حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں
تالیف
حسن محمد عارف
شائع کردہ: مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان
دیباچہ
اللہ تعالیٰ جب اپنے مامورین اور مرسلین کو دنیا میں مبعوث کرتا ہے تو کثرت کے ساتھ امورِ غیبیہ ان پر ظاہر کرتا ہے اوراپنے دستِ قدرت سے آسمانی نشانات اور معجزات کے ذریعہ ان کی تائید و نصرت فرماتا ہے۔ اس آخری زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تواپنی اس قدیم سنت کے موافق کثرت کے ساتھ ارضی و سماوی معجزات و نشانات آپؑ کو عطا فرمائے۔ چنانچہ آپ ؑ نے خدائے قادر سے خبر پا کر بہت ساری پیشگوئیاں فرمائیں جو خداتعالیٰ کے فضل سے نہایت صفائی کے ساتھ پوری ہوگئیں۔
کتاب ھذامیں حضرت مسیح موعودعلیہ ا لسلام کی ان ہزارہا پیشگوئیوں میں سے نمونۃً چند پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں تاکہ خدام واطفال ان پیشگوئیوں کو پڑھ کر اپنے ایمان کو تازہ کریں اور خدا تعالیٰ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت پر ان کا نورِ یقین مضبوط سے مضبوط تر ہو۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین
والسلام
خاکسار
سید محمود احمد
صدرمجلس خدام الاحمدیہ پاکستان
پیش لفظ
مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خدام و اطفال کی تعلیم و تربیت کے لیے آسان اور عام فہم زبان میں کتابیں شائع کرنے کی توفیق پارہی ہے۔ یہ کتاب "حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں "اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
یہ کتاب مکرم حسن محمد عارف صاحب کی تالیف ہے جو 1979ء میں سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے زمانۂ صدارت میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔ شعبہ اشاعت مجلس خدام احمدیہ پاکستان اسے ایک مرتبہ پھر بعض ناگزیر تبدیلیوں کے بعد شائع کرنے کی توفیق پا رہا ہے۔
کتاب ہذا کی دوسری اشاعت میں خاکسار کے ساتھ مکرم میر انجم پرویزصاحب ، مکرم طاہراحمدمختارصاحب،محمدصادق ناصر صاحب اورمکرم ملک علاء الدین صاحب (خلافت لائبریری) نے تعاون کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین
والسلام
خاکسار
اسفندیارمنیب
مہتمم اشاعت
مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں
ہم اس چھوٹی سی کتاب میں آپ کو بہت ہی ضروری مضمون بتائیں گے۔ اگر آپ نے غور سے اس کا مطالعہ کیا تو ہمیں امید ہے کہ اس کے سمجھ جانے سے اور کئی مضمون بھی آپ کی سمجھ میں آجائیں گے۔ ہمارا یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے بارہ میں ہے۔
آپ کو یہ تو پتہ ہی ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کون تھے؟ کب پیدا ہوئے اور کب فوت ہوئے؟ اس دنیا میں آپ کے تشریف لانے کا کیا مقصد تھااور آپ نے کون کون سے کارنامے سرانجام دئیے؟ لیکن اس کتاب میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند پیشگوئیوں کے بارہ میں بتائیں گے۔ تاکہ آپ کو یہ بھی علم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے تو انہیں ایسے ایسے راز بتاتا ہے جو دُنیا میں کسی اور کو معلوم نہیں ہوتے۔ وہ اس بندے کو بعد میں آنے والے زمانے کی خبریں بتاتا ہے جس کے پتہ کرنے کی انسان کو ہر گز طاقت نہیں دی گئی۔ تم خود ہی سوچ کر دیکھ لو کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ کوئی بیمار شفا پا جائے گا یا فوت ہو جائے گا؟ مقدمہ میں ہم جیت جائیں گے یا ہمارا مخالف جیت جائے گا؟ کیا اس سال سیلاب آئے گا یا نہیں؟ ہم تو صرف اندازہ ہی لگاتے ہیں کہ آج دھوپ نکلی ہے۔ اورگرمی کا موسم ہے تو کل بھی دھوپ نکلے گی۔ لیکن تم نے یہ بھی تو دیکھا ہوگا کہ یکایک بادل آئے اور بارش ہو گئی۔ ہم بیمار کی صحت یابی کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں۔ اُس کے لیے ڈاکٹر کو بلاتے ہیں۔ دوائی خرید کر لاتے ہیں۔ اُس کی خوراک میں احتیاط کرتے ہیں۔ جس سے ہمیں یہ امید ہو جاتی ہے کہ مریض اچھا ہو جائے گا۔ لیکن ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ ضرور اچھا ہو جائے گا۔ کئی بار ہم نے ایسا بھی دیکھا ہے اور تم نے بھی دیکھا ہوگا کہ معمولی سی بیماری تھی اچھے سے اچھا ڈاکٹر بلایا تھا۔ احتیاط بھی کی جارہی تھی۔ لیکن مریض اچانک فوت ہو گیا۔ کئی بار مقدموں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ہم مقدمہ ضرور جیت جائیں گے۔ ہمارے دلائل بڑے مضبوط ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود ہم مقدمہ ہار جاتے ہیں۔ بس یہ اندازے ہی ہوتے ہیں یقینی بات نہیں ہوتی۔ اسی سے تو انسان کی بے بسی کا پتہ چلتا ہے لیکن جب خدا اپنے بندے کو یہ بتادیتا ہے کہ یہ مریض اچھا ہو جائے گا۔ تو خواہ وہ شخص کتنا ہی بیمار کیوں نہ ہو ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ وہ مریض جسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اب یہ موت کے منہ میں ہے اور اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں اور یہ آج نہیں تو کل مرجائے گا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس بیماری سے شفا پاجاتا ہے اور یہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ خدا نے ایسا کہا اور خداکی بات کو دُنیا کی کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی۔ اسی طرح اگر خدا اپنے بندے کو یہ بتادے کہ اس مقدمہ میں فتح ہو گی تو خواہ مخالف کتنا ہی زور لگائیں۔ جج کیسا ہی دشمن کیوں نہ ہو اس مقدمہ میں ہرگز شکست نہیں ہو گی۔ اسے کہتے ہیں خدا کی خدائی۔ اور خدا جب کسی بندے کو کثرت سے غیب کی خبریں دیتا ہے،جو پوری ہوتی چلی جاتی ہیں تو پھر اسے نبی کہا جاتا ہے۔
بچو! نبی عربی کا لفظ ہے۔ اور اس کے متعلق اگر تم کسی عربی ڈکشنری میں معنی دیکھو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ خدا تعالیٰ جس کو کثرت سے غیب کی خبریں دیتا ہے وہ نبی ہی ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے کثرت کے ساتھ غیب کی خبریں دیں۔ آپ نے سینکڑوں پیشگوئیاں فرمائیں اور خدا کے حکم سے ہی یہ باتیں بیان کیں اور یہ سب کی سب اپنے وقت پر پوری ہوئیں اور سچی ثابت ہوئیں۔ اس چھوٹی سی کتاب میں ہم آپ کو چند ایسی پیشگوئیاں بتائیں گے جن سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے اس پیارے بندے کو آنے والے زمانہ کی خبریں دیں اور پھر آپ نے اسی وقت ان کا اعلان بھی کر دیا اور دُنیا کو بتا دیا کہ خدا نے مجھے یہ خبر دی ہے اور اب یہ بات ضرور پوری ہو کر رہے گی۔ اور وقت آنے پر وہ سب باتیں پوری بھی ہو گئیں۔ بے شمار پیشگوئیاں آپ نے اپنی کتابوں میں شائع کیں۔ بعض کے متعلق آپ نے اپنے دوستوں کو بتایا۔ بعض کے بارہ میں آپ نے مخالفین کو بھی بتادیا تاکہ اُنہیں بعد میں یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ یہ یونہی دھوکہ یا فریب تھا۔ یا پہلے تو بتایا نہیں اور جب واقعہ ہوگیا تو کہہ دیا کہ میں نے یہ پیشگوئی کی تھی۔ تو یہ تو پیشگوئی نہ ہوئی۔ اور نہ اسے پیشگوئی کہتے ہیں۔ اس طرح تو بعض نجومی وغیرہ بھی بتا دیتے ہیں۔ پھر بھی نجومی یہ بات کبھی نہیں کہتے اور نہ کہہ سکتے ہیں ،کہ خدا نے انہیں یہ بات بتائی ہے اور یہی فرق خدا کے نبی اور عام نجومی یا دوسرے لوگوں میں ہوتا ہے۔ کہ خدا کا نبی خدا سے خبر پاتا ہے اور پھر اس کے مطابق دنیا کو بتاتا ہے اور اعلان کرتا ہے اور اُسے پورا یقین ہوتا ہے اسی لیے اسے کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا اور وہ پیشگو ئی جو خدا نے اسے بتائی ہے وہ عین وقت پر بڑی شان اور شو کت سے پوری ہوتی ہے اور اس کی سچائی کو ثابت کرتی ہے جس سے خدا کی شان دنیا کو نظر آجاتی ہے۔
سچی پیشگوئی اور سچا الہام کیسا ہوتا ہے؟ اس کے متعلق یہ بات تم ہمیشہ یاد رکھو کہ اس قسم کے کلام میں ہمیشہ شان وشوکت اور برکت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک نور ہوتا ہے۔ ایک روشنی ہوتی ہے اور جسے یہ نور دیا جاتا ہے اُسے پھر ان باتوں کے بارہ میں یقین سے بھر دیا جاتا ہے۔ اور اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کا کلام یا بات جو خدااپنے بندے سے کرتا ہے اور اس میں کوئی پیشگوئی ہوتی ہے تو پھر اس قسم کی پیشگوئی کا اثر دور دور تک پڑتا ہے اور یہ ہر لحاظ سے بے نظیر ہوتی ہے اور پھر اس میں خدا تعالیٰ کا بڑا رعب نظر آتا ہے۔ خدا کی مدد اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ بعض اوقات پیشگوئی اس کے اپنے لیے ہوتی ہے اور کبھی اس کی بیوی اور بچوں کے لیے ہوتی ہے اور کبھی اس کے دوستوں کے لیے ہوتی ہے اور کبھی دشمنوں کے لیے اور بعض اوقات ساری دُنیا کے لیے ہوتی ہے۔ اور خدا کا وہ پیارا بندہ بڑی چھپی ہوئی اور مخفی باتوں کو دیکھ لیتا ہے۔ اور اکثر اوقات اسے تحریریں دکھائی جاتی ہیں اور کبھی دور دراز کی چیزیں پوری اس کے سامنے آجاتی ہیں گویا کہ وہ انہیں اپنے پاس ہی پڑی ہوئی دیکھ رہا ہے۔ اور پھر اس کے کانوں کو بھی ایسی طاقت دی جاتی ہے کہ وہ خدا کے فرشتوں کی آوازیں سنتا ہے اور تسلی،اطمینان اور سکون پاتا ہے اور اس کے دل کو ایسی قوت دی جاتی ہے کہ بے شمار باتیں اس کے دل میں پڑجاتی ہیں جو بالکل صحیح ہوتی ہیں۔
بچو! تم یوں سمجھ لو کہ اُس کی زبان پھر خدا کی زبان ہوتی ہے۔ اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور جو کچھ اُس کی زبان بولتی ہے وہ خدا کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اور پھر اس پر ایک نور ہی نور ہوتا ہے۔ جسے ایک نہ ماننے والا بھی محسوس کر سکتا ہے۔ اُس کا تو پہنا ہوا کپڑا بھی برکتوں سے بھر جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات تو اس شخص کو چھونا بھی برکت اوررحمت کا باعث ہو جاتا ہے اور جس جگہ وہ رہتا ہے خدا اس جگہ میں بھی رحمتیں اور برکتیں رکھ دیتا ہے۔ اس کے گاؤں اور شہرکو خاص برکت عطا کی جاتی ہے۔ اور دیکھوکہ یہ بات کیسی عجیب ہے کہ جن لوگوں سے وہ خوش ہوتا ہے خدا ان کو ترقی دیتا ہے ان کو مصیبتوں اور بلاؤں سے بچاتا ہے لیکن وہ جن سے ناراض ہوتا ہے ان کی تباہی اور بربادی میں کوئی شک نہیں رہتا۔ اس کی دعا معمولی دعا بھی نہیں ہوتی اور جس شخص کے لیے وہ دعا کرتا ہے اس کی مصیبتیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔
