیں بلکہ اس کو سکھایا پڑھایا گیا کہ تم مرزا صاحب کے خلاف اقدام قتل کا الزام لگاؤ کہ انہوں نے تمہیں پادری ہنری مارٹن کلارک کو مارنے کے لئے بھیجا تھا ۔

ا س کے بعد ڈاکٹر پادری ہنری مارٹن کلارک کا بیان ہوا۔ اس میں امرتسر والے بیان سے بعض باتیں مختلف تھیں بلکہ عبداللہ آتھم کو نفسیاتی طور پر خوف میں گھوڑے سوار اور ہتھیار بند لوگ نظر آتے یا سانپ بچھو نظر آتے ۔ یہ سب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کئے کہ آپ انہیں بھیجتے تھے جو کمال ہوشیاری سے آتھم کو ڈرا کر اس کے پہرہ داروں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہوئے بھاگ جاتے تھے( حالانکہ آخری دو ماہ تو وہ پولیس کی حفاظت میں تھے )۔ خود انہوں نے اپنے بارے میں کہا کہ مجھ کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ میرے بارے میں بھی پیشگوئی کی گئی ہے ۔مجھ کو ڈسنے کے لئے سانپ بھی بھیجا گیا جو مارڈ الا گیا وغیرہ ۔ انہوں نے لیکھرام کے قتل کے بارے میں پیشگوئی کا ذکر کر کے اس کے قتل کا ذمہ دار بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ٹھہرایا (حالانکہ اس کے لئے پولیس تفتیش ہوئی ۔ آریوں نے جس جس پر شک کیا اس سے پوچھ گچھ ہوئی لیکن پھر بھی کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا) ۔ وکیل مولوی فضل الدین صاحب نے ان پر سوال کر کے خود ان کی زبان سے کہلوایا کہ رام بھجدت نے ان سے کوئی فیس نہیں لی۔ گویا وہ بھی لیکھرام کے انتقام میں اس سازش میں شریک تھے۔

اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان ہوا جو سادہ الفاظ میں مختصر تھا ۔ فرمایا :

’’ ہم نے کبھی پیشگوئی نہیں کی کہ کلارک صاحب مر جائیں گے ۔ ہر گز ہمارا منشاء کسی لفظ سے یہ نہ تھا کہ صاحب موصوف مرجاویں گے۔ عبداللہ آتھم کی بابت ہم نے شرطیہ پیشگوئی کی تھی کہ اگر رجوع بحق نہ کرے گا تو مر جاوے گا۔ عبداللہ آتھم صاحب کی درخواست پر پیشگوئی صرف اس کے واسطے کی تھی ۔ کل متعلقین مباحثہ کی بابت پیشگوئی نہ کی تھی ۔ لیکھرام کی درخواست پر اس کے واسطے بھی پیشگوئی کی گئی تھی۔ ہم نے کی تھی چنانچہ پوری ہوئی‘‘۔

اس کے علاوہ ایک بیان ۲۰؍ اگست کو بھی ہوا وہ ذرا تفصیل سے تھا ۔ اس میں یہی باتیں دہرائیں البتہ عبدالحمید کا ذکر بھی تھا۔ فرمایا :

’’ عبدالحمید کو ایک دفعہ میں نے مسجد میں دیکھا تھا کسی شخص نے ذکر کیا تھا ۔ یہ شخص عیسائی ہو گیا تھا اب یہاں آیا ہے۔ میرے ساتھ اس کی کوئی گفتگو نہ ہوئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کس نے اس کو مزدوری کا کام دیا تھا۔ میں نے کوئی کام نہیں دیا تھا۔ میں نے سنا تھا کہ عبدالحمید اچھے چال چلن کا لڑ کا نہیں ہے۔ اس لئے میں نے گھر سے رقعہ لکھ کر بھیج دیا تھا کہ اس کو نکال دینا چاہئے ۔ مجھے پھر خبر نہیں کہاں چلا گیا تھا ۔ میں نے ایک پیسہ تک اس کو جاتے ہوئے نہیں دیا۔ نہ امرتسر بھیجا ‘‘۔ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۰۶)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ آپ کی طرف سے حضرت مولانا نورالدین ( خلیفۃ المسیح الاول) رضی اللہ عنہ اور جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کے بیانات ہوئے جو سادہ اور بے لاگ تھے ۔ عبدالحمید کے قادیان جانے کا ذکر تھا۔ عبدالحمید کا حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے مولوی برہان الدین صاحب کا بھتیجا ہونے کے سبب علاج کیا ۔ بیعت کی درخواست منظور نہیں ہوئی ۔ مولوی برہان الدین صاحب نے بتایا کہ نکما ہے۔ اس کو نکال دو یہ تکلیف کا باعث بنے گا۔ میں نے اس کو دو آنے دئے تھے۔ مرز اصاحب نے اس کو کچھ نہیں دیا تھا ۔ سنا تھا کہ لڑ کر گیا ہے۔ وغیرہ ۔

شیخ رحمت اللہ صاحب نے بھی بتایا کہ مجھ سے میری دوکان پر ملا تھا۔ کہتا تھا مولوی برہان الدین صاحب کا بھتیجا ہوں پہلے عیسائی ہو گیا تھا اب پھر مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ قادیان جانے کیلئے کرایہ مانگا ۔ میں نے آٹھ آنے دئے ۔ سنا تھا کہ قادیان گیاتھا۔ اس کے بعد میں نے نہیں دیکھا۔ دونوں نے بتایا کہ مرزا صاحب گھر کے اندر کسی سے نہیں ملتے۔ مسجد میں آتے ہیں یا سیر کو جاتے ہیں۔ یہ بات اس لئے کہی کہ عبدالحمید کا بیان تھا کہ اس کو مرزا صاحب گھر کے اندر بلایا کرتے تھے اور وہ آپ کو دبایا کرتا تھا۔ اور کلارک کو قتل کرنے کی بات بھی گھرمیں کہی تھی۔ یہ گھڑی ہوئی بات تھی۔

