بانی
جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ آپ نے اسلامی کیلنڈر کے مطابق تیرھویں صدی ہجری کے آخر اور چودھویں صدی کے شروع میں یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح اور مہدی ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو برس سے انتظار کررہی ہے۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو دوبارہ دنیا میں غالب کیا جائے۔
مقصد بعثت
آپ نے اس بات کی اچھی طرح وضاحت فرمائی کہ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین، آنحضرت ﷺ خاتم النبیین اور قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے اور اس میں ہرگز کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ مسیح اور مہدی کا مقصد تو درحقیقت مسلمانوں کو اسلام پر دوبارہ قائم کرنا اور ایمان کو دلوں میں زندہ کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کی اتباع اور برکت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ مقام عطا فرمایا ہے۔
مثیل مسیح
اس دعویٰ کے ساتھ ہی آپ نے قرآن کریم، احادیث نبویہ ﷺ اور امت کے مسلمہ بزرگوں کی تحریرات سے یہ ثابت کیا کہ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے حضرت مسیح ؑ آسمان پر زندہ موجود نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں اور امت محمدیہ ﷺ میں مبعوث ہونے والے مامور کو حضرت مسیح ؑ سے بہت سی مشابہتوں کی وجہ سے تمثیلی طور پر مسیح کا لقب دیاگیا ہے جیسا کہ کسی بڑے سخی کو حاتم طائی اور بہت بہادر کو شیر کہہ دیتے ہیں۔
مسیح اور مہدی ایک ہی وجود ہے
آپ نے ثابت کیا کہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور اس کی جو علامات قرآن کریم میں اشارۃً اور احادیث نبویہ ﷺ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور بزرگان امت پر خدا نے انکشافات فرمائے وہ سب آپ کے زمانہ اور آپ کی ذات میں پورے ہورہے ہیں۔
انتظار اور ظہور
تیرہویں صدی کے آخر تک یہ علامات ایک ایک کرکے پوری ہورہی تھیں اور تمام عالم اسلام اس موعود کے انتظار میں گھڑیاں گن رہا تھا کہ آپ نے ۱۸۸۲ء میں خدا کے الہام سے ماموریت کا دعویٰ فرمایا اور اسلام کے حق میں تمام مذاہبِ باطلہ خصوصاً عیسائیت کے خلاف عظیم قلمی اور روحانی جہاد شروع کیا جس کی وجہ سے اس دور کے علماء نے اقرار کیا کہ اسلام کے تیرہ سو سال میں ایسی خدمت کسی نے نہیں کی اور آپ کو فتح نصیب جرنیل قرار دیا۔
جماعت کی بنیاد
۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو آپ نے ایک جماعت کی بنیاد رکھی اور پیشگوئیوں کے مطابق اس کا نام جماعت احمدیہ رکھا جس کے ابتدائی ممبر چالیس تھے اور اب کروڑہا تک اس کی تعداد پہنچ چکی ہے۔
نشانات
آپ کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی آسمانی اور زمینی نشانات دکھائے جن میں خصوصیت کے ساتھ ۱۸۹۴ء میں چاند سورج گرہن اور ۱۹۰۲ء میں طاعون کا نشان قابل ذکر ہیں۔ ان کا ذکر الٰہی نوشتوں میں موجود ہے۔ آپ کے دعویٰ کے بعد پیشگوئیوں کے مطابق آپ کی سخت مخالفت ہوئی اور آپ اور آپ کی جماعت کو سخت ابتلاؤں سے گزرنا پڑا۔ مگر وہ بتدریج اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے اور اب دنیا کے ایک سے نوے (۱۹۰) سے زیادہ ممالک میں جماعت احمدیہ کی مضبوط شاخیں قائم ہوچکی ہیں۔
خلافت احمدیہ
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء (بمطابق ۱۴ شوال ۱۲۵۰ھ) کو قادیان میں پیدا ہوئے اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء (بمطابق ۲۴ ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ) کو آپ خدا کے حضور حاضر ہوگئے۔ آپ کے بعد جماعت احمدیہ میں خلافت کا سلسلہ جاری ہوا۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد جماعت نے اپنا مرکز ربوہ پاکستان میں بنایا۔
ملت واحدہ
اب جماعت کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمدصاحب ہیں جن کی سکونت اس وقت لندن میں ہے اور وہاں سے اسلام کی اشاعت کی تمام کاروائیوں کی نگرانی فرمارہے ہیں۔ آپ کا خطبہ جمعہ اور دیگر اہم خطابات سیٹیلائیٹ کیے ذریعہ تمام دنیا میں دیکھے اور سنے جاتے ہیں۔ اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ تمام قوموں اور علاقوں اور زمانوں کے افراد ملت واحدہ بن رہے ہیں۔
خدمات
جماعت احمدیہ نے اسلام کی جو عظیم الشان خدمات کی ہیں ان کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
* ۱۰۰ سے زائد زبانوں میں قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ کی اشاعت۔
* دنیا بھر میں ہزارہا مساجد کی تعمیر جن میں سپین میں ۷۰۰ سال کے بعد پہلی مسجد اور براعظم آسٹریلیا کی پہلی مسجد بھی شامل ہے۔
* دکھی انسانیت کی خدمت کے وسیع پروگرام جن میں ہسپتال، سکول ، کالج ، غرباء کے لئے مکانات اور موسمی امداد شامل ہے۔
* بوسنیا، بھارت، اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے لئے خطیر رقم اور دوسری امداد۔
* عالم اسلام کے وقار کو بلند کرنا، آزادی کی تحریکوں میں امداد خصوصاً تحریک پاکستان میں گرانقدر خدمات۔ مسلمانوں کے علمی، اخلاقی، تعلیمی اور اقتصادی معیار کو بڑھانے کی بھرپورکوشش جن کا غیرمتعصب مسلمان رہنماؤں کو بھی اعتراف ہے، جن کو جمع کریں تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔
شرائط بیعت
احمدیت کا پیغام انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام اور عالم اسلام کی زندگی کا پیغام ہے۔ اس کی ایک دلیل وہ شرائط ہیں جن کو تسلیم کرکے ایک شخص جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہے ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ شرک سے اجتناب
۲۔ جھوٹ، زنا اور دیگر بدیوں سے بچنا
۳۔ نماز پنجگانہ اور تہجد کی ادائیگی، درود شریف اور استغفار پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کرنا
۴۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو تکلیف نہ دینا
۵۔ اللہ کے ساتھ وفاداری اور اس کی رضا پر راضی رہنا
۶۔ قرآن کریم کی تعلیمات پر کاربند ہونا
۷۔ تکبر اور نخوت سے بچاؤ
۸۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا
۹۔ ہمدردی خلق
۱۰۔ امام مہدی سے پختہ تعلق
ان شرائط کو پڑھ کر خوب واضح ہوجاتا ہے کہ احمدیت کوئی نیا دین اور شریعت پیش نہیں کرتی۔ اور یہ شرائط قرآن و حدیث کہ خلاصہ کے طور پر اخذ کی گئی ہیں۔ جماعت احمدیہ کا کلمہ، ارکان دین، ارکان اسلام اور دیگر اصولی امور وہی ہیں جن پر امت مسلمہ کاربند ہے۔
دعوت
اگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ سچا ہے تو پھر ہر ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خدا کے مامور کی آواز پر لبیک کہے اور آنحضرت ﷺ کی وصیت کے مطابق امام مہدی کی بیعت کرے۔ یہ دعویٰ قرآن کریم کی روشنی میں پرکھنے کی ہم آپ کو خلوص دل کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کی رہنمائی کرے اور حق کی راہ دکھائے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment