ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔

خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔

’’اسلام پر یہ کیسامصیبت کا زمانہ ہے۔ اندرونی مصائب بھی بے انتہا ہیں اور بیرونی بھی بے حد ہیں۔ پھر یہ لوگ خیال کر تے ہیں کہ اس وقت کسی مصلح کی ضرورت نہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں پھر ہم کو کسی مصلح کی کیا ضرورت ہے۔ مگر نہیں سمجھتے کہ جبتک خدا کی رحمت نہ ہو وہ رِقّت اور درد پیدا نہیں ہو سکتا جو انسان کے دل کو صاف کرتا ہے۔چاہیے کہ بہت دعائیں کریں۔صرف بحث کرنے والا فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔وہ نہیں دیکھتے کہ اسلام پر کس طرح کے مصائب نازل ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کو گویا خدا تعالیٰ نے فراموش کر دیا ہے۔ دہلی کے لوگ ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ لڑنے کو آئے ہیں۔حق طلبی کا اُنہیں خیال نہیں۔ حلق کے نیچے بات تب اُترتی ہے جب حلق صاف ہو۔ دوائی کا بھی یہی حال ہے کہ جبتک حلق صاف نہ ہو اور معدہ بھی صاف نہ ہو دوائی کا اثر نہیں ہو سکتا۔ دوائی قے ہو جاتی ہے یا ہضم نہیں ہوتی۔

احمدی نام کیوں رکھا گیا ہے

ایک مولوی صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔ آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج : 79) کے برخلاف ہے۔

اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا :

اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے تہتّر (73) فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اﷲ کو بُرا کہتے ہیں۔پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اورپھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلا دِ شام میں ایک فرقہ یزید یہ ہے جو امام حسینؓ پر تبرّہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلفِ صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی،حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ،دوزخ،وحی،ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہانتک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سُن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لیے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔

حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کیا کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ لَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:104) اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا۔

حضرت نے فرمایا: ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔ اگر احمدی نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے، مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحا مانتے ہیں۔ وہ شخص بدبخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور اُن کو برا کہے۔ صرف امتیاز کے لیے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے۔ ہمارا کا روبارخدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے۔ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔

اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی۔امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزار ہاگندے آدمی ملے جلے رہتے ۔یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں،مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھاگیا ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے۔ جب کھوٹ اور ملاوٹ زیادہ ہو جاتی ہے تو خد اتعالیٰ خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہو جائے۔

مولوی صاحب نے پھروہی سوال کیا کہ خدا نے تو کہا ہے کہ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج : 79)

فرمایا: کیا اس میں رافضی اور بدعتی اور آجکل کے مسلمان شامل ہیں؟ کیا اس میں آجکل کے وہ لوگ شامل ہیں جو اباحتی ہو رہے ہیں؟ اور شراب اور زنا کو بھی اسلام میں جائز جانتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔اس کے مخاطب تو صحابہؓ ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرون ثلاثہ کے بعد فیج اعوج کا زمانہ ہو گا جس میں جھوٹ اور کذب کا افشا ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے لَیْسُوْا مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُمْ ۔نہ اُن کا مجھ سے کوئی تعلق ہے نہ میرا اُن سے کوئی تعلق ہے۔ وہ لوگ مسلمان کہلائیں گے مگر میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔

جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں۔ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اِتّصال ہے۔ اور یہ اِتّصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔ اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھاگیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتاہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آجکل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اوّل آخر کبھی نہیں ہوا اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمدی ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 499 تا 502۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

No comments:

Post a Comment