غلام حید ر صاحب کہتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر ڈگلس نے مولانا نورالدین کی سادہ باوقار شخصیت اور بے لاگ بیان سے نیک اثر لیا اور آپ کو حضرت عیسیٰ کے مشابہ قرار دیا ۔ دراصل یہ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسیہ کا بالواسطہ اعتراف تھا جو اللہ تعالیٰ نے ڈگلس کی زبان سے کرایا ۔ آخر وہ عیسوی جھلک جو انہو ں نے دیکھی کہاں سے آئی۔ حقیقت یہی ہے کہ’’ جمال ہم نشیں در من ا ثر کرد۔۔۔ ‘‘ کا کرشمہ تھا ۔ اگر ایسی بات کرسی عدالت پر بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں ان کے منہ سے نکلتی تو ایسے اظہار سے ان کے انصاف پر حرف آ جاتا ۔

بٹالہ میں سماعت تین دن ہوئی ۔ استغاثہ کے کئی گواہ آئے جو سب پادری کلارک کے ماتحت عملہ کے آدمی تھے۔ اس لئے ان کی گواہیاں مشتبہ رہیں۔ وہ موقع کے گواہ تو تھے لیکن یہی بات زیر بحث تھی کہ سازش امرتسر میں بنی یا قادیان میں۔ موقع کا گواہ قادیان کا ہوتا تو بات بنتی۔ جس سے عبدالحمید کے بیان کی تائید ہوتی۔ بقول عبدالرحیم پادری وہ قادیان گیا تھا لیکن اس کے بیان میں بھی قادیان کے ذکر سے کوئی بات وہاں سازش کے بنائے جانے کے حق میں نہ ملی۔ پادری عبدالرحیم کی قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ا لگ اکیلے میں ملاقات بنائی ہوئی بات تھی۔

ان گواہوں کے علاوہ ایک گواہ پادری صا حب کے حق میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی تھے جن کے کرسی کے مطالبہ کا ذکر پہلے آ چکا ہے ۔ انہوں نے پادری صاحب کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنے مخالفین کے مرنے کی پیشگوئیوں کا الزام لگایا ۔ اور کہا کہ یہ باتیں جھوٹی بھی نکلیں اور جو سچی ہوتی ہیں وہ دراصل یہ قتل کرا دیتے ہیں جیسے لیکھرام کے ساتھ ہوا۔ ( اس طرح مولوی صاحب نے ایک دشمن اسلام کے مرنے پر واویلا مچایا اور ہندوؤں کی ہمنوائی کی)۔ اب یہ پادری ہنری مارٹن کلارک کو قتل کر ا کے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ میری پیشگوئی پوری ہو گئی وغیرہ ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مولوی صاحب کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے بارے میں عیسائیوں کی گندہ دہنی پر کوئی غیرت نہ تھی۔ اس پر کیپٹن ڈگلس نے لکھا:

I consider sufficient evidence has been recorded regarding the hostility of the witness to the Mirza and there is no necessity to stray further from the main lines of the case
( کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۵۴)

یعنی میرے خیال میں مرزا صاحب کے خلاف گواہ کی عداوت کے بارے میں کافی شہادت قلمبند ہو چکی ہے اور مقدمہ کی اصل کاروائی سے ہٹنے کی اب چنداں ضرور ت نہیں۔

غلام حیدر صاحب ریڈر ڈپٹی مجسٹریٹ کے بیان کے مطابق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل مولوی فضل الدین صاحب نے مولوی محمد حسین صاحب پر جرح کے دوران سوال کیا کہ کیا آج صبح آپ پادری کلارک کے ساتھ ان کے مشن ہاؤس میں نہیں تھے؟ یہ سوال اس لئے پوچھا کہ مولوی صاحب نے بیان میں کہا کہ وہ پادری صاحب سے آخری بار ۱۸۹۵ ؁ء میں ملے تھے ۔ مولوی صاحب نے جواب انکار میں دیا۔ اس پر غلام حیدر صاحب چونک پڑے۔ کیپٹن ڈگلس نے چونکنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے پادری صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ کیپٹن صاحب نے ان سے پوچھا تو انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔ پھر وکیل فضل الدین صاحب نے سوال کیا کہ آپ امرتسر سے بٹالہ پادری صاحب کے ساتھ آئے اور آپ کا ریل کا ٹکٹ بھی پادری صاحب نے خریدا۔ مولوی صاحب نے پھر انکار کیا ۔ اس پر غلام حیدر صاحب کی زبان سے نکلا یہ جھوٹ ہے۔ ڈگلس صاحب نے پھر پادری صاحب سے پوچھا تو انہوں نے اقرار کیا ۔ مولوی محمد حسین صاحب تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جھوٹا کہہ رہے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی پردہ دری کر دی اور خود ان کے منہ سے ان کا جھوٹا ہونا ثابت کر دیا لیکن جس کو وہ جھوٹا کہہ رہے تھے اس کے اخلاق کریمانہ کا سکہ وہیں عدالت میں سب کے دلوں پر بٹھا دیا۔ ہوا یوں کہ مولوی فضل الدین صاحب وکیل نے مولوی صاحب سے معذرت کے ساتھ ایک ایسا سوال کرنا چاہا جس کی زد مولوی صاحب کے اخلاقی کردار پر پڑتی تھی۔ غلام حیدر صاحب کہتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنی کرسی سے اٹھے اور فضل الدین صاحب کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا کہ’’ میری طرف سے یہ سوال کرنے کی نہ ہدایت ہے نہ اجازت ۔ آپ اپنی مرضی سے بہ اجازت عدالت اگر پوچھنا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے‘‘ ۔ ڈگلس صاحب نے اجازت تو نہ دی لیکن ان کو یہ دلچسپی ضرور ہوئی کہ یہ کیا بات ہے۔ انہوں نے ریڈر غلام حیدر صاحب سے عدالت بر خاست کرنے کے بعد پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں معلو م کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ انہوں نے جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کے ذریعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کرایا تو غلام حیدر صاحب لکھتے ہیں کہ حضور نے نہایت افسوس کے ساتھ فرمایا ’’ مولوی محمد حسین صاحب کے والد کا ایک خط ہمارے قبضہ میں ہے جس میں کچھ نکاح کے حالات ہیں اور مولوی محمد حسین صاحب کی بدسلوکیوں کے قصے ہیں جو نہایت قابل اعتراض ہیں۔ ہم ہر گز نہیں چاہتے کہ اس قصہ کا ذکر مسل پر لایا جائے یا ڈپٹی کمشنر صاحب اس سے متاثر ہو کر کوئی رائے قائم کریں‘‘۔