پیارے بچو! یہ باتیں تم نے پڑھ لیں تواب اس کے بعد ہم آپ کو یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اس زمانہ کی اصلاح کے لیے حضرت مرزا غلام احمد صاحب تشریف لائے وہ مسیح موعود بھی تھے اور خدا کے نبی بھی۔ خدا نے ان سے پیار کیا اور انہوں نے خدا سے محبت کی جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے انہیں بے شمار نشان عطا کیے جو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد تک پہنچتے ہیں اس چھوٹی سی کتاب میں ہم سارے نشان کیسے بیان کر سکتے ہیں اس کے لیے تو بہت بڑی کتاب کی ضرورت ہو گی۔ آپ نے تو اپنے ان نشانات اور پیشگوئیوں کو اپنی بڑی بڑی کتابوں میں تفصیل سے لکھا ہے لیکن ہم آپ کے لیے صرف چند پیشگوئیاں اس کتاب میں بیان کریں گے کہ وہ کن حالات میں کی گئیں اورکس طرح پوری ہوئیں؟ اب ہم آپ کو وہ چند پیشگوئیاں سناتے ہیں جن کے بارہ میں خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبل ازوقت بتایا اور کس طرح وہ بڑی شان و شوکت سے پوری ہوئیں۔
1
یہ بات تو آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ حضرت صاحب بڑے رئیسوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے آپ کے والد کئی گاؤں کے مالک تھے جن کے انتظام وغیرہ کی وجہ سے انہیں دنیا داری میں مصروف رہنا پڑتا تھا۔ اور یہ تو ساری دنیا کا قاعدہ ہے کہ اپنی جائیداد کی دیکھ بھال پر انتظام کے لیے بڑا وقت خرچ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن چونکہ خدا نے حضرت صاحب سے دنیا کی اصلاح کا کام لیناتھا اس لیے دنیا داری کے کاموں کی طرف توجہ نہ تھی۔ وہ تو سارا دن اور ساری رات خدا کی عبادت میں مشغول رہتے۔ حضرت صاحب کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب جائیداد کے انتظامات میں اپنے باپ کی مدد کرتے۔
یہ1876ء کا واقعہ ہے کہ آپ کے والد بیمار ہوئے لیکن پھر صحت بھی ہو گئی۔ معمولی بیماری باقی تھی کہ یکایک حضور کو الہام ہوا کہ "وَالْسَّمَآءِ وَالْطَّارِقِ" اور اس کے یہ معنی ہیں کہ قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی جو سورج غروب ہونے کے بعد ظاہر ہوگا اور پھرساتھ ہی یہ سمجھا دیا گیا کہ یہ تمہارے والد کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ گویا یہ خدا کی طرف سے عزا پُرسی تھی۔ یعنی ایک طرح کا اظہار ہمدردی تھا۔ اور آپ سمجھ گئے کہ مجھے یہ میرے والدکی وفات کی خبر دی گئی ہے جو غروبِ آفتاب کے بعد ہو گی اور پھر حضرت صاحب نے اپنی کتابوں میں قسم کھا کر یہ اعلان کیا ہے کہ ایسا ہی واقعہ ہوا جیسا کہ خدا نے آپ کو اپنے الہام کے ذریعہ بتایا تھا اور سورج ڈوبنے کے بعد آپ کے والد وفات پا گئے۔
بچو! یہ بات یاد رکھنا کہ آپ کے والد کا نام مرزا غلام مرتضیٰ تھا اور آپ نے ماہِ جون 1876ء میں وفات پائی۔ تو دیکھا بچو! حضرت صاحب کوا للہ تعالیٰ نے قبل از وقت خبر دی جو عین وقت پر پوری بھی ہوئی۔
2
اب اسی سلسلہ میں اگلی پیشگوئی بھی سن لو:۔
آپ نے اپنے ابا جان یا امی یا کسی اور احمدی کے ہاتھ میں ایک ایسی انگوٹھی دیکھی ہو گی جس پر عربی میں کچھ الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی ایک آیت ہے۔ "اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ"۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک الہام بھی ہے جو حضرت صاحب کو اُن کے والد کی وفات کے دن ہوا۔ اور یہ الہام آپ کی زندگی میں دس بیس بار نہیں بلکہ سینکڑوں بار پورا ہوا۔ ابھی اوپرآپ نے پڑھا کہ حضرت صاحب تو سارادن اور ساری رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے۔ دنیا داری کے کاموں سے تعلق نہ تھا۔ والد کی وفات کوئی معمولی بات نہ تھی کیونکہ آمدنی کے قریباً سارے ہی ذرائع کا تعلق اُن کی زندگی سے تھا۔ سرکار انہیں پنشن دیتی تھی اور انعام کی ایک بہت بڑی رقم ملا کرتی جو ان کی وفات کے بعد بند ہوجانی تھی۔ اب ساری زندگی کی مشکلات اور مسائل سامنے تھے۔ آمد کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آرہا تھا۔ جائیداد کا انتظام بڑے بھائی کے ہاتھوں میں تھا اور یوں نظر آرہا تھا گویا کہ محتاجی کی زندگی ہو گی فکروں کے دن اور تشویش کی راتیں ہوں گی۔ یہ پہاڑ سی زندگی کیسے کٹے گی۔ اب تو اللہ ہی ہے جو کوئی ڈھب کی صورت بنا دے۔ بس انہی فکروں میں تھے کہ ایک دوسرا الہام ہوا"اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ"۔
یہ عربی کا فقرہ ہے اور قرآن مجید کی ایک آیت بھی ہے اور اس کے معنی ہیں "کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں "اورحضرت صاحب لکھتے ہیں کہ اس الہام کے ساتھ ہی میرا دل ایسا مضبوط ہوگیا جیسے کسی بڑے ہی دردناک زخم پر نہایت ہی آرام دینے والی مرہم لگا دی جائے اور وہ اچھا ہوجائے اور پھر میں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے تباہ اور برباد نہیں کرے گا۔ اسی وقت حضور نے گاؤں کے ایک ہندو کو بلایا اور اسے یہ سارا واقعہ سنایا۔ اور الہام لکھ کر دیا کہ وہ امرتسر جائے اور کسی نگینہ پر کھدوا کر ایک انگوٹھی بنوا لائے۔ اس ہندو کا نام ملاوامل تھا۔ بچو! میں نے اس شخص کو اپنی آنکھوں سے 1945ء میں دیکھا ہے۔ لیکن اس وقت یہ بہت ضعیف ہو چکا تھا۔ اور حضرت صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کام اس لیے اس ہندو کے ذریعہ کروایا تاکہ یہ اس شاندار پیشگوئی کا گواہ بھی ہوجائے۔ اس وقت یہ انگوٹھی پانچ روپے میں تیار ہوئی تھی۔ اور یہ اس وقت تیار ہوئی جبکہ آپ کو کوئی بھی نہ جانتا تھا۔ قادیان ایک ویران سا گاؤں تھا۔ اور وہ وقت بھی آیا کہ جب دنیا کے لوگ جوش اور شوق سے بھاگے چلے آتے تھے اور خدا تعالیٰ نے اتنا مال دیا کہ حضور لکھتے ہیں کہ میرے پاس خدا کے شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ بھی نہیں ہیں اور اتنی بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے لیکن خدا نے ایسی مدد کی کہ لاکھوں روپیہ حضور کی خدمت میں آیا اور تم اس روپیہ کا اندازہ اس بات سے کر لو کہ آج سے اسّی برس پہلے صرف لنگر خانہ کا خرچ ڈیڑھ ہزار روپے ماہوار ہوا کرتا تھا اور پھر سکول بھی تھا اس پر بھی خرچ ہوتا تھا۔ اور کتابوں کی چھپائی تھی اور انہیں سارے ہندوستان اور باہر بھجوانا ہوتا تھا۔ یہ سب کچھ آخر پیسوں سے ہی ہوتا تھا۔ اور یہ سامان خدا کی اس عظیم الشان پیشگوئی کی وجہ سے مہیا ہوا۔ ساری زندگی آپ کو روپے پیسے کی وجہ سے کبھی پریشانی اور تشویش نہیں ہوئی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ خدا جب کوئی وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے حالات چاہے کیسے بھی ہو جائیں خدا کی باتیں پوری ہوکر رہتی ہیں۔ اور دوسرے عام انسانوں کے لیے یہ عجیب بات ہوتی ہے۔ یہ بات بھی تمہارے علم کے لیے بتا دوں کہ اس وقت یہ انگوٹھی ہمارے امام سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے پاس ہے اور آپ کبھی حضور سے ملیں گے تو دیکھیں گے کہ یہ انگوٹھی حضور کے دائیں ہاتھ میں ہوگی اور نگینہ کے اوپر کپڑا سیا ہوا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوگی کہ نگینہ گھسنے سے محفوظ رہے۔
3
بچو! اب تم ایک اور عظیم الشان نشان کی تفصیل سنو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں (دین حق)کی محبت کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ حضور کی خواہش تھی کہ یہ سچا مذہب اور خدا کا دین جلدسے جلد دنیا میں پھیل جائے اور اس مقصد کے حاصل کرنے کے لیے آپ نے ایک نہایت شاندار کتاب لکھی جس کانام "براہین احمدیہ"تھا۔ آپ نے اپنی اس کتاب میں اسلام کی سچائی کے لیے سینکڑوں ثبوت اور دلائل پیش کیے اور پھر یہ بھی کیا کہ دنیا کے تمام مذاہب کو چیلنج دیا کہ جو کوئی اس کتاب کا جواب لکھے گا اسے دس ہزار روپے انعام دئیے جائیں گے۔ اس زمانہ کے دس ہزار روپے آج کے دس لاکھ روپے سے بھی زیادہ تھے لیکن نہ کسی عیسائی کو ہمت ہوئی اور نہ کسی اور مذہب والے کو کہ وہ اس کا جواب لکھتا۔ اس کتاب سے آپ کا نام سارے ہندوستان میں مشہور ہوگیا۔
صوابی ضلع پشاور میں ایک ہندو آریہ پولیس کے محکمہ میں ملازم تھا اس کانام پنڈت لیکھرام تھا۔ یہ شخص اسلام کا سخت دشمن تھا اور بڑا بدزبان تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے کربہت خوش ہوتا۔ اسلام کا مذاق اڑاتا۔ مسلمانوں کے خدا کو مکّار کہا کرتا۔
یہ شخص 1885ء میں قادیان آیا۔ لیکن اسے حضرت صاحب سے ملنے کی جرأت نہ ہوئی بس فضول خط وکتابت کے ذریعہ ہی باتیں بناتا رہا۔ حضرت صاحب کی بڑی خواہش ہوا کرتی تھی کہ لوگ آپ کے پاس آئیں اور اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھیں کہ کس طرح وہ آپ سے پیار کرتا ہے اور اسلام کی سچائی کے لیے کیسے کیسے نشانات دکھاتا ہے اور لیکھرام بھی اگر حضور کے پاس ٹھہرتا تو نشان دیکھتا مگر اس کا مقصد تو محض مذاق اور ٹھٹھا تھا۔ اس لیے وہ چند روز ٹھہر کر واپس چلا گیا اور جاتے ہوئے حضور کو ایک خط لکھا جس کے آخر پر لکھا:"اچھا آسمانی نشان تو دکھا دیں۔ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیرالماکرین سے میری نسبت کوئی نشان تو مانگیں "۔ اب اس فقرہ کو ذرا دوبارہ پڑھیں اور غور سے پڑھیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ شخص کس قدر شوخ شریر اور اسلام کا کس قدر دشمن تھا۔ حضرت صاحب نے بھی اس خط کا جواب دیاکہ:
"جناب پنڈت صاحب! آپ کا خط میں نے پڑھا۔ آپ یقینا سمجھیں کہ ہمیں نہ بحث سے انکار اور نہ نشان دکھانے سے۔ مگر آپ سیدھی نیّت سے طلب حق نہیں کرتے۔ بے جا شرائط زیادہ کر دیتے ہیں۔ آپ کی زبان بد زبانی سے رکتی نہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں۔ یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلمے ہیں "۔
پھر اس خط کے آخر پر حضرت صاحب نے لکھا کہ :
"نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلادے"۔
اور اس کے بعد20 فروری 1886ء تک آسمانی نشان دکھلانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ لیکن لیکھرام یہ لکھ کر قادیان سے چلا گیا کہ میں آپ کی پیشگوئیوں کو واہیات سمجھتا ہوں اور میرے حق میں جو چاہو شائع کرو۔ میری طرف سے اجازت ہے میں ان باتوں سے ڈرنے والا نہیں۔
اس پر بھی حضور خاموش رہے۔ اور اس کے خلاف کچھ نہ لکھا۔ لیکن جب اس کی شوخی اور شرارت حد سے زیادہ ہو گئی،تو ۰۲ فروری ۳۹۸۱ء کو حضور نے اس کے متعلق ایک اشتہار شائع کیا اور اس میں اس شریر کے متعلق پیشگوئی درج فرمائی۔ اس سے پہلے آپ نے ایک نہایت شاندار کتاب لکھی جس کا نام "آئینہ کمالات اسلام" رکھا۔ اس میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فارسی میں ایک نظم لکھی۔ اس کے آخر میں تین چار شعر اس بدزبان شخص کے بارہ میں لکھے جو اس کی تباہی اور بربادی کی طرف اشارہ کر رہے تھے کس قدر ہیبت ناک یہ شعر ہیں۔ آپ بھی پڑھیں۔ یہ فارسی زبان میں ہیں اور ان کے نیچے ہم ان کا ترجمہ دے رہے ہیں :
الا اے دشمنِ نادان و بے راہ
بترس از تیغِ برّانِ محمدؐ
رہ مولیٰ کہ گم کردند مردم
بجو در آل و اعوانِ محمدؐ
الا اے منکر از شانِ محمدؐ
ہم از نورِ نمایانِ محمدؐ
