وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَاۤ اٰتَيْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَـتَنْصُرُنَّهٗؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِکُمْ اِصْرِىْؕ قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ (آل عمران 3:82)
اور جب اللہ نے نبیوں کا میثاق لیا کہ جبکہ میں تمہیں کتاب اور حکمت دے چکا ہوں پھر اگر کوئی ایسا رسول تمہارے پاس آئے جو اس بات کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لے آؤگے اور ضرور اس کی مدد کروگے۔ کہا کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس بات پر مجھ سے عہد باندھتے ہو؟ انہوں نے کہا (ہاں) ہم اقرار کرتے ہیں۔ اس نے کہا پس تم گواہی دو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے عہد کا ذکر فرمایا ہے جو انبیاءسے اور ان کے ذریعے ان کی قوموں سے لیا گیا تھا کہ جب بھی ان کے پاس ان کی تعلیم کا مصدق رسول آئے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ان پر فرض عین ہوگا۔تصدیق سے مراد یہاں صرف اس کتاب و حکمت کی سچائی کی تصدیق کرنا نہیں کیونکہ یہ تصدیق تو ہر مومن کرتا ہے۔ مصدق رسول سے مراد ایسا رسول ہے جو کتاب میں موجود پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ عہد لیا گیا
علماءلوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ یہ عہد انبیائے سابقین سے تو لیا گیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد نہیں لیا گیا۔ چنانچہ اب مسلمانوں کو کسی نئے مصدق رسول پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگرچہ اس آیتِ کریمہ میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں جو علماءکی اس بات کو کسی بھی درجے میں ثابت کرتا ہو لیکن مندرجہ ذیل آیت واضح طور پر اس بات کا اعلان کررہی ہے کہ یہ میثاق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لیا گیا تھا۔
وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثاقًا غَلِيْظًاۙ (الاحزاب 33:8)
اور جب ہم نے نبیوں سے ان کا عہد لیا اور تجھ سے بھی اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسٰی اور عیسٰی ابن مریم سے۔ اور ہم نے ان سے بہت پختہ عہد لیا تھا۔
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عہد نہ صرف انبیائے سابقین سے بلکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لیا گیا جس کی رو سے امت محمدیہ پر بھی یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ جب بھی ان کے پاس کوئی ایسا رسول آئے جو اسلام کی تصدیق کرے تو اس کو مانیں اور اس کی مدد و نصرت کریں۔
میثاق کو توڑنے اور بد عہدی کی سزا
وَمَا لَـکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِۚ وَالرَّسُوْلُ يَدْعُوْکُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّکُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِيْثَاقَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (الحدید 57:9)
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے؟ اور رسول تمہیں بلا رہا ہے کہ تم اپنے رب پر ایمان لے آؤ جبکہ (اے بنی آدم) وہ تم سے میثاق لے چکا ہے۔ (بہتر ہوتا) اگر تم ایمان لانے والے ہوتے۔
اس آیت میں ایک مرتبہ پھر یہ تاکید کی گئی ہے کہ اپنے میثاق کو پورا کریں اور اس رسول کو مانیں جو کوئی نیا دین لے کر نہیں آیا بلکہ لوگوں کو اسی خدا کی طرف بلا رہا ہے جس پر وہ پہلے سے ایمان رکھتے ہیں۔ مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس میثاق کو توڑنے کے نتائج اور سزا کا ذکر فرمایا ہے۔
وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِىْ الْاَرْضِۙ اُولٰۤٮِٕکَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۤءُ الدَّارِ (الرعد 13:26)
اور وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو پختگی سے باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اسے قطع کرتے ہیں جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کیلئے لعنت ہے اور ان کیلئے بدتر گھر ہوگا۔
بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے , جن کا دعویٰ وہی امام مہدی اور مسیح موعود ہونے کا ہے جس کی خبر قرآن و حدیث میں دی گئی ہے، نہ صرف اسلام، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کی سچائی کی مکمل تصدیق کی ہے بلکہ آپؑ کی ذات کے ساتھ وابستہ قرآن و حدیث میں موجود پیشگوئیاں بھی پوری ہوئیں جن میں سورج اور چاند کا رمضان میں گرہن، دابۃ الارض یعنی زمینی کیڑے کے ذریعے بیماریوں سے ہلاکت یعنی طاعون کا پھیلنا، بڑے پیمانے پر جنگوں کا ہونا، جدید سواریوں کا ایجاد ہونا، سمندروں کا ملایا جانا، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
قرآن کریم کی ان واضح ہدایات کی روشنی میں بحیثیتِ مسلمان ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے گئے میثاق کو پورا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ پر نہ صرف ایمان لائیں بلکہ تبلیغِ اسلام کے مشن میں ان کی مدد بھی کریں۔
No comments:
Post a Comment