پھر غلام حیدر صاحب نے لنچ والے کمرہ میں جا کر کیپٹن ڈگلس کو سارا ماجرا کہہ سنایا ۔ اس وقت ڈاکٹر پادری ہنری مارٹن کلارک بھی موجود تھے ۔ پادری صاحب تو بہت ہنسے ۔ ڈگلس صاحب نے کہا یہ امر توہمارے اختیار میں ہے کہ ہم اس ماجرے کو قلمبند نہ کریں مگر یہ بات ہمارے اختیار سے باہر ہے کہ ہمارے دل پر اثر نہ ہو۔ (ڈاکٹربشارت احمد، مجدد اعظم صفخہ ۵۴۱ تا ۵۴۴)

ایک بات یہ بھی ظاہر ہے کہ پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو حکومت میں اتنا اثر حاصل تھا کہ ڈپٹی کمشنر بھی باوجود ان کے فریق مقدمہ ہونے کے ان کو اپنے ساتھ لنچ کرنے سے انکار نہ کر سکے۔ پھر کیوں نہ ان کو زعم ہوتا کہ وہ اقدام قتل کی جھوٹی سازش کریں تب بھی مقدمہ میں وہ کامیاب ہونگے۔
حقیقت کا اظہار

مقدمہ کی کارروائی کے بعد ڈپٹی کمشنر ڈگلس بہت پریشان تھے۔ ان کی پریشانی اتنی عیاں تھی کہ ان کے ریڈر غلام حیدر صاحب نے پوچھ ہی لیا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ اتنے پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرزا صاحب اپنی شکل سے معصوم نظر آتے ہیں۔ ایسا شخص ایسے جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔عبدالحمید کا بیان جگہ جگہ بدلا ہوا ہے۔ امرتسر میں اور پھر یہا ں بھی اس نے کئی بیان دیے ان میں فرق ہے لیکن ہر بیان میں وہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے اسے پادری ہنری کلارک کوقتل کرنے کے لئے بھیجا۔ ا س پر ریڈر صاحب نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ وہ قتل کے ارادے سے پادری صاحب کے پاس جانے کا اقراری ہے پھر بھی انہی کے پاس رہ رہا ہے اس کو تو پولیس کی کسٹوڈی میں ہونا چاہئے ۔ یہ بات ڈگلس صاحب کی سمجھ میں آ گئی ۔ جب عبدالحمید نے اپنا پہلا بیان ڈگلس صاحب کی عدالت میں قلمبند کروایا تو آخر میں کہا کہ ’’ اس کو جان کا خطرہ ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر کہا کہ وہ اپنی حفاظت میں رکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ مسل پر ڈگلس صاحب نے لکھا ’’ گواہ کو اجازت ڈاکٹر صاحب کے پاس رہنے کی دی گئی‘‘۔(کتاب البریہ صفحہ۲۱۱)۔