کرامت گرچہ بے نام و نشان است
بیا بِنگر زِ غلمانِ محمدؐ
ترجمہ! خبردار اے احمق اور گمراہ دشمن! توڈر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی تیز تلوار سے
۲۔ مولیٰ کی راہوں سے مخلوق خدابھٹک چکی ہے اوراب تو اگر چاہے کہ تجھے سیدھا راستہ نصیب ہو تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی آل اولاد اور اس کے مددگاروں کے پاس پہنچ۔
۳۔ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی شان سے انکاری۔ خبردار ہوجا۔ تو اگر نورِ محمدؐ دیکھنا چاہے تو آ ہم تجھے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا نور دکھاتے ہیں۔
۴۔ معجزات کا یوں تو آج نام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ مگر توا گر کوئی معجزہ دیکھنا چاہتا ہے تو محمدؐ کے غلاموں اور خدمتگاروں کے پاس آکر دیکھ لے۔
جس اشتہار کا ذکر آپ نے اوپر پڑھا ہے اس میں حضرت صاحب نے لکھا کہ اس شخص کے بارہ میں مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ بے جان بچھڑا ہے اس کے اندر سے مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کی گستاخیوں اور بد زبانیوں کی وجہ سے اسے سزا ملے گی۔ اور اسے عذاب دیا جائے گا۔ اگر چھ برس کے اندر اندر اس پر کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو عام تکلیفوں جیسا ہی ہوا اور اس نشان کے اندر خدائی رعب اور ہیبت نہ ہوئی تو سمجھو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں اور مَیں اس کے نتیجہ میں ہر قسم کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں گا چاہے مجھے سولی پر ہی کیوں نہ چڑھا دیا جائے۔ اس شریر کی بدزبانیاں اور بے ادبیاں ایسی ہیں کہ جنہیں پڑھ کر ہر(مومن) کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ خاص اسی مطلب کے لیے دُعا کی گئی تو خدا نے مجھے اس کا یہ جواب دیا ہے۔
اس کے ڈیڑھ ماہ بعد2 اپریل 1893ء کو آپ نے ایک اور اشتہار دیا جس میں آپ نے لکھا کہ آپ نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک بڑا طاقتور اور خوفناک شکل والا شخص ہے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویاوہ انسان نہیں بلکہ بڑا سخت فرشتہ ہے۔ اُس نے پوچھا لیکھرام کہاں ہے تو پھر اس وقت حضور نے یہ سمجھا کہ یہ وہ شخص ہے جسے لیکھرام کی سزا کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔
اس اشتہار کی پیشگوئی سے معلوم ہوا کہ لیکھرام قتل کیا جائے گا۔ اس کے بعد حضور نے ایک اور پیشگوئی فرمائی کہ جس دن لیکھرام کی موت ہوگی وہ عید کے ساتھ والادن ہوگا۔
اب دیکھو بچو! تین پیشگوئیاں ہوگئیں۔ اوّل یہ کہ یہ شخص چھری سے قتل ہوگا۔ دوسری یہ کہ وہ دن عید کے ساتھ والادن ہوگا۔ اور تیسری یہ کہ چھ سال کے اندر مارا جائے گا۔ اس سلسلہ میں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ حضور کے ایک الہام کے الفاظ ہیں :۔ "یُقْضٰی اَمْرُ ہٗ فِیْ سِتٍّ"۔ یعنی چھ میں اس کا کام تمام کیا جائے گا۔
اب دیکھو! اس الہام میں چھ کا ہندسہ اس واقعہ سے کیسا عجیب تعلق رکھتا ہے۔ سو بالکل اسی طرح ہوا یعنی یہ شخص چھ سال کے اندراندر مارا گیا۔ اس کے قتل کادن چھ مارچ ۷۹۸۱ء تھا یہ چھٹے گھنٹے میں قتل ہوا۔ یہ دن مسلمانوں کی عید کا اگلا دن تھا۔ اور آریوں کے لیے بھی یہ دن عید کاہی دن تھا کیونکہ اس دن ایک مسلمان نے ہندو مذہب قبول کرنا تھا۔ اب تم اصل واقعہ سنو کہ یہ کیسے ہوا؟
لیکھرام کے پاس ایک شخص آیا۔ اور کہا جناب میں مسلمان ہوں لیکن میرے باپ دادے ہندو تھے اور میں اب پھر سے ہندو بننا چاہتا ہوں یہ سن کر لیکھرام کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اسے بڑے بڑے ہندؤوں کے پاس لے گیا اور انہیں بتایا کہ یہ ہمارا پہلا شکار ہے چنانچہ سات مارچ ۷۹۸۱ء کا دن مقرر ہوا کہ جب اِسے ہندو بنایا جانا تھا۔ اس لیے بڑی دھوم دھام سے اس کا انتظام کیا جارہا تھا۔ اور ہندؤوں کے لیے تو گویا یہ عید کا دن تھا۔
۶ مارچ کو ہفتہ کا دن تھا کہ لیکھرام جی نے قمیض اتاری ہوئی تھی اور اپنے کمرہ میں بیٹھے تھے۔ پاس ہی وہ شخص کمبل اوڑھے بیٹھا تھا۔ کہ لیکھرام نے انگڑائی لی۔ اور اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر اس شخص نے پورا خنجر لیکھرام کے پیٹ میں اتار دیا اور یہاں تک کہ اس کی انتڑیاں باہر آگئیں اور منہ سے ایسی آواز نکلی جیسے کہ بیل نکالتا ہے جسے سن کر اس کی بیوی اور ماں بھاگی ہوئی کمرہ میں آگئیں۔ اب وہاں کیا رکھاتھا۔ وہ شخص بھاگ چکا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ دروازہ تک دوڑی گئیں۔ سنا جاتا ہے کہ وہ یہ کہتی تھیں کہ انہوں نے قاتل کو سیڑھیوں پر سے اترتے دیکھا ہے۔ لیکن آگے پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں غائب ہوگیا۔ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ کیونکہ وہ گلی ایک طرف سے بالکل بند تھی اور اس طرف سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا اور دوسری طرف جو کھلی تھی اس طرف کسی کی شادی تھی۔ اور وہاں خوب کھانے وغیرہ پک رہے تھے اور لوگ بیٹھے تھے اور وہاں سے بھاگتے ہوئے کسی نے دیکھا نہیں تو اب بتاؤ وہ شخص گیا تو کہاں گیا؟ ہندؤوں کا محلہ۔ بھاگنے کو راستہ نہیں۔ کسی ہندو کے مکان میں چھپنے کی جگہ نہیں تو پھر آخر وہ مسلمان جا کہاں سکتا تھا۔ ہندؤوں نے بڑا شور مچایا اور لاہور میں مسلمان اداروں کی تلاشیاں ہوئیں۔ یہاں تک کہ قادیان میں حضرت صاحب کے مکان تک کی تلاشی ہوئی۔ انگریز سپرنٹنڈنٹ پولیس نے خود تلاشی لی۔ حضرت صاحب نے اسے سب کاغذات دکھائے۔ معاہدہ کا وہ کاغذ بھی دکھایا کہ جس میں دونوں فریقوں نے رضا مندی سے سچی پیشگوئی کو سچائی کا معیار ٹھہرایا تھا۔ وہاں سے جانے کے بعد کپتان پولیس نے گورنمنٹ کو رپورٹ بھجوائی کہ ان الزامات میں کوئی حقیقت اور سچائی نہیں اور کوئی سازش نہیں ہوئی اور ساراپراپیگنڈا بالکل غلط ہے
ادھر لیکھرام کی سُنو۔ اُسے فورًامیوہسپتال پہنچایا گیا۔ شام کا وقت ہو چکا تھا ایک انگریز ڈاکٹر نے اس کا آپریشن کرکے ٹانکے لگائے۔ چو نکہ اس کی حالت بہت نازک ہوچکی تھی اس لیے ڈاکٹرنے پولیس کو بیان لینے سے بھی روک دیا۔ صبح ہوتے ہی پنڈت لیکھرام جی اگلے جہان کوروانہ ہو گئے۔
دیکھو اس دن جبکہ ہندؤوں کے لیے عیدکا دن تھا۔ ایک مسلمان نے ہندو بنناتھا وہی ان کے لیے ماتم کا دن بن گیا۔ اسی دن لیکھرام کی لاش ڈاکٹروں نے چیری بھی اور پھاڑی بھی۔ اسی دن پھر اس کا جنازہ اُٹھایا گیا اور اسی دن اُسے جلایا بھی گیا اور بے شمارہندو مرگھٹ تک سا تھ گئے۔ جہاں لیکھرام کا فوٹو لیا گیااوراس کے بعد اُسے لکٹریوں کی ایک بہت بڑی چتا پر رکھ کر جلا دیا گیا اور پھر اس کی راکھ دریائے راوی میں بہادی گئی اور خدا کا الہام یُوں پُورا ہؤا اور بڑی شان وشوکت کے ساتھ پُورا ہوا۔
4
اس کے بعد ہم آپ کو ایک اَور عظیم الشان پیشگوئی کاحال سُناتے ہیں۔ یہ بات تو ہم آپ کو پہلے بتاچکے ہیں کہ آنے والے زمانہ میں کسی بات کا یقینی طور پربتانا کسی بھی انسان کے لیے ہرگز ممکن نہیں ،کون جانتا ہے کہ کل کیا ہونا ہے اور 5سال بعد کیا ہونا ہے دس(10)برس یا بیس(20)برس کے بعد کیا ہوگا۔ لیکن اللہ اپنے پیارے بندوں کوایسی باتیں بتا دیا کرتا ہے اور اسی کو پیشگوئی کہتے ہیں۔
آپ نے پیچھے لیکھرام والی پیشگو ئی پڑھ لی جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چھ سال کے اندر اندر پوری ہوگی۔ یہ قہر کا نشان تھا۔ یہ ہندؤوں کے لیے بڑی بدقسمتی والی پیشگوئی تھی۔ یہ ایک شریراور شیطان کو سزادینے والی پیشگوئی تھی۔ اب تم رحمت کی پیشگوئی سنو۔ برکت کا نشان دیکھو۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ یہ نشان بھی ہندؤوں نے ہی مانگاتھا جو انہیں دکھایا گیا جسے نہ صرف اُنھوں نے دیکھا بلکہ ساری دُنیا نے دیکھا۔
حضرت مسیح مو عود علیہ الصّلوٰۃ والسَّلام کچھ عرصہ علیحدہ طور پر اور بالکل تنہائی میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتے تھے۔ اسے بچو چلّہ کشی بھی کہتے ہیں۔ اگر آپ پرانے بزرگوں کی زندگیوں کے حالات پڑھیں تو کئی اولیاء اللہ نے اس قسم کی عبادتیں کی ہیں اسی طرح حضرت صاحب بھی چاہتے تھے اور اس کے لیے آپ کا خیال تھا کہ سو جان پور جو قادیان سے کافی فاصلے پر تحصیل پٹھانکوٹ میں برلبِ نہر ایک پرانا اور غالباً تاریخی قصبہ ہے وہاں جائیں اوروہاں جاکر یہ چلّہ کشی کریں حضرت صاحب کو تو چونکہ اسلام سے عشق تھا اس لیے اس دین کی سر بلندی کے لیے آپ نے ساری دنیا کو چیلنج کیا ہوا تھا کہ جو اس دین کی سچائی اور صداقت کے لیے کوئی نشان دیکھنا چاہتا ہے وہ آپ کے پاس قادیان آئے اور آپ کے پاس کچھ عرصہ ٹھہرے تو آپ اسے اس قسم کا نشان دکھانے کے لیے تیار ہیں۔ اس اعلان کو قادیان کے ہندوؤں نے بھی سن رکھا تھا لیکھرام جس کا ذکر تم اوپر پڑھ آئے ہو وہ بھی قادیان آچکا تھا اور کافی شور اور شرارتیں کر گیا تھا۔ بس انہی سب باتوں کو دیکھ کر ان لوگوں کو خیال پیداہوا اور یہ لوگ ایک وفد بنا کر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضور نے ساری دنیا کو تویہ چیلنج دے رکھا ہے کہ میرے پاس آکر اسلام کی صداقت کے لیے نشان دیکھو لیکن ہم لوگ تو آپ کے ہمسائے ہیں آپ کے گاؤں میں رہتے ہیں آپ کے پاس ہی ہیں ہم خود یہ نشان دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں تو کہیں باہر سے آنا بھی نہیں پڑے گا تو آپ ہمیں نشان کیوں نہیں دکھاتے۔ اس پر حضرت صاحب نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی، خدا سے اس کا جواب مانگا تو آپ کو بتایا گیا کہ تیری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی یعنی تیری مشکل کا حل ہوشیار پور میں بتایا جائے گا۔ اس پر آپ نے ہوشیار پور جانے کا ارادہ کر لیا۔
آپ نے اپنے دو نہایت مخلص دوستوں کو لکھا کہ وہ آپ کے ساتھ جانے کے لیے قادیان آجائیں۔ ان میں ایک تو حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری تھے۔ جنھیں شروع سے ہی حضرت صاحب سے بڑی محبت اور عقیدت تھی اور ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وقت حضور کے پاس گذاریں۔ انہیں جب یہ پیغام ملا تو یہ بہت خوش ہوئے اور قادیان آگئے۔ دوسرے دوست شیخ حامد علی صاحب تھے جو قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں فیض اللہ چک کے رہنے والے تھے یہ بھی آگئے۔ ایک اور شخص بھی حضور کے ساتھ گیا جس کا نام فتح خان تھا۔
