اسلام کبھی ایسا عقیدہ پیش نہیں کرسکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہو

مسیح علیہ السلام کی زندگی اور نزول کے بارہ میں ایک گفتگو
{ارشادات عالیہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام}
ہمارے مخالف مرنے کے بعد یقینا سمجھ لیں گے کہ وہ اسلام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔
اسلام کی فتح وفات مسیح کے عقیدہ میں ہے

’’میں نے کوئی بات قال اﷲ اور قال الرسول کے برخلاف نہیں کی۔ اگر قرآن اور حدیث میں جسم عنصری کا لفظ آیا ہوتا تو اس کا منکر کافر اور ملعون ہوتا مگر اصل حقیقت خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام کے مجھ پر ظاہر کر دی اور قرآن اور حدیث اور اجماعِ صحابہؓ اس کی تائید میں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات صحابہؓ کے واسطے ایک بڑا صدمہ تھا۔باسٹھ (62)یا تریسٹھ(63) سال کوئی بڑی عمر نہیں۔ صحابہؓ کو اگر یہ کہا جاتا کہ عیسیٰ ؑتو زندہ ہے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو اُن کے واسطے ایک پشت شکن صدمہ تھا۔ اسی واسطے حضرت ابو بکرؓ نے سب کو اکٹھا کر کے وعظ کیا اور ان کو سمجھایا کہ سب نبی مر گئے ۔ کوئی بھی زندہ نہیں۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے۔ صحابہؓ ایک عشق اور محبت کی حالت رکھتے تھے۔ وفات مسیح کے بغیر دوسرا پہلو وہ ہرگز مان نہ سکتے تھے۔ اسلام کبھی ایسا عقیدہ پیش نہیں کرسکتا جو آنحضرت افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہو۔ کوئی ہمیں بُرا یا بھلا کہے ہم تو اپنا کام کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی فتح اسی میں ہے۔ اگر ہم عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملادیں تو ہم ان کو کیونکر زیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے مخالف مرنے کے بعد یقینا سمجھ لیں گے کہ وہ اسلام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ عادت بھی ایک بُت ہوتا ہے اور یہ لوگ اس بُت کی پرستش کر رہے ہیں۔

مسیح علیہ السلام کی زندگی اور نزول کے بارہ میں ایک گفتگو

یہاں پر ایک مولوی صاحب مخالفین کی جماعت میں سے بول اُٹھے اور چونکہ پھر انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کو مسلسل تقریر کرنے نہیں دی بلکہ جلدی جلدی سوال پر سوال کرتے گئے اور کسی سوال کے متعلق حضرت کا جواب پور انہ سنا۔اس واسطے تقریر مذکورہ بالا تو ختم ہو گئی۔ مولوی صاحب کے سوال و جواب میں درج کرتا ہوں تا کہ دہلی کے مولویوں کا نمونہ ناظرین کو نظر آجائے:

مولوی صاحب:۔تو جن روایات سے حضرت عیسیٰ ؑکی زندگی ثابت ہے ان کو کیا کریں؟

حضرت اقدس علیہ السلام:۔جو روایت قرآن اور حدیثِ صحیح کے مخالف ہو، وہ ردّی ہے۔ قابلِ اعتبار نہیں۔ قولِ خدا کے برخلاف کوئی بات نہیں ماننی چاہیے۔

مولوی صاحب:۔اور جو وہ روایت بھی صحیح ہو۔

حضرت اقدسؑ:۔جب قولِ خدا اور قولِ رسول کے برخلاف ہوگی تو پھر صحیح کس طرح؟خود بخاری میں مُتَوَفِّیْکَ کے معنے مُمِیْتُکَ لکھے ہیں۔

مولوی صاحب:۔ہم بخاری کو نہیں مانتے اور روایتوں میں مسیح کی زندگی لکھی ہے۔ قرآن کی تفسیروں میں لکھا ہے کہ مسیح زندہ ہے۔

حضرت اقدسؑ:۔ تمہارا اختیار جو چاہو مانو یا نہ مانو اور قرآن شریف خود اپنی تفسیر آپ کرتا ہے۔ خد اتعالیٰ نے مجھے اطلاع دی کہ حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہو گئے اور کتاب اﷲ اور احادیث صحیحہ کے مطابق یہ بات ہے۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے۔ قرآن و حدیث کے مخالف ہم کوئی روایت نہیں مان سکتے۔

مولوی صاحب:۔اور جو وہ بھی صحیح ہوتو؟

حضرت اقدس ؑ:۔وہ صحیح ہو ہی نہیں سکتی۔

مولوی صاحب:۔ اگر چہ صحیح ہو۔

حضرت اقدسؑ:۔میں کئی دفعہ سمجھا چکا ہوں۔اب بار بار کیا کہوں۔ کتاب اللہ کے برخلاف جو روایت ہو وہ کس طرح صحیح ہو سکتی ہے؟

مولوی صاحب:۔یہ کس نے لکھا ہے۔کس کتاب میں درج ہے کہ برخلاف روایت ہو تو نہ مانو۔امام بخاری نے بھی غلطی کھائی جو مُتَوَفِّیْکَ کے معنے مُمِیْتُکَ کر دیئے۔

حضرت اقدسؑ:۔اگر بخاری نے غلطی کھائی تو تم اور کوئی حدیث یا لغت پیش کرو جہاں وفات کے معنے سوائے موت کے کچھ اور کئے گئے ہوں۔

مولوی صاحب:۔اچھا ۔حضرت عیسیٰ ؑ نے تو فرشتوں کے ساتھ نازل ہونا ہے۔ تمہارے ساتھ فرشتے کہاں ہیں؟

حضرت اقدسؑ:۔تمہارے کندھوں پر جو دو فرشتے ہیں وہ تم کو نظر آتے ہیں جو یہ فرشتے تم کو نظر آجائیں گے؟

مولوی صاحب:۔تو زینہ کہاں ہے جس کا ذکر آیا کہ اس پر سے عیسیٰ اُترے گا۔

حضرت اقدسؑ:۔نزول کے یہ معنی نہیں جو تم سمجھتے ہو۔ یہ ایک محاورہ ہے۔ جب ہم مسافر سے پوچھتے ہیں کہ تم کہاں اُترے؟

اس کے بعد وہ لوگ اُٹھ کر چلے گئے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 497 تا 499۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

عقیدہ حیات مسیح کا منبع

مسلمانوں میں سے ایک گروہ کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مادی جسم سمیت آسمان پر اٹھالیا اور آخری زمانہ میں وہ دوبارہ اسی جسم سمیت زمین پر اتریں گے۔

یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس کی قرآن اور حدیث سے کوئی تائید نہیں ہوتی ۔ بلکہ قرآن کریم کی متعدد آیات واضح طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کو دوسرے انبیاء کی طرح وفات یافتہ قرار دیتی ہیں اور حدیث میں تو رسول کریم ﷺ نے ان کی عمر بھی ۱۲۰ سال قرار دی ہے ۔ (کنزالعمال جلد ۱۱ صفحہ ۴۷۹ مؤستہ الرسالہ ۔ بیروت)

صحابہ اور بزرگان امت کا عقیدہ

رسول کریم ﷺ کی وفات پر تمام صحابہ کا اجماع اس بات پر ہوا تھا کہ رسول کریم ﷺ بھی اسی طرح فوت ہوئے جس طرح پہلے تمام انبیاء نے وفات پائی ہے ۔ (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی از امام بخاری)

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کی جماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے ۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ نے قرآن کریم کی تیس آیات اور متعدد احادیث سے مسیح علیہ السلام کی وفات ثابت کی ہے اور اس موضوع پر ایک زبردست چیلنج بھی دیا ہے۔

بانی سلسلہ احمدیہ کا چیلنج

’اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے تو نہ کوئی آیت پیش کرسکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث دکھلاسکتے ہیں صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ ملا کرعوام کو دھوکا دیتے ہیں مگر یاد رہے کہ کسی حدیث مرفوع متصل میں آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کیلئے آتا ہے اور نزیل مسافرکو کہتے ہیں ۔ چنانچہ ہمارے ملک کا بھی یہی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی وارد شہر کو پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کہاں اترے ہیں اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ شخص آسمان سے اترا ہے اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو توصحیح حدیث تو کیا وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسیٰ ؑ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں گے ۔ اگر کوئی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں اور توبہ کرنا اور تمام اپنی کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہوگا۔‘ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۲۵ حاشیہ)
یہ چیلنج ۱۸۹۸ء میں دیا گیا تھا اور اس پر ایک سو سال پورے ہوگئے مگر اس کے خلاف ایک بھی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔حقیقت یہ ہے کہ حیات مسیح کا عقیدہ اسلامی عقیدہ نہیں بلکہ صحابہ کے دور کے بعد عیسائیوں کی طرف سے آیا ہے ۔ چنانچہ قدیم اور جدید علماء اور مفسرین کی یہی تحقیق ہے اور مسلسل اس صداقت کا اقرار کرتے چلے جارہے ہیں ۔

عظیم متکلم علامہ ابن قیم

یہ جو مسیح کے بارہ میں ذکرکیا جاتا ہے کہ وہ ۳۳ سال کی عمر میں آسمان کی طرف اٹھائے گئے اس کا ثبوت کسی مرفوع متصل حدیث سے نہیں ملتا۔ (زادالمعاد جلد اول صفحہ ۲۰ از امام ابن قیم مطبع میمنیہ مصر)

حنفی عالم علامہ ابن عابدین الشامی

امام ابن قیم کا نظریہ درست ہے اور واقعی یہ عقیدہ مسلمانوں میں عیسائیوں سے آیا ہے ۔ (تفسیر فتح البیان جلد ۲ صفحہ ۴۹ از نواب صدیق حسن خان، مطبع کبریٰ میریہ مصر۔ ۱۳۰۱ھ)

مشہور مفسر اور مسلمان لیڈر سر سید احمد خان

تین آیتوں سے حضرت عیسیٰ کا اپنی موت سے وفات پانا علانیہ ظاہر ہے مگر چونکہ علماء اسلام نے بہ تقلید بعض فرق نصاریٰ کے قبل اس کے کہ مطلب قرآن مجید پر غور کریں یہ تسلیم کرلیا تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں ۔ اس لئے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقق تسیلم کے مطابق کرنے کی بیجا کوشش کی ہے ۔ (تفسیر القرآن جلد ۲ صفحہ ۴۳ از سرسید احمد خان دوست ایسوسی ایٹس ۱۹۹۴ء)

مولانا عبیداللہ سندھی

یہ جو حیات عیسیٰ لوگوں میں مشہور ہے وہ ایک یہودی کہانی اور صابی من گھڑت افسانہ ہے مسلمانوں میں فتنہ عثمان کے بعد بواسطہ انصار بنی ہاشم یہ بات پھیلی اور یہ صابی اور یہودی تھے قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ عیسیٰ نہیں مرا۔ (الہام الرحمان فی تفسیر القرآن اردو جلد اول صفحہ ۲۴۰ از عبیداللہ سندھی ادارہ بیت الحکمت ۔ کبیر والا ملتان)

نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی

رفع کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔’ یہ بات تفحیم و تشریف و تفحیم کے طور پر کہی جاتی ہے نہ یہ کہ وہ درحقیقت آسمان کی طرف بادلوں میں اڑتے ہوئے نظر آئے اور کسی آسمان پر جا بیٹھے ان باتوں کی ہمارے ہاں کوئی اصل نہیں ۔ بعد میں حضرت عیسیٰ یقیناًمرگئے جس کی خبر قرآن مجید میں دوسری جگہ دی گئی ہے ۔ (تہذیب الاخلاق جلد ۳ صفحہ ۲۲۱ از نواب اعظم یار مطبوعہ ۱۸۹۶ء)

مشہور مفکر غلام احمد پرویز

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اب تک زندہ ہونیکی تائید قرآن کریم سے نہیں ملتی ۔ قرآن کریم آپ کی وفات پاجانے کا بصراحت ذکر کرتا ہے ۔۔۔ حضرت عیسیٰ کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا تصور مذہب عیسائیت میں بعد کی اختراع ہے ۔ (شعلہ مستور ۷۹ ۔۸۳ از غلام احمد پرویز ادارہ طلوع اسلام لاہور)

معروف ادیب اور مفسر ابوالکلام آزاد

یہ عقیدہ اپنی نوعیت میں ہر اعتبار سے ایک مسیحی عقیدہ ہے اور اسلامی شکل و لباس میں ظاہر ہوا ہے ۔ (نقش آزاد صفحہ ۱۰۲ کتاب منزل لاہور طبع دوم جولائی ۵۹)

ممتاز عرب عالم عبدالکریم الخطیب

قرآن مجید میں مسیح کی دوبارہ آمد کا کوئی ذکر نہیں مسیح کے بارے میں اکثر روایات علماء اہل کتاب نے اسلام میں داخل کی ہیں ۔ (المسیح فی القرآن صفحہ ۵۳۸ دارالکتب الحدیثہ شارع جمہوریہ طبع اول ۱۹۶۵ء)

علامہ شورائی

عیسائی علماء نے یہودیوں کو دائرہ عیسائیت میں لانے کی خاطر بے سروپا باتیں عوام میں پھیلادیں ۔ وفات کے متعلق بھی لوگوں کو ذہن نشین کرایا گیا کہ حضرت عیسیٰ نے صلیب پر جان تو ضرور دی ہے لیکن تین دن کے بعد زندہ ہو کر آسمان پر چڑھ گئے اور قیامت کے قریب زمین پر اتریں گے اور عیسائیت کے دشمنوں کا قلع قمع کریں گے ۔ (سائنٹفک قرآن پارہ دوم صفحہ ۷۶ از علامہ شورائی قرآن سوسائٹی کراچی)