اب ڈگلس صاحب ان کی چال سمجھ گئے فوراً ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (DSP) لی مارچنڈ کو بلایا اور سارا قصہ سنا کر مشورہ کیا ۔ انہوں نے کہا آپ اپنا پہلا حکم عارضی طور پر منسوخ کردیں اور لڑکے کو ہمیں اپنے پاس لانے دیں۔ اگر ضرور ت ہوئی تو پھر ہم آپ سے ریمانڈ لے لیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اب عبدالحمید پولیس کے پاس لایا گیا ۔ مگر ڈی ایس پی اس وقت مصروف تھے انہوں نے انسپیکٹر جلال الدین سے کہا کہ اس سے پوچھ گچھ کرو۔ ان کو تو وہ دو گھنٹہ تک وہی پرانی بات دہراتا رہا آخر انہوں نے ڈی ایس پی سے کہا کہ یہ کچھ اور نہیں بتاتا وہی پرانی کہانی سناتا ہے ۔ اگر کہیں تو اس کو واپس چھوڑ آئیں۔ اب ڈی ایس پی لی مارچنڈفارغ تھے ۔ انہوں نے کہا اس کو میرے پاس لاؤ۔ ان کو بھی دو صفحے پرانا قصہ لکھواتا رہا۔ اس پر انہوں نے کہا دیکھو یہ بات تو پہلے سنا چکے ہو۔ تمہارے پہلے بیانات میں اختلافات ہیں۔ اگر اصل مجرم نہ پکڑا گیا تب بھی تم تو اقراری ہو کہ قتل کی نیت سے ڈاکٹر پادری صاحب کے پاس گئے تم کو سزا ہوجائے گی۔ بہتر ہے حقیقت بتا دو ۔ اس پر وہ روتے ہوئے ان کے قدموں میں گر پڑا اور کہا صاحب مجھ کو بچا لو۔ اصل میں تو میں مسلمان پیدا ہوا ہوں۔ کئی مذہب بدلے پھر دوبارہ مسلمان ہوا۔ اور اس کے بعد قادیان گیا وہاں مرزا صاحب نے میری بیعت قبول نہ کی اس لئے اب پھر عیسائی ہونے کے لئے پہلے امرتسر میں امریکی مشن گیا۔ وہاں پادری گرے صاحب نے مجھ کو قابل اعتبار نہ سمجھا اور اپنے ماتحت پادری نور دین کے سپرد کیا کہ اپنے خرچ پر ہم سے عیسائیت کی تعلیم لے تو رکھ لو ورنہ چلتا کرو۔ انہوں نے مجھ کو پادری ہنری مارٹن کلارک کے پاس بھیج دیا کہ وہ تم کو مفت رکھیں گے ، کھانا کپڑا دیں گے اور دوسرے اخراجات کے لئے بھی مدد کریں گے۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ عیسا ئی ہونا چاہتا ہوں۔ قادیان سے آیا ہوں ۔ انہوں نے فوراً اپنے شفا خانہ میں کام کرنے کے لئے مجھ کوپادری عبدالرحیم کے سپرد کیا ۔ یہاں عبدالرحیم نے مجھ کو ورغلایا اور کہا کہ تم یہاں قتل کرنے آئے ہو اور مجھ کو ڈاکٹر پادری ہنری مارٹن کلارک کے پاس لے گیا۔ وہ میرے ساتھ ہنسی مذاق کرتے رہے اور فوٹو کھینچ لیا اور پھر بیاس بھیج دیا ۔ ہاں پادری عبدالرحیم ، وارث دین اور پریم داس نے مجھے بہلایا پھسلایا۔ جب میں قتل کے ارادہ سے آنے کا بیان دینے پر راضی نہ ہوا تو انہوں نے ڈرایا کہ اب تو تمہارا فوٹو بھی لے لیا ہے کہا ں بھاگ کر جاؤ گے۔ پولیس فوٹو کی مدد سے پھر گرفتار کر لے گی۔ اگر تم ابھی بیان دے دو کہ تم کو مرزا صاحب نے ڈاکٹر پادری صاحب کو مارنے کے لئے بھیجا ہے تو چونکہ ڈاکٹر صاحب کا حکومت میں بڑا اثر و رسوخ ہے وہ تم کو بچا لیں گے اور اصل مجرم مرزا صاحب قرار پائیں گے۔ تم عیش سے ہمارے ساتھ رہنا ۔

وہ تو تھا ہی لالچی وہ راضی ہوگیا۔اس کے راضی ہونے پر جلد باز ی سے کام لیتے ہوئے اس کو امرتسر میں ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مارٹینو کے سامنے پیش کیا گیا اور مقدمہ درج کر کے مرزا صاحب کے وارنٹ گرفتاری جار ی کر دئے ۔ عبدالحمید نے مزید کہا کہ اس کے بعد ان لوگوں نے رام بھجدت وکیل کو لاہور سے بلایا اور میرا وہ بیان تیار کیا گیا جو بٹالہ میں پہلی بار دیا۔ اس میں مجھ کو بتایا گیا کہ مرزا صاحب کا مرید قطب الدین امرتسر میں ہے تم کہنا کہ مرزا صاحب نے اس کے پاس چھپنے کے لئے کہا تھا ۔ رام بھجدت نے کہا تم پرندے نہیں ہو کہ اڑ کر پہنچ جاؤ قطب الدین کے گھر کا راستہ تم کو معلوم ہونا چاہئے۔ چنانچہ بٹالہ میں میرے ہاتھ پر قطب الدین کا نام پتہ اور اس کے نشانات بنائے گئے۔ ہر روز مجھ کو نئے سے نیا بیا ن سکھایا جاتا ۔ چنانچہ یہاں بتایا کہ میں کہوں کہ مرزا صاحب نے گھر میں ایک کمرہ میں لے جا کر ہنری کو قتل کرنے کو کہا اور کہا کہ اب تم قادیان مولوی نورالدین کو خط لکھ دو کہ تم امرتسر میں ہو اور اب تم عیسائی ہو رہے ہو۔ اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میں کہوں کہ میں نے اپنا ارادہ اس لئے بدلا کہ میرا وہا ں قادیان میں جھگڑاہو گیا اور میں مرزا صاحب کو گالیاں دے کر آ گیا۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ دو آدمیوں سے تکرار ضرور ہوئی تھی۔ میں نے مرزا صاحب کو گالیاں نہیں دی تھیں۔ یہ سب بیان انہوں نے مجھ سے دلوائے۔ انہوں نے بٹالہ میں میرے بیان میں یہ بھی اضافہ کیا کہ میں اندر گھر میں جا کر مرزا صاحب کو دبایا کرتا تھا۔ حالانکہ میں کبھی ان کے مکان میں نہیں گیا۔ صرف ایک بار مسجد میں ان کو دیکھا تھا ۔ انہوں نے مجھے ڈاکٹر پادری ہنری مارٹن کلارک کو قتل کرنے کے لئے نہیں کہا۔