حضرت صاحب کے ایک دوست ہوشیار پور میں رہتے تھے۔ ان کانام شیخ مہر علی تھا۔ یہ ہوشیار پور کے ایک معزز رئیس تھے۔ انہیں بھی حضرت صاحب سے بڑی محبت اور عقیدت تھی۔ حضور جب بھی ہوشیار پور تشریف لے جاتے تو انہی کے پاس ٹھہرتے۔ اس لیے حضرت صاحب نے انہیں لکھا کہ میں چند دن کے لیے ہوشیار پور آنا چاہتا ہوں آپ میرے لیے شہر سے باہر کہیں ایسی جگہ مکان کا انتظام کردیں جہاں لوگوں کا زیادہ آنا جانا نہ ہو۔ کیونکہ یہ دن میں بالکل تنہائی میں خدا تعالیٰ کی عبادت میں گذارنا چاہتا ہوں۔ شیخ مہر علی صاحب نے فوراً اس کا انتظام کر دیا۔ ان کا اپنا ہی ایک مکان شہر کے باہر ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک حویلی سی تھی جو بے آباد تھی اور دومنزلہ تھی۔ (یہ مکان اب جماعت احمدیہ کی تحویل میں ہے) جب یہ انتظام ہوگیا تو حضور 20 جنوری1886ء کو قادیان سے ہوشیار پور کے لیے روانہ ہوگئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب قادیان میں ابھی ریل گاڑی نہیں آئی تھی لوگ عام طور پر یکّوں اور بہلیوں میں سفر کرتے تھے۔ بچّو! جانتے ہو بہلی کیا ہوتی ہے۔ یہ ایک گڈّا ہوتا ہے جسے بیل کھینچتے ہیں لیکن اس میں مال اسباب رکھنے کی بجائے ایک بڑی سی پیڑھی رکھ دی جاتی ہے اور اس کے گرد چاروں طرف ڈنڈے لگا کر پردے لگا دئیے جاتے ہیں اور اس پیڑھی پر بیٹھ کر لوگ سفر کرتے ہیں اور حضرت صاحب بھی قادیان سے بہلی میں ہی روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک دریا بھی آتا ہے اس دریا کانام دریائے بیاس ہے۔
جب ان چار آدمیوں کا قافلہ دریائے بیاس پر پہنچا تو دریا پار کرنے کے لیے کشتی پرسفر کرنا تھا۔ لیکن کشتی دریا کے اندر کچھ دور تھی۔ کنارے پر نہیں تھی۔ وہ ملّاح جو کشتی چلاتا تھااس نے حضرت صاحب کو کندھے پر اٹھا کر کشتی میں بٹھایا۔ خیر حضرت صاحب نے رات ایک گاؤں میں گذاری اور اگلے دن ہوشیار پور پہنچ گئے۔ رات حویلی میں بالاخانہ پر گذاری۔ بچّو! بالا خانہ مکان کی دوسری منزل کو کہتے ہیں۔ اور آپ نے کام تقسیم کر دئیے۔ حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری کے سپرد تو کھانے پکانے کاکام ہوگیا۔ حضرت شیخ حامد علی صاحب کے سپرد سودا وغیرہ لانے کاکام ہوا اور دوسرے چھوٹے موٹے کام فتح خان کے سپرد ہوئے۔
اس کے بعد پھر حضرت صاحب نے اشتہار کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کر دیا کہ میں چالیس دن اکیلے عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے لوگ مجھے ملنے نہ آئیں اور نہ ہی کوئی دعوت وغیرہ کریں۔ ان چالیس دنوں کے بعد میں بیس دن اور ٹھہروں گا۔ ان دنوں جس کا جی چاہے آکر سوال جواب کرے اور دعوت کرنے والے دعوت بھی کر لیں اور حضور نے یہ حکم دیا کہ مکان کے اندر کی کنڈی ہمیشہ لگی رہے اور حضور کو کوئی نہ بلائے اور اگر حضور کوئی بات پوچھیں تو صرف اُس بات کا اتنا ہی جواب دیا جائے جتنا ضروری ہو۔ اوپر بھی کوئی نہ آئے میرا کھانا اوپر پہنچا دیا جائے اور میرے کھانے کا انتظار نہ کیا جائے۔ میں جب چاہوں گا کھا لوں گا۔ اور خالی برتن پھرکسی وقت آکر لے جایا کریں یہاں تک کہ جمعہ پڑھانے کے لیے شہر سے باہر ایک باغ میں ویران سی مسجد تلاش کر لی جہاں یہ چاروں چلے جاتے اور حضرت صاحب خود خطبہ پڑھتے اور نماز پڑھادیتے۔
حضرت منشی محمدعبداللہ صاحب سنوری نے لکھا ہے کہ حضور نے مجھے ایک مرتبہ فرمایاکہ:۔ "میاں عبداللہ! اِن دنوں مجھ پر خدا تعالیٰ کے فضل کے بڑے بڑے دروازے کھلے ہیں بعض اوقات دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے اگر ان کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہو جاویں "۔ اس چلہ سے متعلق اور بھی بعض واقعات ہیں جو ہم چھوڑتے ہوئے آگے چلتے ہیں کیونکہ اس طرح بات لمبی ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو ایک عظیم الشان خبر دی اور یہ وہ پیشگوئی ہے جسے اب ہم تمہیں بتانا چاہتے ہیں۔ حضور نے اپنے قلم سے 20 فروری1886ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جو امرتسر کے ایک اخبار"ریاض ہند" میں یکم مارچ 1886ء کے پرچہ میں شائع ہوا آپ اسے پڑھیں اور بار بار پڑھیں۔ اس کے الفاظ، اس کے فقرے کس قدر شان وشوکت والے ہیں اس میں دین اسلام کی ترقی کی پیشگوئی ہے۔ اپنے ایک عظیم الشان بیٹے کی پیدائش کی پیشگوئی ہے۔ پھر ان رشتہ داروں کی تباہی کی پیشگوئی ہے جو ہر وقت حضرت صاحب کو تنگ کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کو ذلیل اور رسوا کرنے کی کوشش کیا کرتے اور پھر آپ یہ دیکھیں کہ یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی۔ وہ بیٹا پیدا ہوا اور جوان ہوا اور پیشگوئی کے سب الفاظ اس بیٹے پر پورے ہوئے۔ آپ کے وہ سب رشتہ دار جو ہمیشہ آپ کی تباہی کے سامان سوچا کرتے تھے اور آپ کو برباد کرنے کے درپے تھے سب کے سب ہلاک اور برباد ہو گئے۔ اب آپ یہ پیشگوئی خود پڑھیں۔
"پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ واعلامہ عزّوجل خدائے رحیم وکریم بزرگ وبرتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے (جلّ شانہ وعزّ اسمہ‘) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سنااور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لیے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اورظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین۔۔۔ کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سوکرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیؐ کوانکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اورپاک لڑکاتجھے دیا جائے گاایک زکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیت و نسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کانام عنموائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے۔ اور وہ رجس سے پاک ہے وہ نور اللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیوں کہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے اپنے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین وفہیم ہو گااور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری وباطنی سے پر کیا جائے گااور وہ تین کو چار کرنے والاہوگا۔ (اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے)دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ۔ مَظْھَرُالْحَقِّ وَالْعَلَائِ کَأَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الہی کے ظہور کاموجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہوگا۔ اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گااور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًامَّقْضِیًّا۔ پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتینِ مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گاتیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا۔ مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر ایک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گایہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے۔ ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خداتیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گااور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا۔ تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا۔ اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلا لوں گا پر تیرا نام صفحۂ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گااور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گااور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس واموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تابروزِ قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنااجر پائیں گے"۔ (اشتہار20 فروری 1886ء ضمیمہ اخبار "ریاض ہند"امرتسر مطبوعہ یکم مارچ 1886ء صفحہ 147۔ 148)
ابھی یہ پیشگوئی آگے بھی چلتی ہے جس میں آئندہ کی اور خبریں بھی دی گئی ہیں۔ لیکن ہم نے چونکہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ایک عظیم الشان بیٹے کے متعلق ہی بتانا ہے اس لیے اسے یہاں پر ختم کر دیا گیا ہے۔
پھر اس کے بعد حضور نے 22 مارچ 1886ء کو ایک اوراشتہار کے ذریعہ یہ بھی بتلا دیا کہ:"اس عاجز کے اشتہار مورخہ 20 فروری 1886ء۔۔۔ میں ایک پیشگوئی دربارہ تولد ایک فرزند صالح جو بصفات مندرجہ اشتہار پیدا ہوگا ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی نو برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا۔ "
اب بچّو! دیکھو اگراس پیشگوئی کے سارے ہی پہلو گننے شروع کریں توپھر ہماری یہ تفصیل بہت لمبی ہو جائے گی لیکن ہم آپ کو چند خصوصیات بتاتے ہیں اور اس کے بعد یہ بھی سمجھائیں گے کہ یہ سب کیسے پوری ہوئیں۔
اول: یہ کہ ایک لڑکا دیا جائے گا۔
دوم: یہ کہ وہ نو برس کے اندر اندر پیدا ہوگا۔
سوم: یہ کہ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔
چہارم: یہ کہ خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگااور وہ جلد جلد بڑھے گا۔
پنجم: یہ کہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
ششم: یہ کہ سخت ذہین و فہیم ہوگا۔
اب اگر اوپر والی عبارت آپ نے غورسے پڑھی ہے تو اس کے ہر فقرہ میں ایک پیشگوئی ہے اور ہم یہاں ایک ایک پیشگوئی کی تفصیل بیان کرنا شروع کریں تو پوری کتاب ہی اس سے بھر جائے اور واقعی یہ بات ہے بھی صحیح کہ اتنی شاندار اور عظیم الشان پیشگوئی کے لیے تو پوری ایک کتاب بھی تھوڑی ہے لیکن ہم نے آپ کو صرف ایک پیشگوئی ہی نہیں سمجھانی اور بھی مختلف پیشگوئیاں بتانی ہیں اس لیے اس میں سے صرف چار پانچ باتیں ہی منتخب کی ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا نے بتایا کہ ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ اب تم خود سوچ لو کہ کیا خدا کے ساتھ زبردستی کی جاسکتی ہے کہ وہ لڑکا ضرور دے۔ اور وہ لڑکے کی بجائے لڑکیاں ہی دے سکتا ہے۔ اور اگر خدا تعالیٰ لڑکیاں ہی دیتا تو یہ پیشگوئی کہاں پوری ہوتی۔ پھر یہ کہ تم نے دیکھا ہوگا کہ کئی لوگ ہیں کہ جن کے نہ لڑکا ہوتا ہے اور نہ لڑکی۔ سینکڑوں دوائیوں اور علاج کے باوجود اُن کے ہاں اولاد ہوتی ہی نہیں تو پھر یہ کہنا کہ لڑکا پیدا ہوگا تو یہ عظیم الشان پیشگوئی نہیں تو اور کیا ہے۔ اور دیکھوخدا تعالیٰ نے یہ لڑکا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کودے بھی دیا۔
اب دوسری بات لو۔ وہ یہ کہ یہ لڑکا نو برس کے اندر پیدا ہوگا۔ اور اگر نو برس میں نہ پیدا ہوتا تو پھر کوئی خدا تعالیٰ کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ وہ توقادر مطلق ہے وہ ہم سب کا مالک ہے۔ ہم تو اُس کے بندے اور غلام ہیں۔ وہ چاہے تو ایک برس کے اندر دے دے اور نہ چاہے تو پچاس برس تک نہ دے۔ لیکن اگر واقعی یہ پیشگوئی سچی تھی اور خدا نے ہی یہ بات اپنے پیارے بندے کو بتائی تھی تو پھر خواہ کچھ بھی ہوجاتا نو برس سے ایک دن بھی زیادہ ہونا ممکن نہ تھا۔ وہ اپنی بات ہر رنگ میں پوری کرتا ہے اورپھر خواہ کچھ بھی ہو جائے اس کی بات ردّ نہیں ہو سکتی۔ اور نہ ہی کی جاسکتی ہے۔ پس یہ لڑکا 9 برس تو دور کی بات ہے تین برس کے اندر یعنی 12 جنوری1889ء کو پیدا ہوگیا۔ کیا اسے پیشگوئی پوری ہونا کہتے ہیں یا نہیں۔ پس پیشگوئی کا یہ حصہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہوگیا۔