اب فیصلہ آپ کا کام ہے کہ درست بات کونسی ہے ۔

وفات مسیح ۔ احادیث اور اقوالِ صحابہ کی روشنی میں

حضرت مسیح علیہ السلام کو قرآن کریم نے متعدد آیات میں وفات یافتہ قرار دیا ہے ۔ اور آنحضرت ﷺ اور آپ ؐ کے صحابہؓ کا یہی عقیدہ تھا ۔ آئےے پہلے چند احادیث اور پھر صحابہؓ کے اقوال ملاحظہ ہوں ۔

مسیح کی عمر

حضرت عیسیٰ بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے ۔ (کنزالعمال جلد ۶ صفحہ ۱۲۰ از علاؤالدین علی المتقی ۔ دائرہ المعارف النظامیہ ۔ حیدرآباد ۱۳۱۲ھ)

مسیح فوت ہوگئے

اگر حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیرچارہ نہ ہوتا ۔ (الیواقیت والجواہر صفحہ ۲۲ از علامہ عبدالوہاب شعرانی مطبع ازہریہ مصر ، مطبع سوم ، ۱۳۲۱ھ)

ایک اور روایت میں ہے ۔ اگرحضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔(شرح فقہ اکبر مصری صفحہ ۱۱۲ از حضرت امام علی القاری مطبوعہ ۱۳۷۵ھ)

آنحضرت ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو توحید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا ۔ ’ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے کبھی نہیں مرے گامگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں ۔ (اسباب النزول صفحہ ۵۳ از حضرت ابوالحسن الواحدی طبع اولیٰ ۱۹۵۹ء مطبع مصطفی البابی مصر)

فلسطین سے ہجرت

حضور ﷺ نے فرمایا ۔ ’اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف وحی کی کہ اے عیسیٰ ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نقل مکانی کرتا رہ تاکہ کوئی تجھے پہچان کر دکھ نہ دے ‘۔ (کنزالعمال جلد ۲ صفحہ ۳۴)

’حضرت عیسیٰ ؑ ہمیشہ سیروسیاحت کیا کرتے تھے اور جہاں شام پڑتی تھی جنگل کی سبزیاں کھاتے اور خالص پانی پیتے تھے‘ ۔ (کنزالعمال جلد ۲ صفحہ ۷۱)

امت محمدیہ میں سے امام

آنحضرت ﷺ نے جہاں امت محمدیہ میں مسیح موعود کی خبر دی ہے وہاں ساتھ ہی فرمایا ۔ امامکم منکم تم میں سے تمہارا امام ہوگا ۔ (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ )

صحیح مسلم کی روایت اس کی مزید وضاحت کرتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ امکم منکم ۔تمہاری امامت کرے گا اور تم میں سے ہوگا (مسلم کتاب الایمان باب بیان نزول عیسیٰ )

حضور ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ نے دعا کی کہ اے رب مجھ کو امت محمدیہ کا نبی بنادے ۔ ارشاد ہوا اس امت کا نبی اسی میں سے ہوگا ۔ عرض کیا تو مجھ کو محمدکی امت میں سے بنادیجئے ۔ ارشاد ہوا کہ تم پہلے ہوگئے وہ پیچھے ہونگے البتہ تم کو اور ان کو دارالجلال یعنی جنت میں جمع کردونگا ۔ (نشر الطیب از اشرف علی تھانوی ۱۳۹۷ھ ادب منزل پاکستان چوک ، کراچی)

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ مجھے امت محمدیہ کا امام مہدی بنادے۔ تو اللہ نے فرمایا ۔ اس کا وجود احمد ﷺکے ذریعہ (یعنی اس کی امت میں سے) ہوگا ۔ (کتاب المہدی صفحہ ۱۱۲ از صدرالدین صدر، مطبوعہ تہران ۱۹۶۶ء)

الگ الگ حلیے

حضور ﷺ نے مسیح ناصری اور مسیح موعود کے الگ الگ حلیے بھی بیان فرمائے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ سرخ رنگ کے اور گھنگھریالے بالوں والے اور چوڑے سینے والے تھے ۔ آنے والا مسیح موعود گندمی رنگ اور سیدھے بالوں والا ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب و اذکرنی الکتاب مریم)

آخری خطاب

حضور ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں صحابہ رضوان اللہ علیھم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ۔ ’اے لوگو ! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم اپنے نبی کی موت سے خوفزدہ ہو ۔ کیا مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والا کوئی نبی بھی ایسا گزرا ہے جو غیر طبعی عمر پاکر ہمیشہ زندہ رہا ہو کہ میں ہمیشہ زندہ رہ سکوں گا ۔ یاد رکھو کہ میں اپنے رب سے ملنے والا ہوں ۔‘ (المواہب الدنیہ جلد ۲ صفحہ ۳۶۸ از احمد بن ابی بکر خطیب قسطلانی شرفیہ ۱۹۰۸ء)

صحابہ کا پہلا اجماع

یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام کا سب سے پہلا اجماع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر ہوا ۔ کئی صحابہ نے شدت محبت اور غم کی وجہ سے حضور ﷺ کو وفات یافتہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ تب حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے اور سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۴۵ تلاوت فرمائی ۔

ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل
یعنی محمد ؐ صرف ایک رسول ہیں۔ اور ان سے پہلے سب رسول فوت ہوچکے ہیں ۔ یہ آیت سن کر صحابہ نے حضور ﷺ کو فوت شدہ مان لیا ۔ اگر کوئی ایک صحابی بھی حضرت عیسیٰ ؑ کو زندہ سمجھتا تو وہ کہہ سکتا تھا کہ اگر حضرت عیسیٰ رسول ہو کر اب تک زندہ ہیں تو آنحضرت ﷺ کیونکر فوت ہوسکتے ہیں ۔ (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی )

اجماع صحابہ کی جھلک بحرین میں

فرقہ اہلحدیث کے بانی محمد بن عبدالوہاب تحریر فرماتے ہیں ۔ حضور ﷺ کی وفات کے بعد بحرین کے کئی لوگ اس بات سے مرتد ہوگئے کہ اگر حضور ﷺ رسول ہوتے تو ہرگز فوت نہ ہوتے ۔ تب صحابی رسول حضرت جارود بن معلی رضی اللہ عنہ نے ان سے خطاب کیا اور فرمایا آنحضرت ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ آپ ویسے ہی زندہ رہے جیسے حضرت موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ رہے اور اسی طرح انتقال کرگئے جیسے حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ نے وفات پائی ۔ یہ سن کر سب لوگ اسلام میں واپس آگئے ۔ ( مختصر سیرۃ الرسول ؐ صفحہ ۱۸۷ از محمدبن عبدالوہاب دارلعربیہ بیروت لبنان)

اجماع صحابہ کی جھلک کوفہ میں

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ۔ ’حضرت علی رضی اللہ عنہ اس رات فوت ہوئے جس رات حضرت عیسیٰ بن مریم کی روح اٹھائی گئی تھی ۔ یعنی ۲۷ رمضان کی رات ۔ (طبقات ابن سعد ، جلد ۳ صفحہ ۳۹ دارالبیروت للطباعہ والنشر)

حضرت ابن عباس کا عقیدہ

حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ آیت انی متوفیک ۔۔ کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ ممیتک ۔یعنی میں تجھے موت دینے والا ہوں ۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ المائدہ باب ماجعل اللہ من بحیرۃ۔۔۔)

حیات مسیح کا عقیدہ

دوسری طرف حیات مسیح کے عقیدہ کی قرآن و حدیث سے کوئی تائید نہیں ہوتی ۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے چیلنج دیا ہے کہ کسی ایک حدیث میں بھی حضرت مسیح کے مادی جسم سمیت آسمان پر جانے کا کوئی ذکر نہیں ۔ پس آنحضور ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے ہر شخص کا وہی عقیدہ ہونا چاہیے جو حضور ﷺ کا تھا اور آپ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیھم کا تھا کیونکہ اسی میں فلاح اور نجات ہے ۔

حضرت نبیء اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیا و کشوف اور پیشگوئیاں

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کو ان کی صداقت کے نشان کے طور پر فرماتاہے۔ عالم الغیب خدا انہیں نہ صرف قبل از وقت غیب کی خبریں دیتابلکہ ان پرغلبہ بخشتاہے اور مستقبل میں ظاہر ہونے والی باتوں سے متعلق غیر معمولی علم عطا فرماتا ہے۔ (الجن:۲۷) جس کا ذریعہ وحی و الہام اور رؤیا و کشوف ہیں (الشوریٰ :۵۲) ۔ سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو ’’بشیر اور نذیر‘‘ کے القابات سے نوازا گیا۔ آپ کو قرآن شریف میں بیان فرمودہ اصولی بشارات اور تنبیہات کی تفاصیل رؤیاو کشوف کے ذریعہ عطا فرمائی گئیں۔ اور امت مرحومہ میں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کے نظارے اس جزئی تفصیل کے ساتھ آپ کو کروائے گئے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً ایک نظارہ نماز کسوف کے دوران آپ کو کروایاگیا جس کے بارے میں (اس نماز کے بعد) صحابہ کے اس استفسار پر کہ آپ حالت نماز میں آگے بھی بڑھے اور پیچھے بھی ہٹے تو اس کاکیا سبب تھا؟ آپ ؐنے اپنے اس کشف کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایامجھے ابھی اس مقام پر آئندہ کے وہ تمام نظارے کروائے گئے جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ جنت و دوزخ (کی کیفیات) بھی (دکھائی گئیں) ۔ اس واضح اور جلی کشف میں بعض نعماء جنت اپنے سامنے دیکھ کر آپ انہیں لینے کے لئے آگے بڑھے اور جہنم کی شدت و تمازت کا نظارہ کرکے پیچھے ہٹے۔(بخاری کتاب الکسوف)

نبی کریم ﷺ کے ا ن رؤیا و کشوف کی تفاصیل کتب احادیث میں موجود ہیں جن کے مطالعہ سے ان کی مختلف انواع اور کیفیات کا پتہ چلتا ہے جن میں سے بعض کا ذکر اس جگہ مناسب ہوگا۔

۱

وہ کشوف اور پیشگوئیاں جو نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی ظاہری رنگ میں پوری ہو گئیں مثلاً آنحضرت ﷺ کو حضرت عائشہؓ کے ساتھ شادی سے قبل آپؐ کو ان کی تصویر دکھاکر بتایا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے ۔ اس پیشگی غیبی خبر پر کامل ایمان کے باوجود آپ نے کما ل احتیاط سے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہی مراد ہے تو وہ خود اس کے سامان پیدا فرما دے گا۔ (بخاری کتاب النکاح) اور پھر بظاہر ناموافق حالات کے باوجود ایسا ہی ہوا۔

۲

وہ کشوف اور پیشگوئیاں جو آنحضرت ﷺکی زندگی میں پوری ہو گئیں مگر ظاہراً نہیں بلکہ ایسی تعبیر کی شکل میں جو اس وقت واضح نہیں تھی۔ ایسے کشوف کثرت سے پائے جاتے ہیں جیسے غزوۂ احد سے قبل حضور کا حالت کشف میں چند گائیوں کا ذبح کرنا او ر اپنی تلوار کو لہرانا اور اس کااگلا حصہ ٹوٹ جانا۔ (بخاری کتاب التعبیر)

ُاحد میں ستّر مسلمانوں کی شہادت کی قربانی اور خود رسول اللہ ﷺ کے زخمی ہونے اور دندان مبارک کے شہید ہونے کے رنگ میں ظاہر ہوئی تو پتہ چلا کہ اس رؤیا کی یہ تعبیر تھی۔

۳

وہ رؤیا و کشوف جن کی تعبیر رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ظاہر تو ہو گئی مگراس تعبیر سے مختلف رنگ میں ظاہر ہوئی جو نبی کریم ﷺ نے اولاً اس سے مراد لی تھی گویا کشف کے وقت اس کی تعبیر کی تفہیم کئی حکمتوں کے پیش نظر بیان نہیں فرمائی گئی۔ تعبیر ظاہر ہونے پر کھلا کہ مفہوم کیاتھا ۔ جیسے نبی کریم ؐ کو ایک کھجوروں والی جگہ دارالہجرت کے طور پر دکھائی گئی۔ اوّل آپ نے یمامہ کی سرزمین مراد لی مگر بعدمیں کھلا کہ اس سے مراد یثرب یعنی مدینۃ الرسول تھا۔(بخاری کتاب التعبیر)

۴

رسول کریم ﷺکے وہ کشوف جو بظاہر نظر آپ ؐ کی ذات والا صفات کے بارہ میں معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی تعبیر کی تفہیم کے مطابق آپ نے اپنی وفات کے بعد ان کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی۔ اور پھر ایسا ہی ظہور میں آیا۔ جیساکہ دو کذّاب مدعیان نبوت کے بارہ میں کشف میں نبی کریم ﷺ نے خود بیان فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں اور میں نے ان کو ناپسند کرتے ہوئے کاٹ دیا ہے ۔ پھر مجھے اذن ہوا اور میں نے ان دونوں کو پھونک ماری اوروہ دونوں اُڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر دو کذابوں سے کی جو (میرے بعد) خروج کریں گے ۔ عبیداللہ کہتے تھے ان سے مراد اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب تھے ۔(بخاری کتاب المغازی و کتاب التعبیر)

اسی طرح حضور ﷺ نے بیان فرمایا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھوں میں رکھیں ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ تو وفات پا گئے اور اب تم ان خزانوں کوحاصل کر رہے ہو ۔(بخاری کتاب التعبیر)

۵

وہ رؤیا و کشوف جن کا تعلق آخری زمانہ سے ہے ۔ اس میں انذاری اور تبشیری دونوں قسم کے کشوف شامل ہیں جن کی تعبیرات رسول اللہ ؐ پر ظاہر نہیں کی گئیں ، نہ ہی آپ ؐ نے ان کا ذکر فرمایا البتہ بعد میں اپنے وقت پر بعض تعبیرات کے ظہور پر خود زمانہ نے گواہی دی اور بعض کے ظہور کا ہنوز انتظار ہے مثلاً رؤیا میں رسول کریم ﷺ نے مسیح موعود اور دجاّل کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔(بخاری کتاب التعبیر)