چونکہ عبدالحمید نے امریکن مشن جانے کا ذکر کیا تھا اس لئے لی مارچنڈ، ڈی ایس پی نے پادری گرے سے تحریری بیان لے کر عدالت میں پیش کر دیا جس میں پادری گرے نے یہ تسلیم کیا کہ وہ یعنی عبدالحمید ا ن کے پاس آیا تھا۔ اور عیسائی ہونے کو کہتا تھا ۔ میں نے کہا پہلے میں اس کو عیسائیت کی تعلیم دلواؤں گا چاہے وہ رو زانہ آئے یا ہفتہ میں ایک دو دن۔ لیکن اس نے دریافت کیا کہ گذارہ کی کیا صورت ہوگی ۔ اس پر میں نے کہا میں ایک پیسہ بھی گذارہ کے لئے نہیں دونگا۔ اس بات سے ان کو خیال ہوا کہ وہ ایک نکمااور مفتری آدمی ہے جو ان سے روپیہ یا خوراک کا گزارہ چاہتا ہے۔ ڈی ایس پی لی مارچنڈ نے عبدالحمید کاریمانڈ لے کر اس کو پولیس کی نگرانی میں آئندہ سماعت کو گودارسپور میں پیش کیا ۔ اسی طرح پادری نورالدین نے ۲۲؍اگست کو عدالت میں یہ بیان دیا کہ گرے صاحب نے عبدالحمید کو عیسائیت کی تعلیم دینے کے لئے ان کے پاس بھیجا لیکن چونکہ ہمارے ہاں اس کو روٹی کپڑا نہیں ملتا تھا عبدالحمید نے پھر دوسرے مشنوں کے بارے میں پوچھا تھا ۔ پادری نورالدین نے کہا کہ شاید ڈاکٹر کلارک صاحب کے مشن کا ذکر بھی ہوا۔ مگر ڈاکٹر صاحب کا صریح ذکر نہیں ہوا تھا۔ مجھ سے اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ مرزا صاحب کی طرف سے آیا ہے مگر کہا کہ وہ مرزا صاحب کا شاگرد ہے۔ اپنے پہلے ہندو ہونے کا ذکر بھی کیا تھا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے پادری نورالدین محتاط بیان دے رہے تھے یہ اقراری ہیں کہ عبدالحمید نے دوسرے مشنوں کے بارے میں پوچھا۔ یہ بھی مانتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک کے مشن کا ذکر ہوا پھر ایک دم وہ خود پادری ہوتے ہوئے ڈاکٹر کلارک کا صریح ذکر ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی طرف سے آنے کا ذکر نہیں کیا پھرکہتے ہیں کہ اس نے کہا کہ وہ مرز ا صاحب کا شاگرد ہے۔گویا سچی بات بھی ان کو معلوم ہے۔ لیکن سچ کو چھپانا بھی چاہتے ہیں۔ لیکن یہ ثابت ہے کہ دونو ں امریکن مشن سے متعلق پادری صاحبان اس کو ایک مفتری اور نکما سمجھتے تھے جو پیسے اور گذارہ کے لئے ان کے پاس گیا تھا بلکہ حضرت یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ ایڈیٹر الحکم نے اپنے صحافتی ذرائع سے معلوم کیا کہ نورالدین نے اس کو ہنری کا تحفہ کہہ کر اینگلیکن مشن میں بھیجا تھا۔ (حیات احمد مصنفہ عرفانی صاحب)

فیصلہ

اب کیپٹن ڈگلس ڈپٹی کمشنر اور دسٹرکٹ مجسٹریٹ کے لئے کسی نتیجہ پر پہنچنا آسان ہوگیا۔ چنانچہ ۲۳؍ اگست ۱۸۹۷ ؁ء کو فیصلہ لکھا :’’ جہاں تک ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ سے تعلق ہے ہم کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ غلام احمد سے حفظ امن کے لئے ضمانت لی جائے یا یہ کہ مقدمہ پولیس کے سپرد کیا جائے ۔ لہذا وہ بری کئے جاتے ہیں‘‘۔

(کتاب البریہ روحانی خزائن ایڈیشن ۱۹۸۴ء جلد ۱۳ صفحہ ۳۰۰ ۔ ۳۰۱)

انہوں نے اپنے فیصلے کی مندرجہ ذیل وجوہات لکھیں:

۱۔ خود عبدالحمید ایسی جانبازی اورذمہ داری کے کام کے لائق نہیں وہ ۔۔۔ ایک کمزور دل کا نوجوان ہے ۔۔۔۔

۲۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ غلام احمد نے صرف اس کو قریب دو ہفتے کے دیکھا ۔ بڑے سے بڑا وقت یہی ہے۔ وہ ایسے تھوڑے عرصہ میں کافی طور سے ایسی واقفیت پیدا نہیں کر سکتے تھے کہ ایسے نازک کام کے لئے اس پر بھروسہ کرتے ۔نہ یہ بات ہے کہ وہ اس پر کوئی بڑا اثر پیدا کر سکے ہوں۔

۳۔ جس طریق سے عبدالحمید نے اس کام کو بیان کیا ہے اس کی تدبیر بھی بالکل بھونڈی اور احمقانہ معلوم ہوئی ہے۔ یہ امر قرین قیاس نہیں ہے کہ عبدالحمید کواس بات کے کہنے کی تعلیم دی گئی ہو کہ وہ بٹالہ کا ایک ہندو تھا ۔ اور یہ ایسا بیان ہے جس کی تکذیب ڈاکٹر کلارک د و ایک گھنٹے میں کر سکتا۔ غلام احمد کے ۲۵؍ جولائی کے اس اقبال کے بعد کہ وہ نوجوان قادیان میں آیاتھا ۔ اگر ڈاکٹر کلارک پر کوئی حادثہ پڑ تا تو یہ یقینی امر تھا کہ مرزا صاحب کے خلاف اس کی جان کے بدلے میں کوئی عدالتی کارروائی کی جاتی۔ اور اس امر کی نسبت خو د مرزا صاحب بھی قبل از وقت پیش بینی کر سکتے تھے ۔ یہ بات کسی طرح بھی باور نہیں ہو سکتی کہ مرزا صاحب نے اپنے آپ کو ایسے خطرہ میں ڈالا ہو۔