اب لو تیسری بات جوہم نے پیچھے ذکر کی ہے اور وہ یہ کہ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔
اگرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بات نعوذ باللہ اپنے دل سے ہی بنائی ہوتی تو خداتعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں کو خدا عزت ہی کیوں دیتاوہ بیٹا ہی کیوں دیتا۔ اور پھر وہ نوبرس میں کیوں دیتا پندرہ برس میں کیوں نہ دیتا۔ اگر دے بھی دیا تو یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ وہ اندھا ،کانا،لنگڑا لُولا یا پاگل ہی پیدا ہوتا۔ پھر یہ کہ اگر لڑکا صحیح اور تندرست اور 9 برس کے اندر ہی پیدا ہوگیا تھا تو بعد میں بڑے ہو کر وہ کوئی برا آدمی بھی بن سکتا تھا۔ یا کوئی قلی مزدور بنتا یا کوئی عام کسان یا دکان دار بن جاتاجسے اپنے ہی گاؤں میں کوئی نہ جانتا۔ تودیکھو بچو! یہ بات خدا تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا اور نہ ہی یقین سے کہہ سکتا ہے کہ میرا بیٹا بڑا ہوکر عزّت اور شہرت کا مالک ہوگا۔ اور پھر اگر وہ یہ بات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے کہے اور پھر وہ بات بالکل اسی طرح پوری ہوجائے تو پھر تو وہ یقینا سچی پیشگوئی ہے۔ اب اس روشنی میں اس پیشگوئی پر غور کرو اور دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ لڑکا پیدا ہوا۔ 9سال میں پیدا ہوا۔ وہ زندہ رہا۔ جوان ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اسے جماعت احمدیہ کا امام اور سربراہ بنایا وہ لاکھوں احمدیوں کا خلیفہ بنا اور یہ تھے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبشر اولاد میں سے سب سے بڑے بیٹے تھے جواس پیشگوئی کے مطابق حضور کے ہاں پیدا ہوئے۔
تو دیکھو یہ کتنی بڑی عظمت ہے اور کس قدر عزت اور احترام کی بات ہے کہ سب احمدیوں نے آپ کو اپنا سردار تسلیم کیا۔ آپ کو عزت واحترام اور اطاعت کی نظروں سے دیکھا۔ آپ کے حکم کو بجا لانے میں اپنی سعادت سمجھی۔ ہر رنگ میں اس کی خدمت کو اپنے لیے عزت اور برکت کا باعث سمجھا۔ اور پھر ایک وقت آیا کہ ۴۴۹۱ء میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے الہام کے ذریعہ ان کو یہ بھی بتا دیا کہ آپ ہی وہ لڑکے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی اور الہام میں وعدہ فرمایا تھا اور آپ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلح موعود قرار دئیے گئے ہیں۔
چوتھی پیشگوئی اس میں یہ تھی کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ اب اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوسکتا کہ وہ دس برس میں بیس برس کا ہوجائے گا۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنے عظیم الشان کاموں کو جلد جلدمکمل کرے گا اور اس کی شہرت اور عظمت میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ اس کا حال یوں سنو کہ آپ دنیاوی علم کے لحاظ سے چاہیے تو یہ تھا کہ آپ بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرتے۔ لیکن اس لحاظ سے تو آپ میٹرک سے بھی آگے نہ جاسکے۔ صحت آپ کی اتنی کمزور کہ کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا۔ محنت کہاں سے کرتے اور ڈگریاں کس طرح ملتیں۔ علاوہ ازیں گاؤں میں رہنا جہاں نہ یونیورسٹی اور نہ کالج۔ لیکن یہ کوئی انسانی کام تو نہیں یہ تو خدا کا کہا پورا ہونا تھا اس لیے باوجود اس ساری کمی کے اللہ تعالیٰ نے اپنی بات پوری کی۔ آپ ابھی بہت ہی چھوٹی عمر کے تھے یعنی 25 برس کے ہی تھے کہ جماعت نے آپ کو اپنا خلیفہ اور امام چُن لیا۔ اور یوں آپ پرساری جماعت کی ذمّہ داریاں آن پڑیں لیکن ساری جماعت کو علم ہوگیا کہ آپ ہمارے امام ہیں اور پھر اس وقت جماعت کے بعض بڑے بڑے لوگوں نے اپنی علیحدہ جماعت بنا کر آپ کے لیے بڑے مسائل پیدا کر دئیے۔ لیکن آپ نے بڑی ہمت اور بہادری سے وہ سب مسائل حل کر دئیے۔ جماعت میں ایک قسم کا سکون اور چَین پیدا کر دیا۔ پھر یہ کہ آپ نے اپنی تقریروں سے اور تحریروں اور کتابوں سے ساری جماعت کے لیے ایک ایسا علمی ذخیرہ فراہم کر دیا کہ سب لوگ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اور اگر آپ پر خدا کا سایہ نہ ہوتا تو یہ سب کیسے ہوجاتا؟ آپ نے یورپ میں اسلام کے پھیلانے کے لیے مساجدکی تعمیر کا آغاز کیا۔ سب سے پہلی مسجد تو لنڈن میں بنوائی۔ یہ مسجد عورتوں نے اپنے چندہ سے بنائی۔ پھر ہالینڈ میں۔ پھر سوئٹزرلینڈ میں۔ پھر جرمنی میں دومساجد بنوائیں۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یورپ کے ان تہذیب یافتہ ملکوں میں یہ چھوٹی سی غریب جماعت اتنی شاندار مساجدتعمیر کرے گی۔ اور یورپ میں اسلام کی بنیاد رکھ دے گی۔ پھر آپ نے دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے شروع کروائے۔ انگریزی ترجمہ تو دیر ہوئی شائع کروا بھی دیا پھر اس کے ساتھ ہی جرمن،ڈچ،ڈینش اور مشرقی افریقہ کی سواحیلی زبان کے ترجمے بھی شائع کروادئیے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھنی شروع کی جو بہت بڑا عظیم الشان کام تھا۔ اور کئی سال کی سخت محنت کے بعد کئی ہزار صفحات کی تفسیر لکھ دی۔ اس کے ساتھ ہی چونکہ یہ بہت بڑی تفسیر تھی اور کئی حصوں میں تھی اس لیے آپ نے اسے مختصر بھی فرمایا اوریہ تفسیر صغیر کے نام سے شائع ہوئی۔ چونکہ آپ بیمار ہو گئے اس لیے بڑی تفسیر آپ مکمل نہ کر سکے اور اسی کی روشنی میں پھر انگریزی کی تفسیر تیار ہوئی جو پانچ جلدوں میں شائع ہوئی لیکن چونکہ یہ تفسیر بھی بہت بڑی تھی اور ہر شخص نہ اسے خریدنے کی طاقت رکھتا تھا اور نہ ہی روزانہ اسے مطالعہ کر سکتا تھا اس لیے اس کو چھوٹا کر کے ایک ہی جلد میں شائع کیا۔ یہ سب کس قدر مشکل کام تھے اور اگر خدا کا سایہ ان کے سر پر نہ ہوتا تو یہ کام کب اور کیسے ہوجاتا۔
بچو! 1947ء میں انگریز ہندوستان کو آزادی دے کر چلے گئے اور پاکستان ایک علیحدہ ملک بن گیا۔ لیکن ہمارا مرکز قادیان ہندوؤں کے حصے میں آگیا۔ بڑی قتل وغارت شروع ہو گئی اور ممکن تھا کہ بے شمار احمدی قتل ہو جاتے۔ لیکن آپ نے اس سارے معاملہ کو ایسی عقلمندی اور دانش مندی سے حل کیا کہ شاید ہی کسی احمدی کی جان گئی ہو۔ قادیان کے سب احمدی کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے سب خیرو عافیت سے پاکستان پہنچ گئے۔ پھر اس سے بھی بڑا کارنامہ سنو۔ اور وہ یہ کہ جب ہم لوگ پاکستان پہنچے تو ہم لوگوں کے پاس کوئی مرکز نہ تھا۔ اپنا کوئی گاؤں یا شہر نہ تھا کوئی احمدی کہیں اور کوئی کہیں۔ اس لیے آپ نے بڑی دعاؤں اور تلاش کے بعد ایک جگہ منتخب کی جسے آپ اور ہم اب ربوہ کہتے ہیں۔ زمین کا یہ ڈھائی میل لمبا اور میل بھر چوڑا ٹکڑا حکومت سے روپیہ دے کر خرید لیا۔ اور یہاں ایک نئے شہر کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یہ وہ جگہ تھی جس کے چاروں طرف سوکھی اور خشک پہاڑیاں اور چٹانیں اور زمین شور اور کلر زدہ تھی۔ درخت تو درکنار گھاس کا پتّا نظر نہ آتا تھا۔ پانی کانام ونشان نہ تھا۔ ہم نے جب 1948ء میں یہاں پر خیمے لگائے تو عجیب نظارہ تھا دور دور تک کوئی آبادی نظر نہ آتی تھی۔ رات کو ہواسائیں سائیں کرتی دن کو بگولے اور جھکّڑ چلتے۔ تیز لوئیں چلاکرتیں۔ چند لوگ تھے جنہیں دیکھنے والے دیوانے اور پاگل کہا کرتے۔ یہی دیوانے کئی ماہ ان خیموں میں رہے۔ دور سے پانی لایا کرتے۔ تقریباً10کلومیٹر دور چنیوٹ کا شہر تھا وہاں سے دال سبزی اور ضرورت کی دوسری چیزیں خرید لاتے۔ اسی طرح مہینوں گذر گئے اور پھر اس کے بعد گارے اور مٹی کے چند کچے گھر بنا لیے۔ اور اپنے دفتر بھی اسی طرح بوسیدہ اور پرانی کھڑکیوں اور دروازوں کے ساتھ کچی اینٹوں کے بنا لیے تا کہ کام شروع ہو جائے۔ اب تو ایک ننّھاساگاؤں بن گیا پاس ہی ریل گاڑی گذرتی تھی وہ بھی ٹھہرنی شروع ہو گئی ربوہ ریلوے اسٹیشن بن گیا۔ دوسری طرف بڑی سڑک گذرتی تھی جس پر سے لاہور اور فیصل آباداور سرگودھا جانے والی بسیں گذرتی تھیں وہ بھی ٹھہرنی شروع ہو گئیں۔ یوں آمدورفت کا اچھا بھلا سامان ہوگیا۔ رفتہ رفتہ پکی اور مستقل عمارتیں بننی شروع ہو گئیں۔ لیکن پانی کی شدید تکلیف تھی۔ آخر ہمارا یہی خلیفہ ربوہ آیا اور دعاؤں سے ایک جگہ کی نشاندہی کر دی۔ اور جب وہاں کھودا تو پانی نکل آیا اور پھر اس کے بعد پانی کی تو بہار آگئی۔ لیکن یہ پانی صحت کے لیے کچھ مفید نہ تھااس میں وہ ضروری اجزاء نہ تھے جو اچھے پانی میں ہونے ضروری ہیں لیکن کافی عرصہ کے بعد ایک ٹنکی بن گئی جس میں دریا سے پانی لاکر ڈالا گیا اور یہ پانی بہت عمدہ تھا۔ اب آہستہ آہستہ آبادی بڑھنی شروع ہوگئی۔ ڈاک خانہ بن گیا پھر 1955ء میں بجلی بھی آگئی۔ ٹیلیفون لگ گئے اور ربوہ ایک تیزی سے ترقی پذیر شہر بن گیا۔ جہاں آج غالباً دنیا کی ہر نعمت میسر ہے۔
اب دیکھو بچّو! یہ اسی لڑکے کا کارنامہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ:"خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا اور وہ جلد جلد بڑھے گا"۔ اگر خدا کا سایہ اس کے سر پر نہ ہوتا تو کیا یہ سارے کام اس کے لیے کبھی ممکن بھی تھے؟ یہ تو خدا کا کہا تھا۔ جوپورا ہوا۔ اور کون ہے جو خدا کے کہے کو پورا ہونے سے روک دے؟۔