بعض دوسری احادیث صحیحہ کے مطابق چونکہ دجاّل مکّہ میں داخل نہیں ہوگا ا سلئے علماء امت نے اس کشف کی تعبیر یہ کی کہ دجال کے طوافِکعبہ سے مراد اسلام کی تباہی و بربادی کی کوشش ہیں اور مسیح موعود کے طواف سے مراد خانہ کعبہ اور دین حق کی حفاظت کی سعی ہے۔(مظاہر الحق شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ۴ صفحہ ۳۵۹ عالمگیر پریس لاہور)

اسی طرح نبی کریم ﷺ کو آپ کی امت کی کثرت اور شان و شوکت کے نظارے بھی کرائے گئے ۔ آپؐنے فرمایا کہ اس کثرت کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا جس نے میدان بھرے ہوئے تھے ۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۳،۴ دارالفکر بیروت)

امت کے بعض ایسے ہی خوش نصیب گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا میری امت جو ہندوستان سے جہاد کرے گی اور دوسری وہ جماعت جو مسیح موعود کے ساتھ ہوگی۔(نسائی کتاب الجہاد)

اس پیشگوئی کا پہلا حصہ بڑی شان کے ساتھ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس وقت پورا ہوا جب محمد بن قاسم کے ذریعہ سندھ کی فتح سے ہندوستان کی فتوحات کا آغاز ہوا اور انہوں نے سندھ کے باسیوں کو وہاں کے ظالم حکمرانوں سے نجات دلاکر عدل وانصاف کی حکومت قائم کی اوراپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اقدار سے اہل سندھ کو اپنا گرویدہ کرلیا اوریوں یہاں اسلام کا آغاز ہوا۔

پیشگوئی کے دوسرے حصے کا تعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ اورآپؑ کی جماعت سے ہے جسے مسیح موعود ؑ کی روحانی قیادت میں دین کی خاطر جدوجہد اور قربانیوں کی توفیق عطا ہونا تھی اور جن کے بارہ میں رسول خدا نے شوق ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ میرے بھائی ہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۳۰۰ دارالفکر بیروت) جنہوں نے مجھے دیکھا ہے مگر میری محبت کی خاطرقربانیاں کریں گے(مسند دارمی کتاب الرقاق) ۔ انہی غلامانِ مسیح موعودؑ کے ذریعہ دین اسلام کا وہ غلبہ مقدر ہے جس کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس مسیح موعود کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ تمام مذاہب اور ملتوں کوہلاک کر دے گا سوائے اسلام کے۔ (ابوداؤد کتاب الملاحم)

اسلام کی عالمگیر فتوحات کا یہی وہ زمانہ معلوم ہوتا ہے جس میں نبی کریم ﷺ کے اس کشف کی تعبیر بھی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو گی جس میں آپ ؐ نے بیان فرمایا کہ :

’’اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کے مشرق اورمغرب کے کنارے سمیٹ کر دکھائے ‘‘۔ اور پھر اس کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میری امت کی حکومت بالآخر ضرور اَور سرزمینوں پر قائم ہوگی جو مجھے عالم رؤیا میں دکھائی گئی ہیں۔(مسلم کتاب الفتن)۔

آئندہ زمانہ میں ان رؤیا و کشوف کی تعبیرات کے ظہور پر ہمار ا ایمان اور یقین اس وقت اور پختہ ہو جاتاہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں ہمارے آقا و مولا مخبر صادق حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس سے بھی کمزور زمانہ میں اپنے رؤیا و کشوف کی بناء پر جواحوال بیان فرمائے وہ پوری آب و تاب کے ساتھ پورے ہو چکے ہیں ۔ اس جگہ دو کشوف کا تفصیلی تذکرہ بطور نمونہ کیاجاتاہے ۔ ایک نہایت اہم اور غیر معمولی شان کا حامل لطیف کشف وہ ہے جس کا نظارہ نبی کریم ﷺ کو غزوہ احزاب کے اس ہولناک ابتلامیں کروایا گیا جب اہل مدینہ ایک طرف کفارِ مکہ کے امکانی حملے سے بچنے کی خاطر شہر کے گرد خندق کھود رہے تھے اور دوسری طرف اندرونی طور پر وہ سخت قحط سالی کا شکار تھے اور جب کہ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ ؐ کے صحابہ خندق کی کھدائی میں مصروف تھے اور مسلسل تین دن سے فاقہ سے تھے۔دریں اثنا کھدائی میں ایک سخت چٹان آ گئی جو ٹوٹتی نہ تھی ۔ رسو ل کریم ﷺ نے فرمایا اس پر پانی پھینکو پھر آپ نے اللہ کانام لے کر کدال کی ضرب لگائی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گئی ۔ اچانک نظر پڑی تو کیا دیکھتاہوں کہ (فاقہ کی شدت سے ) حضور ﷺ نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے۔ (بخاری کتاب المغازی)

حضرت براء بن عازبؓ اس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ خندق کی کھدائی کے دوران نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جب ایک پتھریلی چٹان کے نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی اور آپ ؐنے اللہ کانام لے کر کدال کی پہلی ضرب لگائی تو پتھر شکستہ ہو گیا اور اس کا ایک بڑاحصہ ٹوٹ گراآپؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ شام کی کنجیاں میر ے حوالے کی گئی ہیں اور خداکی قسم! میں شام کے سرخ محلات اپنی اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں ۔ پھرآپ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی دوسری ضرب لگائی ، پتھرکا ایک اور حصہ شکستہ ہو کرٹوٹا اور رسول کریم ﷺ نے اللہ اکبرکا نعرہ بلند کر کے فرمایا مجھے ایران کی چابیاں عطا کی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں مدائن اوراس کے سفید محلات اس جگہ سے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہاہوں ۔پھر آپ نے اللہ کا نام لے کر تیسری ضر ب لگائی اور باقی پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ آپ نے تیسری مرتبہ اللہ اکبر کانعرہ بلند کر کے فرمایا ’’مجھے یمن کی چابیاں سپر د کی گئی ہیں اورخدا کی قسم میں صنعاء کے محلات کا نظارہ اپنی اس جگہ سے کر رہا ہوں۔(مسنداحمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۳۰۳ دارالفکر بیروت)

یہ عظیم الشان روحانی کشف آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کے زبردست یقین پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ایک طرف فاقہ کشی کے اس عالم میں جب دشمن کے حملے کے خطرے سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور خود حفاظت کے لئے خندق کھودنے کی دفاعی تدبیروں میں مصروف ہیں لیکن الٰہی وعدوں پر ایسا پختہ ایمان ہے کہ اپنے دور کی دو عظیم طاقتور سلطنتوں کی فتح کی خبر کمزور نہتے مسلمانوں کو دے رہے ہیں اور وہ بھی اس یقین پر قائم نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے ہیں کہ بظاہر یہ انہونی باتیں ایک دن ہو کر رہیں گی اور پھر خدا کی شان دیکھو کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت سے ان فتوحات کا آغازہو جاتاہے۔ حضرت خالدبن ولیدؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ اسلامی فوجوں کے ساتھ شام کوفتح کرتے ہیں اور حضرت عمرؓ کے زمانہ ٔخلافت میں ا ن فتوحات کی تکمیل ہو جاتی ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی سرکردگی میں مسلمان ایران کی فتوحات حاصل کرتے ہیں اور صرف چند سال کے مختصر عرصہ میں دنیا کی دو بڑی سلطنتیں روم و ایران ان فاقہ کشوں مگر الٰہی وعدوں پر یقین محکم رکھنے والے مسلمانوں کے زیر نگیں ہوجاتی ہیں۔

دوسرے عظیم الشان کشف کا تعلق اسلامی بحری جنگوں سے ہے ۔ مدنی زندگی کے اس دور میں جب برّی سفر وں اور جنگوں کے پورے سامان بھی مسلمانوں کو میسرنہیں تھے نبی کریم ﷺ کو مسلمانوں کی بحری جنگوں کی خبردیتے ہوئے نظارہ کروایاگیا۔ حضرت امّ حرامؓ بنت ملحان بیان کرتی ہیں کہ حضور ہمارے گھر محوِ استراحت تھے کہ عالم خواب سے اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔ میں نے سبب پوچھا توفرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سمندر میں اس شان سے سفر کریں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اُمّ حرامؓکہتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آ پ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں سے بنا دے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا کی کہ اے اللہ اسے بھی ان میں شامل کر دے۔ پھر آپ ؐ کو اونگھ آ گئی اور آنکھ کھلی تو مسکرا رہے تھے ۔ میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے پہلے کی طرح اُمّت کے ایک گروہ کا ذکر کیا جو خدا کی راہ میں جہا د کی خاطر نکلیں گے اور بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے سمندری سفر کریں گے ۔ حضرت اُمّ حرامؓ نے پھر دعا کی درخواست کی کہ وہ ا س گروہ میں بھی شامل ہوں ۔ آپؐ نے فرمایا آپ گرو ہ ’’اولین ‘‘میں شامل ہو اور گروہ’’ آخرین‘‘ میں شریک نہیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ پھر ام حرامؓ فاختہ بنت قرظہ زوجہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ سمندری سفر میں شامل ہوئیں ۔ اوراسی سفر میں واپسی پر سواری سے گر کر وفا ت پائی۔(بخاری کتاب الجہاد)

اس حدیث میں جزیرہ قبرص کی طرف اشارہ ہے جو حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں فتح ہوا، جب وہ شام کے گورنر تھے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں حضرت معاویہؓ کو پہلے عظیم اسلامی بحری بیڑے کی تیاری کی توفیق ملی۔ حالانکہ اس سے قبل مسلمانوں کو کوئی کشتی تک میسر نہ تھی اور پھر حضرت عثمانؓ کے زمانۂ خلافت میں ہی حضرت معاویہؓ نے اسلامی فوجوں کی بحری کمان سنبھالتے ہوئے جزیرہ قبرص کی طرف بحری سفر اختیار کیا جواسلامی تاریخ میں پہلا بحری جہادتھا۔ جس کے نتیجے میں قبرص فتح ہوا۔ اور بعد میں ہونیوالی بحری فتوحات کی بنیاد یں رکھی گئیں۔ اور بنی کریم ﷺ کے مبارک منہ کی و ہ بات پوری ہوئی جو آپ نے فرمایا تھا کہ دین اسلام غالب آئے گایہاں تک کہ سمندر پار کی دنیاؤں میں بھی اس کا پیغام پہنچے گا ۔ اور مسلمانوں کے گھڑ سوار دستے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے سمندروں کوبھی چیر جائیں گے۔(کنزالعمال جلد۱۰ صفحہ ۲۱۲ مطبعۃ الاصیل حلب)

یہ پیشگوئی اس شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی کہ اس زمانہ کی زبردست ایرانی اوررومی بحری قوتوں کے مقابل پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے اپنی بحری قوت کالوہامنوایا اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کی سرکردگی میں اسلامی بحری بیڑے نے بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنی دھاک بٹھاکر اسلامی حکومت کی عظمت کو چار چاند لگا دئے۔ چنانچہ فتح قبرص کے بعد کی اسلامی مہما ت میں جہاں مسلمان ایک طرف بحیرہ احمر کے اس پارپہنچے تو دوسری طرف مسلمان فاتحین نے بحیرہ روم کو عبور کر کے جزیرہ رُودس ، صقلیہ اور قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ تیسری طرف طارق بن زیادہ فاتح سپین نے بحیرہ روم کو چیرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے کنارے جبرالٹر پر پہنچ کرہرچہ بادا باد کہہ کر اپنے سفینے جلا دئے ۔ تو چوتھی طرف محمد بن قاسم نے بحیرہ عرب اور بحر ہند کے سینے چیر ڈالے اور یوں مسلمانوں نے جریدہ عالم پربحری دنیا میں کیا بلحاظ سمندری علوم میں ترقی ، کیا بلحاظ صنعت اور کیا بلحاظ جہازرانی انمٹ نقوش ثبت کئے جورہتی دنیا تک یاد رہیں گے۔ نئی بندرگاہیں تعمیر ہوئیں ، جہاز سازی کے کارخانے بنے ، بحری راستوں کی نشاندہی اورسمندروں کی پیمائش کے اصول وضع ہوئے۔ اورمسلمان سمندروں پربھی حکومت کرنے لگے اور رسول خدا ﷺکے رؤیا وکشوف کما ل شان کے ساتھ پورے ہوئے ۔

اوریہ بات آج بھی ہمارے لئے ازدیاد ایمان ویقین کا موجب ہے کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے وہ وعدے بھی ضروربالضرور پورے ہونگے جو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعہ ہم سے کئے گئے۔ سچ ہے؂

جس بات کو کہوں کہ کرو ں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ با ت خدائی یہی تو ہے

(مطبوعہ : الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری ۱۹۹۹ء تا ۷ جنوری ۱۹۹۹ء)