۴۔ یہ ثابت ہے کہ وہ نوجوان اوّل ڈاکٹر گرے کے پاس امرتسر میں گیا اور اگر وہ اس کو کھانے پینے اور مکان کا وعدہ کرتے تو وہ اس کے پاس رہتا ۔ اگر فی الاصل ڈاکٹر کلارک کے پاس بھیجا گیا تھا تو پھر اس امر کی کوئی دلیل نہیں کہ مسٹر گرے امریکن مشن کے عیسائی کے پاس وہ کیوں چلا گیا۔ یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ وہ محض اتفاق سے ڈاکٹر کلارک کی طرف رستہ بتلایا گیا ۔

۵۔ اس نے نورالدین عیسائی امریکن مشن کو کہا تھا کہ وہ قادیان سے آیا ہے اور کہ وہ فی الاصل ہندو تھا۔ اور ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا یہ بیان کرنا نہ تو مرزا صاحب کی سا زش ہے اور نہ لیکھرام کے قاتل کے فعل سے مشابہت کے لئے ہے بلکہ بقول اس کے بیان کے اس واسطے ہے کہ مشنریوں سے اس امر واقعہ کو پوشیدہ رکھے کہ وہ گجرات مشن سے نکالا گیا تھا۔(عبدالحمید ایک بار پہلے بھی گجرات میں عیسائی ہوا تھا اور بدچلنی کی بنا پر وہاں سے نکالاگیا تھا۔ ناقل) اسی وجہ سے اس نے عبدالحمید کی بجائے جھوٹا نام عبدالمجید بیا ن کیا ۔

۶۔ اگر عبدالحمید کا بیان جو بمقام بیاس اس نے کیا ہے سچا ہوتا تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ کیوں اس نے بعد تسلیم کر لینے اس ضروری امر کے کہ وہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مارنے کے لئے آیا ہے، تفصیلات کے بیان کرنے سے رکا رہا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ بہت سی تفصیلات اس وقت ظاہر ہوئیں جبکہ وہ نوجوان وارث الدین اور پریم داس اور عبدالرحیم کی حفاظت میں بٹالہ تھا۔ لہذا ہماری یہ رائے ہے کہ عبدالرحیم اور وارث الدین اور پریم داس ہی صرف اس پہلی کہانی کے جوابدہ ہیں اور غالباً وہی اس کو تمام وقت ورغلاتے رہے۔ (کتاب البریہ روحانی خزائن ایڈیشن ۸۴ء جلد ۱۳ صفحہ ۲۹۵، ۲۹۷)

دوران مقدمہ عبدالحمید کی اصل شہادت ہو جانے کے معاً بعد جس میں اس نے تسلیم کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو ڈاکٹر کلارک کے قتل کرنے کے لئے نہیں بھیجا تھا بلکہ وہ محض عیسائی ہونے کے لئے ڈاکٹر کلارک کے پاس امریکن مشن کے پادری نورالدین کے کہنے پر آیا تھا مگر یہاں پادری عبدالرحیم ، پادری وارث دین اور پادری پریم داس نے اس کو ورغلا کر یہ بیان دلوایا کہ ا سکو ڈاکٹر کلارک کو مارنے کے لئے قادیان سے بھیجا گیا ہے تو ڈاکٹر کلارک کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور اپنی جان بچانے کی خاطر فوراً عدالت میں یہ بیان دیا جس کو کیپٹن ڈگلس ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے مسل پر درج کر دیا :

Dr Clark states he wishes to resign the post of prosecutor adjourned to 23rd August . Sd. M Douglas, District Magistrate
یعنی ڈاکٹر کلارک کہتے ہیں کہ وہ استغاثہ سے دستبردار ہوتے ہیں اور سماعت ۲۳؍ اگست تک ملتوی کی جاتی ہے۔ ایم ڈگلس
اور ۲۳؍اگست ۱۸۹۷ ؁ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو باعزت طورر پر بری کر دیا۔ اور زبانی فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو اب ان لوگوں کے خلاف عدالتی کارروائی کر سکتے ہیں۔ حضر ت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ’’ میرا مقدمہ زمین پر نہیں آسمان میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہے‘‘۔(حیات احمد مصنفہ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ)

مقدمہ کی سنگینی اور نصرت الٰہی

مقدمہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے نہایت سنگین تھا ۔ استغاثہ کے گواہان نہایت بااثر لوگ تھے ۔ پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلار ک عیسائی مذہب کے ایک میڈیکل مشن کے انچارج تھے جو انگلستان کے سرکاری مذہب اینگلیکن کی چرچ مشنری سوسائٹی چلا رہی تھی اور خود ڈاکٹر ہنری کلارک ہندوستانی نژاد ہوتے ہوئے اپنے سفید رنگ اور ایک انگریز سینئر پادری رابرٹ کلارک کے لے پالک ہونے کی وجہ سے اپنی حیثیت میں کسی انگریز پادری سے اثر و رسوخ میں کم نہیں تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بزرگ جلیل القدر صحابی حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ نے ۱۹۳۶ ؁ء میں احمدیہ مسجد فضل لندن کی ایک تقریب میں جس میں مسٹر مانٹیگو ڈگلس جو ترقی کر کے کرنل کے مرتبہ پر پہنچ کر چیف کمشنر جزائر اینڈیمان کے عہدے سے ریٹائر ہو چکے تھے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شامل تھے بیان فرمایا کہ ڈگلس صاحب نے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد رضی اللہ عنہ کو ( کہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے) جو اس وقت لندن مسجد کے امام تھے بتایا تھا کہ خود گورنر پنجاب چرچ مشنری سوسائٹی کا ممبر تھا جبکہ یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ کسی اہم شخصیت کی طرف سے