اب ایک اور بات لو۔ پیشگوئی میں یہ بات بھی بتائی گئی کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ ذرا دل میں سوچو کہ گاؤں میں پیدا ہونے والا ایک بچہ اور وقت بھی وہ جبکہ نہ ہوائی جہاز،نہ موٹریں نہ ریڈیو اور نہ ٹی وی۔ یہ بات کیسے پوری ہوگی۔ دنیا کے کناروں تک کیسے شہرت پائے گا۔ ابھی جماعت احمدیہ کی بنیاد بھی نہیں رکھی گئی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ پیشگوئی بتائی۔ لیکن خدا سچے وعدوں والا ہے وہ کبھی غلط بات نہیں کہتا اس کی بتائی ہوئی سب باتیں سچی ہوتی ہیں۔ پیارے بچو! اس لڑکے کی پیدائش کے ساتھ ہی جماعت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یعنی حضور نے بیعت لینے کا سلسلہ شروع کر دیا اور اب حضور کی جماعت باقاعدہ ایک جماعت بن گئی۔ لیکن آپ 1914ء میں جماعت کے خلیفہ بنے۔ اس وقت ہندوستان سے باہر جماعت کا صرف ایک مشن تھا جولنڈن میں قائم کیا گیا تھا۔ دوسرا مشن 1915ء میں جزیرہ ماریشس میں آپ نے ہی قائم کیا۔ اگر کبھی آپ ماریشس کے رہنے والوں سے بات کریں۔ تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ کہا کرتے ہیں کہ ہمارا جزیرہ دنیا کا کنارہ ہے لو خدا کی بات تو 1915ء میں ہی پوری ہو گئی کہ آپ کا نام دنیا کے کنارے تک پہنچ گیا۔ لیکن یہ بات ہم تمہارے علم کے لیے بتا رہے ہیں کہ آپ کی زندگی میں ہی جماعت احمدیہ کے مشن دنیا کے پچاس مختلف ملکوں میں کھلے۔ یہ مشرق میں بھی تھے اور مغرب میں بھی۔ شمال میں بھی اور جنوب میں بھی۔ کالوں میں بھی اور گوروں میں بھی سرخ لوگوں میں بھی اور زرد میں بھی۔ اگر سب کی فہرست لکھی جائے۔ تو بہت لمبی ہو جائے گی۔ مختصر طور پر سنو کہ کہاں کہاں آپ کی زندگی میں آپ کا نام پہنچا اور مشن قائم ہوئے۔ یورپ میں انگلستان، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، سپین، ہنگری، آسٹریا، چیکوسلواکیہ، اٹلی، جرمنی، یوگوسلاویہ، روس اور امریکہ میں شمالی اور جنوبی امریکہ۔ مغربی افریقہ میں غانا، نائیجیریا، سیرالیون،گیمبیا،لائبیریا، ٹوگولینڈ، آئیوری کوسٹ۔ مشرقی افریقہ میں کینیا، یوگینڈا، تنزانیہ اور جنوبی افریقہ میں اور پھر مشرق وسطیٰ میں بھی کئی ملکوں میں مشن کھلے۔ مشرق قریب میں سری لنکا اور برما اور ایران۔ مشرقِ بعید میں جاوا، سماٹرا، ملایا، سنگاپور، جاپان، چین، ہانگ کانگ اور جزائرفجی میں آپ کا نام پہنچ گیا۔ بچو! یہاں پر تمہیں ایک دلچسپ بات بھی بتائیں۔ جزائر فجی کے قریب جغرافیہ دانوں نے ایک فرضی لکیر کھینچی ہے جس کے مشرق میں چلے جاؤ تو ایک تاریخ کم ہوگی اور اس خط کے مغرب میں آجاؤتو ایک تاریخ زیادہ ہوگی اب سوچ کر بتاؤ کہ اسے دنیا کا کنارہ کہتے ہیں یا نہیں۔ بس خدا کی یہ بات پوری ہونی تھی جو ہو گئی اور آپ کا نام زمین کے کناروں تک پہنچ گیا۔
اب اگر اس عظیم الشان پیشگوئی کے ہر پہلو کی تفصیل بیان کریں توپھر یہ ساری کتاب اسی سے بھر جائے گی۔ اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ تمہیں یہ بات اب خوب سمجھ آگئی ہوگی۔ اس لیے ہم اب اگلی پیشگوئی کے بارہ میں تمہیں کچھ بتاتے ہیں۔
5
یہ بات ہم تمہیں کھول کر بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ بہت ہی رحم کرنے والا،پیار کرنے والا اور کرم کرنے والا خدا ہے لیکن اگر بندے ہی ظلم اور سرکشی پر اتر آئیں۔ خدا کی مسلسل نافرمانی کریں۔ اس کے پیارے بندے کو دکھ دیں اور تکلیفیں پہنچائیں تو پھر خدا تعالیٰ ناراض بھی ہوتا ہے اور ان کی اصلاح کے لیے کچھ سزا بھی دیتا ہے۔ تو بچّو! اب ہم تمہیں ایسے ہی ایک نشان کی تفصیل بھی سناتے ہیں۔ اور وہ ہے طاعون کا نشان۔ ایسے نشان سے اللہ تعالیٰ کا مقصد صرف مخلوق کی اصلاح ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی بدکاریوں اور گناہوں سے باز آجائیں اور نیکیوں اور بھلائیوں کو اختیار کریں۔ دنیا کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنیں اور سکھ اور آرام کا باعث بن جائیں۔
بچّو! طاعون ایک خطرناک بیماری کانام ہے۔ یہ دوسری بیماریوں کی طرح نہیں ہوتی جیسے کھانسی، زکام، نزلہ، پیٹ درد یاسر درد۔ یہ بیماری عام طور پر وبا کی صورت میں پھوٹتی ہے اور جب پھوٹتی ہے تو دوچار یا دس موتیں نہیں ہوتیں پھر سینکڑوں ہزاروں لوگ مرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں یہ بیماری جب بھی پھیلی بڑی خوفناک صورت میں پھیلی، اسے خدا کا عذاب بھی کہا گیا ہے۔ جن ممالک یا اقوام میں یہ بیماری پھوٹی اس کا مختصر تذکرہ بھی بہت لمبا ہو جائے گا اس لیے مختصراً یہ بتانا ہی کافی ہوگا کہ یہ عام طور پر چوہوں سے پھیلتی ہے۔ ایک زہریلا قسم کا پِسّوجو طاعون زدہ چوہے کو کاٹتا ہے وہی پِسّو پھر کسی آدمی کو کاٹ لیتا ہے۔ اور اسے بھی طاعون ہو جاتی ہے۔ اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ بغل میں یا رانوں میں بڑی تکلیف دہ گلٹیاں اُبھر آتی ہیں اور ساتھ ہی تیز بخار چڑھ جاتا ہے اور دوتین دن کے اندر اندر مریض ختم ہوجاتا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے 6 فروری 1898ء کوایک خواب دیکھا جس کی تفصیل حضور یوں بیان فرماتے ہیں :۔
"آج جو 6 فروری 1898ء روز یک شنبہ ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک(فرشتے)پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں۔ اور وہ درخت نہایت بد شکل اور سیاہ رنگ اور خوف ناک اور چھوٹے قد کے ہیں۔ میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں۔ جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے"۔
اب یہ وہ زمانہ ہے کہ پنجاب میں کوئی طاعون نہ تھی۔ لیکن خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو بہت پہلے سے اس کی خبر دے دی اور حضور نے اسے اپنی کتاب"ایّام الصلح"کے صفحہ161 پر شائع فرمادیا۔ اور بچو! اگر تم یہ پیشگوئی دوبارہ پڑھو تو تمہیں یہ بات کتنی صاف نظر آئے گی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ فرشتے ملکِ پنجاب میں طاعون کے پودے لگا رہے ہیں۔ مگر یہ وہ وقت ہے کہ پنجاب میں طاعون کا نام ونشان نہ تھا۔ اور اگر یہ خبر خدا کی طرف سے نہ ہوتی تو خدا تعالیٰ کو کیا ضرورت تھی کہ ایک جھوٹی خبر کو سچی کرنے کے انتظامات کر دیتا، لیکن1902ء میں یعنی پیشگوئی کے ۴ سال بعد یہ بیماری پنجاب میں خوفناک طریق پر پھوٹی اور اس طرح پھوٹی کہ بعض جگہ ایک ایک گھر میں ایک ہی دن میں تین تین چار چار موتیں ہو گئیں ، دفنانے کے لیے لوگ نہیں ملتے تھے۔ بعض تو گاؤں کے گاؤں ہی صاف ہو گئے۔ غرض عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ انسانی جان اس قدر سستی ہو گئی تھی کہ کوئی ایک دوسرے کو پوچھنے کا روادار نہ تھا۔
ان دنوں حکومت نے لوگوں کو طاعون کا ٹیکہ لگانے کا حکم دیا تا کہ اس وجہ سے جانے بچ سکیں۔ یہ دوائی بہت مفید تھی اور حکومت نے بڑی خیرخواہی سے پبلک کے لیے اس کا انتظام کیا تھا۔
اب تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس خوفناک وبا اور بیماری کے پھوٹنے کی پہلے ہی اطلاع دی اور عین اس کے مطابق واقعہ بھی ہو گیا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن اور عجیب اور دلچسپ بات سنو۔
جب طاعون پھیلی تو ٹیکہ لگوانا ضروری تھا تاکہ لوگ اس بیماری سے محفوظ ہو جائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو خبر دی کہ آپ کو ٹیکہ لگوانے کی ضرورت نہیں۔ اور نہ صرف آپ کو بلکہ ان سب لوگوں کے لیے بھی ضروری نہیں جو آپ کے گھر کی چاردیواری میں رہتے ہیں اور چاردیواری کے متعلق آپ نے فرمایا کہ:۔ اس سے مراد یہ اینٹوں اور پتھروں کی چاردیواری ہی نہیں بلکہ اس سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو سچے طور پر آپ کی جماعت میں شامل ہیں۔ اور آپ کی بتائی ہوئی تعلیم پر عمل کرتے ہیں۔ اور اس سلسلہ میں آپ نے ایک بڑی مشہور کتاب لکھی جس کا نام "کشتیٔ نوح" ہے۔ اس کے پہلے صفحے پر آپ لکھتے ہیں کہ :۔
"لیکن ہم بڑے ادب سے اس محسن گورنمنٹ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر ہمارے لیے ایک آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹیکہ کراتے اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لیے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے۔ سو اُس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایاکہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے۔ اوران آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا۔ تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے"۔
تھوڑی دیر کے لیے سوچ کر دیکھو کہ اوّل تو بیماری کے پھیلنے کی کئی سال پہلے اطلاع دی جاتی ہے اور یہ بیماری عین پیشگوئی کے مطابق پھوٹ پڑتی ہے اور بیماری بھی وہ بیماری ہے جو خطرناک اور خوفناک ہے اور وبا کی صورت میں پھیلی ہے۔ اب اگر یہ پیشگوئی خدا کی طرف سے نہیں تھی تو اوّل تو یہ بیماری ہی نہ پھوٹتی۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس خوف ناک بیماری سے بچنے کی اطلاع بھی دی۔ نہ صرف آپ کو بلکہ ہر اس شخص کو جو آپ کے گھر کی چاردیواری کے اندر رہتا تھا۔ پھر نہ صرف یہ کے گھر کے اندر رہنے والے ہی اس بیماری سے محفوظ رہیں گے بلکہ آپ کو سچا ماننے والے آپ پر ایمان لانے والے اور آپ کی تعلیم پر سچے دل سے عمل کرنے والے بھی اس سے محفوظ رہیں گے۔ آپ کو اور آپ کے گھر میں قیام کرنے والوں کو اور آپ کوسچا اور حقیقی ماننے والوں کو ٹیکے کی ضرورت نہیں تھی۔ اور بالکل اسی طرح پھرظاہر بھی ہوا۔ آپ خود طاعون سے محفوظ رہے، آپ کی بیوی اور بچے اس سے محفوظ رہے، اور وہ سب لوگ جو آپ کے گھر کے اندر رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے سب کو اس خوفناک بیماری سے محفوظ رکھااور آپ کے گھر میں اس بیماری سے ایک بھی موت نہیں ہوئی۔
اوپر آپ کو یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ یہ بیماری اس بری طرح سے پھیلی کہ بعض تو گاؤں کے گاؤں ہی تباہ ہو گئے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا کہ قادیان میں طاعون آئے گی، لیکن جھاڑو پھیر دینے والی بیماری کی طرح نہیں آئے گی، اور بالکل اسی طرح ہوا کہ اس گاؤں میں طاعون تو آئی لیکن یہ ایسی نہیں تھی کہ لوگ کتوں کی طرح مرتے اور مارے غم کے پاگل ہوجاتے اور اس گاؤں کے لوگ دوسرے مخالفین کی نسبت یقینا محفوظ رہے۔
دیکھو بچو! کیا یہ تعجب والی بات نہیں کہ خدا تعالیٰ کی مدد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت کے ساتھ تھی اور اس نے خاص رحمت سے ان لوگوں کو ایسا بچایا جس کی مثال نہیں ملتی اور لوگوں کے لیے یہ بڑی حیرت کی بات بن گئی کہ کیاواقعی ایسا خدا موجود ہے جو اس طریق پر بھی اپنے بندوں پر اپنا فضل نازل کر سکتا ہے۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ ہاں ایساخدا موجود ہے اور اس میں اتنی طاقت اور قدرت ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے پیارے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے تو زندہ ہی مرجاتے۔ وہ عجیب قدرتوں والا خدا ہے۔ ایک طرف مخالفوں اور دشمنوں کو اپنے دوستوں پر کتوں کی طرح مسلط کر دیتا ہے اور دوسری طرف اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ ان کی خدمت کریں۔ ان کی حفاظت کریں اور ان کو ہر قسم کے نقصان سے محفوظ بھی رکھیں۔
ایسا ہی جب اس کا غضب اور غصہ بھڑک اٹھتا ہے تو اس کے پیار کی آنکھ اپنے پیاروں اور اپنے خاص لوگوں کی حفاظت بھی کرتی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے بندوں کا تو کارخانہ ہی ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہو جاتا اور کوئی ان کو پہچان ہی نہ سکتا۔ خوب یاد رکھو کہ اس کی قدرتیں بے انتہا ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے مگر غیر معمولی نشان انہی کے لیے دکھائے جاتے ہیں جو خدا سے پیار اور محبت کی انتہا کر دیتے ہیں اور اس کی عجیب قدرتوں پر پورا ایمان رکھتے ہیں اور یہی طاعون کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے ماننے والوں کے ساتھ ہوا اور آپ اور آپ کے ماننے والے اس کی رحمت کے ساتھ بغیر ٹیکہ کے بچائے گئے اور آپ پر اُس کی رحمتوں کا سایہ رہا اور یہ بہت بڑا نشان تھا۔