حضرت خاتم النبین ﷺ کی ناموسِ مبارکہ کے دفاع میں

حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ
حالیہ خطباتِ جمعہ سن کر


دفعتاً غم سے یہ دل چیخ اُٹھا صلِّ علیٰ
اب تو ہر زخم سے اٹھتی ہے صدا صلِّ علیٰ



وہ جسے بھیجتے جاتے ہیں ملائک بھی درود

وہ کہ جس کے لیے کہتا ہے خدا صلِّ علیٰ



ہم کو اُسلوبِ محبت یوں سکھاتا ہے کوئی

جس کے پڑھنے پہ کروڑوں نے پڑھا صلِّ علیٰ



آخریں کے لیے اِس میں بَرَکت ہی بَرَکت

اوّلیں سے ہے ملانے کی دعا صلِّ علیٰ



ایک ہی شخص ہو جب عاشق و معشوق تو پھر

ذکرِ مولا سے کریں کیسے جدا صلِّ علیٰ



خود ہی ناموسِ محمدؐ کا محافظ ہے خدا

یہ تو اپنی ہے حفاظت کی قبا صلِّ علیٰ



رُخِ زیبا کی طرف تیر چلے ہیں پھر سے

دستِ طلحہؓ کی طرح ہاتھ بڑھا صلِّ علیٰ



دار پر کھینچا گیا جب کَلِمے کی خاطر

ذرّے ذرّے نے کہا صلِّ علیٰ، صلِّ علیٰ



پھر کھُلا مجھ پہ کہ ہر درد میں پنہاں ہے دوا

بن گئی جونہی مری آہ و بکا، صلِّ علیٰ



اے زمانے یہ تری نبض رُکی جاتی ہے

جاں بلب! تیرے لیے ایک شفا صلِّ علیٰ



عصرِدوراں! تری ہر مَے کے ہے نشّے کو فنا

اپنے ہونٹوں سے لگا جامِ بقا صلِّ علیٰ



اپنے اعمال کا محور رہے اسوۂ رسول

اور زباں کہتی رہے یونہی سدا صلِّ علیٰ



وجہِ تخلیق کا مخلوق پہ احسانِ عظیم

ذرّے ذرّے سے اُٹھے کیوں نہ صدا صلِّ علیٰ



(فاروق محمود۔ (لندن))

کیا گوشت خوری ایک ظالمانہ فعل ہے؟

حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ
(حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مضمون بعنوان’’گوشت خوری پرایک مختصر نوٹ‘‘ ریویوآف ریلیجنزاردو ۱۹۱۹؁ء جلد ۱۸ نمبر ۱۰ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون آج کے حالات میں بھی بہت اہمیت رکھتا ہے اسلئے ذیل میں آپ کا یہ مفید مضمون ہدیہ ٔ قارئین کیا جاتا ہے)۔(مدیر)
خوراک کے لحاظ سے دنیامیں دوبڑے گروہ پائے جاتے ہیں ۔ ایک وہ جوگوشت کھانے کو ایک ظالمانہ کام سمجھتے ہیں اور صرف سبزیوں وغیرہ پر گزارہ کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ دوسرے وہ جو باستثناچند جانوروں کے جن کاگوشت طبی لحاظ سے انسان کے جسم اورروح کے لئے مضر ہے باقی تمام جانوروں کا گوشت استعمال کرنے کو ایسا ہی جائز قرار دیتے ہیں جیسا سبزیوں کا استعمال۔ اول الذکر جماعت میں زیادہ تر ہندو اور بدھ مذہب کے لوگ ہیں لیکن ان خیالات کااثر حال میں یورپین ممالک میں بھی پھیلتا نظرآتاہے کیونکہ ہم کو ہمارے ان مبلغوں سے اطلاع ملی ہے جو یورپ میں کام کرتے ہیں کہ وہاں کے بعض تعلیم یافتہ لوگ اس خیال کی طرف مائل نظرآتے ہیں کہ گوشت خوری ایک ظالمانہ کام ہے جس سے ہر شریف آدمی کو پرہیز لازم ہے۔ ہم کو اس بات سے تعلق نہیں کہ یہ لوگ کس مذہب و ملت کے ہیں اور یہ کہ آیا یہ لوگ مذہباً اپنے آپ کو کسی ایسے مذہب کی طرف تو منسوب نہیں کرتے کہ جو گوشت خوری کو جائز اور حلا ل قرار دیتاہے اور جس کے بانی اور بزرگ ہمیشہ قولاً اور فعلاً گوشت خوری کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارا کام غلط عقائد اور غلط خیالات کی اصلاح ہے۔ پس خواہ ایسے لوگ مذہباً کسی ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ہم ان کی طرف توجہ کریں گے۔ غرض گوشت خوری پر ایک مبسوط مضمون لکھے جانے کی ضرورت ہے جس میں اس کی حکمت اور اس کے فوائد پر مفصل علمی بحث ہو اور جس میں تاریخی واقعات کی مدد سے یہ ثابت کیا جاوے کہ انسانی بقا اور ترقی کے لئے گوشت خوری بھی ایک حد تک ضروری اور لابُدی ہے مگر ہم شروع میں ہی یہ بتا دیناچاہتے ہیں کہ ہمارا یہ موجودہ مضمون اس ضرورت کو پورا کرنے والا نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے ہم کسی اور مناسب وقت پر لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ موجودہ مضمون میں ہم گوشت خوری کے متعلق جو اسلامی تعلیم ہے صرف اس کو پیش کرنا چاہتے ہیں اور مختصر الفاظ میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس کے اندر کونسی حکمت مدنظر رکھی گئی ہے۔ مگر اصل مضمون شروع کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اصولی طورپر اسلامی احکام پرایک سرسری نظر ڈالی جاوے اور دیکھا جاوے کہ اسلامی شریعت کی بنیاد کس اصول پر ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’جَعَلنٰکُم اُمَّۃً وَّسَطًا‘ یعنی اے مسلمانو! تم وسطی امت بنائے گئے ہو۔ یعنی تم افراط و تفریط کی راہوں سے الگ کر کے وسطی طریقوں پر چلائے گئے ہو ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے تمام احکام میں یہی اصول چلتاہے۔ اور درحقیقت اگر عقلاً بھی دیکھا جاوے تو یہ ایک نہایت زرّیں اصول ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر امر میں دو انتہائی نقطے ہوتے ہیں اورایک وسطی مقام ہوتا ہے اور وہ انتہائی نقطے گو بعض حالات میں مفید ثابت ہوں لیکن بعض میں سخت نقصان دہ اور ضرررساں نکلتے ہیں ۔ مثلاً مجرم کی پاداش کے متعلق ایک یہود کا اصول ہے جو تورات سے ماخوذہے کہ ہر صورت میں جرم کی سزا ضرور ی ہے اورکسی صورت میں بھی عفو جائز نہیں۔ اور دوسرے مسیحیوں کا اصول ہے کہ بدی کا مقابلہ مطلقاً نہ کرناچاہئے بلکہ ہر حالت میں عفو اور درگزر سے کام لینا چاہئے ۔ اب یہ دو انتہائی نقطے ہیں جو ان مذاہب نے اختیار کئے ۔ حالانکہ دنیا میں ہمارا تجربہ اور عقل ان دونوں کو باطل قرار دیتاہے کیونکہ نہ تو ہر حالت میں سزا دینے کاا صول قاعدہ کلیہ کے طورپر مفید کہلا سکتاہے اور نہ ہی عفو و درگزر کا اصول ہر حالت میں مفید صورت میں چلایا جا سکتاہے۔ بلکہ ان کے درمیان ایک مقام ہے جو اصل قاعدہ بننے کے قابل ہے اوراسی کو اسلام نے اختیار کیاہے۔ چنانچہ فرمایا ’’جَزَآئُ سَیِّئَۃ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ‘‘ یعنی تمام جرائم کی سزا ہے لیکن اگر عفو سے اصلاح کی امیدہو توعفو کو اختیار کرنا چاہئے۔

اب یہ ایک ایسا اصول ہے کہ جو وسطی ہے اور یہی قاعدہ بننے کے قابل ہے ۔ غرض اسلام نے تمام امور میں افراط اور تفریط کی راہوں سے ہم کوبچاکر وسطی طریق پر چلایاہے۔ اس جگہ یہ بتا دینا ضروری معلوم ہوتاہے کہ بعض اوقات وسطی طریق بظاہر قابل اعتراض معلوم ہوتاہے اور انتہائی مقاموں میں سے کوئی ایک مقام درست اور صحیح نظر آتاہے ۔ جیساکہ اوپرکی مثال سے ظاہر ہے کہ مسیحیوں کایہ اصول کہ کسی صورت میں بھی بدی کامقابلہ نہ کیا جاوے بظاہر بہت خوشگوار نظر آتا ہے۔ مگرذرا غور سے دیکھو اور اس کے نتائج پر نظرڈالو اور تجربہ کی روشنی میں اس کا امتحان کرو توفوراً اس کا بودہ پن نظرآنے لگتاہے۔ اس لئے ہم کو اپنی ظاہری نظر پراعتماد نہ کرناچاہئے بلکہ ان اصول کو استعمال میں لاناچاہئے جو کسی چیز کی خوبی اور سقم کا پتہ لگانے کے لئے بطور معیارکے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔ اول عقل، دوئم مشاہدہ ، سوئم تجربہ۔ یہ تین ایسے چراغ ہیں کہ ان کی روشنی کے نیچے کوئی اندھیرا قائم نہیں رہ سکتا اور ہر چیز کاحسن و قبح روز روشن کی طرح نظر آنے لگتاہے۔مجردعقل بعض اوقات دھوکہ دیتی ہے ۔مگر جب اس کے ساتھ مشاہدہ کی مدداورتجربہ کی شہادت مل جاتی ہے توپھریہ ایک قابل اعتبار چیزہو جاتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اسلام ہمیشہ وسطی مقام کواختیار کرتاہے اور انتہائی طریقوں سے الگ رہنے کی تعلیم دیتاہے اوراگر کسی موقع پروسطی مقام اور انتہائی نقطوں کے درمیان شک و شبہ پیدا ہو جاوے اور بظاہر ہم کو وسطی مقام قابل اعتراض نظرآئے اور انتہائی طریقوں میں سے کوئی طریق زیادہ درست اور پسندیدہ معلوم ہو تو پھراسکو عقل، مشاہدہ اورتجربہ کی متحدہ شمع کے سامنے پیش کرناچاہئے جہاں اس کاتمام حسن و قبح عیاں ہوجائے گااورکوئی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے گی۔

اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم گوشت خوری کے متعلق اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہیں اور پھر اس پران اصول کے ماتحت نظرڈالیں گے جو ہم نے حق کی شناخت کے لئے اوپر بیان کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’کُلُوا وَاشْربُوا وَلاَ تُسرِفوا‘‘۔ یعنی اے مسلمانو! جوچیزیں ہم نے تمہارے لئے حلال کی ہیں وہ سب کھاؤ پیو لیکن ان میں سے کسی ایک قسم پر خاص زور نہ دو یعنی ایسانہ کرو کہ صرف گوشت ہی کھاتے رہو یا یہ کہ صرف سبزیاں ہی کھاؤ اور گوشت قطعاً ترک کردو بلکہ حالات کے مطابق خوراک کھاؤ ۔

یہ وہ تعلیم ہے جو کھانے پینے کے بارہ میں ہم کو اسلام سکھاتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کھانے کے معاملہ میں کسی چیز کے استعما ل میں اسراف نہ ہوناچاہئے ۔ یعنی اگر کسی جگہ کے حالات اورآب و ہوا وغیرہ اس بات کے مقتضی ہیں کہ گوشت اور سبزی ایک مقدار میں کھائی جاوے (جیساکہ منطقہ معتدلہ میں) تو اسی طرح کھاؤ اور اگر کسی جگہ کی آب وہوا اور حالات یہ چاہتے ہیں کہ سبزی پر زیادہ زور ہو اورگوشت کم استعمال ہو تو پھرایسا ہی کرنا چاہئے جیساکہ منطقہ حارہ میں اور اگر کسی آب وہوا میں گوشت پر زیادہ زور دینامناسب ہو تو وہاں یہی کرنا چاہئے جیسا کہ منطقہ منجمدہ اور اس کے قریب کے علاقہ جات میں۔ غرض جوبھی کسی جگہ وہاں کے حالات کے ماتحت اسراف کی تصریف اور اس کی حد ہو اس سے بچنا چاہئے اور وسطی طریق کو اختیار کرنا چاہئے۔ یہ تو ملکی لحاظ سے تقسیم ہے ۔ اسی طرح بعض افراد کی طبائع میں بھی بعض ذاتی خصوصیات ہوتی ہیںیعنی کسی طبیعت کے لئے سبزی کی کثرت کی ضرورت ہو گی تو کسی کے لئے گوشت کی اورپھر کوئی ایسی بھی طبیعت ہوگی جس کے لئے دونوں کا ایک جیسا استعمال مفید ہوگا اور ان طبائع کے مطابق ہر ایک کے لئے الگ الگ اسراف کی حد ہوگی جس کے مطابق ہر ایک کو عمل کرنا چاہئے ۔

اب جبکہ ہم کو اس معاملہ میں اسلامی تعلیم کاعلم ہو گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ ایک وسطی تعلیم ہے جو افراط اور تفریط سے الگ ہے۔ یعنی نہ تو ہم کو خواہ مخواہ گوشت خوری پر زور دینے کو کہا گیا ہے اور نہ ہی گوشت خوری سے بالکل علیحدگی کا حکم دیا گیا ہے بلکہ حالات کے مطابق بین بین کی مناسب راہ اختیار کرنے کو کہا گیاہے اور یہی وسطی تعلیم کا مدعا ہے۔ اب ہم نے دیکھنایہ ہے کہ آیا یہ وسطی تعلیم درست اور پسندیدہ اور بنی نوع انسان کے لئے مفید ہے یا اس معاملہ میں انتہائی نقطوں میں سے کوئی مقام قابل ترجیح ہے ؟ گویا اس لحاظ سے تین گروہ ہو گئے۔

اوّل وہ لوگ جو گوشت کھانا ناجائز قرا ر دیتے اور ایک ظالمانہ کارروائی خیال کرتے ہیں ۔

دُوسرے وہ لوگ جو گوشت خوری پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ گویا سبزیوں کے استعمال سے کنار ہ کش ہو گئے ہیں۔

تیسرے وہ لوگ جو گوشت اور سبزیاں ہردو کا استعمال ضرور ی جانتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی نامناسب کثرت کو ناپسند کرتے ہیں اور موخرالذکر گروہ وسطی امت ہے۔