Public Prosecutor was instructed to see the case through.
(Maulana Dard, Life of Ahmad)

یعنی پبلک پراسیکیوٹر کو ہدایت ملی تھی کہ وہ اس مقدمے کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔

مسٹر ڈگلس نے حضرت مولانا شیر علی صاحب کی تقریر میں یہ بات سن کر انکار نہیں کیا۔ اگر و ہ اہم شخصیت گورنر پنجاب خود نہ تھے تب بھی ایسی ہدایت دینے والا اہم شخص یہ جان کر ہی ہدایت دینے کی جرات کر سکتا تھا کہ چرچ مشنری سوسائٹی کو گورنر پنجاب کی ممبر شپ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ نیز یہ بات تو پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اپنے اور مشن کے حکومت میں اثر و رسوخ کو پور ی طرح استعمال کر رہے تھے ۔

مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی حکومت میں اتنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہوا تھا کہ حکومت انگلشیہ کی طرف سے ان کو چار مربع زمین عطا ہوئی تھی۔ (مولوی صاحب کا اپنا اخبار اشاعت السنۃ نمبر ۱ جلد ۹ صفحہ ۱) اور خود انہوں نے کرسی نشینی کے استحقاق کے لئے کہا تھا کہ لاٹ صاحب گورنر پنجاب مجھ کو گورنر ہاؤس میں عزت سے اپنے پاس کرسی پر بٹھاکر باتیں کرتے ہیں۔ (معلوم ہوا کہ مولوی صاحب حکومت کی نظر میں اس کے خاص آدمی تھے جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کسی گورنر کو ملنے نہیں گئے، نہ انہوں نے آپ کو بلایا ، اور نہ آپ کو کوئی زمین حکومت کی طرف سے عطا ہوئی۔ آپکے پاس اپنے آباء و اجداد کی اپنے علاقہ میں قضا کی خدمات کے صلہ میں سلطنت مغلیہ کی عطا کی ہوئی وسیع رقبہ زمین کا تھوڑا سا باقی بچا ہوا حصہ تھا کیونکہ پہلے سکھوں نے پھر انگریز حکومت نے بہت بڑے حصہ پر قبضہ کر لیاتھا)۔ مولوی محمد حسین جیسے لوگوں کی گواہیاں بھی بعض اوقات قابل اعتماد سمجھ لی جاتی ہیں اور شاید اسی زعم میں وہ ایک غیر متعلقہ گواہی دینے آ گئے تھے۔

عبدالحمید کو امرتسر سے بیاس لے جانے والے حصہ کو نکال بھی دیا جائے کہ اس کا علم تو بعد کے بیان سے ہوا تو موقع کے گواہ توامرتسر کے پادری وارث دین ، عبدالرحیم اور پریمداس ہی تھے ۔ مزید برآں مقدمہ پولیس کی ایف آئی آر پر زیر غور نہ تھا بلکہ خود انگریز ڈپٹی کمشنر مسٹر مارٹینو نے مزعومہ قاتل سے بیان لے کر کیس تیار کر کے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کیپٹن ڈگلس کے پاس بھیجا تھا۔ ان باتوں کو کیپٹن ڈگلس کے لئے نظر انداز کرنا آسان بات نہ تھی۔ نیز خودعیسائی حکومت میں پادریوں کی حمایت کر کے اپنے سے اوپر کے ذمہ دار افسروں کو خوش کرنے میں ذاتی منفعت بھی پیش نظر ہو سکتی تھی۔ لیکن کیپٹن ڈگلس نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور انصاف سے کام لیا۔

