مسیح علیہ السلام کی زندگی اور نزول کے بارہ میں ایک گفتگو
{ارشادات عالیہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام}
ہمارے مخالف مرنے کے بعد یقینا سمجھ لیں گے کہ وہ اسلام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔
اسلام کی فتح وفات مسیح کے عقیدہ میں ہے
’’میں نے کوئی بات قال اﷲ اور قال الرسول کے برخلاف نہیں کی۔ اگر قرآن اور حدیث میں جسم عنصری کا لفظ آیا ہوتا تو اس کا منکر کافر اور ملعون ہوتا مگر اصل حقیقت خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام کے مجھ پر ظاہر کر دی اور قرآن اور حدیث اور اجماعِ صحابہؓ اس کی تائید میں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات صحابہؓ کے واسطے ایک بڑا صدمہ تھا۔باسٹھ (62)یا تریسٹھ(63) سال کوئی بڑی عمر نہیں۔ صحابہؓ کو اگر یہ کہا جاتا کہ عیسیٰ ؑتو زندہ ہے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو اُن کے واسطے ایک پشت شکن صدمہ تھا۔ اسی واسطے حضرت ابو بکرؓ نے سب کو اکٹھا کر کے وعظ کیا اور ان کو سمجھایا کہ سب نبی مر گئے ۔ کوئی بھی زندہ نہیں۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے۔ صحابہؓ ایک عشق اور محبت کی حالت رکھتے تھے۔ وفات مسیح کے بغیر دوسرا پہلو وہ ہرگز مان نہ سکتے تھے۔ اسلام کبھی ایسا عقیدہ پیش نہیں کرسکتا جو آنحضرت افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہو۔ کوئی ہمیں بُرا یا بھلا کہے ہم تو اپنا کام کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی فتح اسی میں ہے۔ اگر ہم عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملادیں تو ہم ان کو کیونکر زیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے مخالف مرنے کے بعد یقینا سمجھ لیں گے کہ وہ اسلام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ عادت بھی ایک بُت ہوتا ہے اور یہ لوگ اس بُت کی پرستش کر رہے ہیں۔
مسیح علیہ السلام کی زندگی اور نزول کے بارہ میں ایک گفتگو
یہاں پر ایک مولوی صاحب مخالفین کی جماعت میں سے بول اُٹھے اور چونکہ پھر انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کو مسلسل تقریر کرنے نہیں دی بلکہ جلدی جلدی سوال پر سوال کرتے گئے اور کسی سوال کے متعلق حضرت کا جواب پور انہ سنا۔اس واسطے تقریر مذکورہ بالا تو ختم ہو گئی۔ مولوی صاحب کے سوال و جواب میں درج کرتا ہوں تا کہ دہلی کے مولویوں کا نمونہ ناظرین کو نظر آجائے:
مولوی صاحب:۔تو جن روایات سے حضرت عیسیٰ ؑکی زندگی ثابت ہے ان کو کیا کریں؟
حضرت اقدس علیہ السلام:۔جو روایت قرآن اور حدیثِ صحیح کے مخالف ہو، وہ ردّی ہے۔ قابلِ اعتبار نہیں۔ قولِ خدا کے برخلاف کوئی بات نہیں ماننی چاہیے۔
مولوی صاحب:۔اور جو وہ روایت بھی صحیح ہو۔
حضرت اقدسؑ:۔جب قولِ خدا اور قولِ رسول کے برخلاف ہوگی تو پھر صحیح کس طرح؟خود بخاری میں مُتَوَفِّیْکَ کے معنے مُمِیْتُکَ لکھے ہیں۔
مولوی صاحب:۔ہم بخاری کو نہیں مانتے اور روایتوں میں مسیح کی زندگی لکھی ہے۔ قرآن کی تفسیروں میں لکھا ہے کہ مسیح زندہ ہے۔
حضرت اقدسؑ:۔ تمہارا اختیار جو چاہو مانو یا نہ مانو اور قرآن شریف خود اپنی تفسیر آپ کرتا ہے۔ خد اتعالیٰ نے مجھے اطلاع دی کہ حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہو گئے اور کتاب اﷲ اور احادیث صحیحہ کے مطابق یہ بات ہے۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے۔ قرآن و حدیث کے مخالف ہم کوئی روایت نہیں مان سکتے۔
مولوی صاحب:۔اور جو وہ بھی صحیح ہوتو؟
حضرت اقدس ؑ:۔وہ صحیح ہو ہی نہیں سکتی۔
مولوی صاحب:۔ اگر چہ صحیح ہو۔
حضرت اقدسؑ:۔میں کئی دفعہ سمجھا چکا ہوں۔اب بار بار کیا کہوں۔ کتاب اللہ کے برخلاف جو روایت ہو وہ کس طرح صحیح ہو سکتی ہے؟
مولوی صاحب:۔یہ کس نے لکھا ہے۔کس کتاب میں درج ہے کہ برخلاف روایت ہو تو نہ مانو۔امام بخاری نے بھی غلطی کھائی جو مُتَوَفِّیْکَ کے معنے مُمِیْتُکَ کر دیئے۔
حضرت اقدسؑ:۔اگر بخاری نے غلطی کھائی تو تم اور کوئی حدیث یا لغت پیش کرو جہاں وفات کے معنے سوائے موت کے کچھ اور کئے گئے ہوں۔
مولوی صاحب:۔اچھا ۔حضرت عیسیٰ ؑ نے تو فرشتوں کے ساتھ نازل ہونا ہے۔ تمہارے ساتھ فرشتے کہاں ہیں؟
حضرت اقدسؑ:۔تمہارے کندھوں پر جو دو فرشتے ہیں وہ تم کو نظر آتے ہیں جو یہ فرشتے تم کو نظر آجائیں گے؟
مولوی صاحب:۔تو زینہ کہاں ہے جس کا ذکر آیا کہ اس پر سے عیسیٰ اُترے گا۔
حضرت اقدسؑ:۔نزول کے یہ معنی نہیں جو تم سمجھتے ہو۔ یہ ایک محاورہ ہے۔ جب ہم مسافر سے پوچھتے ہیں کہ تم کہاں اُترے؟
اس کے بعد وہ لوگ اُٹھ کر چلے گئے‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 497 تا 499۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
No comments:
Post a Comment