ان تینوں جماعتوں میں سے کون سی جماعت حق پر ہے اور ان تینوں طریقوں میں سے کون سا طریقہ بنی نوع انسان کے لئے مفید ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر اب ہم نے غور کرنا ہے اور تینو ں کو عقل، مشاہدہ اور تجربہ کی روشنی کے سامنے رکھ کر دیکھناہے۔ مگر اس سے پیشتر ذیل کے حقائق کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے ۔

(۱)۔الف۔۔۔:انسان اشرف المخلوقات ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی اس مخلوقات میں سے جو عرف عام میں جاندار کے نام سے موسوم ہوتی ہے انسان کا درجہ سب سے اعلیٰ ہے۔

ب۔۔۔:اگر کوئی جائز ضرورت پیش آوے تو ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کر دینا چاہئے جیساکہ قانون قدرت میں ہمارا مشاہدہ ہے ۔

ج۔۔۔: اخلاقی زندگی جسمانی زندگی سے افضل ہے۔

د۔۔۔:اقوام کی زندگی کا رتبہ افراد کی زندگی سے بالاتر ہے۔

(۲)۔۔۔علاوہ جسمانی اثر کے خوراک کاایک نہایت گہرا اثر انسان کے اخلاق پر بھی پڑتا ہے ۔ یہ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کی تائید میں نہایت مضبوط طبی اور تاریخی شہادات موجود ہیں جن کاانکار نہیں کیا جا سکتا اور سائنس نے اس علم کو اس حد تک یقینی بنادیاہے کہ اب کوئی بے وقوف ہی ہوگا کہ جو اس سے انکار کرسکے۔ ہر قسم کی خوراک الگ الگ اپنا اثر دکھاتی ہے جو انسان کے جسم اور اخلاق دونوں میں ظاہر ہوتاہے اور یہ اثر گو بعض خاص افراد میں بعض خصوصیات کی وجہ سے زیادہ نمایاں طور پر ظاہر نہ ہو۔ لیکن اقوام کے اخلاق میں ان کا ظہور پذیر ہونا بالکل یقینی اور قطعی ہوتاہے کیونکہ کسی قوم کے اخلاق سے اس قوم کے اکثر افراد کے اخلاق مراد ہوتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی خاص قسم کی خوراک انسان کے رنگ میں زردی پیدا کرنے والی ہے تو اس خوراک کے استعمال کرنے والی قوم کے اکثر افراد میں یہ صفت ظاہر ہو کر اس قوم کی قومی خصوصیت بن جائے گی یا مثلاً اگر کسی خوراک میں انسان کے اندر عجلت اور بے صبری پیدا کرنے والی خصوصیت ہے تو اس خوراک کے استعمال کرنے والی قوم میں یہ صفات بطور قومی خلق کے ہو جائیں گی خواہ بعض افراد ان کمزوریوں سے آزاد ہوں۔ خلاصہ کلام یہ کہ خوراک انسان کے جسم اور اخلاق پر گہرا اثر کرتی ہے۔لیکن چونکہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ یہ اثر ہر فرد میں نمایاں طورپر ظاہر ہو کیونکہ بعض افراد میں بعض ذاتی خصوصیات ہوتی ہیں یا ان کے اندر اس اثر کا مقابلہ کرنے والی باتیں فطرتاً موجود ہوتی ہیں اس لئے ہم ہر فرد کے متعلق تو نہیں مگر اکثرافراد کے متعلق یقینی طورپر فتویٰ لگاسکتے ہیں کہ وہ اس کے اثر کے نیچے آ ئیں گے اور چونکہ کسی قوم کے اکثر افراد میں جوبات پائی جاتی ہے وہی اس قوم کا قومی خلق کہلاتاہے اس لئے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ خوراک کا اثر قومی خلق میں نمایاں طورپر ظاہر ہوتاہے ۔

اب ہم اصل بحث کو لیتے ہیں ۔ طبی لحاظ سے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے کہ گوشت خوری کا اثر انسان میں شجاعت،بہادری ، جوش و خروش اور سختی اور اسی قسم کی دوسری صفات کے رنگ میں ظاہر ہوتاہے اور سبزیوں کااثر نرمی ، حلم اور صبرو برداشت اور اسی قسم کے دوسرے صفات کے رنگ میں ظہور پذیرہوتاہے ۔یہ ایک طبی تحقیق ہے اور صرف ایک تھیوری کے طورپر نہیں بلکہ مشاہدہ اور تجربہ کے معیار سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے۔ حیوانات میں دیکھ لو گوشت خور اور سبزی خور حیوانات علی الترتیب انہی صفات سے متصف نظرآئیں گے ۔ اس جگہ تفصیلات کی گنجائش نہیں ورنہ حیوانات میں اس رنگ کی تحقیقات کرنا اور ہر ایک قسم کے حیوانات کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر اس کی خوراک کے لحاظ سے اس کی صفات کا معائنہ کرنا ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے اور اہل علم نے اس کے متعلق بڑی تحقیقاتیں کی ہیں اور نہایت مفید معلومات اور تجارب کا ذخیرہ پیدا کیا ہے۔ جانوروں سے ہٹ کر انسان پر نظر ڈالیں تویہاں بھی یہ فرق نمایاں طورپر نظر آتاہے یعنی اگر گوشت خوری پر ناجائز اور نامناسب زور دینے والی اقوام میں بہادری، جرات، جوش اور سخت دلی کی صفات نظرآتی ہیں تو صرف سبزی کھانے والی اقوام میں یہ صفات قومی اخلاق کے طورپر مفقود ہیں اور ان کی جگہ نرمی ، حلم، برداشت اور تحمل کی صفات پائی جاتی ہیں۔

جن لوگوں نے تاریخ پر اس لحاظ سے نظر ڈالی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ امتیاز کسی خاص اقوام تک محدود نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی خوراک کاامتیاز موجود ہے وہاں ساتھ ساتھ قومی اخلاق میں بھی خوراک کے مناسب حال امتیازات موجود ہیں۔ہم اس ضمن میں کسی خاص قوم کا نام لیناپسند نہیں کرتے اور نہ اس جگہ ان تفصیلات کی گنجائش ہے۔ مگر ہر شخص جو اپنے طورپر تحقیق کر ے گا وہ یقیناًیقیناًاسی نتیجہ پرپہنچے گاجو ہم نے اوپر بیان کیاہے یعنی گوشت خوری پر ناروا زور دینے والی اقوام بلند ہمت دلیر بہادرمگرجوشیلی اور سخت دل نظرآئیں گی اور سبزیوں کا نامناسب طور پر زیادہ استعمال کرنے والی اور گوشت سے بالکل الگ رہنے والی اقوام نرم، حلیم ، صابر مگر بزدل اورکم ہمت نکلیں گی۔ ہاں اس تحقیقات کے لئے اس بات کومدنظر رکھناضروری ہے جو ہم نے اپنے شروع مضمون میں ہی بیان کر دی تھی یعنی گوشت اور سبزی کے استعمال کی حد ملک کی آب وہوا اور استعمال کنندگان کے حالات کے مطابق ہوگی مثلاً انگلستان میں گوشت کے استعمال کی جومناسب حدہے جس سے اوپراس ملک میں اسراف ہوگاوہ اس حد سے بڑھ کر ہے جو مثلاً افریقہ کے وسط میں ہے ۔اگر افریقہ کارہنے والا اسی قدر گوشت کھاتاہے جو ایک انگریز اپنے ملک میں کھاتا ہے تو وہ اس بارہ میں اسراف کرتاہے اور اس کے اندر گوشت کے ناروا استعمال سے جو اخلاقی کمزوریاں پیداہوجاتی ہیں ضرورظاہر ہونگی۔ اوراگر ایک انگلستان کا باشندہ اتنی سبزیاں کھاتاہے جو ایک وسط افریقہ کے باشندے کومناسب ہے اورگوشت سے پرہیز کرتاہے تو وہ ان خوبیوں کو کھو بیٹھے گا جو گوشت کے جائز استعمال سے پیدا ہوتی ہیں اور ان کمزوریوں کو اپنے اندرپیداکر لے گا جو سبزی کے ناواجب استعمال کانتیجہ ہوتی ہیں ۔غرض ہر آب وہوا کے لئے الگ اسراف ہے ۔ اسی طرح بعض طبائع بھی اپنی الگ الگ خصوصیات رکھتی ہیں اس لئے اس معاملہ میں تحقیقات کرنے والوں کو لازم ہے کہ تحقیقات کے وقت ان باتوں کو نظرانداز نہ کردیں کیونکہ اگر وہ ایساکریں گے تو ان کی تحقیقات کے نتائج یقیناًغلط ہونگے۔ہاں ان باتوں کی جائز مراعات رکھتے ہوئے جو تحقیقات کی جائے گی وہ یقیناًاسی نتیجہ پر پہنچائے گی جو ہم نے اوپر بیان کیاہے یعنی گوشت خوراقوام بشرطیکہ وہ گوشت کاناروااستعمال کرتی ہوں بہادری اور جری توہونگی مگر ساتھ ہی بیہودہ جوش و خروش ظاہر کرنے والی اور سخت دل بھی ہونگی۔ اور سبزیوں پرنامناسب زوردینے والی اقوام یعنی وہ اقوام جو باوجود ضرورت کے گوشت سے پرہیز کرتی ہیں حلیم اور نرم دل تو بے شک ہونگی مگر ساتھ ہی کم ہمت اور بزدل بھی ہونگی ۔ یہ ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے اور تاریخ پڑھنے والوں سے ہم بڑے زور کے ساتھ تحریک کرتے ہیں کہ وہ تاریخ کے مطالعہ کے وقت ان امور کو مدنظررکھیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کی محنت رائیگاں نہ جاوے گی بلکہ وہ نہایت دلچسپ مفیداور علمی معلومات کا ذخیرہ جمع کر سکیں گے ۔ ہاں اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف خوراک ہی نہیں جو انسان کے اخلاق پراثر رکھتی ہے بلکہ اخلاق پراثر ڈالنے والی چیزیں اور بھی ہیں اور ان کونظرانداز کرناغلط نتائج پیدا کرے گا۔

تاریخ سے پتہ لگتاہے کہ گوشت خور اقوام کا جب کبھی صرف سبزی کھانے والی اقوام سے مقابلہ پڑاہے تو گوشت کھانے والوں کاپلّہ بھاری رہاہے اوروہ ہمیشہ غالب آئے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی اور وجوہات پیدا ہو گئی ہوں جنہوں نے اس اثر کو وقتی طورپر دبا دیاہو۔ ہاں جہاں مستقل مزاجی اور محنت اور توجہ کے ساتھ کسی کام پر لگے رہنے کامقابلہ ہو تووہاں گوشت پر زیادہ زور دینے والی قوم ہمیشہ پیچھے نظر آئے گی اور سبزی کا استعما ل کرنے والی اقوام نمایاں حیثیت حاصل کر لیں گی ۔ یہ باتیں صرف دعویٰ کے طور پرنہیں ہیں بلکہ ان کی مدد میں تاریخی شہادتیں اور زمانہ حال کی علمی اور طبی تحقیقاتیں موجود ہیں مگر اس جگہ ان تفصیلات کی گنجائش نہیں۔

اب جب یہ ظاہر ہوگیاکہ :

(۱)۔۔۔:گوشت کااستعمال جہاں بعض اخلاقی خوبیوں کا پیدا کرنے والا ہوتا ہے وہاں اس کا ناروا استعمال بعض اخلاقی کمزوریوں کو بھی پیداکرتاہے اور اسی طرح سبزیوں کا استعمال جہاں بعض اخلاقی خوبیاں بھی پیدا کرتاہے وہاں گوشت کو بالکل ترک کر کے سبزیوں پرناواجب زور دینا بعض اخلاقی کمزوریاں بھی پیدا کر نے والا ہوتاہے۔

(۲)۔۔۔:خوراک کا یہ اثر گوبعض افراد میں بعض وجوہات سے نمایاں طورپر ظاہر نہ ہو لیکن قومی خلق کے طور پر اس کا ظہور پذیر ہونا یقینی اور قطعی ہوتاہے اور گو ہر فرد بشر کے اخلاق پوری طرح خوراک کے زیر اثر نہ ہوں لیکن ہر قوم کے اخلاق پوری طرح خوراک کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ ان دو نتائج کے اخذ کرنے کے بعد جو اوپر کے بیان سے واضح طورپر پیدا ہوتے ہیں ہم اصل مضمون کو لیتے ہیں۔

گوشت خوری کیاہے ؟ ہم اس کاجواب سبزی کھانے والوں کی طرف سے دیتے ہیں ۔ گوشت خوری کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی جاندار مخلوق کو صرف اس غرض سے ہلاک کیا جائے کہ اس کا گوشت انسان کے پیٹ میں جاوے۔ کیا یہ ظلم نہیں؟ ۔(ہمارا جواب ) نہیں یہ ظلم نہیں بدیں وجہ۔

گوشت خوری کے یہ معنی ہیں کہ ایک جاندار کی زندگی کاخاتمہ کیا جاوے بہت درست! گویا ہم اللہ کی مخلوق میں سے جو بمقابلہ انسان کے بہت کم درجہ کی ہے ایک فرد کی جسمانی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں ۔ اس میں تین باتیں یاد رکھنے کے قابل ہیں:

(۱)۔۔۔انسان کے مقابلہ میں بہت کم درجہ کی مخلوق کی زندگی۔

(۲)۔۔۔ ایک فرد کی زندگی۔

(۳)۔۔۔اس فرد کی جسمانی زندگی۔

یہ تین چیزیں ہم لیتے ہیں اور بے شک اگر بغیر جائز اور معقول وجہ کے ہم لیں تو ہماری سخت غلطی ہوگی اور ہمارا یہ فعل ایک ناقابل معافی جرم ہوگا۔ اور اسی لئے اسلام جانوروں کی جان لینا تو درکنار ان کو بے جا طورپر مشقت اور تکلیف میں ڈالنے سے بھی نہایت سختی کے ساتھ روکتاہے مگر گوشت خوری کا معاملہ ایک اور قسم کامعاملہ ہے ۔ اس میں ہم