6
اب ایک اور عظیم الشان نشان کا حال پڑھو۔ امریکہ کے مشہور شہر شکاگو کے پاس ایک شہر صیحون آباد ہے۔ یہ شہر ایک شخص پادری جان الیگزینڈر ڈوئی نے آباد کیا تھا۔ یہ شخص اسلام کا بڑا دشمن تھا۔ اُس نے پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ بھی کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھتا تھا۔ اورآپؐ کو گالیاں دیا کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ دین اسلام جلد سے جلد ختم کر دیا جائے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا سمجھتا تھا اور عیسائیت کو پھیلانے کے لیے سخت کوشش کرتا۔ اس کا اپنا ایک اخبار بھی تھا جس کا نام "نیوز آف ہیلنگ" رکھا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے اپنے اس اخبار میں 19 دسمبر1903ء میں لکھا کہ:۔
"میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جاوے۔ اے خدا تو ایسا ہی کر۔ اے خدا اسلام کو ہلاک کر دے۔ "
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ میں نے پادریوں کی سینکڑوں کتابیں دیکھی ہیں مگر ایسا جوش کسی میں نہیں پایا جتنا کہ ڈاکٹر ڈوئی میں ہے۔ اس نے اپنے اسی اخبار میں 12 دسمبر 1903ء میں لکھا کہ:۔
"اگر میں سچا نبی نہیں ہوں تو پھر روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو خدا کا نبی ہو"۔
اس کے علاوہ وہ سخت مشرک تھا اور کہتا تھا کہ مجھ کو الہام ہو چکا ہے کہ ۵۲ برس تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر آئیں گے۔
یہ شخص در حقیقت حضرت عیسیٰ کو خدا سمجھتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا اور یہی بات تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بہت دکھ دیا کرتی تھی۔ جب اس کی بد زبانی اور گالیاں اور تلخ کلامی انتہا کو پہنچ گئی تو حضور علیہ السلام نے اسے ایک خط لکھا اور کہا کہ تم میرے لیے دعا کرو اور میں تمہارے لیے کہ خدا تعالیٰ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اسے سچے کی زندگی میں ختم کر دے اور ہلاک کر دے۔ اور یہ خط ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ بھجوایا اور امریکہ کے بعض اخباروں میں بھی یہ چیلنج شائع ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب "حقیقۃ الوحی" میں ایسے بتیس اخباروں کے نام لکھے ہیں جن میں یہ چیلنج شائع ہوا اور اس کواخباروں میں شائع کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ ڈاکٹر ڈوئی نے حضور کے دونوں خطوں کا جواب ہی نہیں دیاتھا۔ اگرچہ یہ سب عیسائی اخبارات تھے لیکن ان سب نے بڑے زور سے اس مضمون کو شائع کیا۔ اور اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام سچا مذہب ہے۔ عیسائی مذہب کا عقیدہ جھوٹا ہے اور میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی مسیح ہوں جو آخری زمانہ میں آنے والا تھااور جس کا نبیوں کی کئی کتابوں میں وعدہ دیا گیا تھا۔ اور ڈاکٹر ڈوئی اپنے رسول ہونے اور عیسائیوں کے تین خداؤں کے عقیدے میں بالکل جھوٹا ہے اور اگر وہ مجھ سے مباہلہ کرے تو وہ میری زندگی میں ہی بڑی تکلیف کے ساتھ جان دے گا۔ اور اگر مباہلہ نہ بھی کرے تب بھی وہ عذاب سے بچ نہیں سکے گا لیکن ڈوئی اپنی دولت، شہرت اور طاقت کے نشہ میں تھا۔ وہ مغرور اور متکبر تھا۔ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کو بڑی حقارت کی نظروں سے دیکھا اور اپنے اخبارمورخہ 26 ستمبر 1903ء میں انگریزی میں چند سطریں شائع کںے اور لکھا کہ :۔
"ہندوستان میں (نعوذباللہ) ایک بے وقوف محمدیؐ مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا۔ مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دونگا اگر مںر ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا"۔
غرض یہ شخص حضور کے چیلنج کے بعد شوخی اور شرارت میں بڑھ گیا اور حضور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے کہ خدا تعالیٰ سچے اور جھوٹے میں فرق کر کے دکھائے اور جھوٹے کو سچے کی زندگی میں ہلاک کرے۔ اور پھر ڈوئی کے مرنے سے پندرہ دن پہلے خدا تعالیٰ نے حضور کو اس فتح کی اطلاع بھی دے دی۔ اور ۰۲ فروری ۷۰۹۱ء کو ایک اشتہار میں شائع کردیاکہ اللہ تعالیٰ ایک ایسا نشان دکھائے گا،جس میں فتح عظیم ہو گی اور یہ ساری دنیا کے لیے ایک نشان ہوگا۔
اس کے پندرہ دن بعد ہی ڈوئی کی موت کی اطلاع آگئی۔
تو دیکھو بچو! خدا تعالیٰ کس طرح اپنے پیارے بندوں کی بات سنتا ہے ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اوران کے دوستوں کو تکلیفوں اور مصیبتوں سے بچاتا ہے۔ اور ان کے دشمنوں کو تباہ اور برباد کرتا ہے اور ڈاکٹر ڈوئی کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ اور اگر ہم اس کی تباہی اور بربادی کی پوری کہانی لکھنی شروع کریں تو یہ سارا واقعہ بہت لمبا ہو جائے گا۔ بس اتنا سمجھ لو کہ اُ س کی زندگی میں ہر طرف مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا وہ شخص جو بڑے بڑے نوابوں اور شہزادوں کی طرح معزز تھا وہ ہر رنگ میں ذلیل ہوا۔ اُس کی بے ایمانی اور بددیانتی سب پر ثابت ہو گئی وہ کہا کرتا تھا کہ شراب پینا حرام ہے لیکن لوگوں کو پتہ چل گیا کہ خود شرابی ہے۔ اس نے خود ایک شہر بسایا تھا جس کا نام صیحون تھا وہاں سے بڑی ذلت کے ساتھ نکالا گیا جسے اس نے لاکھوں روپے خرچ کر کے آباد کیا تھا۔ سات کروڑ روپے جو اس کے پاس تھے اس سے بھی اس کو جواب مل گیا۔ اس کی بیوی اور اس کا اپنا بیٹا اس کے دشمن ہو گئے اور آخر میں اس پر فالج گرا اور لوگ اسے تختے کی طرح اٹھا کر لے جاتے رہے۔ اس کے بعد وہ انہیں غموں سے پاگل ہوگیا اور یوں مارچ 1907ء میں بڑے دکھ اور بڑی تکلیف اور مصیبت سے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اور اس طرححضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی بڑی شان اور شوکت سے پوری ہوئی اور اس خبر کو امریکہ کے مشہور اخباروں نے بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ امریکہ میں شائع کر دیا۔
یہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شائع فرمائیں اور اپنے وقت پر پوری ہوتی رہیں۔ کچھ ہندو قوم کے لیے کچھ مسلمانوں کے لیے اور کچھ عیسائیوں کے لیے تھیں۔ جیسا کہ آپ نے پیچھے پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اور روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے پیار اور محبت کے سلوک کا اظہار کرتا ہے۔ اب ہم چند واقعات اسی قسم کے آپ کو سناتے ہیں۔
7
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک نہایت ہی پیارے دوست اور مرید تھے، جن کا نام حضرت مولانا نورالدین صاحب تھا اور حضور کی وفات کے بعد آپ ہی جماعت کے سب سے پہلے خلیفہ منتخب ہوئے۔ یہ بھیرہ کے رہنے والے تھے اور بہت بڑے عالم اور فاضل تھے۔ حضرت مولوی صاحب بہت بڑے اور مشہور حکیم تھے یہاں تک کہ مہاراجہ کشمیر نے انہیں اپنا ذاتی حکیم مقرر کر کے اپنے دربار میں رکھا ہوا تھا۔ اور یوں آپ شاہی طبیب بھی تھے۔ آپ کا ایک بیٹا تھا اور وہ فوت ہوگیا۔ اس پر دشمنوں نے بڑی خوشی ظاہر کی کہ مولوی صاحب اب لاولد رہ گئے۔ تب حضور نے مولوی صاحب کے لیے بڑی دعا کی اور دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تمہاری دعا سے ایک لڑکا پیدا ہوگا اور اس بات کا نشان کہ وہ محض دعا کے ذریعہ ہی پیدا ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس کے بدن پر بہت سے پھوڑے نکل آئیں گے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبدالحئی رکھا گیا اور اس کے بدن پر غیر معمولی طور پر بہت سے پھوڑے نکلے جن کے داغ اس کے بدن پر دیر تک موجود رہے۔ یہ کس قدر روشن نشان ہے۔
8
ایک مرتبہ حضور کو الہام ہوا کہ:" آج حاجی ارباب محمدلشکر خاں کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے "۔ اور آپ نے یہ پیشگوئی اپنے گاؤں کے رہنے والے دو ہندوؤں کو بھی سنا دی ان کا نام شرمپتؔاور ملاواملؔ تھا۔ اور انہی دونوں میں سے ایک یعنی ملاوامل ڈاکخانہ گیا تاکہ معلوم کرے کہ واقعی ارباب محمد لشکر خان کے کسی رشتہ دار کی طرف سے روپیہ آیا ہے یا نہیں وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ ایک خط آیا ہے جس میں لکھا تھا کہ ارباب محمد سرور خان نے دس روپے بھیجے ہیں۔ لیکن آریوں نے انکار کیا کہ یہ ارباب محمد سرور خان ارباب لشکر خان کا کوئی رشتہ دار ہے۔ اُس وقت حضور نے ایک شخص منشی الٰہی بخش کو خط لکھا۔ اور پوچھا کہ ارباب محمد سرور خان کی ارباب محمد لشکر خان سے کیا رشتہ داری ہے۔ تو ان کا جواب آیا کہ سرور خان ارباب محمد لشکر خان کا بیٹا ہے اور یوں ہندو لاجواب ہو گئے۔
9
اسی طرح ایک اور وحی ہوئی کہ: "عبداللہ خان۔ ڈیرہ اسماعیل خان"۔ یہ صبح کا وقت تھا اور اس وقت کچھ ہندو بھی پاس موجود تھے۔ ان میں سے ایک شخص کانام بشن داس تھا۔ حضور نے ان سب کو بتا یا کہ خدا نے مجھے یہ سمجھایا ہے کہ اس نام کے ایک شخص کی طرف سے کچھ روپیہ آئے گا۔ تو بشن داس نے کہا کہ اچھا میں خود ڈاکخانہ جاکر پتہ کروں گا۔ ان دنوں ڈاک دو۲ بجے آیا کرتی تھی۔ وہ اسی وقت ڈاکخانہ گیا۔ اور جواب لایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک دوست عبداللہ خان نے روپیہ بھیجا ہے۔ اور پھر اس نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہو گئی۔ تو حضور نے جواب دیا کہ وہ خدا جس کو تم نہیں پہچانتے یہ خبر اُس نے دی ہے۔
10
سیالکوٹ میں ایک صاحب لالہ بھیم سین ہوتے تھے۔ انہوں نے وکالت کا امتحان دیا تو حضور نے انہیں اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس ضلع کے سب اشخاص جنہوں نے امتحان دیا ہے فیل ہو جائں گے اور صرف لالہ بھیم سین پاس ہونگے اور یہ خبر نہ صرف لالہ بھیم سین کو دی بلکہ تیس کے قریب اور لوگوں کو بھی سنا دی گئی چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ سیالکوٹ کی ساری جماعت فیل ہو گئی اور صرف لالہ بھیم سین ہی پاس ہوئے۔
11
حضور کو خواب میں دکھایا گیا کہ شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے فرش کو آگ لگی ہوئی ہے اور حضور نے اس آگ کو بار بار پانی ڈال کر بجھایا ہے۔ اور پھر اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضور کو اس خواب کے معنی سمجھائے کہ شیخ صاحب پر اور ان کی عزت پر بڑی مصیبت آئے گی اور پھر وہ مصیبت صرف حضور کی دعاؤں سے ہی دور ہو گی۔ اور شیخ صاحب کو بذریعہ خط اس کی اطلاع بھی کر دی گئی چنانچہ اس کے چھ ماہ بعد شیخ صاحب ایک الزام میں پھنس گئے ان پر ایک مقدمہ بن گیا بلکہ یہاں تک کہ انہیں پھانسی کی سزا کا حکم بھی ہو گیا۔ ایسے وقت میں ان کے بیٹے کی طرف سے دعاکی درخواست ملی کہ ان کی رہائی کے لیے دعا کی جائے اور پھر حضور نے ان کے لیے دعا کی اور ان کے بیٹے کو ان کی رہائی کی خوشخبری لکھ دی گئی۔ چنانچہ اس کے بعد وہ رہا ہو گئے۔