مسٹر ڈگلس صرف ایک رعایت ڈاکٹر کلارک سے کر سکے اور غالباً وہ بھی اس لئے کہ حکومت برطانیہ کا سرکاری مذہب کا مشن بدنام نہ ہو ۔ ویسے ڈاکٹر کلارک نے ہوشیاری سے عبدالحمید کو مزعومہ قاتل بنانے کا کام عبدالرحیم ، وارث دین اور پریم داس کے سپرد کر دیا تھا ۔ البتہ ایک جگہ عبدالحمید نے اپنے اصل بیا ن میں بتایا کہ جب بیان یاد کرنے کی غرض سے اس نے لکھا کہ مرزا صاحب نے مجھ کو کہا کہ امرتسر جا اور ڈاکٹر کو مار ڈال تو ڈاکٹر صاحب نے سب کے ساتھ مل کر کہا ’’ ہمارے دل کی مراد پوری ہو گئی ہے ‘‘۔ مگرڈگلس صاحب نے اس سازش کی ذمہ داری ان تینوں دیسی پادریوں پر ڈال دی اور غالباً اس کی جسارت بھی ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ سے ہوئی جس کا مظاہرہ وہ مولوی محمد حسین صاحب کے بارہ میں کر چکے تھے ۔چنانچہ فیصلہ میں ڈاکٹر صاحب کو سازش سے بری الذمہ قرار دینے سے قبل انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رجوع کرنا ضروری سمجھا اور پھر فیصلہ میں حضور کی تعریف کے ساتھ یوں لکھا :’’ یہ بات بھی لکھنے کے قابل ہے کہ مرزا غلام احمد نے اس امر کو کشادہ پیشانی سے مان لیا ہے او ر عدالت میں ڈاکٹر کلارک کو ہر ایک قسم کی شمولیت سے مبرا قرار دیا ہے‘‘۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رضامندی حاصل کرنا ہی ثابت کرتا ہے کہ ڈاکٹر کلارک کو یہ رعایت دینا بھی کیپٹن ڈگلس کا ایک احسان تھا ورنہ اگر یہ رعایت نہ دی جاتی تب بھی انصاف کی خلاف ورزی نہ ہوتی۔ اور کیپٹن ڈگلس نے اس احسان کا کریڈٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے کر آپ کے اخلاق فاضلہ کو عدالت میں ریکارڈ کر دیا۔ گویا یہ احسان وہ نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دشمن پر کر رہے ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دئے جانے کے بارے میں رومن مجسٹریٹ پیلاطوس پر صرف یہودی رعایا کا دباؤ تھا یاپھر اس کی بیوی کی اپنے ایک خواب کی بنا پر سفارش تھی ۔ وہ خواب یقیناًایک ا لٰہی تصرف تھا جو پیلاطوس پر بالواسطہ پہنچا۔ لیکن یہاں الٰہی تصرف خود ڈگلس پر کار فرما تھا۔ اس نے اپنے پر اپنے مذہب کے اثر کی پرواہ نہ کی۔ گورنر کے چرچ مشنری سوسائٹی کی ممبرشپ کی پرواہ نہ کی۔ پبلک پراسیکیوٹر پر کسی اعلیٰ منصب دار کی ہدایت کی پروا ہ نہ کی۔ گواہان کے گزارے جانے کے بعد جو اضطرابی کیفیت اس پر طاری ہوئی بجائے خود ایک الٰہی تصرف تھا۔ اس کا اپنا ریڈر سے کہنا کہ مرزا صاحب کی شکل مجھ کو معصوم نظرآتی ہے بتاتا ہے کہ چہرہ کی وہ معصومیت اس کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہو رہی تھی۔ چنانچہ غلام حیدر کا وہ بیان جو انہوں نے جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مصنف مجدد اعظم کو اپنی مرض الموت میں دیا جبکہ انسان کو سب سے زیادہ خشیۃ اللہ ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ڈگلس نے ان کو بتایا کہ وہ شکل میرے سامنے آتی ہے اور کہتی ہے میں بے قصور ہوں تو ایسا ہونا ہر گز بعید نہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ اپنے اس اضطراب کا ذکر اپنے ریڈر سے کرتے ہیں ۔ انہوں نے ذرا بھی باک محسوس نہ کیا اور اپنے ماتحت کے مشورہ پر کہ عبدالحمید پادریوں کے پاس کیوں ہے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو بلا کر عبدالحمید کو حوالات میں لینے کا حکم دیا۔

ڈپٹی کمشنر ڈگلس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ صرف عدالت میں ہی معصوم نظر نہیں آ رہا تھا جہاں بہر حال حضور کے حق میں بعض گواہیاں تھیں اور آپ کے وکیل صاحب بھی بحث کر رہے تھے بلکہ اس چہرہ مبارک کی پاکیزگی کے تووہ احاطہ عدالت میں آتے ہی شکار ہو گئے جبکہ انہیں معلوم بھی نہ تھا کہ یہی وہ مرزا صاحب ہیں جن کا کیس ان کے سامنے پیش ہونا ہے۔ تب ہی تو انہوں نے کیس کے سنے جانے سے قبل آپ کو سلام بھجوایاتھا ۔ پھر جو بات ہر شریف النفس پر اثر کرتی ہے وہ آپ کا اخلاق کریمانہ تھا جو مولوی محمد حسین بٹالوی جیسے جانی دشمن کی عزت کا محافظ بن کر اس عدالت میں ظاہر ہوا جہاں مولوی صاحب آپ کو اقدام قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا دلوانے آئے تھے ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تو مولوی صاحب کی عزت کی حفاظت فرمائی لیکن ان کی بے عزتی کے اس اثر کو جو مسٹر ڈگلس کے دل و دماغ پر ہونا لازمی تھا الٰہی تصرف نے خود قائم کر دیا۔

اس میں شک نہیں کہ یہ دو شرافتوں کا آپس میں ملاپ تھا جو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طورپر یکجا کر دیا ۔ ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق کی پاکیزگی کی شرافت اور چہر ہ پر روحانی معصومیت کی شرافت ۔ جب وہ ڈگلس کی فطرت صحیحہ پر پڑی تو ان کی شرافت نفس بھی اس سے چمک اٹھی۔ اوراسی شرافت کا اعتراف ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف کتاب البریہ کے نام سے اس واقعہ پر تحریر فرمائی اور دیگر کتابوں میں اس کا ذکر کے ڈگلس کے نام کوزندہ جاوید بنا دیا۔ چنانچہ اپنی ایک کتاب کشتی نوح میں فرماتے ہیں:

’’جب تک دنیا قائم ہے اور جیسے جیسے یہ جماعت لاکھوں کروڑوں افراد تک پہنچے گی ویسے ویسے تعریف کے ساتھ اس نیک نیت حاکم کاتذکرہ رہے گا‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔*
الفضل انٹرنیشنل۲۶؍ستمبر ۱۹۹۷ء ؁ تا۲؍اکتوبر ۱۹۹۷ء ؁