بے شک اللہ کی مخلوقات میں سے ایک فرد کی جسمانی زندگی لیتے ہیں مگر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کس ضرورت کے لئے لیتے ہیں اور کس کے لئے لیتے ہیں؟ ظاہرہے کہ(۱) اشرف المخلوقات کی(۲)اجتماعی(۳) اخلاقی زندگی کے بقا کے لئے لیتے ہیں ۔ پس کون عقلمند ہے جو اس قربانی پر اعتراض کرے ۔

غور کرو ایک طرف اشرف المخلوقات کی زندگی ہے اوردوسری طرف اس سے بہت کم درجہ کی مخلوق کی زندگی ہے۔ پھر ایک طرف انسان کی قومی اور اجتماعی زندگی اور دوسری طرف حیوانات میں سے کسی فرد کی زندگی۔پھر ایک طرف انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی ہے اوردوسری طرف حیوانات میں سے کسی فرد کی جسمانی زندگی ۔ میں تو کہتاہوں کہ اگرانسانوں میں سے کسی فرد کی جسمانی زندگی کی بقا کے لئے بھی حیوانات کی اجتماعی جسمانی زندگی کی قربانی درکار ہو تو کوئی عقلمند اس قربانی سے نہیں رکے گا اور ہم عملاً دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کوئی نہیں رکتا۔ کیا اگرکسی سبزی خورکے بدن پر ایک زخم ہو تو وہ اس میں ایسی دوا نہیں ڈلوائے گا جوکیڑے مارنے والی ہو۔ ظاہر ہے کہ وہ ایسا ضرور کرے گا اور ہرگز اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ اتنے جاندار کیڑوں کی زندگی اس کے آرام کے لئے جاتی ہے کیونکہ وہ اشرف المخلوقات ہے اور باقی مخلوقات اس کے فائدہ کے لئے ہیں۔ پس اگرکسی وقت اس کے فائدہ کے لئے کسی اور مخلوق کی زندگی کی اسے ضرورت ہوگی تو وہ اسے لینے سے دریغ نہ کرے گا۔ دیکھو مثلاً پانی میں بے شمار باریک کیڑے ہوتے ہیں لیکن چونکہ پانی انسان کی جسمانی زندگی کے لئے ضروری ہے اس لئے کوئی ایسا شخص پانی کے استعمال سے اس وجہ سے نہیں رکتاکہ اس کے استعمال سے بے گنا ہ کیڑوں کی جان جاتی ہے۔

پس جب انسان کی جسمانی زندگی کے بقا کے لئے حیوانات کی قربانی کی جاتی ہے اور کوئی شخص اس پرمعترض نہیں حتی کہ سخت ترین سبزی خور بھی روزانہ اپنے ہاتھوں سے یہ قربانی کرتے ہیں توانسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی کے بقا کے لئے اگرکسی حیوان کی جسمانی زندگی کی قربانی کی ضرورت ہو تواس سے رکنا ایک ابلہانہ بات ہے ۔ یہ رحم ایک جھوٹا رحم ہے اور اسی قسم کارحم ہے کہ کوئی شخص اپنے زخم کے کیڑوں کو اس واسطے نہ ہلاک کرے کہ ان کی جان جاتی ہے اور اس طرح اپنے آپ کو ہلاک کردے ۔ اس رحم کے یہ معنی ہیں کہ دو چیزوں کو رحم کی ضرورت ہے ۔ ایک انسان کو اورایک حیوان کو۔ اور دونوں میں سے صرف ایک پررحم ہو سکتاہے بلکہ ایک پررحم کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ دوسرے کو ہلاک کیاجاوے یعنی اگر حیوان پررحم ہو تو انسان کی جان جاتی ہے اور اگر انسان پررحم ہو تو حیوان کی جان لینی پڑتی ہے۔ اب بتاؤ ان میں سے کس کواختیارکرو گے؟ کیاانسان کوہلاک ہونے دو گے صرف اس لئے کہ کسی حیوان کی جان بچ جاوے۔ اگرایسا کرو گے تو تم قانون قدرت و قانون فطرت کے خلاف چلو گے اور اس صورت میں تم رحیم نہیں ہوگے بلکہ ظالم کہلاؤ گے ۔ انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی کے لئے جیساکہ سبزی ضروری ہے ویسا ہی گوشت کا مناسب استعمال بھی ضروری ہے ۔ پس کیا انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی پر موت وارد کرو گے اسلئے کہ کسی حیوان کی جسمانی زندگی کو نقصان نہ پہنچے۔ دیکھو خوراک کا اثر انسان کے اخلاق پر یقینی اور قطعی ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ کسی خاص فرد میں ظاہر نہ ہو یہ بھی ممکن کہ کسی قوم میں یہ فوراً ظہور پذیر نہ ہو مگر آہستہ آہستہ یہ اپنا اثر پیدا کرتاہے اور بالآخر یقیناًیقیناًقومی خلق میں اپنا رنگ ظاہر کرتاہے طبی تحقیقات اور تاریخی شہادت اس کے مؤید ہیں اور کوئی عقلمند نہیں جو اس سے انکار کر سکے۔ ایک ظاہر بین شخص جس کی نظرعام طور پر صرف محسوسات تک محدود ہوتی ہے ان باتوں کو نہیں دیکھ سکتا مگر یہ ہر وقت اپناکام کر رہی ہوتی ہیں اور اسی قسم کے اثرات بالآخر اقوام کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ کوئی قوم جری ہے تو کوئی بزدل ۔ کوئی جوش اور امنگ والی ہے تو کوئی ڈھیلی اور مدھم۔ پھر کوئی صبر اور برداشت والی ہے تو کوئی جلد باز اور غیرمستقل مزاج ۔ پھر کوئی سخت گیر اور سخت دل ہے تو کوئی حلیم اورنرم دل ہے۔ غرض کوئی کسی طرف جھکی ہوئی ہے تو کوئی کسی طرف۔ کیا خالق ہستی نے ان کوا س رنگ پرچلایاہے؟ نہیں بلکہ خدا کی طرف سے تو سب کو اعلیٰ اور معتدل اخلاق کی طاقتیں ودیعت کی گئی ہیں اور یہ صرف بیرونی تاثیرات ہیں کہ جو کسی کو ایک طرف جھکا دیتی ہیں تو کسی کو دوسری طرف ۔ پس ان پرغورکرنا اور ان کی حقیقت کو سمجھنا ہمارا فرض ہے اور ہم کو لازم ہے کہ ایسے طریق اختیار کریں کہ ہمارے فطری قویٰ اورفطری طاقتیں تمام کی تمام معتدل راستہ پرنشوونما پائیں اور کوئی قوت نامناسب طور پر حد اعتدال سے گزر کر دوسروں کو اپنے نیچے نہ دبا لے ۔ اگر ہم اس معاملہ میں غفلت کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ ہماری اجتماعی اخلاقی موت ہوگی۔ ان طرق میں سے ہماری خوراک کادرست ہونا بھی ایک نہایت زبردست طریق ہے ۔

پس چاہئے کہ شراب استعمال کرنے والی اقوام غورکریں کہ اس کا استعمال ان کے اجتماعی اخلاق پر بالآخر کیا اثرات پیدا کر ے گا اور کر رہا ہے۔سؤر کھانے والی اقوام سوچیں کہ سؤر کاگوشت ان کو بحیثیت مجموعی کیا بنا دے گااور بنا رہا ہے ۔ سبزیوں پر زور دینے والی اور گوشت کو کلیۃً ترک کردینے والی اقوا م تدبر سے کام لیں کہ اس اسراف کاکیا نتیجہ ہوگا اور ہو رہا ہے ۔ گوشت کا نامناسب استعمال کرنے والی اقوام خیال کریں کہ یہ عاد ت ان کو کس طر ف لے جا رہی ہے۔ بغیر غوراور تدبر کے یونہی رحم رحم پکارناآسان ہے مگرخدارا غور توکرو کہ اس رحم کے کیامعنی ہیں۔ اس کے معنی ہیں انسان پرظلم کرنا۔ ایک حیوان جو انسان ہی کی خاطربنایاگیاہے اس کے گلے پرچھُری پھرتی ہوئی تم کو تکلیف دیتی ہے لیکن انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی پر موت وارد کرنا تم کو بھلا معلوم ہوتاہے۔ اس کی کیاوجہ ہے ؟ یہی کہ حیوان کی جسمانی زندگی نکلتے ہوئے تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو لیکن انسان کی اجتماعی اخلاقی موت دیکھنے کے لئے تمہاری ان آنکھوں میں طاقت نہیں۔ ایک مذبوح جانور تمہارے سامنے تڑپتاہے اور تمہارا دل بھر آتاہے لیکن نسل انسانی کی اخلاقی زندگی کی مذبوحی حرکات تمہیں نظر نہیں آتیں اس لئے تم کواس کی پرواہ نہیں ۔ سنو! تم ایک معمولی سپاہی کی زندگی پر جھوٹا ترس کھا کر ایک نہایت آزمودہ کار اور قابل جرنیل کو اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہو۔ نہیں یہ مثال بھی غلط ہے کیونکہ ایک سپاہی اورجرنیل میں پھربھی کوئی نسبت ہے لیکن ایک حیوان کی جسمانی زندگی اور نسل انسانی کی اخلاقی زندگی کے درمیان سچ پوچھوتو کوئی نسبت ہی نہیں۔ پس نتائج پرغورکرو۔ جھوٹے جذبات کے پیچھے نہ چلو۔ خداداد عقل مشاہد ہ اور تجربہ کی روشنی میں اپنی نظرسے کام لو ۔ پھر تم اشیا ء کی کنہ تک پہنچو گے اور تمہاری نظر حقائق کے پاتال کو چھیدتی ہوئی نکل جائے گی۔

ہاں یہ بھی تو غور کرو کہ کوئی مذہب و ملت ایسا نہیں کہ جس کے سلف گوشت خوری سے پرہیز کرتے ہوں اور صرف سبزیوں پر گزارہ کرتے ہوں۔ آج ہندو مذہب سبزی خوروں میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتاہے مگر کون جانتاہے کہ ہندوؤں کے بزرگ اور ان کے مذہب کے بانی گوشت کھاتے اور خوب کھاتے تھے۔ یورپ کے عیسائیوں میں اسوقت بعض سبزی خور ی کی طرف مائل نظرآتے ہیں اور گوشت خوری کو ظلم قرار دیتے ہیں مگر کیایہ سچ نہیں کہ مسیحیت کا بانی گوشت خورتھا اوربنی اسرائیل کے تمام گزشتہ انبیاء گوشت کھاتے تھے۔ یہ اس لئے کہ وہ لوگ اس حقیقت کوسمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ ایک جانور کی جسمانی زندگی نسل انسانی کی اخلاقی زندگی کے مقابلہ میں قربان کردینے کے قابل ہے۔

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۴؍جون۱۹۹۹ء تا۱۰؍جون ۱۹۹۹ء)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقام دیگر انبیاء کے ساتھ

داعیان الی اللہ کی خصوصی تربیتی ضروریات کے پیش نظر ہم اس کالم میں متفرق عنوانات کے تحت اہم و مستند حوالہ جات، علمی ، دینی و دلچسپ تبلیغی نکات اور دعوت الی اللہ سے متعلق ایمان افروز واقعات وغیرہ وقتاً فوقتاً شائع کئے جائیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ قارئین اس کالم کو مفید پائیں گے ۔ (ادارہ)
عَن مَالِکِ بنِ صَعْصَعَةَؓ اَنٖ نَبِیٖ اللّٰہِ ﷺ حَدٖثَھُم عَنْ لَیْلَةٍ اُسْرِیٰ بِہ قَالَ بَینَمَا اَنَا فِی الحَطِیمِ وَ رُبَمَا قَالَ فِی الحِجْرِ مُضْطَجِعًا۔۔۔ ۔۔۔قَالَ فَانْطَلَقَ بِی جبِرْیِلُ حَتّٰی اَتَی السٖمَائَ الدُنیَا۔۔۔۔۔۔۔

فَاِذَا فِیْھَا آدمُ فقالَ ھذا اَبُوکَ آدمُ فسَلّم عَلَیہ فَسلٖمتُ علیہ فرَدَٖ السٖلامَ ثُمٖ قالَ مَرحبًا بِالاِبنِ الصٖالِح والنٖبِیّ الصٖالِحِ ثُم صَعِدَ حَتّٰی اَتَی السٖماء الثٖانیةَ ۔۔۔ اِذَا یَحیٰ وَ عیسٰی وھُما ابنا الخَالةِ قالَ ھذا یَحیٰ و عیسٰی فَسَلّم عَلَیھمَا فَسَلٖمتُ فَرَدٖ ا ثُمٖ قَالا مَرحبَا بالاَخِ والنٖبیّ الصٖالِح۔۔۔ الخ (بخاری بنیان الکعبة باب المعراج)

ترجمہ:

حضرت مالکؓ بن صعصعہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو اسراء کی رات کے بارہ میں بتایاکہ میں خانہ کعبہ کے کسی حصہ حطیم یا حجرمیں لیٹاہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ کہ مجھے جبریل علیہ السلام لے کر چلے یہاں تک کہ پہلے آسمان پر آئے۔۔۔۔۔۔ وہاں میں نے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا ۔جبریل ؑ نے کہا یہ آپ کے باپ آدم ہیں انہیں سلام کہیں۔ میں نے انہیں سلام کیا ۔انہوں نے سلام کاجواب دیا اور کہا نیک بیٹے اور نیک نبی کو خوش آمدید۔ پھر ہم اور بلند ہوئے اور دوسرے آسمان پر پہنچے۔۔۔۔۔۔ تو کیا دیکھتاہوں کہ یحی اور عیسی علیہم السلام دونوں خالہ زاد بھائی ( موجود) ہیں۔جبریل نے کہا یہ یحیٰ اور عیسیٰ ہیں ان کو سلام کہیں ۔ میں نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور کہانیک بھائی اور صالح نبی خوش آمدید۔ (اس کے بعد اگلے آسمانوں کی سیر روحانی کا ذکر ہے) ۔