12
ایک دفعہ آپ نے عالم کشف میں دیکھا کہ آپ کا چوتھا بیٹا صاحبزادہ مبارک احمد چٹائی کے پاس گر پڑا اور اسے سخت چوٹ آئی ہے اور کرتہ خون سے بھر گیا ہے۔
خدا کی قدرت کہ ابھی اس کشف کو تین منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ حضور اپنے کمرہ سے باہر آئے تو دیکھا کہ مبارک احمد جس کی عمر قریباً سوا دوسال کی تھی کا پیر پھسل گیا اور وہ گر گیا اور زمین پر جا پڑا۔ اور اسے چوٹ بھی لگی اور کپڑے خون سے بھر گئے اور بالکل جیسے کشف میں دیکھا تھا بالکل ویسے ہی واقعہ بھی ہو گیا۔ اور اس بات کی بہت سی عورتیں جو گھر میں تھیں گواہ ہیں۔
13
1897ء میں مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جو میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے ڈاکٹری کا امتحان دیا۔ اور حضور نے ان کے لیے دعا کی تو الہام ہوا:۔
"تم پاس ہو گئے ہو"۔
اور یہ اس بات کی طرف اشارہ طرف تھا کہ یعقوب بیگ کامیاب ہو جائے گا اور ایساہی واقعہ ہوا کہ یہ نوجوان بڑی خوبی سے پاس ہوا ور لاہور کے ہی میڈیکل کالج میں ہاؤس سرجن مقرر ہوا۔
14
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ڈاکٹرمارٹن کلارک کی طرف سے دائر کئے گئے مقدمے میں باعزت بریّت ہے۔ جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے قبل ازوقت آپ ؑکو بتا دیا تھاکہ ایسا مقدمہ ہونے والا ہے اور پھر یہ اطلاع بھی دے دی تھی کہ" آخر بریّت ہے"۔ اس نشان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام حقیقۃ الوحی میں 162ویں نشان کے طور پر لکھتے ہیں :۔
"جب میرے پرڈاکٹر مارٹن کلارک کی طرف سے خون کا مقدمہ دائر ہوا اِس مقدمہ کے بارے میں ایک تویہ نشان تھا کہ خدا نے اس مخفی بلا سے پہلے مجھے اطلاع دی کہ ایسا مقدمہ ہونے والا ہے۔ اور پھر یہ بھی اطلاع دے دی کہ آخر بریّت ہے۔ اور جب اس پیشگوئی کے مطابق جب وہ بلا ظاہر ہوگئی اور ڈاکٹرمارٹن کلارک نے میرے پر خون کا مقدمہ دائر کردیا اور گواہوں نے ثبوت دے دیااور مقدمہ کی صورت خطرناک ہوگئی تو مجھے الہام ہوا۔ مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت۔ پس خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا اتفاق ہوا کہ مخالفوں میں پھوٹ پڑگئی اور عبدالحمید جو خون کا مخبر تھا اور میری نسبت یہ الزام لگاتا تھا جو مجھے خون کرنے کے لئے بھیجا ہے اُس نے دوسرے مخالفوں سے الگ ہو کر سچ سچ حالات بیان کردیئے جس سے میں بری کیا گیا۔ اور مدعی کے ایک معززگواہ کو کچہری میں ذلت اور اہانت بھی دیکھنی پڑی۔ اور اس طرح پر یہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ شکر کا مقام ہے کہ اس پیشگوئی اور بریّت کی پیشگوئی کے تین سو سے زیادہ گواہ ہیں "۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلدنمبر۲۲صفحہ۵۷۔ ۴۷۳)
15
اسی طرح ایک اور الہام کے بارہ میں حضور نے اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ حضور کے بیٹے مرزا بشیر احمد صاحب کی بچپن میں آنکھیں خراب ہو گئیں اور ہر وقت پانی بہتا رہتا تھا یہاں تک کہ پلکیں بھی گر گئیں ایک لمبے عرصہ تک دیسی علاج بھی کیا اور انگریزی بھی کیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوتا تھا اور تکلیف ویسی کی ویسی ہی تھی۔ جس کی وجہ سے حضور کو پریشانی بھی تھی کیونکہ آنکھوں کا معاملہ تھا اگر بڑھ جاتا تو آنکھیں ضائع ہونے کا خطرہ بھی تھا جس کی وجہ سے فکر تھا۔ علاج سے بجائے فائدہ ہونے کے بیماری بڑھتی چلی جارہی تھی۔ تو حضور نے اپنے بچے کے لیے دعاکی تو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ:۔ "بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْرٌ"یعنی میرے بچے بشیر کی آنکھیں اچھی ہو گئیں۔ اس الہام کے ایک ہفتہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے بچے کو شفا دے دی اور آنکھیں بالکل تندرست ہو گئیں۔ اسی کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کہتے ہیں وہ جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو علاج کے ذریعہ شفا بخشے اور اگر نہ چاہے تو اسی علاج کے ذریعہ صحت نہ دے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع دی کہ بشیر کو شفا ہو گئی تو ایک ہفتہ کے اندر آرام آگیااور سب پریشانیاں اور فکر دور ہوگئے۔ الحمدللہ رب العالمین۔
16
یہ 1888ء کا واقعہ ہے جو حضور نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضور کو پچاس روپے کی ضرورت پیش آئی اور اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت حضور کے پاس کچھ نہ تھا اور جب صبح کے وقت حضور سیر کے لیے تشریف لے گئے تو اس ضرورت کے خیال سے طبیعت میں جوش پیدا ہوا کہ اس ضرورت کے لیے دعا کریں۔ پس حضور نے اس جنگل میں جاکر اس نہر کے کنارہ پر جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بہتی ہے دعا کی تو دعا کے بعد حضور کو عربی میں الہام ہوا جس کا ترجمہ ہے کہ:۔ "دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں "۔ تو حضور خوشی خوشی قادیان واپس آئے اور بازار کی طرف تشریف لے گئے تا کہ ڈاکخانہ جاکر معلوم کریں کہ کیا کو ئی رقم آئی ہے یا نہیں۔ چنانچہ وہاں حضور کو ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ لدھیانہ سے کسی نے پچاس روپے بھجوائے ہیں۔ اور پھر وہ روپیہ حضور کو اسی دن یا اگلے دن مل بھی گیا۔
٭
اب دیکھو بچو! یہ صرف چند پیشگوئیاں اور الہامات اور نشانات ہیں ورنہ اس قسم کے دس بیس یا سو دوسو نشان نہیں بلکہ ہزاروں نشانات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں ظاہر ہوئے جن کی اللہ تعالیٰ نے حضور کو قبل از وقت اطلاع دی اور جس کا حضور نے لوگوں میں اعلان کر دیا اور پھر بعینہٖ اسی طرح واقعہ بھی ہوا جس طرح حضور نے قبل از وقت اعلان فرمایا تھا۔ اور یہ نشانات اور الہامات حضور نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی کئی کتابوں میں درج فرمائے ہیں جن میں سے صرف دو کے نام ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کانام ہے "نزول المسیح"اور دوسری کانام "حقیقۃ الوحی"ہے۔ اور تمہیں بھی چاہئے کہ ان نشانات کو جو حضور کی ان کتابوں میں تفصیل سے درج ہیں دیکھو تا کہ آپ کے ایمان میں اور اخلاص میں اضافہ ہو۔
بچّو! یہ بات خوب یاد رکھو کہ بعض لوگ اندازے سے بھی کسی بات کے متعلق کہہ دیا کرتے ہیں اوروہ اسی طرح واقع بھی ہو جاتی ہے جیسے کوئی بادلوں کو آتے ہوئے دیکھ کر کہہ دے کہ آج بارش ہو گی اور بارش ہو بھی جائے۔ تو یہ خدا کی طرف سے پیشگوئی نہیں ہوگی۔ یہ تودنیا کے حالات دیکھ کر اندازہ ہوگا جو بعض اوقات پورا ہوجاتا ہے اور بعض اوقات نہیں ہوتا۔ خداکے پیارے بندے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر پاکر اعلان کرتے ہیں تو وہ یہ بات واضح طور پر اور کھول کر بتایا کرتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے خبر ہے۔ یہ خدا کی طرف سے الہام ہے۔ یہ خدا کی طرف سے نشان ہے اور پھر خدا اپنے قول کا سچا ہے اس کا کہنا کبھی غلط نہیں ہوتا اور اگر کوئی جھوٹ موٹ اپنی طرف سے اور اپنے دل سے ہی بنا کر یہ کہہ دے کہ خدا نے اسے یہ بات بتائی ہے حالانکہ اس نے بتائی نہ ہو تو پھر خدا کا غضب بھڑکتا ہے اور وہ اس کی سخت سزا دیتا ہے اس کا سارا سلسلہ تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔ اس کا خاندان ذلیل وخوار ہو جاتا ہے اور طرح طرح کی مصیبتیں اور بلائیں اسے گھیر لیتی ہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ اس نے خدا کے نام پر جھوٹ بولا۔
لیکن دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو واقعی خدا تعالیٰ نے ہی یہ غیب کی خبریں دی تھیں اسی لیے وہ سب کی سب پوری ہوئیں۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھو کہ اس قسم کے نشانات کو سچی آنکھ سے دیکھنے کے لیے پاک روح کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو سعید روحیں رکھتے تھے، وہ سب حضور پر ایمان لے آئے۔ حضور کی زندگی میں ہی یہ سلسلہ بڑھا، پھلا اور پھولا۔ حضور ایک چھوٹے سے دور دراز گاؤں میں پیدا ہوئے آپ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا اور نہ ہی آپ کی اپنی خواہش تھی کہ لوگوں میں شہرت پائیں لیکن خدا چاہتا تھا کہ آپ اسلام کی مدد اور حمایت کے لیے کھڑے ہوں اور اسی وجہ سے خدا نے آپ کی مدد فرمائی۔ اور آپ کو شہرت عطا کی۔ آپ کے خاندان کو عزت و برکت عطا کی۔ آپ کے اس ننھے سے گاؤں کو ترقیات عطا کیں اور دنیا کے دور دراز ملکوں میں اسے شہرت عطا کی۔ اور ملکوں کے لوگ اب اسی گاؤں میں کھنچے چلے آتے ہیں۔ آپ کو مال و دولت عطا کیا۔ اولاد دی اور اولاد بھی ایسی جس نے دین کی خدمت میں ساری عمر قربان کردی اور پھر ایسی جماعت عطا کی جو آپ پر ہزار جان سے قربان تھی۔ وہ تنہا شخص جو قادیان کے گمنام سے گاؤں میں اکیلا کھڑا ہوا۔ آج 117سال میں دنیا کے کناروں پر اس کے ماننے والے اوراس کے درجات کو بلند کرنے کے لیے دعائیں کرنے والے موجود ہیں۔ اس کی جماعت امریکہ میں موجود ہے یورپ میں بھی اس کے ماننے والے پائے جاتے ہیں۔ افریقہ کے لوگ اور جزائر کے رہنے والے آپ پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے موجود ہیں اور وہ وقت بھی تھا جب آپ کو ایک کتاب چھاپنے کے لیے چند سو روپوں کے مانگنے کی ضرورت پڑجاتی۔ اور آج یہ عالم ہے کہ آپ کا خلیفہ کسی مالی قربانی کا اسی جماعت سے مطالبہ کرتا ہے تو یہ جاں نثار جماعت کروڑوں روپے سے بھی زیادہ اس کے قدموں پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ کیا یہ ناکامی ونامرادی ہے یا اسے کامیابی اور کامرانی کہا جاتا ہے۔ کیا یہ شکست ہے یا فتحِ عظیم ہے کیا یہ ذلت ہے یا عزت ہے۔
بچو! یاد رکھو کہ باوجود اتنی مخالفتوں کے یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا اور اب بھی خدا کی برکتوں والا ہاتھ اس کے ساتھ ہے اور کوئی نہیں جو خدا کے اس سلسلہ کو بڑھنے سے اور پھلنے سے اور پھولنے سے روک سکے۔ یہ سلسلہ بڑھے گا اور ترقی کرے گا۔ خدا کی رحمتوں کا سایہ اس کے سر پر ہے۔ لیکن ہمیں بھی اور تمہیں بھی چاہئے کہ خود بھی نیک بنیں۔ دوسروں کو بھی نیکی کی نصیحت کریں۔ خود بھی اچھے احمدی بچے بن جائیں اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت کریں۔