تشریح:

بخاری اور مسلم نے اس حدیث کی صحت پراتفاق کرتے ہوئے اسے صحیحین میں درج کیاہے۔ نسائی میں بھی یہ روایت موجود ہے۔

اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کارفع بھی دیگر انبیاء کی طرح ہوا ۔ وہ خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں گئے اور دوسرے انبیاء کی طرح وفات یافتہ ہیں ۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان کے لئے الگ مقام مقرر ہوتاکیونکہ زندہ اور فوت شدہ الگ الگ مقام پر رہتے ہیں۔ لیکن واقعہ اسراء میں نبی کریم ﷺ کا ان کو دیگر وفات یافتہ انبیاء کی روحوں کے ساتھ دیکھنا بتاتاہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بھی دیگر انبیاء کی طرح فوت ہوچکے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام حسنؓ کا بیان ہے کہ حضرت علیؓ اس رات فوت ہوئے جس رات حضرت عیسیٰ بن مریم کی روح آسمانوں پر اٹھائی گئی یعنی ۲۷؍رمضان کی رات۔ (الطبقات الکبریٰ از علامہ ابن سعد جلد ۳ صفحہ ۳۹ مطبوعہ دار صادر بیروت)

حضرت علامہ ابن قیّمؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی روح کے ساتھ خارق عادت طور پر معراج کا واقعہ پیش آیا۔ جب کہ دیگر انبیاء کی ارواح وفات کے بعد جسم سے جدا ہو کر آسمان کی طرف بلند ہوئیں اور اپنے مقام پر جا ٹھہریں۔ زادالمعاد فی ھدی خیر العباد از علامہ ابن قیم جلد اول صفحہ ۲۰۳ مطبع نظام کانپور)

حضرت داتا گنج بخش ہجویر ی ؒ فرماتے ہیں کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات آدم صفی اللہ اوریوسف صدیق اور موسی کلیم اللہ اورہارو ن حلیم اللہ اور عیسیٰ روح اللہ اور ابراہیم خلیل اللہ صلوات اللہ علیھم اجمعین کو آسمانوں میں دیکھا تو ضرور بالضرور ان کی روحیں ہی تھیں۔ ( کشف المحجوب صفحہ ۳۱۷ مطبوعہ کشمیری بازارلاہور)

پس حدیث معراج سے یہ بات خوب واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی دیگر انبیائے کرام کی طرح طبعی موت کے بعد روحانی رفع ہوا ہے ۔ اوروہ خدا تعالیٰ کی ابدی جنت میں داخل ہو چکے ہیں جہاں سے کبھی نکالے نہیں جائیں گے اورجہا ں سے کبھی کو ئی واپس آیا، نہ آئے گا۔

*
(الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍جولائی ۱۹۹۸ء تا۱۳؍اگست ۱۹۹۸ء)

ہم نمازیں پڑھتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں۔ قرآن اور رسول کو مانتے ہیں۔آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟

ہم نمازیں پڑھتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں۔ قرآن اور رسول کو مانتے ہیں۔آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟

{ارشادات عالیہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام}
ایک ادنیٰ سپاہی سرکار کی طرف سے کوئی پروا نہ لے کر آتا ہے تو اس کی بات نہ ماننے والا مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے۔
مجازی حُکّام کا یہ حال ہے تو احکم الحاکمین کی طرف سے آنے والے کی بے عزتی اور بے قدری کرنا کس قدر عدولِ حکمی اللہ تعالیٰ کی ہے۔


عیسائیوں کے ہاتھ میں بڑا حربہ یہی ہے کہ مسیح زندہ ہے اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) فوت ہو گئے۔

اگر تم نے جنگوں سے فتح پانی ہوتی اور تمہارے لیے لڑائیاں کرنا مقدر تھا تو خدا تعالیٰ تم کو ہتھیار دیتا۔ مگر خدا تعالیٰ کا فعل ظاہر کر رہا ہے کہ تم کو یہ طاقتیں نہیں دی گئیں۔

مارنے سے کسی کی تشفّی نہیں ہو سکتی۔ سر کاٹنے سے دلوں کے شبہات دور نہیں ہو سکتے۔ خدا تعالیٰ کا مذہب جبر کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام نے پہلے بھی کبھی پیش دستی نہیں کی۔

جب بہت ظلم صحابہؓ پر ہوا تو دشمنوں کو دفع کرنے کے واسطے جہاد کیا گیا تھا۔

’’چند مولوی اور طلباء آئے۔ حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں۔ قرآن اور رسول کو مانتے ہیں۔آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟

اس پر حضرت اقدس نے فرمایا : انسان جو کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتاہے وہ سب موجبِ معصیت ہو جاتا ہے۔ ایک ادنیٰ سپاہی سرکار کی طرف سے کوئی پروا نہ لے کر آتا ہے تو اس کی بات نہ ماننے والا مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے۔ مجازی حُکّام کا یہ حال ہے تو احکم الحاکمین کی طرف سے آنے والے کی بے عزتی اور بے قدری کرنا کس قدر عدولِ حکمی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ خدا تعالیٰ غیّور ہے۔اس نے مصلحت کے مطابق عین ضرورت کے وقت بگڑی ہوئی صدی کے سر پر ایک آدمی بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائے۔ اس کے تمام مصالح کو پائوں کے نیچے کچلنا ایک بڑا گناہ ہے۔ کیا یہودی لوگ نمازیں نہیں پڑھا کرتے تھے؟ بمبئی کے ایک یہودی نے ہم کو لکھاکہ ہمارا خد اوہی ہے جو مسلمانوں کا خدا ہے اور قرآن شریف میں جو صفات بیان ہیں وہی صفات ہم بھی مانتے ہیں۔ تیرہ سو برس سے اب تک ان یہودیوں کا وہی عقیدہ چلا آتا ہے مگر باوجود اس عقیدہ کے ان کو سؤر اور بندر کہا گیا۔صرف اس واسطے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانا۔

انسان کی عقل خد اتعالیٰ کی مصلحت سے نہیں مل سکتی۔ آدمی کیا چیز ہے جو مصلحتِ الٰہی سے بڑھ کر سمجھ رکھنے کا دعویٰ کرے۔ خدا تعالیٰ کی مصلحت اس وقت بدیہی اور اجلٰی ہے۔اسلام میں سے پہلے ایک شخص بھی مرتد ہو جاتا تھا تو ایک شور بپا ہو جاتا تھا۔ اب اسلام کو ایسا پائوں کے نیچے کچلا گیا ہے کہ ایک لاکھ مرتد موجود ہے۔ اسلام جیسے مقدّس مُطہّر مذہب پر اس قدر حملے کئے گئے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں کتابیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیوں سے بھری ہوئی شائع کی جاتی ہیں۔ بعض رسالے کئی کروڑ تک چھپتے ہیں۔ اسلام کے برخلاف جو کچھ شائع ہوتاہے اگر سب کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک بڑا پہاڑ بنتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ گویا ان میں جان ہی نہیں اور سب کے سب مر ہی گئے ہیں۔ اس وقت اگر خدا تعالیٰ بھی خاموش رہے تو پھر کیا حال ہوگا۔ خدا کا ایک حملہ انسان کے ہزار حملہ سے بڑھ کر ہے اور وہ ایسا ہے کہ اس سے دین کا بول بالا ہو جائے گا۔

حضرت عیسیٰ ؑکو زندہ ماننے کا نتیجہ

عیسائیوں نے انیس سو سال سے شور مچا رکھا ہے کہ عیسیٰ خدا ہے اور ان کا دین اب تک بڑھتا چلا گیا اور مسلمان ان کو اَور بھی مدد دے رہے ہیں۔ عیسائیوں کے ہاتھ میں بڑا حربہ یہی ہے کہ مسیح زندہ ہے اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) فوت ہو گئے۔لاہور میں لارڈ بشپ نے ایک بھاری مجمع میں یہی بات پیش کی۔ کوئی مسلمان اس کا جواب نہ دے سکا۔ مگر ہماری جماعت میں سے مفتی محمد صادق صاحب جو یہ موجود ہیں، اُٹھے اور انہوں نے قرآن شریف،حدیث،تاریخ، انجیل،وغیرہ سے ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں کیونکہ آپؐ سے فیض حاصل کر کے کرامت اور خوارق دکھانے والے ہمیشہ موجود رہے۔ تب اس کا جواب وہ کچھ نہ دے سکا۔ اب خیال کرو کہ عیسیٰ کو زندہ ماننے کا کیا نتیجہ ہے اور دوسرے انبیاء کی مانند وفات یافتہ ماننے کا کیا نتیجہ ہے۔ ذرا چار دن فوت شدہ مان کر اس کا نتیجہ بھی تو دیکھ لیں۔ مَیں نے ایک دفعہ لدھیانہ میں عیسائیوں کو اشتہار دیا تھا کہ تمہارا ہمارا بہت اختلاف نہیں۔ تھوڑی سی بات ہے۔ یہ کہ تم مان لوکہ عیسیٰ فوت ہو گئے اور آسمان پر نہیں گئے۔ تمہارا اس میں کیا حرج ہے؟ اس پر وہ بہت جھنجھلائے اور کہنے لگے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ عیسیٰ مر گیا اور آسمان پر نہیں گیا توآج دنیا میں ایک بھی عیسائی نہیں رہتا۔

دیکھو۔ خدا تعالیٰ علیم و حکیم ہے۔ اس نے ایسا پہلو اختیار کیا ہے جس سے دشمن تباہ ہو جائے۔ مسلمان اس معاملہ میں کیوں اَڑ تے ہیں۔ کیا عیسیٰ ؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھا؟ اگر میرے ساتھ خصومت ہے تو اس میں حد سے نہ بڑھو اور وہ کام نہ کرو جو دینِ اسلام کو نقصان پہنچائے۔ خد اتعالیٰ ناقص پہلو اختیار نہیں کرتا اور بجز اس پہلو کے تم کسرِ صلیب نہیں کر سکتے۔

اِس زمانہ کا جہاد

اگر تم نے جنگوں سے فتح پانی ہوتی اور تمہارے لیے لڑائیاں کرنا مقدر تھا تو خدا تعالیٰ تم کو ہتھیار دیتا۔ توپ و تفنگ کے کام میں تم کو سب سے بڑھ کر چالاکی اور ہوشیاری دی جاتی۔ مگر خدا تعالیٰ کا فعل ظاہر کر رہا ہے کہ تم کو یہ طاقتیں نہیں دی گئیں بلکہ سلطانِ روم کو بھی ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ جرمن یا انگلستان وغیرہ سے ممالک سے بنواتا ہے اور آلاتِ حرب عیسائیوں سے خرید کرتا ہے۔ چونکہ اس زمانہ کے واسطے یہ مقدّر نہ تھا کہ مسلمان جنگ کریں اس واسطے خدا تعالیٰ نے ایک اور راہ اختیار کی۔

ہاں صلاح الدین وغیرہ بادشاہوں کے وقت ان باتوں کی ضرورت تھی۔ تب خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی اور کفّار پر اُن کو فتح دی۔ مگر اب تو مذہب کے واسطے کوئی شخص جنگ نہیں کرتا۔اب تو لاکھ لاکھ پرچہ اسلام کے برخلاف نکلتا ہے۔ جیسا ہتھیار مخالف کا ہے ویسا ہی ہتھیار ہم کو بھی تیار کرنا چاہیے۔ یہی حکمِ خداوندی ہے۔اب اگر کوئی خونی مہدی آجائے اور لوگوں کے سر کاٹنے لگے تو یہ بے فائدہ ہوگا … مارنے سے کسی کی تشفّی نہیں ہو سکتی۔ سر کاٹنے سے دلوں کے شبہات دور نہیں ہو سکتے۔ خدا تعالیٰ کا مذہب جبر کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام نے پہلے بھی کبھی پیش دستی نہیں کی۔ جب بہت ظلم صحابہؓ پر ہوا تو دشمنوں کو دفع کرنے کے واسطے جہاد کیا گیا تھا۔ خدا تعالیٰ کی حکمت کے مطابق کسی کی دانائی نہیں۔ ہر ایک شخص کو چاہیے کہ اس معاملہ میں دعا کرے اور دیکھے کہ اس وقت اسلام کی تائید کی ضرورت ہے یا نہیں۔ جسم پر غالب آنا کوئی شئے نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ دلوں کو فتح کیا جائے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 494-497۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام

حضرت مرزاغلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ نے 1882ء میں دعویٰ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی غلامی اور اتباع میں مسیح موعود اور امام مہدی بناکر مبعوث فرمایا ہے ۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ تمام دنیا کو اسلام اور محمد مصطفی ﷺ اور قرآن کریم کی طرف بلایا جائے ۔چنانچہ آپ بڑے جلال کے ساتھ اور پرحکمت انداز میں کل عالم کو دین محمدی ﷺ کی طرف دعوت دیتے رہے ۔ اور اسلام کے دوبارہ غلبہ کا نیا دور شروع فرمایا ۔ آپ کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔

دارالنجات کا دروازہ

یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے تاکہ یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچادے کہ دنیا کے مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے ۔ (حجۃالاسلام صفحہ 12)
سچا مذہب

اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچاخدا بھی وہی ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی ﷺ ہے ۔ (تریاق القلوب ، صفحہ 13)
قرآن کی خوبیاں

مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودہویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کرکے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تاکہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطاکئے گئے ہیں۔ (برکات الدعا ، صفحہ 34)
غلبہ دین

اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حج ساطعہ کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کرکے دکھاؤں ، اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے ۔ (ملفوظات جلد اول ، صفحہ 432)
تعلیمات حقہ کی اشاعت

خداتعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صدہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صد ہا دلائل عقلیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیمات حقہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے ۔ (براہین احمدیہ، صفحہ 596)
خوشخبری

زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ زندہ خدا ملے ۔ زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملہم کرسکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلاواسطہ ملہم کودیکھ سکیں ۔ سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے ۔ (مجموعہ اشتہارات ، جلد 2 صفحہ 311)
موسیٰ کا طور

میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مردے ان کے خدا مردے اور خود وہ تمام پیرو مردے ہیں ۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہوجانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ۔ ہرگز ممکن نہیں ۔اے نادانو تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزا ہے ۔ اور مردار کھانے میں کیا لذت ۔ آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے وہ اسلام کے ساتھ ہے اسلام اس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے ۔ وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہوگیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کررہا ہے ۔ (ضمیمہ انجام آتھم ، صفحہ 61)
نور کے چشمے

میں صرف اسلام کو سچامذہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پتلا خیال کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبت رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہٰیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے جو کہ بجز سچے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا ۔۔۔اور مجھے دکھلایا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ بہ برکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء ﷺ تجھ کو ملا ہے ۔ (آئینہ کمالات اسلام ، صفحہ 275)
صراط مستقیم

صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیرالناس ہیں ۔جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں ۔ اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایا ں ہوتے ہیں اور قرآن شریف سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے ۔ (براہین احمدیہ جلد 4صفحہ557)
دین محمد ﷺ

ہر طرف فکر کو دوڑا کے تکھایا ہم نے
کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے

کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے

یہ ثمر باغ محمد ﷺسے ہی کھایا ہم نے

ہم نے اسلام کو خود تجربہ کرے دیکھا

نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے

(آئینہ کمالات اسلام ، صفحہ 224)

پیغام کا خلاصہ

ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا للہ محمدرسول اللہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمدمصطفی ﷺ خاتم النبین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا۔۔۔۔ اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے ۔ (ازالہ و اوہام صفحہ 69)
ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہے کہ احمدیت کوئی نیا دین اور مذہب نہیں ۔ اسلام ہی کے غلبہ کی خاطر شروع کی جانے والی تحریک ہے جو پیشگوئیوں کے مطابق جاری کی گئی ہے اور اب تک یہ اسلام کی عظیم الشان خدمات سرانجام دے چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا جب تک کہ اسلام ساری دنیا پر غالب نہیں آجاتا ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی

قوم کی گواہی
قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے ماموروں کی جو سچی تاریخ پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے ماموروں کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل دعویٰ سے پہلے ان کی پاک زندگی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں شرک اور دوسری بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور وہ قوم کے اندر ایک نہایت اعلیٰ اخلاق سے بھر پور زندگی گزارتے ہیں ۔ اورقوم ان کے پاک کردار کی گواہی دینے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔

دعویٰ کے بعد دشمن ان پر ہر طرح کے الزام لگاتا اور گند اچھالتا ہے مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر کسی طرح بھی انگلی نہیں اٹھاسکتا ۔ پس دعویٰ کے بعد کے اعتراضات قابل توجہ نہیں کیونکہ وہ دشمنی کی نظر سے کئے جاتے ہیں ۔ بلکہ وہ پاک کردار لائق توجہ ہے جب وہ ایک عام فرد کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمدقادیانی نے اس زمانہ میں خدا کے مامور ہونے کا دعویٰ کیا اور فرمایا کہ میں وہی موعود ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو سال سے انتظار کر رہی ہے ۔ آپ نے اپنی صداقت کے دلائل میں اپنی دعویٰ سے پہلے کی پاک زندگی کو بھی پیش فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا ۔

چیلنج

’تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے ۔ تا تم خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا ۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کرسکتا ہے ۔ پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے ۔ ‘ (تذکرۃ الشہادتین ، صفحہ ۶۲)
پھر فرمایا ۔

’ میری ایک عمر گزر گئی ہے مگر کون ثابت کرسکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے ۔ پھر جب میں نے محض للہ انسانوں پر جھوٹ بولنا متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا ۔‘ (حیات احمد جلد اول ، صفحہ ۱۲۶)
اس چیلنج پر ایک سو سال ہونے کو آئے ہیں ۔ مگر کسی کو اس کا جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ دعویٰ کے بعد تو مخالفین ہر طرح کے الزام لگایا ہی کرتے ہیں ۔ مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر نہ صرف کوئی انگلی نہیں اٹھاسکا بلکہ بیسیوں لوگوں نے آپ کی پاکیزگی کی گواہی دی جنہوں نے آپ کو دیکھا اور جن کا آپ سے واسطہ پڑا ۔

مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی

مشہور اہل حدیث عالم مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے دعویٰ کے بعد آپ کی شدید مخالفت کی ۔ مگر اس سے پہلے انہوں نے آپ کی کتاب براہین احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ۔

’موء لف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (واللہ حسیبہ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں ۔ ‘ (اشاعۃ السنۃ جلد ۷ ، صفحہ ۹)
مولانا ابوالکلام آزاد صاحب

ہندوستان کے مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور صحافی ابوالکلام آزاد گواہی دیتے ہیں ۔

’کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا ۔ وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی ۔ غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بلحاظ اخلاق و عادات اور کیا بلحاظ خدمات و حمایت دین مسلمانان ہند میں ان کو ممتاز ، برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچا دیا ۔‘ (اخبار وکیل امرتسر ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء)
منشی سراج الدین صاحب

مشہور مسلم لیڈر اور صحافی اور شاعر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد بزرگوار منشی سراج الدین صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار گواہی دیتے ہیں ۔

’ ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے ۔۔۔ آپ بناوٹ اور افتراء سے بری تھے ۔‘ (اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء)
سیالکوٹ کے عوام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ سے پہلے عین جوانی کا کچھ عرصہ سیالکوٹ میں گزارا ۔ اور آپ کے تمام ملنے جلنے والے آپ کے تقویٰ اور نیکی کے دل سے قائل تھے ۔ جن لوگوں کے پاس آپ نے قیام فرمایا وہ آپ کو ولی اللہ قرار دیتے تھے ۔ (بحوالہ الفضل ۸ اکتوبر ، ۱۹۲۵ء)

سید میر حسن صاحب

ہندوستان میں علوم شرقیہ کے بلند پایہ عالم اور علامہ اقبال کے استاد مولوی سید میر حسن صاحب نے آپ کو اسی دور میں ۲۸ سال کی عمرمیں دیکھا اور بعد میں یوں گواہی دی ۔ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول و لغو سے مجتنب اور محترز تھے ۔ ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں ۔ (سیرۃ المہدی ، جلد اول ، صفحہ ۱۵۴، ۲۷۰)

حکیم مظہر حسین صاحب

سیالکوٹ کے حکیم مظہر حسین صاحب جو بعد میں آپ کے شدید مخالف بنے انہوں نے آپ کے متعلق لکھا ۔

’ثقہ صورت ، عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان ‘ (اخبار الحکم ، ۷ اپریل ۱۹۳۴ء)
قادیان کا ہندو

آپ کے حق میں گواہی دینے والوں میں آپ کے گاؤں قادیان کا وہ ہندو بھی شامل ہے جس نے بچپن سے آخر تک آپ کو دیکھا ۔ وہ کہتا ہے ۔ ’ میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے میں اور وہ ہم عصر ہیں ۔ اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتا ہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی ہی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں ۔ سچا امانت دار اور نیک ، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پرمیشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کرکے زمین پر اتر آیا ہے ۔‘ (تذکرہ المہدی ، جلد ۲ صفحہ ۳۴)

مولوی غلام رسول صاحب

اس دور کے ایک بزرگ مولوی غلام رسول صاحب نے بچپن میں آپ کی پاکیزہ فطرت کو دیکھ کر فرمایا ۔ ’ اگر اس زمانے میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے ۔‘ (رجسٹر روایات ، نمبر ۱۲ ، صفحہ ۱۰۴)

وکیل کی گواہی

جوانی میں آپ کی راستبازی اور سچ گوئی کا شہرہ تھا ۔ آپ نے کئی خاندانی مقدمات میں اپنے خاندان کے خلاف گواہی دی اور ان کی ناراضگی مول لی مگر سچ کا دامن نہ چھوڑا ۔ دعویٰ سے پہلے ایک عیسائی نے آپ کے خلاف مقدمہ کیا جس میں آپ کے وکیل کے مطابق جھوٹ بولے بغیر نجات نہ تھی ۔ مگر آپ نے جھوٹ بولنے سے انکار کردیا ۔ اور خدا نے آپ کو فتح دی ۔ اس مقدمہ میں آپ کے وکیل فضل الدین صاحب آپ کی اس فوق العادت راست گفتاری کے گواہ تھے ۔ وہ کہتے ہیں ۔

’مرزا صاحب کی عظیم الشان شخصیت اور اخلاقی کمال کا میں قائل ہوں ۔۔۔۔ میں انہیں کامل راستباز یقین کرتا ہوں ۔ ‘ (الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۴ء)
محمدشریف صاحب بنگلوری

نامور صحافی جناب مولانا شریف بنگلوری ایڈیٹر منشور محمدی نے آپ کے متعلق یہ کلمات استعمال فرمائے ۔

افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بارگہ صمد جناب مولوی مرزا غلام احمد صاحب ۔ (منشور محمدی بنگلور ، ۲۵ رجب ۱۳۰۰ھ)
حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی

مشہور باکمال صوفی حضرت احمد جان صاحب لدھیانوی نے آپ کے خدمت دین کے بے پایاں جذبوں کو دیکھ کر فرمایا ۔

ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے

حضرت مسیح موعود و مہدی موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے پاکیزہ کردار اور اعلیٰ اخلاق کے بارہ میں جتنی گواہیاں اوپردرج کی گئی ہیں ان میں کوئی ایک بھی احمدی نہیں ہے ۔ بلکہ کئی تو حضرت مرزا صاحب کے سخت مخالف ہیں ۔ مگر خدا نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے حق میں ان کی زبان سے یہ کلمات جاری کروائے اور حضور ہی کے الفاظ میں سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے جس کی طرف سب نظریں اٹھ رہی تھیں ۔ خدا نے اسی کو مسیحا بنادیا ۔ کہیں ہم اس کو پہچاننے سے محروم تو نہیں رہ گئے ؟ سوچو ! سوچو ! سوچو ! اور غور کرو ۔

ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔

خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔

’’اسلام پر یہ کیسامصیبت کا زمانہ ہے۔ اندرونی مصائب بھی بے انتہا ہیں اور بیرونی بھی بے حد ہیں۔ پھر یہ لوگ خیال کر تے ہیں کہ اس وقت کسی مصلح کی ضرورت نہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں پھر ہم کو کسی مصلح کی کیا ضرورت ہے۔ مگر نہیں سمجھتے کہ جبتک خدا کی رحمت نہ ہو وہ رِقّت اور درد پیدا نہیں ہو سکتا جو انسان کے دل کو صاف کرتا ہے۔چاہیے کہ بہت دعائیں کریں۔صرف بحث کرنے والا فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔وہ نہیں دیکھتے کہ اسلام پر کس طرح کے مصائب نازل ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کو گویا خدا تعالیٰ نے فراموش کر دیا ہے۔ دہلی کے لوگ ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ لڑنے کو آئے ہیں۔حق طلبی کا اُنہیں خیال نہیں۔ حلق کے نیچے بات تب اُترتی ہے جب حلق صاف ہو۔ دوائی کا بھی یہی حال ہے کہ جبتک حلق صاف نہ ہو اور معدہ بھی صاف نہ ہو دوائی کا اثر نہیں ہو سکتا۔ دوائی قے ہو جاتی ہے یا ہضم نہیں ہوتی۔

احمدی نام کیوں رکھا گیا ہے

ایک مولوی صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔ آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج : 79) کے برخلاف ہے۔

اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا :

اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے تہتّر (73) فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اﷲ کو بُرا کہتے ہیں۔پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اورپھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلا دِ شام میں ایک فرقہ یزید یہ ہے جو امام حسینؓ پر تبرّہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلفِ صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی،حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ،دوزخ،وحی،ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہانتک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سُن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لیے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔

حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کیا کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ لَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:104) اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا۔

حضرت نے فرمایا: ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔ اگر احمدی نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے، مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحا مانتے ہیں۔ وہ شخص بدبخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور اُن کو برا کہے۔ صرف امتیاز کے لیے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے۔ ہمارا کا روبارخدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے۔ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔

اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی۔امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزار ہاگندے آدمی ملے جلے رہتے ۔یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں،مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھاگیا ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے۔ جب کھوٹ اور ملاوٹ زیادہ ہو جاتی ہے تو خد اتعالیٰ خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہو جائے۔

مولوی صاحب نے پھروہی سوال کیا کہ خدا نے تو کہا ہے کہ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج : 79)

فرمایا: کیا اس میں رافضی اور بدعتی اور آجکل کے مسلمان شامل ہیں؟ کیا اس میں آجکل کے وہ لوگ شامل ہیں جو اباحتی ہو رہے ہیں؟ اور شراب اور زنا کو بھی اسلام میں جائز جانتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔اس کے مخاطب تو صحابہؓ ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرون ثلاثہ کے بعد فیج اعوج کا زمانہ ہو گا جس میں جھوٹ اور کذب کا افشا ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے لَیْسُوْا مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُمْ ۔نہ اُن کا مجھ سے کوئی تعلق ہے نہ میرا اُن سے کوئی تعلق ہے۔ وہ لوگ مسلمان کہلائیں گے مگر میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔

جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں۔ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اِتّصال ہے۔ اور یہ اِتّصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔ اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھاگیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتاہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آجکل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اوّل آخر کبھی نہیں ہوا اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمدی ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 499 تا 502۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)